حدثنا عارم، قال: حدثنا حماد بن زيد، عن ايوب، عن نافع، عن ابن عمر قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: ”كلكم راع، وكلكم مسؤول عن رعيته، فالامير راع وهو مسؤول، والرجل راع على اهله وهو مسؤول، والمراة راعية على بيت زوجها وهي مسؤولة، الا وكلكم راع، وكلكم مسؤول عن رعيته.“حَدَّثَنَا عَارِمٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ”كُلُّكُمْ رَاعٍ، وَكُلُّكُمْ مَسْؤولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، فَالأَمِيرُ رَاعٍ وَهُوَ مَسْؤُولٌ، وَالرَّجُلُ رَاعٍ عَلَى أَهْلِهِ وَهُوَ مَسْؤُولٌ، وَالْمَرْأَةُ رَاعِيَةٌ عَلَى بَيْتِ زَوْجِهَا وَهِيَ مَسْؤُولَةٌ، أَلاَ وَكُلُّكُمْ رَاعٍ، وَكُلُّكُمْ مَسْؤُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ.“
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم سب ذمہ دار ہو اور ہر ایک سے اس کی ذمہ داری کے متعلق باز پرس ہو گی، چنانچہ امیر وقت نگران ہے اور مسئول بھی ہے، اور آدمی اپنے گھر والوں پر نگران ہے اور اس سے اس کے متعلق باز پرس ہو گی۔ عورت اپنے خاوند کے گھر کی نگران ہے اور اس سے اس کے متعلق پوچھا جائے گا۔ خبردار! تم میں سے ہر ایک ذمہ دار ہے اور ہر ایک سے اس کی ذمہ داری کے متعلق باز پرس ہو گی۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب النكاح: 5188 و مسلم: 1825»
حدثنا مسدد، قال: حدثنا إسماعيل، قال: حدثنا ايوب، عن ابي قلابة، عن ابي سليمان مالك بن الحويرث قال: اتينا النبي صلى الله عليه وسلم ونحن شببة متقاربون، فاقمنا عنده عشرين ليلة، فظن انا اشتهينا اهلينا، فسالنا عن من تركنا في اهلينا؟ فاخبرناه، وكان رفيقا رحيما، فقال: ”ارجعوا إلى اهليكم فعلموهم ومروهم، وصلوا كما رايتموني اصلي، فإذا حضرت الصلاة، فليؤذن لكم احدكم، وليؤمكم اكبركم.“حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ أَبِي قِلاَبَةَ، عَنْ أَبِي سُلَيْمَانَ مَالِكِ بْنِ الْحُوَيْرِثِ قَالَ: أَتَيْنَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ شَبَبَةٌ مُتَقَارِبُونَ، فَأَقَمْنَا عِنْدَهُ عِشْرِينَ لَيْلَةً، فَظَنَّ أَنَّا اشْتَهَيْنَا أَهْلِينَا، فَسَأَلْنَا عَنْ مَنْ تَرَكْنَا فِي أَهْلِينَا؟ فَأَخْبَرْنَاهُ، وَكَانَ رَفِيقًا رَحِيمًا، فَقَالَ: ”ارْجِعُوا إِلَى أَهْلِيكُمْ فَعَلِّمُوهُمْ وَمُرُوهُمْ، وَصَلُّوا كَمَا رَأَيْتُمُونِي أُصَلِّي، فَإِذَا حَضَرَتِ الصَّلاَةُ، فَلْيُؤَذِّنْ لَكُمْ أَحَدُكُمْ، وَلْيَؤُمَّكُمْ أَكْبَرُكُمْ.“
سیدنا ابوسلیمان مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے جبکہ ہم، ہم عمر نوجوان تھے، چنانچہ ہم بیس راتیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں ٹھہرے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے محسوس کیا کہ ہم گھر والوں کے لیے اداس ہو گئے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے اہل و عیال کے متعلق پوچھا کہ کسی کا کون ہے؟ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم بڑے نرم مزاج اور مہربان تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے گھر والوں کے پاس لوٹ جاؤ اور انہیں تعلیم دو، اور (اسلامی احکام پر عمل کا) حکم دو، اور نماز اس طرح پڑھو جس طرح مجھے پڑھتے دیکھا ہے۔ جب نماز کا وقت ہو جائے تو تم میں سے کوئی ایک تمہارے لیے اذان دے، اور جو تم میں سے بڑا ہے وہ امامت کروائے۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب الأدب، باب رحمة الناس و البهائم: 6008 و مسلم: 1567 و النسائي: 635 - الإرواء: 213»
