حدثنا مسدد، قال: حدثنا ابو عوانة، عن الاعمش، عن مجاهد، عن ابن عمر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”من استعاذ بالله فاعيذوه، ومن سال بالله فاعطوه، ومن اتى إليكم معروفا فكافئوه، فإن لم تجدوا فادعوا له، حتى يعلم ان قد كافاتموه.“حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ”مَنِ اسْتَعَاذَ بِاللَّهِ فَأَعِيذُوهُ، وَمَنْ سَأَلَ بِاللَّهِ فَأَعْطُوهُ، وَمَنْ أَتَى إِلَيْكُمْ مَعْرُوفًا فَكَافِئُوهُ، فَإِنْ لَمْ تَجِدُوا فَادْعُوا لَهُ، حَتَّى يَعْلَمَ أَنْ قَدْ كَافَأْتُمُوهُ.“
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو کوئی اللہ کے نام پر تم سے پناہ مانگے اس کو پناہ دو، اور جو اللہ کے نام پر سوال کرے اسے دو، اور جو تم پر کوئی احسان کرے تو اس کو بدلہ دو، اور اگر تمہارے پاس بدلہ دینے کے لیے کچھ نہ ہو تو اس کے لیے اتنی دعا کرو کہ جان لیا جائے کہ تم نے اس کا بدلہ دے دیا ہے۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه أبوداؤد، كتاب الزكاة، باب عطية من سأل بالله عز و جل: 1672 و النسائي: 2567 - الصحيحة: 254»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 216
فوائد ومسائل: (۱)پناہ طلب کرنے کی دو صورتیں ہیں:کسی شخص کے شر سے بچنے کے لیے اسے کہا جائے کہ میں تجھے اللہ کا واسطہ دے کر پناہ مانگتا ہوں کہ مجھے کچھ نہ کہو۔ دوسری صورت یہ ہے کہ کوئی کمزور شخص دشمن سے بچتے ہوئے کسی مدد کا طلب گار ہو اور درخواست کرے کہ اللہ کے لیے مجھے پناہ دے دو تو ایسے شخص کو پناہ دینا مسلمان پر فرض ہے الا یہ کہ پناہ طلب کرنے والا عادی مجرم یا قاتل ہو یا اس نے کسی کا حق مارا ہو جسے وہ دبانا چاہتا ہو تو ایسے شخص کو پناہ دینا جائز نہیں۔ (۲) اللہ کے نام کا واسطہ دے کر مانگنے والے کو اللہ تعالیٰ کے نام کی لاج رکھتے ہوئے کچھ نہ کچھ دینا چاہیے اور اگر نہ ہو تو احسن انداز سے معذرت کرنی چاہیے۔ سائل کو جھڑکنا، خصوصاً جب وہ اللہ کے نام پر مانگ رہا ہو، جائز نہیں۔ تاہم جو غیر اللہ کے نام پر مانگے اسے نہیں دینا چاہیے۔ اگر کوئی شخص پیشہ ور بھکاری ہو اور جس سے سوال کیا جارہا ہو اسے معلوم ہو کہ یہ ضرورت مند نہیں ہے تو ایسے شخص کو نہ دینا جائز ہے تاکہ اس پیشے کی حوصلہ شکنی ہو، نیز اسے بھی مناسب انداز میں سمجھانا چاہیے۔ (۳)”حتی یُعلم“ کی جگہ ابو داود کے الفاظ ہیں:”حتی تروا“ حتیٰ کہ تمہیں سمجھ آ جائے کہ تم نے اس کا بدلہ چکا دیا ہے۔ جو شخص کسی پر احسان کرے تو جس کے ساتھ نیکی کی گئی ہو اسے احسان مند ہونا چاہیے اور اپنے محسن کو اچھا بدلہ دینا چاہیے۔ لیکن اگر کوئی شخص مالی یا کسی دوسرے احسان کا اس صورت میں بدلہ نہیں دے سکتا تو اسے دعا ضرور کرنی چاہیے اور اتنی زیادہ دعا کرنی چاہیے کہ آدمی کو یقین ہو جائے کہ اس نے احسان کا بدلہ چکا دیا ہے۔ احسان فراموشی مومن کا شیوہ ہرگز نہیں۔ دنیاوی محسن کی طرح مذہبی محسن کو بھی بدلہ دینا ضروری ہے۔ جو شخص انسان کی ہدایت کا سبب بنا ہو یا وہ اس کی دینی ضرورتیں پوری کرتا ہو، مدرس، خطیب یا مصنف کی صورت میں، اس کے لیے دعا کرنا بھی ضروری ہے ورنہ احسان فراموشی ہوگی۔ اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھنا بھی مومن پر فرض ہے۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 216