-" ثلاث من فعلهن فقد طعم طعم الإيمان: من عبد الله وحده، وانه لا إله إلا الله، واعطى زكاة ماله طيبة بها نفسه، رافدة عليه كل عام، ولا يعطي الهرمة ولا الدرنة ولا المريضة ولا الشرط: اللئيمة ولكن من وسط اموالكم، فإن الله لم يسالكم خيره ولم يامركم بشره".-" ثلاث من فعلهن فقد طعم طعم الإيمان: من عبد الله وحده، وأنه لا إله إلا الله، وأعطى زكاة ماله طيبة بها نفسه، رافدة عليه كل عام، ولا يعطي الهرمة ولا الدرنة ولا المريضة ولا الشرط: اللئيمة ولكن من وسط أموالكم، فإن الله لم يسألكم خيره ولم يأمركم بشره".
سیدنا عبداللہ بن معاویہ غاضری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے یہ تین امور سر انجام دئیے وہ ایمان کا مزہ چکھ لے گا: جس نے صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کی وہی معبود برحق ہے، اپنے دل کی خوشی کے ساتھ زکوۃ ادا کی، جو ہر سال فرض ہوتی ہے، نیز زکوۃ میں بہت بوڑھا، بیمار، مریض اور گھٹیا جانور نہیں دیا۔ معتدل و متوسط چیز ہونی چاہیے کیونکہ اللہ تعالی نے نہ بہت بہتر چیز کا مطالبہ کیا اور نہ گھٹیا چیز کا حکم دیا۔“ اور ایک روایت میں ہے: ”اس نے اپنے نفس کا تزکیہ کیا۔“ ایک آدمی نے پوچھا: تزکیہ نفس کیسے ہوتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آدمی کا یہ جان لینا کہ اللہ تعالی اس کے ساتھ ہوتا ہے، وہ جہاں بھی ہو“
-" ثلاثة لا يقبل الله منهم صرفا ولا عدلا: عاق ومنان ومكذب بالقدر".-" ثلاثة لا يقبل الله منهم صرفا ولا عدلا: عاق ومنان ومكذب بالقدر".
سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان تین قسم کے اشخاص کی فرضی عبادت قبول ہوتی ہے نہ نفلی عبادت: نافرمان و بدسلوک، احسان جتلانے والا، اور تقدیر کو جھٹلانے والا۔“
-" ثلاثة يؤتون اجورهم مرتين: رجل كانت له امة فادبها فاحسن تاديبها وعلمها فاحسن تعليمها، ثم اعتقها فتزوجها، ومملوك اعطى حق ربه عز وجل وحق مواليه، ورجل آمن بكتابه وبمحمد صلى الله عليه وسلم".-" ثلاثة يؤتون أجورهم مرتين: رجل كانت له أمة فأدبها فأحسن تأديبها وعلمها فأحسن تعليمها، ثم أعتقها فتزوجها، ومملوك أعطى حق ربه عز وجل وحق مواليه، ورجل آمن بكتابه وبمحمد صلى الله عليه وسلم".