حدثنا ابو اليمان، قال: اخبرنا شعيب بن ابي حمزة، عن الزهري، قال: اخبرنا سالم، عن ابن عمر، انه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: ”كلكم راع، وكلكم مسؤول عن رعيته، الإمام راع وهو مسؤول عن رعيته، والرجل راع في اهله، والمراة راعية في بيت زوجها، والخادم في مال سيده“، سمعت هؤلاء عن النبي صلى الله عليه وسلم، واحسب النبي صلى الله عليه وسلم قال: ”والرجل في مال ابيه.“حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا شُعَيْبُ بْنُ أَبِي حَمْزَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنَا سَالِمٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: ”كُلُّكُمْ رَاعٍ، وَكُلُّكُمْ مَسْؤُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، الإِمَامُ رَاعٍ وَهُوَ مَسْؤُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، وَالرَّجُلُ رَاعٍ فِي أَهْلِهِ، وَالْمَرْأَةُ رَاعِيَةٌ فِي بَيْتِ زَوْجِهَا، وَالْخَادِمُ فِي مَالِ سَيِّدِهِ“، سَمِعْتُ هَؤُلاَءِ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَحْسَبُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ”وَالرَّجُلُ فِي مَالِ أَبِيهِ.“
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”تم میں سے ہر ایک ذمہ دار ہے اور ہر ایک سے اس کی ذمہ داری کے متعلق باز پرس ہو گی۔ حاکم وقت ذمہ دار ہے اور اس سے اس کی رعیت کے متعلق باز پرس ہو گی۔ آدمی اپنے گھر والوں کا ذمہ دار ہے، اور عورت اپنے خاوند کے گھر میں ذمہ دار ہے، اور خادم اپنے آقا کے مال کا ذمہ دار ہے۔“ میں نے یہ کلمات نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنے ہیں، میرا خیال ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا: ”اور آدمی اپنے باپ کے گھر میں ذمہ دار ہے۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب الاستقراض، باب العبد راع فى مال سيده و لا يعمل إلا باذنه: 2409 و مسلم: 1829»
حدثنا سعيد بن عفير قال: حدثني يحيى بن ايوب، عن عمارة بن غزية، عن شرحبيل مولى الانصار، عن جابر بن عبد الله الانصاري قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: ”من صنع إليه معروف فليجزئه، فإن لم يجد ما يجزئه فليثن عليه، فإنه إذا اثنى فقد شكره، وإن كتمه فقد كفره، ومن تحلى بما لم يعط، فكانما لبس ثوبي زور.“حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عُفَيْرٍ قَالَ: حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ غَزِيَّةَ، عَنْ شُرَحْبِيلَ مَوْلَى الأَنْصَارِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ الأَنْصَارِيِّ قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ”مَنْ صُنِعَ إِلَيْهِ مَعْرُوفٌ فَلْيُجْزِئْهُ، فَإِنْ لَمْ يَجِدْ مَا يُجْزِئُهُ فَلْيُثْنِ عَلَيْهِ، فَإِنَّهُ إِذَا أَثْنَى فَقَدْ شَكَرَهُ، وَإِنْ كَتَمَهُ فَقَدْ كَفَرَهُ، وَمَنْ تَحَلَّى بِمَا لَمْ يُعْطَ، فَكَأَنَّمَا لَبِسَ ثَوْبَيْ زُورٍ.“
