(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا ابن لهيعة، عن عمرو بن شعيب، عن ابيه، عن جده، ان امراتين اتتا رسول الله صلى الله عليه وسلم وفي ايديهما سواران من ذهب، فقال لهما: " اتؤديان زكاته؟ " قالتا: لا، قال: فقال لهما رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اتحبان ان يسوركما الله بسوارين من نار؟ " قالتا: لا، قال: " فاديا زكاته ". قال ابو عيسى: وهذا حديث قد رواه المثنى بن الصباح عن عمرو بن شعيب نحو هذا، والمثنى بن الصباح، وابن لهيعة يضعفان في الحديث، ولا يصح في هذا الباب، عن النبي صلى الله عليه وسلم شيء.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّ امْرَأَتَيْنِ أَتَتَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَفِي أَيْدِيهِمَا سُوَارَانِ مِنْ ذَهَبٍ، فَقَالَ لَهُمَا: " أَتُؤَدِّيَانِ زَكَاتَهُ؟ " قَالَتَا: لَا، قَالَ: فَقَالَ لَهُمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَتُحِبَّانِ أَنْ يُسَوِّرَكُمَا اللَّهُ بِسُوَارَيْنِ مِنْ نَارٍ؟ " قَالَتَا: لَا، قَالَ: " فَأَدِّيَا زَكَاتَهُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا حَدِيثٌ قَدْ رَوَاهُ الْمُثَنَّى بْنُ الصَّبَّاحِ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ نَحْوَ هَذَا، وَالْمُثَنَّى بْنُ الصَّبَّاحِ، وَابْنُ لَهِيعَةَ يُضَعَّفَانِ فِي الْحَدِيثِ، وَلَا يَصِحُّ فِي هَذَا الْبَاب، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْءٌ.
عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ دو عورتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں ان کے ہاتھوں میں سونے کے دو کنگن تھے، تو آپ نے ان سے فرمایا: ”کیا تم دونوں اس کی زکاۃ ادا کرتی ہو؟“ انہوں نے عرض کیا: نہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”کیا تم پسند کرو گی کہ اللہ تم دونوں کو آگ کے دو کنگن پہنائے؟“ انہوں نے عرض کیا: نہیں، آپ نے فرمایا: ”تو تم دونوں ان کی زکاۃ ادا کرو“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: اس حدیث کو مثنیٰ بن صباح نے بھی عمرو بن شعیب سے اسی طرح روایت کیا ہے اور مثنیٰ بن صباح اور ابن لہیعہ دونوں حدیث میں ضعیف گردانے جاتے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس باب میں کوئی چیز صحیح نہیں ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 8730) (حسن) (یہ حدیث اس سیاق سے ضعیف ہے، سند میں ابن لہیعہ ضعیف ہیں، مگر دوسری سند اور دوسرے سیاق سے یہ حدیث حسن ہے، الإرواء 3/296، صحیح ابی داود 1396)»
قال الشيخ الألباني: حسن بغير هذا اللفظ، الإرواء (3 / 296) // 817 //، المشكاة (1809)، صحيح أبي داود (1396)
(مرفوع) حدثنا علي بن خشرم، اخبرنا عيسى بن يونس، عن الحسن بن عمارة، عن محمد بن عبد الرحمن بن عبيد، عن عيسى بن طلحة، عن معاذ انه كتب إلى النبي صلى الله عليه وسلم يساله عن الخضراوات وهي البقول، فقال: " ليس فيها شيء ". قال ابو عيسى: إسناد هذا الحديث ليس بصحيح، وليس يصح في هذا الباب عن النبي صلى الله عليه وسلم شيء، وإنما يروى هذا عن موسى بن طلحة، عن النبي صلى الله عليه وسلم مرسلا، والعمل على هذا عند اهل العلم ان ليس في الخضراوات صدقة، قال ابو عيسى: والحسن هو ابن عمارة، وهو ضعيف عند اهل الحديث ضعفه شعبة وغيره وتركه ابن المبارك.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ، أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنْ الْحَسَنِ بْنِ عُمَارَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عُبَيْدٍ، عَنْ عِيسَى بْنِ طَلْحَةَ، عَنْ مُعَاذٍ أَنَّهُ كَتَبَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْأَلُهُ عَنْ الْخَضْرَاوَاتِ وَهِيَ الْبُقُولُ، فَقَالَ: " لَيْسَ فِيهَا شَيْءٌ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: إِسْنَادُ هَذَا الْحَدِيثِ لَيْسَ بِصَحِيحٍ، وَلَيْسَ يَصِحُّ فِي هَذَا الْبَاب عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْءٌ، وَإِنَّمَا يُرْوَى هَذَا عَنْ مُوسَى بْنِ طَلْحَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُرْسَلًا، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنْ لَيْسَ فِي الْخَضْرَاوَاتِ صَدَقَةٌ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَالْحَسَنُ هُوَ ابْنُ عُمَارَةَ، وَهُوَ ضَعِيفٌ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ ضَعَّفَهُ شُعْبَةُ وَغَيْرُهُ وَتَرَكَهُ ابْنُ الْمُبَارَكِ.
