- (لقد ضحك الله- او عجب- من فعالكما [بضيفكما الليلة]، وانزل الله:"ويؤثرون على انفسهم ولو كان بهم خصاصة ومن يوق شح نفسه فاولئك هم المفلحون". يعني: ابا طلحة الانصاري وامراته).- (لقد ضحِكَ اللهُ- أو عجِب- من فِعالِكُما [بضيفِكما الليلة]، وأنزل اللهُ:"ويُؤِثرون على أنفسهم ولو كان بهم خصاصَة ومن يُوقَ شُحَّ نفسِه فأولئك همُ المفلحون". يعني: أبا طلحة الأنصاريَّ وامرأته).
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: میں غربت (و افلاس) میں مبتلا ہو گیا ہوں (اور ایک روایت میں ہے کہ اس نے کہا: میں مفلس ہوں)۔ آپ نے اپنی بیویوں کی طرف پیغام بھیجا، انہوں نے جواب دیا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ معبوث کیا؟ ہمارے ہاں پانی کے علاوہ کچھ نہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اس کی میزبانی کرے گا، اللہ تعالیٰ اس پر رحم کرے گا۔“ ایک انصاری صحابی، جس کو ابوطلحہ کہا جاتا تھا، نے کہا: میں کروں گا۔ وہ اس مہمان کو لے کر اپنی بیوی کے پاس پہنچے اور کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مہمان کی عزت کرو اور کوئی چیز بچا کر نہ رکھو۔ اس کی بیوی نے کہا: اللہ کی قسم! ہمارے ہاں صرف بچوں کے لیے آب و دانہ ہے۔ ابوطلحہ نے کہا: اس طرح کرو کہ کھانا تیار رکھو، دیا جلا کے رکھو اور بچے جب شام کے کھانے کا ارادہ کریں تو انہیں سلا دینا۔ چنانچہ اس نے اپنا کھانا تیار کیا، چراغ جلایا اور بچوں کو سلا دیا۔ پھر وہ چراغ کو درست کرنے کے بہانے اٹھی اور اس کو (جان بوجھ کر) بجھا دیا، پھر (اندھیرے میں) وہ دونوں (میاں بیوی) مہمان کو یہ باور کراتے رہے کہ وہ بھی اس کے ساتھ کھا رہے ہیں۔ چنانچہ مہمان نے کھانا کھایا اور ان دونوں نے بھوک کی حالت میں رات گزاری۔ جب صبح ہوئی تو وہ (ابوطلحہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے، آپ نے فرمایا: ”تم نے رات کو اپنے مہمان کے ساتھ جو معاملہ کیا ہے اللہ تعالیٰ اس پر ہنسے ہیں یا اس پر تعجب کیا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے (ان کی یہ اچھی خصلت بیان کرتے ہوئے) یہ آیت نازل فرمائی: «وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ وَمَنْ يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ» اور وہ (دوسرے حاجتمندوں کو) اپنے نفسوں پر ترجیح دیتے ہیں، اگرچہ ان کو سخت بھوک ہو اور جو لوگ نفسوں کی بخیلی سے بچ گئے، وہی کامیاب ہو گئے ہیں۔“
- (لو رايتموني وإبليس فاهويت بيدي، فما زلت اخنقه حتى وجدت برد لعابه بين إصبعي هاتين: الإبهام والتي تليها، ولولا دعوة اخي سليمان؛ لاصبح مربوطا بسارية من سواري المسجد، يتلاعب به صبيان المدينة، فمن استطاع منكم ان لا يحول بينه وبين القبلة احد؛ فليفعل).- (لو رأيتُموني وإبليس فأهويتُ بيدي، فما زلتُ أخنقُه حتى وجدتُ بردَ لُعابِه بين إصبعيَّ هاتين: الإبهام والتي تليها، ولولا دعوةُ أخي سُليمان؛ لأصبح مربوطاً بساريةٍ من سواري المسجد، يتلاعبُ به صبيانُ المدينة، فمن استطاع منكم أن لا يحُول بينَه وبينَ القبلة أحدٌ؛ فليفعل).