سیدنا ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تین قسم کے افراد کو دو اجر دیئے جاتے ہیں: وہ آدمی جو اپنی لونڈی کی اخلاقی تربیت کرتا ہے، اچھی تعلیم دیتا ہے اور پھر اس کو آزاد کر کے اس سے شادی کر لیتا ہے۔ وہ غلام جو اللہ تعالیٰ اور اپنے آقا دونوں کے حقوق پورے کرتا ہے اور وہ (اہل کتاب) جو اپنی کتاب پر اور پھر محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لایا۔“
- (جاء ملك الموت إلى (وفي طريق: إن ملك الموت كان ياتي الناس عيانا، حتى اتى) موسى عليه السلام، فقال له: اجب ربك، قال: فلطم موسى عليه السلام، عين ملك الموت ففقاها، فرجع الملك إلى الله تعالى، فقال: [يا رب!] إنك ارسلتني إلى عبد لك لا يريد الموت، وقد فقا عيني، [ولولا كرامته عليك لشققت عليه]. قال: فرد الله إليه عينه، وقال: ارجع إلى عبدي فقل: الحياة تريد؟ فإن كنت تريد الحياة؛ فضع يدك على متن ثور، فما توارت يدك من شعرة؛ فإنك تعيش بها سنة، قال: [اي رب!] ثم مه؟ قال: ثم تموت، قال: فالآن من قريب، رب! امتني من الارض المقدسة رمية بحجر! [قال: فشمه شمة فقبض روحه، قال: فجاء بعد ذلك إلى الناس خفيا]. قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: والله! لو اني عنده لاريتكم قبره إلى جانب الطريق عند (وفي طريق: تحت) الكثيب الاحمر).- (جاء ملكُ الموتِ إلى (وفي طريق: إنَّ ملكَ الموتِ كان يأتي الناسَ عياناً، حتّى أتى) موسى عليه السلام، فقال له: أجب ربَّك، قال: فلطَم موسى عليه السلام، عينَ مَلكِ الموتِ ففَقأها، فرجعَ الملكُ إلى اللهِ تعالى، فقالَ: [يا ربِّ!] إنَّك أرسلتني إلى عبدٍ لكَ لا يريدُ الموتَ، وقد فقأ عيني، [ولولا كرامتُه عليك لشققتُ عليه]. قال: فردَّ اللهُ إليه عينه، وقال: ارجع إلى عبدِي فقِل: الحياة تريدُ؟ فإن كنت تريدُ الحياةَ؛ فضع يدَك على متنِ ثورٍ، فما توارت يدُك من شعرة؛ فإنّك تعيشُ بها سنةً، قال: [أي ربِّ!] ثمَّ مَه؟ قالَ: ثم تموتُ، قال: فالآن من قريبٍ، ربِّ! أمتني من الأرضِ المقدّسةِ رميةً بحجرٍ! [قال: فشمَّه شمّةً فقبض روحَه، قال: فجاء بعد ذلك إلى النّاسِ خفياً]. قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: والله! لو أني عنده لأريتُكم قبره إلى جانب الطريق عند (وفي طريق: تحت) الكثيبِ الأحمرِ).
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ نے فرمایا: ”ملک الموت (موت والا فرشتہ) لوگوں کے پاس آتا تھا اور وہ اس کو دیکھتے تھے۔ وہ موسی علیہ السلام کے پاس آیا اور کہا: اپنے رب کی بات قبول کرو (اور روح قبض کرنے دو)۔ موسی علیہ السلام نے اسے مارا اور اس کی آنکھ پھوڑ دی۔ فرشتہ اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹ گیا اور کہا: اے میرے رب! تو نے مجھے ایسے بندے کی طرف بھیجا جو مرنا نہیں چاہتا، اس نے تو (طمانچہ مار کر) میری آنکھ پھوڑ دی، اگر تو نے اسے معزز نہ بنایا ہوتا تو میں بھی اس پر سختی کرتا۔ اللہ تعالیٰ نے اسے آنکھ عطا کی اور فرمایا: میرے بندے کے پاس واپس جاؤ اور پوچھو: کیا زندگی چاہتے ہو؟ اگر ارادہ ہے تو بیل کی کمر پر ہاتھ رکھو، جتنے بال ہاتھ کے نیچے آ جائیں گے، اتنے سال تم زندہ رہو گے۔ موسی علیہ السلام نے (فرشتے کی یہ بات سن کر) کہا: اے میرے رب! پھر کیا ہو گا؟ جواب ملا: پھر تجھے موت آئے گی۔ انھوں نے کہا: اے میرے رب! ابھی موت دے دے، اس حال کہ میں پاک سرزمین سے ایک پتھر کی پھینک پر ہوں۔ پھر انہیں ایک بو سونگھائی اور ان کی روح قبض کر لی۔ اس کے بعد فرشتہ لوگوں کے پاس مخفی انداز میں آنے لگ گیا۔“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کی قسم! اگر میں وہاں ہوتا تو تمہیں سرخ ٹیلے کے پاس ان کی قبر دکھاتا۔“
- (الجنة اقرب إلى احدكم من شراك نعله، والنار مثل ذلك).- (الجنّةُ أقربُ إلى أحدِكم من شِراكِ نعلِه، والنّار مثْلُ ذلك).