معاذ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو لکھا، وہ آپ سے سبزیوں کی زکاۃ کے بارے میں پوچھ رہے تھے تو آپ نے فرمایا: ”ان میں کوئی زکاۃ نہیں ہے“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس حدیث کی سند صحیح نہیں ہے، ۲- اور اس باب میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی چیز صحیح نہیں ہے، اور اسے صرف موسیٰ بن طلحہ سے روایت کیا جاتا ہے اور انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرسلاً روایت کی ہے، ۳- اسی پر اہل علم کا عمل ہے کہ سبزیوں میں زکاۃ نہیں ہے، ۴- حسن، عمارہ کے بیٹے ہیں، اور یہ محدثین کے نزدیک ضعیف ہیں۔ شعبہ وغیرہ نے ان کی تضعیف کی ہے، اور ابن مبارک نے انہیں متروک قرار دیا ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 11354) (صحیح) (سند میں حسن بن عمارہ ضعیف ہیں، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے، دیکھئے: إرواء الغلیل رقم: 801)»
وضاحت: ۱؎: یہ روایت اگرچہ ضعیف ہے لیکن چونکہ متعدد طرق سے مروی ہے جس سے تقویت پا کر یہ اس قابل ہو جاتی ہے کہ اس سے استدلال کیا جا سکے، اسی لیے اہل علم نے زکاۃ کے سلسلہ میں وارد نصوص کے عموم کی اس حدیث سے تخصیص کی ہے اور کہا ہے کہ سبزیوں میں زکاۃ نہیں ہے۔ اس حدیث سے بھی ثابت ہوا اور دیگر بیسیوں روایات سے بھی واضح ہوتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے درمیان، صحابہ کرام کا آپس میں ایک دوسرے کے درمیان اور غیر مسلم بادشاہوں، سرداروں اور امراء اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مابین تحریری خط وکتابت کا سلسلہ عہد نبوی و عہد صحابہ میں جاری تھا، قارئین کرام منکرین حدیث کی دروغ گوئی اور کذب بیانی سے خبردار رہیں، اصل دین کے دشمن یہی لوگ ہیں۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، الإرواء (3 / 279)
قال الشيخ زبير على زئي: (638) إسناده ضعيف الحسن بن عمارة ضعيف كما قال الترمزي وغيره، بل هو متروك (تق:1264) وقال الحافظ ابن حجر: وضعفه الجمھور (طبقات المدلسين:5/134) وللحديث شواھد ضعيفة
(مرفوع) حدثنا ابو موسى الانصاري، حدثنا عاصم بن عبد العزيز المدني، حدثنا الحارث بن عبد الرحمن بن ابي ذباب، عن سليمان بن يسار، وبسر بن سعيد، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " فيما سقت السماء والعيون العشر، وفيما سقي بالنضح نصف العشر ". قال: وفي الباب عن انس بن مالك، وابن عمر، وجابر. قال ابو عيسى: وقد روي هذا الحديث عن بكير بن عبد الله بن الاشج، وعن سليمان بن يسار، وبسر بن سعيد، عن النبي صلى الله عليه وسلم مرسلا، وكان هذا اصح وقد صح حديث ابن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم في هذا الباب، وعليه العمل عند عامة الفقهاء.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ الْمَدَنِيُّ، حَدَّثَنَا الْحَارِثُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي ذُبَاب، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، وَبُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " فِيمَا سَقَتِ السَّمَاءُ وَالْعُيُونُ الْعُشْرُ، وَفِيمَا سُقِيَ بِالنَّضْحِ نِصْفُ الْعُشْرِ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، وَابْنِ عُمَرَ، وَجَابِرٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ بُكَيْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْأَشَجِّ، وَعَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، وَبُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُرْسَلًا، وَكَأَنَّ هَذَا أَصَحُّ وَقَدْ صَحَّ حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذَا الْبَاب، وَعَلَيْهِ الْعَمَلُ عِنْدَ عَامَّةِ الْفُقَهَاءِ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس فصل کی سینچائی بارش یا نہر کے پانی سے کی گئی ہو، اس میں زکاۃ دسواں حصہ ہے، اور جس کی سینچائی ڈول سے کھینچ کر کی