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور نماز فجر ادا کی اور وہ (ابوسعید) آپ کے پیچھے تھے، آپ نے قراءت فرمائی تو آپ پر قراءت خلط ملط ہونے لگی۔ جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کاش کہ تم مجھے اور ابلیس کو دیکھتے، میں نے اپنا ہاتھ بڑھایا اور اس کا گلا گھونٹتا رہا، حتی کہ مجھے انگوٹھے اور اس کے ساتھ والی انگلی کے درمیان اس کے لعاب کی ٹھنڈک محسوس ہوئی۔ اگر میرے بھائی سلیمان علیہ السلام کی دعا نہ ہوتی تو وہ اس حال میں صبح کرتا کہ مسجد کے ستونوں میں سے کسی ستون کے ساتھ بندھا ہوتا اور مدینے کے بچے اس کے ساتھ کھیل رہے ہوتے۔ تم میں سے جس میں یہ استطاعت ہو کہ (دوران نماز) اس کے اور اس کے قبلہ کے مابین کوئی چیز حائل نہ ہو تو وہ ایسا ہی کرے۔“
-" ليس منا من لم يرحم صغيرنا ويوقر كبيرنا".-" ليس منا من لم يرحم صغيرنا ويوقر كبيرنا".
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک بوڑھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، لوگوں نے اس کو جگہ دینے میں تاخیر کی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کیا اور ہمارے بڑوں کی عزت نہ کی وہ ہم میں سے نہیں۔“
سیدنا انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد کے قبلہ میں کھنگار دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت غصہ آیا، حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ سرخ ہو گیا۔ سو ایک انصاری عورت آئی، اس نے اس کو کھرچ دیا اور اس کی جگہ ”خلوق“ خوشبو لگا دی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ کتنا اچھا کام ہے!“۔
- (ما اخاف على امتي إلا ثلاثا: شح مطاع، وهوى متبع، وإمام ضلال).- (ما أخافُ على أُمّتِي إلا ثلاثاً: شُحٌّ مُطاعٌ، وهوىً متَّبعٌ، وإمامُ ضلالٍ).
سیدنا ابوالاعور رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنی امت کے بارے میں مجھے صرف تین چیزوں کا ڈر ہے: (١) بخیلی، جس کے تقاضے پورے کر دیے جائیں، (۲) خواہش نفس جس کی پیروی کی جائے اور (۳) گمراہ امام۔“
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، وہ کہتی ہیں: میرا خیال ہے کہ جس دین پر ہم ہیں، فلاں اور فلاں کو اس کا کوئی علم نہیں ہے۔ ابن عفیر نے (اپنی روایت میں) یہ الفاظ زیادہ کئے: لیث نے کہا کہ وہ دونوں آدمی منافق تھے اور یحییٰ نے اس کے شروع میں اضافہ کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن میرے پاس آئے اور فرمایا: ”میرا خیال ہے کہ جس دین پر ہم ہیں، فلاں اور فلاں آدمی اس دین پر کار بند نہیں ہیں۔“
-" كان إذا بلغه عن الرجل شيء لم يقل: (ما بال فلان يقول)، ولكن يقول: (ما بال اقوام يقولون كذا وكذا؟!)".-" كان إذا بلغه عن الرجل شيء لم يقل: (ما بال فلان يقول)، ولكن يقول: (ما بال أقوام يقولون كذا وكذا؟!)".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: جب آپ کو کسی آدمی کے بارے میں کوئی ناگوار بات موصول ہوتی تو آپ اس طرح نہیں کہتے تھے کہ فلاں کو کیا ہوا ہے کہ وہ اس طرح کی باتیں کرتا ہے، بلکہ آپ فرماتے: ”لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ اس طرح کی باتیں کر رہے ہیں۔“
- (ما تعدون الرقوب فيكم؟ قال: قلنا: الذي لا يولد له. قال: ليس ذاك بالرقوب، ولكنه الرجل الذي لم يقدم من ولده شيئا. قال: فما تعدون الصرعة فيكم؟ قال: قلنا: الذي لا يصرعه الرجال. قال: ليس بذلك، ولكنه الذي يملك نفسه عند الغضب).- (ما تَعُدُّون الرَّقُوب فيكم؟ قال: قلنا: الذي لا يولدُ له. قالَ: ليسَ ذاكَ بالرّقُوبِ، ولكنّه الرّجلُ الذي لم يقدِّم من ولده شيئاً. قال: فما تعدُّون الصُّرَعةَ فيكُم؟ قال: قلنا: الذي لا يصرَعُه الرجِال. قال: ليسَ بذلكَ، ولكنّه الذي يملِكُ نفسهُ عند الغَضَبِ).