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جنت تمہارے جوتے کے تسمے سے بھی زیادہ قریب ہے اور جہنم بھی اسی طرح ہے۔“
- (الحلال بين، والحرام بين، وبين ذلك شبهات، فمن اوقع بهن؛ فهو قمن ان ياثم، ومن اجتنبهن؛ فهو اوفر لدينه، كمرتع إلى جنب حمى، اوشك يقع فيه، لكل ملك حمى، وحمى الله الحرام).- (الحلال بين، والحرام بين، وبين ذلك شبهات، فمن أوقع بهن؛ فهو قمن أن يأثم، ومن اجتنبهن؛ فهو أوفر لدينه، كمرتع إلى جنب حمى، أوشك يقع فيه، لكل ملك حمى، وحمى الله الحرام).
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حلال واضح ہے اور حرام بھی واضح ہے اور ان کے درمیان کچھ مشتبہ چیزیں ہیں۔ ممکن ہے ان میں پڑنے والا گناہ میں پڑ جائے اور جس نے ان (شبہات) سے بھی اجتناب کیا تو وہ اپنے دین کو زیادہ محفوظ رکھنے والا ہو گا۔ (شبہات میں پڑنے والے کی) مثال اس چرواہے کی طرح ہے جو چراگاہ کے اردگرد جانور چراتا ہے، ممکن ہے وہ (جانور کسی دوسرے کے کھیت میں) گھس جائے۔ ہر بادشاہ کا ممنوعہ علاقہ ہوتا ہے اور اللہ تعالی کا ممنوعہ علاقہ حرام کردہ چیزیں ہیں۔“
-" ذاك جبريل عرض لي في جانب الحرة، فقال: بشر امتك انه من مات لا يشرك بالله شيئا دخل الجنة. فقلت: يا جبريل وإن سرق وإن زنى؟ قال: نعم، قال: قلت: وإن سرق وإن زنى؟ قال: نعم. قال: قلت: وإن سرق وإن زنى؟ قال: نعم وإن شرب الخمر".-" ذاك جبريل عرض لي في جانب الحرة، فقال: بشر أمتك أنه من مات لا يشرك بالله شيئا دخل الجنة. فقلت: يا جبريل وإن سرق وإن زنى؟ قال: نعم، قال: قلت: وإن سرق وإن زنى؟ قال: نعم. قال: قلت: وإن سرق وإن زنى؟ قال: نعم وإن شرب الخمر".