گئی ہو تو اس میں زکاۃ دسویں حصے کا آدھا یعنی بیسواں حصہ ۱؎ ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں انس بن مالک، ابن عمر اور جابر سے بھی احادیث آئی ہیں، ۲- یہ حدیث بکیر بن عبداللہ بن اشج، سلیمان بن یسار اور بسر بن سعید سے بھی روایت کی گئی ہے، اور ان سب نے اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرسلاً روایت کی ہے، گویا یہ زیادہ صحیح ہے، ۳- اور اس باب میں ابن عمر کی حدیث بھی صحیح ہے جسے انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے ۲؎، ۴- اور اسی پر بیشتر فقہاء کا عمل ہے۔
وضاحت: ۱؎: اس میں بالاتفاق «حولان حول»”سال کا پورا ہونا“ شرط نہیں، البتہ نصاب شرط ہے یا نہیں جمہور ائمہ عشر یا نصف عشر کے لیے نصاب کو شرط مانتے ہیں، جب تک پانچ وسق نہ ہو عشر یا نصف عشر واجب نہیں ہو گا، اور امام ابوحنیفہ کے نزدیک نصاب شرط نہیں، وہ کہتے ہیں: «يا أيها الذين آمنوا أنفقوا من طيبات ما كسبتم ومما أخرجنا لكم من الأرض ولا تيمموا الخبيث منه تنفقون ولستم بآخذيه إلا أن تغمضوا فيه واعلموا أن الله غني حميد»(البقرة: 267)”اے ایمان والو! اپنی پاکیزہ کمائی میں سے اور زمین میں سے تمہارے لیے ہماری نکالی ہوئی چیزوں میں سے خرچ کرو، ان میں سے بری چیزوں کے خرچ کرنے کا قصد نہ کرنا، جسے تم خود لینے والے نہیں ہو، ہاں اگر آنکھیں بند کر لو تو، اور جان لو اللہ تعالیٰ بےپرواہ اور خوبیوں والا ہے“۔ «مما أخرجنا» میں «ما» کلمہ عموم ہے اس طرح «فيما سقت السماء وفيما سقى بالنضح» میں بھی «ما» کلمہ عموم ہے۔
(مرفوع) حدثنا احمد بن الحسن، حدثنا سعيد بن ابي مريم، حدثنا ابن وهب، حدثني يونس، عن ابن شهاب، عن سالم، عن ابيه، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم " انه سن فيما سقت السماء والعيون او كان عثريا العشر وفيما سقي بالنضح نصف العشر ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنِي يُونُسُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " أَنَّهُ سَنَّ فِيمَا سَقَتِ السَّمَاءُ وَالْعُيُونُ أَوْ كَانَ عَثَرِيًّا الْعُشْرَ وَفِيمَا سُقِيَ بِالنَّضْحِ نِصْفَ الْعُشْرِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ طریقہ جاری فرمایا کہ جسے بارش یا چشمے کے پانی نے سیراب کیا ہو، یا عثری یعنی رطوبت والی زمین ہو جسے پانی دینے کی ضرورت نہ پڑتی ہو تو اس میں دسواں حصہ زکاۃ ہے، اور جسے ڈول سے سیراب کیا جاتا ہو اس میں دسویں کا آدھا یعنی بیسواں حصہ زکاۃ ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
(مرفوع) حدثنا محمد بن إسماعيل، حدثنا إبراهيم بن موسى، حدثنا الوليد بن مسلم، عن المثنى بن الصباح، عن عمرو بن شعيب، عن ابيه، عن جده، ان النبي صلى الله عليه وسلم خطب الناس، فقال: " الا من ولي يتيما له مال فليتجر فيه ولا يتركه حتى تاكله الصدقة ". قال ابو عيسى: وإنما روي هذا الحديث من هذا الوجه، وفي إسناده مقال، لان المثنى بن الصباح يضعف في الحديث، وروى بعضهم هذا الحديث عن عمرو بن شعيب، ان عمر بن الخطاب فذكر هذا الحديث، وقد اختلف اهل العلم في هذا الباب، فراى غير واحد من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم في مال اليتيم زكاة، منهم عمر، وعلي، وعائشة، وابن عمر، وبه يقول مالك، والشافعي، واحمد، وإسحاق، وقالت طائفة من اهل العلم: ليس في مال اليتيم زكاة، وبه يقول سفيان الثوري، وعبد الله بن المبارك، وعمرو بن شعيب هو ابن محمد بن عبد الله بن عمرو بن العاص، وشعيب قد سمع من جده عبد الله بن عمرو، وقد تكلم يحيى بن سعيد في حديث عمرو بن شعيب، وقال: هو عندنا واه ومن ضعفه فإنما ضعفه من قبل انه يحدث من صحيفة جده عبد الله بن عمرو، واما اكثر اهل الحديث فيحتجون بحديث عمرو بن شعيب فيثبتونه، منهم احمد، وإسحاق وغيرهما.