-" افعلوا الخير دهركم، وتعرضوا لنفحات رحمة الله، فإن لله نفحات من رحمته يصيب بها من يشاء من عباده وسلوا الله ان يستر عوراتكم وان يؤمن روعاتكم".-" افعلوا الخير دهركم، وتعرضوا لنفحات رحمة الله، فإن لله نفحات من رحمته يصيب بها من يشاء من عباده وسلوا الله أن يستر عوراتكم وأن يؤمن روعاتكم".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنی زندگی میں نیکیاں کرتے رہو اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کے عطیات کے درپے رہو، کیونکہ اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے اپنی رحمت کے عطیات عطا کرتا ہے۔ تم اللہ تعالیٰ سے سوال کرو کہ وہ تمہارے معائب و نقائص پر پردہ ڈالے اور گھبراہٹوں اور بے چینیوں کو امن میں بدل دے۔“
-" الا انبئكم بخياركم؟ خياركم اطولكم اعمارا إذا سددوا".-" ألا أنبئكم بخياركم؟ خياركم أطولكم أعمارا إذا سددوا".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا میں تم لوگوں کے لیے تمہارے بہترین افراد کی نشاندہی نہ کر دوں؟ تم میں سے بہترین افراد وہ ہیں جن کی عمریں لمبی ہوں، بشرطیکہ وہ راہ راست پر چلتے رہیں۔“
-" اللهم احيني مسكينا، وامتني مسكينا، واحشرني في زمرة المساكين".-" اللهم أحيني مسكينا، وأمتني مسكينا، واحشرني في زمرة المساكين".
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے اللہ! مجھے مسکین کی زندگی اور مسکین کی موت عطا فرما اور میرا حشر بھی مسکینوں کی جماعت میں ہو۔“
-" لو تعلمون ما ذخر لكم ما حزنتم على ما زوي عنكم وليفتحن لكم فارس والروم".-" لو تعلمون ما ذخر لكم ما حزنتم على ما زوي عنكم وليفتحن لكم فارس والروم".
سیدنا عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس آتے تھے اور ہم پر معمولی قیمت کا کپڑا ہوتا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے دیکھ کر فرماتے: ”اگر تمہیں پتہ چل جائے کہ تمہارے لیے کیا کچھ خزانہ کر دیا گیا ہے، تو تم اپنی غریبی وناداری پر غمزدہ نہیں ہو گے۔ عنقریب تم ایران و روم کو بھی فتح کر لو گے۔“
-" مالي وللدنيا؟! ما انا والدنيا؟! إنما مثلي ومثل الدنيا كراكب ظل تحت شجرة ثم راح وتركها".-" مالي وللدنيا؟! ما أنا والدنيا؟! إنما مثلي ومثل الدنيا كراكب ظل تحت شجرة ثم راح وتركها".
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھجور وغیرہ کے پتوں سے بنی ہوئی چٹائی پر لیٹے، اس سے آپ کے پہلو پر نشان پڑ گئے، جب آپ بیدار ہوئے تو میں نے آپ کے پہلو پر ہاتھ پھیرنا شروع کر دیے اور کہا: اے اللہ کے رسول! آپ نے ہمیں کیوں نہیں بتلایا، ہم آپ کے لیے چٹائی پر (کوئی گدا وغیرہ) بچھا دیتے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرا دنیا سے کیا تعلق ہے؟ میری دنیا سے کیا نسبت ہے؟ میری اور دنیا کی مثال اس سوار کی طرح ہے جو (سستانے کے لیے) کسی درخت کے سائے میں (چند لمحوں کے لیے) بیٹھا اور پھر اسے ترک کر کے چل دیا۔“
-" ما لي وللدنيا؟! ما مثلي ومثل الدنيا إلا كراكب سار في يوم صائف، فاستظل تحت شجرة ساعة من نهار، ثم راح وتركها".-" ما لي وللدنيا؟! ما مثلي ومثل الدنيا إلا كراكب سار في يوم صائف، فاستظل تحت شجرة ساعة من نهار، ثم راح وتركها".
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھجور وغیرہ کے پتوں سے بنی ہوئی چٹائی پر تشریف فرما تھے، اس سے آپ کے پہلو پر نشان پڑ گئے تھے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ آپ کے پاس آئے اور کہا: اے اللہ کے نبی! اگر آپ کوئی نرم بچھونا بنوا لیں (تو اچھا ہو گا)؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرا دنیا (کی آسائشوں) سے کیا تعلق ہے؟ میری اور دنیا کی مثال تو اس سوار کی طرح ہے، جو گرمی والے دن سفر کرتا رہا اور (سستانے کی خاطر) دن کی ایک گھڑی کے لیے درخت کے سائے میں قیام کیا اور پھر اسے چھوڑ کر چل دیا۔“
-" والذي نفسي بيده للدنيا اهون على الله من هذه على اهلها. يعني شاة ميتة".-" والذي نفسي بيده للدنيا أهون على الله من هذه على أهلها. يعني شاة ميتة".
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مردار بکری جس کو اس کے مالک نے (بے قیمت سمجھ کر) پھینک دیا تھا، کے پاس سے گزرے اور فرمایا: ”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! یہ مردار جس قدر اپنے مالک کے لیے حقیر ہے، دنیا اس سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ پر حقیر (اور بے وقعت) ہے۔“
-" لا باس بالغنى لمن اتقى، والصحة لمن اتقى خير من الغنى، وطيب النفس من النعيم".-" لا بأس بالغنى لمن اتقى، والصحة لمن اتقى خير من الغنى، وطيب النفس من النعيم".
معاذ بن عبداللہ بن خبیب اپنے باپ سے، وہ اپنے چچا سیدنا یسار بن عبداللہ جہنی سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ہم ایک مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں تشریف لائے اور آپ کے سر پر پانی کے نشانات تھے۔ ہم میں سے کسی نے کہا: آج ہم آپ کو (پہلے کی بہ نسبت) خوشگوار موڈ میں دیکھ رہیں ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں، (بات ایسے ہی ہے) اور اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ہے۔“ پھر لوگ مالداری کی باتوں میں مشغول ہو گئے، آپ نے ان کی گفتگو سن کر فرمایا: ”اگر آدمی متقی ہو تو مالدار ہونے میں کوئی حرج نہیں، بہرحال پرہیزگار آدمی کے لیے صحت و عافیت، مال و دولت سے بہتر ہے اور طیب النفس ہونا بھی ایک نعمت ہے۔“
-" إن آل ابى فلان ليسوا لي باولياء إنما وليي الله وصالح المؤمنين".-" إن آل أبى فلان ليسوا لي بأولياء إنما وليي الله وصالح المؤمنين".
سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخفی انداز میں نہیں، بلکہ اعلانیہ فرماتے ہوئے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بے شک ابوفلاں کی آل والے میرے دوست نہیں ہیں۔ میرے دوست تو اللہ تعالیٰ اور نیک مومن ہیں۔“