سیدنا جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کے ساتھ کوئی احسان کیا جائے اسے چاہیے کہ اس کا بدلہ دے۔ اگر بدلہ دینے کے لیے اس کے پاس کوئی چیز نہ ہو تو احسان کرنے والے کی تعریف میں اچھے کلمات ہی کہہ دے، چنانچہ جس نے اچھے کلمات کہہ دیے اس نے اس کا شکریہ ادا کر دیا، اور اگر اس نے اس احسان کو چھپایا تو اس نے اس کی ناشکری کی۔ اور جس نے اپنے لیے کوئی ایسی صفت ظاہر کی جو اس میں نہ ہو تو اس نے جھوٹ کے دو کپڑے پہن لیے۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه أبوداؤد، كتاب الأدب، باب فى شكر المعروف: 4813 و الترمذي: 2034 - صحيح الترغيب: 968 و الصحيحة: 617»
حدثنا مسدد، قال: حدثنا ابو عوانة، عن الاعمش، عن مجاهد، عن ابن عمر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”من استعاذ بالله فاعيذوه، ومن سال بالله فاعطوه، ومن اتى إليكم معروفا فكافئوه، فإن لم تجدوا فادعوا له، حتى يعلم ان قد كافاتموه.“حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ”مَنِ اسْتَعَاذَ بِاللَّهِ فَأَعِيذُوهُ، وَمَنْ سَأَلَ بِاللَّهِ فَأَعْطُوهُ، وَمَنْ أَتَى إِلَيْكُمْ مَعْرُوفًا فَكَافِئُوهُ، فَإِنْ لَمْ تَجِدُوا فَادْعُوا لَهُ، حَتَّى يَعْلَمَ أَنْ قَدْ كَافَأْتُمُوهُ.“
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو کوئی اللہ کے نام پر تم سے پناہ مانگے اس کو پناہ دو، اور جو اللہ کے نام پر سوال کرے اسے دو، اور جو تم پر کوئی احسان کرے تو اس کو بدلہ دو، اور اگر تمہارے پاس بدلہ دینے کے لیے کچھ نہ ہو تو اس کے لیے اتنی دعا کرو کہ جان لیا جائے کہ تم نے اس کا بدلہ دے دیا ہے۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه أبوداؤد، كتاب الزكاة، باب عطية من سأل بالله عز و جل: 1672 و النسائي: 2567 - الصحيحة: 254»
حدثنا موسى بن إسماعيل، قال: حدثنا حماد بن سلمة، عن ثابت، عن انس، ان المهاجرين قالوا: يا رسول الله، ذهب الانصار بالاجر كله؟ قال: ”لا، ما دعوتم الله لهم، واثنيتم عليهم به.“حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ الْمُهَاجِرِينَ قَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ، ذَهَبَ الأَنْصَارُ بِالأَجْرِ كُلِّهِ؟ قَالَ: ”لَا، مَا دَعَوْتُمُ اللَّهَ لَهُمْ، وَأَثْنَيْتُمْ عَلَيْهِمْ بِهِ.“
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مہاجرین نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! سارا اجر تو انصار لے گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایسا نہیں ہے جب تک کہ تم ان کے لیے دعائیں کرو اور انہیں تعریفی کلمات سے یاد کرو۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه أبوداؤد، كتاب الأدب، باب فى شكر المعروف: 4812 و الترمذي: 2487 - صحيح الترغيب: 977 و صححه الحاكم على شرط مسلم: 63/2، و وافقه الذهبي»
حدثنا موسى بن إسماعيل، قال: حدثنا الربيع بن مسلم، قال: حدثنا محمد بن زياد، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: ”لا يشكر الله من لا يشكر الناس.“حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ: حَدَّثَنَا الرَّبِيعُ بْنُ مُسْلِمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ زِيَادٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ”لَا يَشْكُرُ اللَّهُ مَنْ لاَ يَشْكُرُ النَّاسَ.“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ اللہ کا شکر بھی ادا نہیں کرتا جو لوگوں کا شکر گزار نہ ہو۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه أبوداؤد، كتاب الأدب، باب فى شكر المعروف: 4811 و الترمذي: 11954 - الصحيحة: 416»
