-" وانا اشهد، واشهد: ان لا يشهد بها احد إلا برئ من الشرك. يعني الشهادتين".-" وأنا أشهد، وأشهد: أن لا يشهد بها أحد إلا برئ من الشرك. يعني الشهادتين".
یوسف بن عبداللہ بن سلام اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چل رہے تھے، آپ نے ایک وادی سے ایک آدمی کو یہ کہتے ہوئے سنا: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ ہی معبود برحق ہے اور محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ کے رسول ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اور میں بھی گواہی دیتا ہوں، مزید میں یہ شہادت بھی دیتا ہوں کہ جو آدمی ایسی گواہی دے گا وہ شرک سے بری ہو جائے گا۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد دو شہادتیں (توحید و رسالت) ہیں۔ یہ امام نسائی کے الفاظ ہیں اور امام طبرانی نے روایت کے شروع میں یہ اضافہ کیا ہے: (انہوں نے سنا کہ) لوگ پوچھ رہے تھے: اے اللہ کے رسول! کون سے اعمال افضل ہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ اور رسول پر ایمان لانا، اللہ کے راستے میں جہاد کرنا اور حج مبرور کرنا، پھر سنا۔۔۔۔۔۔“
تخریج الحدیث: «أخرجه النسائي فى ”عمل اليوم الليلة“: 39/155، والطبراني فى ”الأوسط“: 9059/2/266/2، وسعيد بن منصور فى ”سننه“ 2338/141/2/3، و احمد وابن عبد الله: 451/5»
-" ما من نفس تموت وهي تشهد ان لا إله إلا الله واني رسول الله، يرجع ذلك إلى قلب موقن إلا غفر الله لها".-" ما من نفس تموت وهي تشهد أن لا إله إلا الله وأني رسول الله، يرجع ذلك إلى قلب موقن إلا غفر الله لها".
سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو انسان اس حال میں مرتا ہے کہ وہ یقین کرنے والے دل سے گواہی دیتا ہو کہ اللہ ہی معبود برحق ہے اور میں اللہ کا رسول ہوں، اللہ تعالیٰ اسے بخش دیتے ہیں۔“
تخریج الحدیث: «أخرجه ابن ماجه: 419/2، وابن حبان: 5، و أحمد: 5/ 229، والحميدي: 370، و النسائي فى ”اليوم والليلة“: 1136 - 1139»
-" خمس لا يعلمهن إلا الله: * (إن الله عنده علم الساعة وينزل الغيث ويعلم ما في الارحام وما تدري نفس ماذا تكسب غدا وما تدري نفس باي ارض تموت إن الله عليم خبير) *".-" خمس لا يعلمهن إلا الله: * (إن الله عنده علم الساعة وينزل الغيث ويعلم ما في الأرحام وما تدري نفس ماذا تكسب غدا وما تدري نفس بأي أرض تموت إن الله عليم خبير) *".
سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”پانچ چیزیں ہیں، انہیں صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے: بیشک اللہ تعالیٰ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے، وہی بارش نازل فرماتا اور جو کچھ ماں کے پیٹ میں ہے اسے وہی جانتا ہے، کوئی بھی نہیں جانتا کہ کل وہ کیا کچھ کرے گا، نہ کسی کو یہ معلوم ہو کہ کس زمین میں مرے گا۔ یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ ہی پورے علم والا ہے اور صحیح خبروں والا ہے۔“(سورۃ لقمان: 34)“
-" ابشروا ابشروا اليس تشهدون ان لا إله إلا الله واني رسول الله؟ قالوا: نعم، قال: فإن هذا القرآن سبب طرفه بيد الله وطرفه بايديكم، فتمسكوا به، فإنكم لن تضلوا ولن تهلكوا بعده ابدا".-" أبشروا أبشروا أليس تشهدون أن لا إله إلا الله وأني رسول الله؟ قالوا: نعم، قال: فإن هذا القرآن سبب طرفه بيد الله وطرفه بأيديكم، فتمسكوا به، فإنكم لن تضلوا ولن تهلكوا بعده أبدا".
