حدثنا إسماعيل بن اويس قال: حدثني عبد الرحمن بن ابي الزناد، عن ابيه، عن عروة، عن ابي مراوح، عن ابي ذر، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قيل: اي الاعمال خير؟ قال: ”إيمان بالله، وجهاد في سبيله“، قيل: فاي الرقاب افضل؟ قال: ”اغلاها ثمنا، وانفسها عند اهلها“، قال: افرايت إن لم استطع بعض العمل؟ قال: ”فتعين ضائعا، او تصنع لاخرق“، قال: افرايت إن ضعفت؟ قال: ”تدع الناس من الشر، فإنها صدقة تصدق بها على نفسك.“حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أُوَيْسٍ قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِي مُرَاوِحٍ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قِيلَ: أَيُّ الأَعْمَالِ خَيْرٌ؟ قَالَ: ”إِيمَانٌ بِاللَّهِ، وَجِهَادٌ فِي سَبِيلِهِ“، قِيلَ: فَأَيُّ الرِّقَابِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: ”أَغْلاَهَا ثَمَنًا، وَأَنْفَسُهَا عِنْدَ أَهْلِهَا“، قَالَ: أَفَرَأَيْتَ إِنْ لَمْ أَسْتَطِعْ بَعْضَ الْعَمَلِ؟ قَالَ: ”فَتُعِينُ ضَائِعًا، أَوْ تَصْنَعُ لأَخْرَقَ“، قَالَ: أَفَرَأَيْتَ إِنْ ضَعُفْتُ؟ قَالَ: ”تَدَعُ النَّاسَ مِنَ الشَّرِّ، فَإِنَّهَا صَدَقَةٌ تَصَدَّقُ بِهَا عَلَى نَفْسِكَ.“
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: اعمال میں سے کون سا عمل بہتر ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا، اور اس کی راہ میں جہاد کرنا۔“ عرض کیا گیا: کون سی گردن آزاد کرنا افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کی قیمت زیادہ ہو اور مالکوں کے نزدیک وہ بہت عمدہ ہو۔“ سائل نے عرض کیا: اگر مجھ میں بعض اعمال کی استطاعت نہ ہو تو آپ کیا کرنے کی راہنمائی کرتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر تم کسی آدمی کی مدد کرو جو ضائع ہو رہا ہو، یا کسی بے وقوف اور بے ہنر کا کام کرو۔“ سائل نے عرض کیا: اگر میں (یہ کرنے سے بھی) کمزور پڑ جاؤں اور نہ کر سکوں تو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگوں کو اپنے شر سے بچاؤ (اور تکلیف نہ دو) تو یہ تیرا اپنی جان پر صدقہ ہے جو تو کرے گا۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب العتق، باب الرقاب أفضل: 2518 و مسلم: 84 و النسائي: 3129 و ابن ماجة: 2523 - الصحيحة: 575»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 220
فوائد ومسائل: (۱)دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ سائل خود سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ ہی تھے جس سے پتا چلا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم افضل اعمال کی معلومات اور ان پر عمل کرنے میں بڑے حریص تھے اس لیے اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی رضا کا سرٹیفکیٹ عطا فرمایا۔ (۲) ایمان بھی عمل بلکہ سب سے افضل عمل ہے جس پر تمام اعمال کی قبولیت کا دارومدار ہے۔ ایمان کے بغیر کوئی عمل قبول نہیں ہوسکتا۔ جہاد ایمان کی راہ کو ہموار کرتا ہے اس لیے ایمان کے بعد اس کا ذکر فرمایا۔ اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے کی جانے والی ہر کوشش جہاد کہلاتی ہے اور وقت کے تقاضوں کے مطابق کبھی تلوار سے جہاد افضل ہوتا ہے اور کبھی قلم و قرطاس وغیرہ سے۔ (۳) کسی کو غلامی سے آزادی دلوانا اسے نئی زندگی دینے کے مترادف ہے۔ ایک حدیث میں اس کی فضیلت یہ ذکر ہوئی ہے کہ مسلمان غلام کو آزاد کرنے کے بدلے اللہ تعالیٰ آزاد کرنے والے کے ہر عضو کو جہنم سے آزاد کر دیتا ہے۔ (صحیح البخاري، العتق، حدیث:۲۵۱۷) عصر حاضر میں کسی مقروض اور مفلوک الحال کی مدد کرکے بھی یہ فضیلت حاصل کی جاسکتی ہے۔ (۴) جہاد کے لیے شجاعت اور بہادری کی ضرورت ہے اور غلام کو آزادی وہی شخص دلوا سکتا ہے جس کے پاس مال و دولت ہو، خصوصاً جب غلام مہنگا بھی ہو۔ اس لیے یہ دونوں کام ہر آدمی نہیں کرسکتا۔ لیکن کسی مجبور کی مدد اور نصرت کرنا تو حتی الوسع ہر انسان کے بس میں ہے۔ ایک حدیث میں آپ کا فرمان ہے:”مجھے کسی مسلمان کی ضرورت پوری کرنے کے لیے جانا مسجد نبوی میں ایک ماہ قیام کرنے سے زیادہ پسند ہے۔“(سلسلة الأحادیث الصحیحة، حدیث:۹۰۶) اگر کوئی شخص یہ سارے کام کرنے سے عاجز ہو، یعنی اس کے بس میں نہ ہو تو دوسرے کو ایذا رسانی سے باز رہنا بھی نیکی ہے۔ یعنی جو شخص کسی کو فائدہ نہیں پہنچا سکتا تو کم از کم کسی کو ایذا نہ دینا تو اس کے اختیار میں ہے۔ اگر وہ لوگوں کی ایذا پر صبر کرتا ہے اور اپنے شر سے دوسروں کو محفوظ رکھتا ہے تو یقیناً وہ اپنی ذات پر صدقہ کرنے والا ہے کہ اس نے اپنے آپ کو دنیا و آخرت کی تنگی سے بچا لیا۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 220