حدثنا موسى بن إسماعيل، قال: حدثنا الربيع بن مسلم، قال: حدثنا محمد بن زياد، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: ”قال الله تعالى للنفس: اخرجي، قالت: لا اخرج إلا كارهة.“حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ: حَدَّثَنَا الرَّبِيعُ بْنُ مُسْلِمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ زِيَادٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ”قَالَ اللَّهُ تَعَالَى لِلنَّفَسِ: اخْرُجِي، قَالَتْ: لاَ أَخْرُجُ إِلاَّ كَارِهَةً.“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ جب کسی جان سے کہتا ہے: نکلو، تو وہ کہتی ہے: میں نہیں نکلتی مگر ناگواری کے ساتھ۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري فى التاريخ الكبير: 275/3 و ابن الأعرابي فى معجمه: 2046 و البزار: 9590 و أبوالشيخ فى الطبقات: 358/2 - الصحيحة: 2013»
حدثنا إسماعيل بن اويس قال: حدثني عبد الرحمن بن ابي الزناد، عن ابيه، عن عروة، عن ابي مراوح، عن ابي ذر، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قيل: اي الاعمال خير؟ قال: ”إيمان بالله، وجهاد في سبيله“، قيل: فاي الرقاب افضل؟ قال: ”اغلاها ثمنا، وانفسها عند اهلها“، قال: افرايت إن لم استطع بعض العمل؟ قال: ”فتعين ضائعا، او تصنع لاخرق“، قال: افرايت إن ضعفت؟ قال: ”تدع الناس من الشر، فإنها صدقة تصدق بها على نفسك.“حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أُوَيْسٍ قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِي مُرَاوِحٍ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قِيلَ: أَيُّ الأَعْمَالِ خَيْرٌ؟ قَالَ: ”إِيمَانٌ بِاللَّهِ، وَجِهَادٌ فِي سَبِيلِهِ“، قِيلَ: فَأَيُّ الرِّقَابِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: ”أَغْلاَهَا ثَمَنًا، وَأَنْفَسُهَا عِنْدَ أَهْلِهَا“، قَالَ: أَفَرَأَيْتَ إِنْ لَمْ أَسْتَطِعْ بَعْضَ الْعَمَلِ؟ قَالَ: ”فَتُعِينُ ضَائِعًا، أَوْ تَصْنَعُ لأَخْرَقَ“، قَالَ: أَفَرَأَيْتَ إِنْ ضَعُفْتُ؟ قَالَ: ”تَدَعُ النَّاسَ مِنَ الشَّرِّ، فَإِنَّهَا صَدَقَةٌ تَصَدَّقُ بِهَا عَلَى نَفْسِكَ.“
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: اعمال میں سے کون سا عمل بہتر ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا، اور اس کی راہ میں جہاد کرنا۔“ عرض کیا گیا: کون سی گردن آزاد کرنا افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کی قیمت زیادہ ہو اور مالکوں کے نزدیک وہ بہت عمدہ ہو۔“ سائل نے عرض کیا: اگر مجھ میں بعض اعمال کی استطاعت نہ ہو تو آپ کیا کرنے کی راہنمائی کرتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر تم کسی آدمی کی مدد کرو جو ضائع ہو رہا ہو، یا کسی بے وقوف اور بے ہنر کا کام کرو۔“ سائل نے عرض کیا: اگر میں (یہ کرنے سے بھی) کمزور پڑ جاؤں اور نہ کر سکوں تو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگوں کو اپنے شر سے بچاؤ (اور تکلیف نہ دو) تو یہ تیرا اپنی جان پر صدقہ ہے جو تو کرے گا۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب العتق، باب الرقاب أفضل: 2518 و مسلم: 84 و النسائي: 3129 و ابن ماجة: 2523 - الصحيحة: 575»