Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سلسله احاديث صحيحه
الايمان والتوحيد والدين والقدر
ایمان توحید، دین اور تقدیر کا بیان
پانچ امور کا تعلق اللہ تعالیٰ کے علم غیب سے ہے
حدیث نمبر: 13
-" خمس لا يعلمهن إلا الله: * (إن الله عنده علم الساعة وينزل الغيث ويعلم ما في الأرحام وما تدري نفس ماذا تكسب غدا وما تدري نفس بأي أرض تموت إن الله عليم خبير) *".
سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: پانچ چیزیں ہیں، انہیں صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے: بیشک اللہ تعالیٰ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے، وہی بارش نازل فرماتا اور جو کچھ ماں کے پیٹ میں ہے اسے وہی جانتا ہے، کوئی بھی نہیں جانتا کہ کل وہ کیا کچھ کرے گا، نہ کسی کو یہ معلوم ہو کہ کس زمین میں مرے گا۔ یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ ہی پورے علم والا ہے اور صحیح خبروں والا ہے۔ (سورۃ لقمان: 34)

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏أخرجه أحمد: 353/5، والبزار: 2249/65/3» ‏‏‏‏

سلسلہ احادیث صحیحہ کی حدیث نمبر 13 کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد محفوظ حفظہ الله، فوائد و مسائل، صحیحہ 13  
فوائد:
اللہ تعالی نے انسان کو حصولِ علم کے لیے درج ذیل پانچ اسباب عطا کیے ہیں:
❀ دیکھنا، سونگنا، چکھنا، سننا، چھونا۔
❀ ان پانچ ذرائع کو حواس خمسہ کہتے ہیں، آدمی جو علم ان حواس خمسہ کے ذریعے حاصل کرتا ہے، اسے علم غیب نہیں کہتے۔ علم غیب وہ ہے جو ان پانچ اسباب کے ذریعے حاصل نہ ہو سکے۔
❀ غیب کی جرئیات و کلیات کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے، اس معاملے میں کوئی نبی اور ولی اللہ تعالی کا ساجھی نہیں ہے اور نہ اللہ تعالی نے کسی کو یہ صلاحیت دی ہے۔ اس آیت میں صرف پانچ اہم امور کا ذکر ہے۔
❀ آجکل کہا جاتا ہے کہ بارش کے نزول کا وقت اور ماں کے رحم میں موجود جنس کا تعین کر لیا جاتا ہے؟
قارئین کرام! اگر علم غیب کی تعریف پر غور کیا جائے تو سرے سے یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، کیونکہ بعض آلات کے ذریعے بعض علامتوں کو دیکھ کر بارش کے نزول یا رحم مادر میں موجود جنسیت کا ناقص سا اندازہ پیش کیا جا سکتا ہے۔ علم غیب کی صورت تو یہ ہے کہ کوئی آلہ استعمال کیے یا نبض دیکھے بغیر کسی عورت کے بارے میں یہ بتلا دیا جائے کہ اس کو فلاں فلاں وقت میں، فلاں فلاں مقام پر یکے بعد دیگرے اتنے بچے پیدا ہوں گے، ان کی شکل و صورت اس قسم کی ہو گی، ان کے یہ نام رکھے جائیں گے، وہ خوش بخت ہوں یا سعادت مند، ان کا رنگ اس قسم کا ہو گا، وہ ناقص ہوں گے یا کامل، وہ اتنی اتنی عمر پائیں گے، وغیرہ وغیرہ۔ اور یہ صلاحیت اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی میں نہیں ہے۔
آپ نے دیکھا ہو گا کہ محکمہ موسمیات کے اعلانات اور پیشین گوئیاں بعض دفعہ غلط ثابت ہوتی ہیں، دوسری بات یہ ہے کہ وہ بھی اعلان کرتے وقت کسی چھوٹے اور مخصوص خطے کا تعین نہیں کرتے، بلکہ ڈویژن جیسے بڑے سے خطے کا تعین کر کے اس میں بارش کے ہونے یا نہ ہونے کے امکان کی خبر دیتے ہیں، حتمی اور قطعی بات کا دعوی نہیں کرتے۔
در اصل بات یہ ہے کہ صدیوں سے اللہ تعالی کا یہ نظام باندازِ احسن جاری و ساری ہے، اسی نظام کے بعض آثار اور علامتوں کو دیکھ کر اور ماضی میں ان علامتوں کے نتائج کو سامنے رکھ کر یہ تخمینہ تو لگایا جا سکتا ہے کہ اگلے بارہ یا چوبیسں گھنٹوں میں یہ کچھ ہونا یا نہ ہونا ممکن نظر آ رہا ہے۔
یہ تخمینے تجربات اور مشاہدات کا حصہ ہیں۔ اس تخمینے کی حیثیت ایسے ہی ہے جیسے دیہاتوں میں بسنے والے لوگ موسم کی کیفیت دیکھ کر یہ اندازہ کر لیتے ہیں کہ آج بارش کا نزول ہو گا، کیونکہ ان کا تجربہ ہوتا ہے کہ ماضی میں اس قسم کی کیفیت کے بعد اکثر بارش آ جاتی ہے، لیکن ہوتا کیا ہے کہ کبھی ان کے اندازے کے مطابق بارش ہو جاتی ہے، کبھی آندھیاں اور طوفان چل پڑتے ہیں، کبھی خشک ہوائیں چلنے لگتی ہیں اور کبھی بارش برسائے بغیر بادل آگے کو گزر جاتے ہیں۔
رہا مسئلہ اللہ تعالی کا، تو ابھی تک پانی بخارات کی شکل اختیار کرتا ہے کہ اللہ تعالی کو اس کے ایک ایک قطرے کا علم ہوتا ہے کہ وہ کہاں گرے، اس کی کمیت کیا ہو گی اور وہ نقصان دہ ہو گا یا نفع بخش، وغیرہ۔
   سلسله احاديث صحيحه شرح از محمد محفوظ احمد، حدیث/صفحہ نمبر: 13