سیدنا ابوشریح خزاعی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا: ”خوش ہو جاؤ، خوش ہو جاؤ، کیا تم لوگ یہ شہادت نہیں دیتے کہ اللہ ہی معبود برحق ہے اور میں اللہ کا رسول ہوں؟“ صحابہ نے کہا: جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ قرآن ایک رسی ہے، اس کا ایک کنارہ اللہ کے ہاتھ میں ہے اور دوسرا کنارہ تمہارے ہاتھ میں ہے، اس کو مضبوطی سے پکڑے رکھو، کیونکہ اس کے بعد تم ہرگز نہ گمراہ ہو سکتے ہو اور نہ ہلاک۔“
تخریج الحدیث: «رواه عبد بن حميد فى ”المنتخب المسند“: 1/58، وابن أبى شيبة فى ”المصنف“: 165/12، وعنه ابن حبان فى ”صحيحه“: 1792 - موارد، والطبراني فى ”المعجم الكبير“: 491/188/22»
-" قال الله تبارك وتعالى: الحسنة بعشر امثالها او ازيد والسيئة واحدة او اغفرها ولو لقيتني بقراب الارض خطايا ما لم تشرك بي لقيتك بقرابها مغفرة".-" قال الله تبارك وتعالى: الحسنة بعشر أمثالها أو أزيد والسيئة واحدة أو أغفرها ولو لقيتني بقراب الأرض خطايا ما لم تشرك بي لقيتك بقرابها مغفرة".
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہمیں صادق و مصدوق (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) نے اپنے رب سے روایت کرتے ہوئے بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”نیکی کا بدلہ دس گنا یا اس سے بھی زیادہ عطا کرتا ہوں اور برائی کا بدلہ ایک گنا دوں گا یا اسے بھی معاف کر دوں گا۔ (اے میرے بندے!) اگر تو زمین کے لگ بھگ گناہ لے کر مجھے ملے، تو میں تجھے اتنی ہی بخشش عطا کر دوں گا، بشرطیکہ تو نے میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا ہو۔“
تخریج الحدیث: «رواه الحاكم 241/4، و أحمد: 108/5، وابن حبان: 226/225/1، وهو عند مسلم 67/8 بأتم منه»
-" يقول الله عز وجل: من عمل حسنة فله عشر امثالها او ازيد ومن عمل سيئة فجزاؤها مثلها او اغفر ومن عمل قراب الارض خطيئة، ثم لقيني لا يشرك بي شيئا جعلت له مثلها مغفرة ومن اقترب إلي شبرا اقتربت إليه ذراعا ومن اقترب إلي ذراعا اقتربت إليه باعا ومن اتاني يمشي اتيته هرولة".-" يقول الله عز وجل: من عمل حسنة فله عشر أمثالها أو أزيد ومن عمل سيئة فجزاؤها مثلها أو أغفر ومن عمل قراب الأرض خطيئة، ثم لقيني لا يشرك بي شيئا جعلت له مثلها مغفرة ومن اقترب إلي شبرا اقتربت إليه ذراعا ومن اقترب إلي ذراعا اقتربت إليه باعا ومن أتاني يمشي أتيته هرولة".
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالی کہتے ہیں: جس نے ایک نیکی کی، اسے دس گنا یا اس سے بھی زیادہ اجر و ثواب عطا کروں گا اور جس نے ایک برائی کی تو ایک برائی کا ہی بدلہ دوں گا یا وہ بھی معاف کر دوں گا۔ جو زمین کے لگ بھگ گناہ کرنے کے بعد مجھے اس حالت میں ملے کہ اس نے میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرا رکھا ہو تو میں اسے اتنی ہی مغفرت عطا کر دوں گا۔ جو ایک بالشت میرے قریب ہو گا میں ایک ہاتھ اس کے قریب ہوں گا، جو ایک ہاتھ میرے قریب ہو گا میں دو ہاتھوں کے پھیلاؤ کے بقدر اس کے قریب ہوں گا اور میری طرف چل کر آئے گا میں اس کی طرف لپک کر جاؤں گا۔“
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم: 67/8، و ابن ماجه: 3821، و أحمد: 53/5، 169، واللفظ له، والطيالسي: 464/62»
-" من لقي الله لا يشرك به شيئا لم يتند بدم حرام، دخل الجنة".-" من لقي الله لا يشرك به شيئا لم يتند بدم حرام، دخل الجنة".
