حدثنا احمد بن يعقوب، قال: حدثنا يزيد بن المقدام بن شريح بن هانئ الحارثي، عن ابيه المقدام، عن شريح بن هانئ قال: حدثني هانئ بن يزيد، انه لما وفد إلى النبي صلى الله عليه وسلم مع قومه، فسمعهم النبي صلى الله عليه وسلم وهم يكنونه بابي الحكم، فدعاه النبي صلى الله عليه وسلم فقال: ”إن الله هو الحكم، وإليه الحكم، فلم تكنيت بابي الحكم؟“ قال: لا، ولكن قومي إذا اختلفوا في شيء اتوني فحكمت بينهم، فرضي كلا الفريقين، قال: ”ما احسن هذا“، ثم قال: ”ما لك من الولد؟“ قلت: لي شريح، وعبد الله، ومسلم، بنو هانئ، قال: ”فمن اكبرهم؟“ قلت: شريح، قال: ”فانت ابو شريح“، ودعا له وولده. وسمع النبي صلى الله عليه وسلم قوما يسمون رجلا منهم: عبد الحجر، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: ”ما اسمك؟“، قال: عبد الحجر، قال: ”لا، انت عبد الله“. قال شريح: وإن هانئا لما حضر رجوعه إلى بلاده اتى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: اخبرني باي شيء يوجب لي الجنة؟ قال: ”عليك بحسن الكلام، وبذل الطعام.“حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يَعْقُوبَ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ الْمِقْدَامِ بْنِ شُرَيْحِ بْنِ هَانِئٍ الْحَارِثِيُّ، عَنْ أَبِيهِ الْمِقْدَامِ، عَنْ شُرَيْحِ بْنِ هَانِئٍ قَالَ: حَدَّثَنِي هَانِئُ بْنُ يَزِيدَ، أَنَّهُ لَمَّا وَفَدَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَ قَوْمِهِ، فَسَمِعَهُمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُمْ يُكَنُّونَهُ بِأَبِي الْحَكَمِ، فَدَعَاهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: ”إِنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَكَمُ، وَإِلَيْهِ الْحُكْمُ، فَلِمَ تَكَنَّيْتَ بِأَبِي الْحَكَمِ؟“ قَالَ: لَا، وَلَكِنَّ قَوْمِي إِذَا اخْتَلَفُوا فِي شَيْءٍ أَتَوْنِي فَحَكَمْتُ بَيْنَهُمْ، فَرَضِيَ كِلاَ الْفَرِيقَيْنِ، قَالَ: ”مَا أَحْسَنَ هَذَا“، ثُمَّ قَالَ: ”مَا لَكَ مِنَ الْوَلَدِ؟“ قُلْتُ: لِي شُرَيْحٌ، وَعَبْدُ اللهِ، وَمُسْلِمٌ، بَنُو هَانِئٍ، قَالَ: ”فَمَنْ أَكْبَرُهُمْ؟“ قُلْتُ: شُرَيْحٌ، قَالَ: ”فَأَنْتَ أَبُو شُرَيْحٍ“، وَدَعَا لَهُ وَوَلَدِهِ. وَسَمِعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَوْمًا يُسَمُّونَ رَجُلا مِنْهُمْ: عَبْدَ الْحَجَرِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ”مَا اسْمُكَ؟“، قَالَ: عَبْدُ الْحَجَرِ، قَالَ: ”لَا، أَنْتَ عَبْدُ اللَّهِ“. قَالَ شُرَيْحٌ: وَإِنَّ هَانِئًا لَمَّا حَضَرَ رُجُوعُهُ إِلَى بِلادِهِ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: أَخْبِرْنِي بِأَيِّ شَيْءٍ يُوجِبُ لِيَ الْجَنَّةَ؟ قَالَ: ”عَلَيْكَ بِحُسْنِ الْكَلامِ، وَبَذْلِ الطَّعَامِ.“
سیدنا ہانی بن یزید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب وہ اپنی قوم کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے سنا کہ وہ مجھے ابوالحکم کہہ کر بلاتے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بلایا اور فرمایا: ”حکم تو صرف اللہ ہے اور حکم بھی اسی کا ہے۔ پھر تم نے کنیت ابوالحکم کیوں رکھی ہے؟“ اس نے کہا: نہیں، لیکن اصل بات یہ ہے کہ میری قوم میں جب کسی معاملے میں اختلاف ہو جاتا ہے تو وہ میرے پاس آتے ہیں اور میں ان کے درمیان فیصلہ کرتا ہوں جس سے دونوں گروہ راضی ہو جاتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ تو اچھی بات ہے۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تیرے کتنے بچے ہیں؟“ میں نے عرض کیا: میرے تین بیٹے شریح، عبداللہ اور مسلم ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”ان میں سے بڑا کون ہے؟“ میں نے کہا: شریح۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تب تم ابوشریح ہو۔“ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے اور اس کے بچوں کے لیے بھی دعا فرمائی۔ اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں سے سنا کہ وہ اپنے ایک آدمی کو عبدالحجر کہہ کر بلا رہے ہیں، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارا نام کیا ہے؟“ اس نے کہا: عبدالحجر، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، تم عبداللہ ہو۔“ شریح کہتے ہیں کہ میرے والد ہانی کا وطن لوٹنے کا پروگرام بنا تو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: مجھے وہ چیز بتائیں جو میرے لیے جنت کو واجب کر دے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اچھی گفتگو اور کثرت سے کھانا کھلانے کو لازم پکڑو۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه أبوداؤد، كتاب الأدب: 4955 و النسائي، آداب القضاة: 5389 و فى الكبرىٰ: 5940 و صححه ابن حبان: 1957 و رواه الحاكم: 23/1»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 811
فوائد ومسائل: (۱)اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایسی کنیت یا نام رکھنا، جس میں تعلی اور بڑائی کا اظہار ہوتا ہو، خصوصاً اللہ تعالیٰ کی صفات سے مماثلت ہو، منع ہے۔ اسی طرح وہ نام جن سے شرک کا اظہار ہوتا ہے، جیسے عبدالحجر، عبدالرسول وغیرہ نام رکھنے بھی منع ہیں۔ اسی طرح ظاہری لفظی قباحت والے نام رکھنا بھی ناپسندیدہ ہیں۔ (۲) کھانا، کھلانا اور عمدہ گفتگو دخول جنت کا باعث ہے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ طیبہ جاکر جو وعظ فرمایا اس میں بھی یہ امور تھے۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 811