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں ایک رات کو نکلا، کیا دیکھتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے چل رہے ہیں، آپ کے ساتھ کوئی آدمی نہیں تھا۔ میں نے سمجھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم شاید اس بات کو ناپسند کرتے ہیں کہ آپ کے ساتھ کوئی چلے۔ میں نے چاند کے سائے میں چلنا شروع کر دیا۔ آپ میری طرف متوجہ ہوئے، مجھے دیکھا اور پوچھا: ”یہ کون ہے؟“ میں نے کہا: میں ابوذر ہوں، اللہ مجھے آپ پر قربان کرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابوذر ادھر آؤ۔“ میں آپ کے پاس گیا اور آپ کے ساتھ کچھ دیر چلتا رہا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا: ”قیامت والے روز کثیر مال و دولت والے اجر و ثواب میں کم ہوں گے، مگر جس کو اللہ تعالیٰ نے مال دیا اور اس نے (صدقہ کرتے ہوئے) اسے دائیں بائیں اور آگے پیچھے بکھیر دیا اور اس کے ذریعے نیک اعمال کئے۔“ پھر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلتا رہا، حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہاں بیٹھ جاؤ۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایسی ہموار زمین پر بٹھایا، جس کے اردگرد پتھر پڑے ہوئے تھے۔ پھر فرمایا: ”میرے واپس آنے تک یہاں بیٹھے رہو۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم حرہ (کالے پتھروں والی زمین) کی طرف چلے گئے اور نظروں سے اوجھل ہو گئے، آپ وہاں کافی دیر تک ٹھہرے رہے۔ پھر میں نے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرماتے ہوئے آ رہے تھے: ”اگرچہ وہ چوری بھی کرے اور زنا بھی کرے۔“ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس پہنچے تو مجھ سے صبر نہ ہو سکا اور میں نے کہا: اے اللہ کے نبی! مجھے اللہ تعالی آپ پر قربان کرے! آپ حرہ زمین کے پاس کس سے گفتگو کر رہے تھے؟ پھر آپ کو کوئی جواب بھی نہیں دے رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ جبریل تھا، حرہ کے ساتھ ہی وہ مجھے ملا اور کہا: (اے محمد!) اپنی امت کو خوشخبری سنا دو کہ جو اس حال میں مرے کہ اس نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا ہو، وہ جنت میں داخل ہو گا۔ میں نے کہا: جبریل! اگرچہ اس نے چوری بھی کی ہو اور زنا بھی کیا ہو؟ اس نے کہا: جی ہاں۔ میں نے کہا: اگرچہ اس نے چوری بھی کی ہو اور زنا بھی کیا ہو؟ اس نے کہا: جی ہاں۔ میں نے کہا: اگرچہ وہ چوری بھی کرے اور زنا بھی کرے؟ اس نے کہا: جی ہاں اور اگرچہ وہ شراب بھی پی لیا ہو۔“
-" ذر الناس يعملون، فإن في الجنة مائة درجة ما بين كل درجتين كما بين السماء والارض، والفردوس اعلى الجنة واوسطها وفوق ذلك عرش الرحمن ومنها تفجر انهار الجنة، فإذا سالتم الله فاسالوه الفردوس".-" ذر الناس يعملون، فإن في الجنة مائة درجة ما بين كل درجتين كما بين السماء والأرض، والفردوس أعلى الجنة وأوسطها وفوق ذلك عرش الرحمن ومنها تفجر أنهار الجنة، فإذا سألتم الله فاسألوه الفردوس".
سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے رمضان کے روزے رکھے، نماز قائم کی اور بیت اللہ کا حج کیا۔ مجھے اس بات کا علم نہ ہو سکا آیا آپ نے زکاۃ کا ذکر کیا یا نہیں۔ مگر اللہ تعالی پر لازم ہے کہ اسے بخش دے، اگرچہ اس نے اللہ کے راستے میں ہجرت کی ہو یا اپنے پیدائشی علاقے میں ٹھہرا ہوا ہو۔“ سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا میں لوگوں کو یہ حدیث بیان کروں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رہنے دو، تاکہ وہ مزید عمل کرتے رہیں، کیونکہ جنت میں سو درجے ہیں، ہر دو درجوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا زمین و آسمان کے مابین ہے اور جنت کا اعلیٰ و افضل مقام فردوس ہے، اس کے اوپر رحمٰن کا عرش ہے، وہاں سے جنت کی نہریں پھوٹتی ہیں۔ جب اللہ تعالی سے سوال کرو تو جنت الفردوس کا سوال کیا کرو۔“
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ایک آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم (قبولیت اسلام سے قبل) ایسے علاقے میں تھے، جہاں ہماری تعداد زیادہ اور مال کثیر مقدار میں تھا، اب ہم ایسے علاقے میں منتقل ہو گئے ہیں جہاں تعداد بھی کم ہو گئی ہے اور مال کی مقدار میں بھی کمی آئی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس علاقے کو ترک کر دو، یہ مذموم ہے۔“