حدثنا سعيد بن عفير قال: حدثني يحيى بن ايوب، عن عمارة بن غزية، عن شرحبيل مولى الانصار، عن جابر بن عبد الله الانصاري قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: ”من صنع إليه معروف فليجزئه، فإن لم يجد ما يجزئه فليثن عليه، فإنه إذا اثنى فقد شكره، وإن كتمه فقد كفره، ومن تحلى بما لم يعط، فكانما لبس ثوبي زور.“حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عُفَيْرٍ قَالَ: حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ غَزِيَّةَ، عَنْ شُرَحْبِيلَ مَوْلَى الأَنْصَارِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ الأَنْصَارِيِّ قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ”مَنْ صُنِعَ إِلَيْهِ مَعْرُوفٌ فَلْيُجْزِئْهُ، فَإِنْ لَمْ يَجِدْ مَا يُجْزِئُهُ فَلْيُثْنِ عَلَيْهِ، فَإِنَّهُ إِذَا أَثْنَى فَقَدْ شَكَرَهُ، وَإِنْ كَتَمَهُ فَقَدْ كَفَرَهُ، وَمَنْ تَحَلَّى بِمَا لَمْ يُعْطَ، فَكَأَنَّمَا لَبِسَ ثَوْبَيْ زُورٍ.“
سیدنا جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کے ساتھ کوئی احسان کیا جائے اسے چاہیے کہ اس کا بدلہ دے۔ اگر بدلہ دینے کے لیے اس کے پاس کوئی چیز نہ ہو تو احسان کرنے والے کی تعریف میں اچھے کلمات ہی کہہ دے، چنانچہ جس نے اچھے کلمات کہہ دیے اس نے اس کا شکریہ ادا کر دیا، اور اگر اس نے اس احسان کو چھپایا تو اس نے اس کی ناشکری کی۔ اور جس نے اپنے لیے کوئی ایسی صفت ظاہر کی جو اس میں نہ ہو تو اس نے جھوٹ کے دو کپڑے پہن لیے۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه أبوداؤد، كتاب الأدب، باب فى شكر المعروف: 4813 و الترمذي: 2034 - صحيح الترغيب: 968 و الصحيحة: 617»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 215
فوائد ومسائل: (۱)اس سے معلوم ہوا کہ نیکی اور احسان کرنے والے کا یہ حق ہے کہ اسے اس کا صلہ دیا جائے۔ بے شک وہ یہ نیکی اللہ کی خوشنودی کی خاطر ہی کرے۔ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ جو لوگوں کا احسان شناس نہیں وہ اللہ کا شکر گزار بھی نہیں ہوسکتا، نیز ہدیہ اور تحفہ اس لیے دینا بھی جائز ہے کہ اس کا بدلہ ملے اگرچہ بہتر یہی ہے کہ اللہ کی رضا کی خاطر دیا جائے۔ (۲) اس سے معلوم ہوا کہ شادی بیاہ کے موقع پر تحائف کا تبادلہ جائز ہے اور ایک دوسرے سے مالی تعاون بھی جائز ہے لیکن اس میں یہ بات نہیں ہونی چاہیے کہ جتنا میں نے دیا ہے، اتنا ہی لینا ہے یا دوگنا لینا ہے اور نہ ملنے پر جھگڑا کرنا۔ جہاں اس چیز کا اندیشہ ہو وہاں تحفہ رد بھی کیا جاسکتا ہے۔ (۳) مالی طور پر لوگوں کا ایک دوسرے سے تفاوت کارخانۂ قدرت کا کرشمہ ہے اور نظام دنیا کی بقا کا راز ہے۔ اس لیے ہر شخص بسا اوقات احسان کا بدلہ نہیں چکا سکتا یا تحائف کا بدل نہیں دے سکتا۔ شریعت نے اس کا حل یہ بتایا کہ وہ احسان کرنے والے کو اچھے لفظوں میں یاد رکھے اور اس کے لیے برکت کی دعا کرے اور زبان سے اس کا شکریہ ادا کرے۔ نیز لوگوں سے بھی اس کا اظہار کرے۔ (۴) اگر احسان کرنے والا شخص ایسا ہو جس کے ریا میں مبتلا ہونے کا خدشہ نہ ہو تو اس کے منہ پر بھی اس کی تعریف کی جاسکتی ہے، بصورت دیگر اس کی عدم موجودگی میں اچھی تعریف کرنی چاہیے۔ اور زبانی شکریے کا بہترین انداز یہ ہے کہ انگریزی کے لفظ Than رحمہ اللہ s کے بجائے جزاک اللہ خیراً کہہ دے اس میں اجر و ثواب بھی ہے اور محسن کے لیے دعا بھی۔ (۵) اللہ تعالیٰ انسان کو جس حال میں رکھے اسی حالت پر راضی رہنا چاہیے۔ ترقی کے لیے محنت اور کوشش جائز ہے، تاہم فقیر کا یہ انداز اختیار کرنا کہ وہ بڑا رئیس زادہ ہے یا کسی مالدار کا جعلی زہد اختیار کرنا ہر دو صورتیں نہ صرف ممنوع ہیں بلکہ شریعت نے ایسے شخص کو سر تا سر جھوٹا قرار دیا ہے۔ اگر کوئی فقیر شخص اللہ کا شکر گزار رہتا ہے اور اپنی فقیری کا کسی کے سامنے اظہار نہیں کرتا یا مالدار زہد کی زندگی اختیار کرتا ہے اور مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ جو خوبی انسان میں نہ ہو یا جو کام انسان نے نہ کیا اس کا کریڈٹ لینے کے لیے یہ ظاہر کرنا کہ یہ خوبی اس میں ہے یا کام اس نے کیا ہے شرعاً ممنوع اور حرام ہے۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 215