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اپنے مابین کس کو «رَقُوب» شمار کرتے ہو؟“ صحابہ نے کہا: جس کی اولاد نہیں ہوتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ””ایسے آدمی کو «رَقُوب» نہیں کہتے، بلکہ ایسے شخص کو کہتے ہیں جس نے اپنی اولاد میں سے ( کوئی بچہ) آگے نہ بھیجا ہو۔“ پھر فرمایا: ”تم کس کو زبردست پہلوان شمار کرتے ہو؟“ صحابہ نے کہا: جسے کوئی آدمی پچھاڑ نہ سکے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایسا شخص تو پہلوان نہیں ہوتا، بلکہ پہلوان تو وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے نفس پر قابو پا لے۔“
-" ما من ذنب اجدر ان يعجل الله تعالى لصحابه العقوبة في الدنيا مع ما يدخر له في الآخرة من البغي وقطيعة الرحم".-" ما من ذنب أجدر أن يعجل الله تعالى لصحابه العقوبة في الدنيا مع ما يدخر له في الآخرة من البغي وقطيعة الرحم".
سیدنا ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بغاوت (و ظلم) اور قطع رحمی سے بڑھ کر کوئی ایسا گناہ نہیں کہ جس کے بارے میں زیادہ مناسب یہ ہو کہ اللہ تعالیٰ اس کے مرتکب کو دنیا میں بھی سزا دینے میں جلدی کرے اور آخرت میں بھی (عذاب دینے کے لیے) اس (گناہ) کو ذخیرہ کر لے۔“
-" اتق الله عز وجل ولا تحقرن من المعروف شيئا ولو ان تفرغ من دلوك في إناء المستسقي وإياك والمخيلة فإن الله تبارك وتعالى لا يحب المخيلة وإن امرؤ شتمك وعيرك بامر يعلمه فيك، فلا تعيره بامر تعلمه فيه، فيكون لك اجره وعليه إثمه ولا تشتمن احدا".-" اتق الله عز وجل ولا تحقرن من المعروف شيئا ولو أن تفرغ من دلوك في إناء المستسقي وإياك والمخيلة فإن الله تبارك وتعالى لا يحب المخيلة وإن امرؤ شتمك وعيرك بأمر يعلمه فيك، فلا تعيره بأمر تعلمه فيه، فيكون لك أجره وعليه إثمه ولا تشتمن أحدا".
سیدنا جابر بن سَلِیم یا سُلیم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام میں تشریف فرما تھے۔ میں نے کہا: تم میں نبی کون ہے؟ جواباً آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنی طرف یا لوگوں نے آپ کی طرف اشارہ کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھٹنوں اور کمر کے گرد چادر باندھ کر اور گھٹنے کھڑے کر کے سرین کے بل بیٹھے تھے، چادر کا کنارہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں پر لگ رہا تھا۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں کچھ چیزوں کے بارے میں تندمزاج ہوں، آپ مجھے سکھا دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ سے ڈر جا، کسی نیکی کو حقیر مت جان، اگرچہ وہ پانی مانگنے والے کے برتن میں پانی ڈالنے کی صورت میں ہی کیوں نہ ہو، تکبر سے اجتناب کر، کیونکہ اللہ تعالیٰ تکبر کو پسند نہیں کرتا، اگر کوئی آدمی تجھے گالی دے اور تجھے تیرے کسی عیب، جسے وہ جانتا ہے، کی بنا پر عار دلائے، تو تو اسے اس برائی کی بنا پر عار مت دلا جسے تو جانتا ہے، اس طرح کرنے سے اس کا اجر تجھے ملے گا اور اس کے گناہ کا وبال اسی پر ہو گا اور (یہ بھی یاد رکھ کہ) کسی کو گالی نہیں دینا۔“