سیدنا عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو اللہ تعالیٰ کو اس حال میں ملے کہ اس نے اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا ہو اور نہ کسی کو ناحق قتل کیا ہو، وہ جنت میں داخل ہو گا۔“
تخریج الحدیث: «أخرجه أحمد: 152/4، و راوه ابن أبى شيبة فى ”مسنده“ كما فى ”زوائد ابن ماجه“. ق 2/162، للبوصيري، و ابن ماجه: 2618، والحاكم: 351/4»
-" من وحد الله تعالى وكفر بما يعبد من دونه حرم ماله ودمه وحسابه على الله عز وجل".-" من وحد الله تعالى وكفر بما يعبد من دونه حرم ماله ودمه وحسابه على الله عز وجل".
ابومالک اشجعی اپنے باپ سیدنا طارق بن اشیم رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے اللہ تعالیٰ کو یکتا و یگانہ قرار دیا اور اس کے علاوہ (سب معبودانِ باطلہ) کا انکار کر دیا، تو اس کا مال اور خون حرمت والا قرار پائے گا اور اس کا حساب اللہ تعالیٰ پر ہو گا۔“
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم: 40/1، و ابن حبان: 1/ 171/197، و أحمد: 472/3، 394/6، 395»
-" ذاك جبريل عرض لي في جانب الحرة، فقال: بشر امتك انه من مات لا يشرك بالله شيئا دخل الجنة. فقلت: يا جبريل وإن سرق وإن زنى؟ قال: نعم، قال: قلت: وإن سرق وإن زنى؟ قال: نعم. قال: قلت: وإن سرق وإن زنى؟ قال: نعم وإن شرب الخمر".-" ذاك جبريل عرض لي في جانب الحرة، فقال: بشر أمتك أنه من مات لا يشرك بالله شيئا دخل الجنة. فقلت: يا جبريل وإن سرق وإن زنى؟ قال: نعم، قال: قلت: وإن سرق وإن زنى؟ قال: نعم. قال: قلت: وإن سرق وإن زنى؟ قال: نعم وإن شرب الخمر".
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں ایک رات کو نکلا، کیا دیکھتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے چل رہے تھے، آپ کے ساتھ کوئی آدمی نہیں تھا۔ میں نے سمجھا کہ شائد آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس بات کو ناپسند کرتے ہیں کہ آپ کے ساتھ کوئی چلے۔ میں نے چاند کے سائے میں چلنا شروع کر دیا۔ آپ میری طرف متوجہ ہوئے، مجھے دیکھا اور پوچھا: ”یہ کون ہے؟“ میں نے کہا: میں ابوذر ہوں، اللہ مجھے آپ پر قربان کرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابوذر! ادھر آؤ۔“ میں آپ کے پاس گیا اور آپ کے ساتھ کچھ دیر چلتا رہا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا: ”قیامت والے روز کثیر مال و دولت والے اجر و ثواب میں کم ہوں گے، مگر جس کو اللہ تعالیٰ نے مال دیا اور اس نے (صدقہ کرتے ہوئے) اسے دائیں بائیں اور آگے پیچھے بکھیر دیا اور اس کے ذریعے نیک اعمال کیے۔“ پھر میں آپ کے ساتھ چلتا رہا، حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہاں بیٹھ جاؤ۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایسی ہموار زمین میں بٹھایا، جس کے ارد گرد پتھر پڑے ہوئے تھے۔ پھر فرمایا: ”میرے واپس آنے تک یہاں بیٹھے رہو۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم حرہ (کالے پتھروں والی زمین) کی طرف چلے گئے اور نظروں سے اوجھل ہو گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں کافی دیر تک ٹھہرے رہے۔ پھر میں نے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرماتے ہوئے آ رہے تھے: ”اگرچہ وہ چوری بھی کرے اور زنا بھی کرے۔“ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس پہنچے تو مجھ سے صبر نہ ہو سکا اور میں نے کہا: اے اللہ کے نبی! مجھے اللہ تعالیٰ آپ پر قربان کرے! آپ حرہ زمین کے پاس کس سے گفتگو کر رہے تھے؟ پھر آپ کو کوئی جواب بھی نہیں دے رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ جبریل تھا، حرہ کے ساتھ ہی وہ مجھے ملا اور کہا: (اے محمد!) اپنی امت کو خوشخبری سنا دو کہ جو اس حال میں مرے کہ اس نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا ہو، وہ جنت میں داخل ہو گا۔ میں نے کہا: جبریل! اگرچہ اس نے چوری بھی کی ہو اور زنا بھی کیا ہو؟۔ اس نے کہا: جی ہاں۔ میں نے کہا: اگرچہ اس نے چوری بھی کی ہو اور زنا بھی کیا ہو؟۔ میں نے کہا: جی ہاں۔ میں نے کہا: اگرچہ اس نے چوری بھی کی ہو اور زنا بھی کیا ہو؟۔ اس نے کہا: جی ہاں اور اگرچہ اس نے شراب بھی پی ہو۔“
تخریج الحدیث: «أخرجه البخارى: 79/8 - نهضة، وفى ”الأدب المفرد“: 803، ومسلم: 76/3، و الترمذي 269/3، و ابن حبان فى ”صحيحه“: 170 - الاحسان، و أحمد: 1523/5»
- (كان رجل ممن كان قبلكم لم يعمل خيرا قط؛ إلا التوحيد، فلما احتضر قال لاهله: انظروا: إذا انا مت ان يحرقوه حتى يدعوه حمما، ثم اطحنوه، ثم اذروه في يوم ريح، [ثم اذروا نصفه في البر، ونصفه في البحر، فوالله؛ لئن قدر الله عليه ليعذبنه عذابا لا يعذبه احدا من العالمين]، فلما مات فعلوا ذلك به، [فامر الله البر فجمع ما فيه، وامر البحر فجمع ما فيه]، فإذا هو [قائم] في قبضة الله، فقال الله عز وجل: يا ابن آدم! ما حملك على ما فعلت؟ قال: اي رب! من مخافتك (وفي طريق آخر: من خشيتك وانت اعلم)، قال: فغفر له بها، ولم يعمل خيرا قط إلا التوحيد).- (كانَ رجلٌ ممَّن كان قبلكم لم يعمل خيراً قطُّ؛ إلا التوحيد، فلما احتُضر قال لأهله: انظروا: إذا أنا متُّ أن يحرِّقوه حتى يدعوه حمماً، ثم اطحنوه، ثم اذروه في يوم ريح، [ثم اذروا نصفه في البر، ونصفه في البحر، فوالله؛ لئن قدر الله عليه ليعذبنه عذاباً لا يعذبه أحداً من العالمين]، فلما مات فعلوا ذلك به، [فأمر الله البر فجمع ما فيه، وأمر البحر فجمع ما فيه]، فإذا هو [قائم] في قبضة الله، فقال الله عز وجل: يا ابن آدم! ما حملك على ما فعلت؟ قال: أي ربِّ! من مخافتك (وفي طريق آخر: من خشيتك وأنت أعلم)، قال: فغفر له بها، ولم يعمل خيراً قطُّ إلا التوحيد).
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم سے پہلے ایک آدمی تھا، اس نے کوئی نیک عمل نہیں کیا تھا، ماسوائے توحید کے۔ جب اس کی موت کا وقت آیا تو اس نے اپنے کنبے والوں سے کہا: غور سے سنو: اگر میں مر گیا تو مجھے جلا کر کوئلہ بنا دینا، پھر پیس کر نصف خشکی کی ہوا میں اُڑا دینا اور نصف سمندر میں بہا دینا۔ اگر اللہ تعالیٰ مجھ پر قادر آ گیا تو وہ مجھے ایسا شدید عذاب دے گا جو جہانوں میں کسی کو نہ دیا ہو گا۔ جب وہ مر گیا تو انہوں نے ایسے ہی کیا۔ ادھر اللہ تعالیٰ نے خشکی کو حکم دیا، اس نے اس کے ذرات جمع کر دئیے اور سمندر کو حکم دیا، اس نے بھی اس کے اجزا جمع کر دئیے، اچانک (اسے وجود عطا کیا گیا اور) وہ اللہ تعالیٰ کی گرفت میں کھڑا نظر آیا۔ اللہ تعالیٰ نے پوچھا: ابن آدم! تجھے تیرے کیے پر کس چیز نے اکسایا تھا؟ اس نے کہا: اے میرے رب! (میں نے سارا کچھ) تیرے ڈر سے (کروایا)، اور تو جانتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے اس سے ڈرنے کی وجہ سے معاف کر دیا، حالانکہ اس کا کوئی نیک عمل نہیں تھا، ماسوائے توحید کے۔“
تخریج الحدیث: «أخرجه أحمد: 304/2، والحديث أخرجه مالك: 1/ 238، و من طريقه البخاري: 7506، و مسلم: 97/8، من طرق اخرى عن ابي هريرة»