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنْ الْمُثَنَّى بْنِ الصَّبَّاحِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَطَبَ النَّاسَ، فَقَالَ: " أَلَا مَنْ وَلِيَ يَتِيمًا لَهُ مَالٌ فَلْيَتَّجِرْ فِيهِ وَلَا يَتْرُكْهُ حَتَّى تَأْكُلَهُ الصَّدَقَةُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَإِنَّمَا رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَفِي إِسْنَادِهِ مَقَالٌ، لِأَنَّ الْمُثَنَّى بْنَ الصَّبَّاحِ يُضَعَّفُ فِي الْحَدِيثِ، وَرَوَى بَعْضُهُمْ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ فَذَكَرَ هَذَا الْحَدِيثَ، وَقَدِ اخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي هَذَا الْبَاب، فَرَأَى غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَالِ الْيَتِيمِ زَكَاةً، مِنْهُمْ عُمَرُ، وَعَلِيٌّ، وَعَائِشَةُ، وَابْنُ عُمَرَ، وَبِهِ يَقُولُ مَالِكٌ، وَالشَّافِعِيُّ، وَأَحْمَدُ، وَإِسْحَاق، وَقَالَتْ طَائِفَةٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ: لَيْسَ فِي مَالِ الْيَتِيمِ زَكَاةٌ، وَبِهِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، وَعَمْرُو بْنُ شُعَيْبٍ هُوَ ابْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، وَشُعَيْبٌ قَدْ سَمِعَ مِنْ جَدِّهِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، وَقَدْ تَكَلَّمَ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ فِي حَدِيثِ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، وَقَالَ: هُوَ عِنْدَنَا وَاهٍ وَمَنْ ضَعَّفَهُ فَإِنَّمَا ضَعَّفَهُ مِنْ قِبَلِ أَنَّهُ يُحَدِّثُ مِنْ صَحِيفَةِ جَدِّهِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، وَأَمَّا أَكْثَرُ أَهْلِ الْحَدِيثِ فَيَحْتَجُّونَ بِحَدِيثِ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ فَيُثْبِتُونَهُ، مِنْهُمْ أَحْمَدُ، وَإِسْحَاق وَغَيْرُهُمَا.
عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے خطاب کیا تو فرمایا: ”جو کسی ایسے یتیم کا ولی (سر پرست) ہو جس کے پاس کچھ مال ہو تو وہ اسے تجارت میں لگا دے، اسے یونہی نہ چھوڑ دے کہ اسے زکاۃ کھا لے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث صرف اسی سند سے مروی ہے اور اس کی سند میں کلام ہے اس لیے کہ مثنیٰ بن صباح حدیث میں ضعیف گردانے جاتے ہیں، ۲- بعض لوگوں نے یہ حدیث عمرو بن شعیب سے روایت کی ہے کہ عمر بن خطاب نے کہا: … اور آگے یہی حدیث ذکر کی، ۳- عمرو: شعیب کے بیٹے ہیں، اور شعیب محمد بن عبداللہ بن عمرو بن العاص کے بیٹے ہیں۔ اور شعیب نے اپنے دادا عبداللہ بن عمرو سے سماعت کی ہے، یحییٰ بن سعید نے عمرو بن شعیب کی حدیث میں کلام کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں: یہ ہمارے نزدیک ضعیف ہیں، اور جس نے انہیں ضعیف قرار دیا ہے صرف اس وجہ سے ضعیف کہا ہے کہ انہوں نے اپنے دادا عبداللہ بن عمرو کے صحیفے سے حدیث بیان کی ہے۔ لیکن اکثر اہل حدیث علماء عمرو بن شعیب کی حدیث سے دلیل لیتے ہیں اور اسے ثابت مانتے ہیں جن میں احمد اور اسحاق بن راہویہ وغیرہما بھی شامل ہیں، ۴- اس باب میں اہل علم کا اختلاف ہے، صحابہ کرام میں سے کئی لوگوں کی رائے ہے کہ یتیم کے مال میں زکاۃ ہے، انہیں میں عمر، علی، عائشہ، اور ابن عمر ہیں۔ اور یہی مالک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں، ۵- اور اہل علم کی ایک جماعت کہتی ہے کہ یتیم کے مال میں زکاۃ نہیں ہے۔ سفیان ثوری اور عبداللہ بن مبارک کا یہی قول ہے ۲؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 8777) (ضعیف) (سند میں مثنی بن الصباح ضعیف ہیں، اخیر عمر میں مختلط بھی ہو گئے تھے)»
وضاحت: ۱؎: یعنی زکاۃ دیتے دیتے کل مال ختم ہو جائے
۲؎: یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ «رفع القلم عن ثلاث: صبي، ومجنون، ونائم» کے خلاف ہے اور حدیث کا جواب یہ دیتے ہیں کہ «تأكله الصدقة» میں صدقہ سے مراد نفقہ ہے۔ مدفون مال میں سے خمس (پانچواں حصہ) نکالا جائے گا۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف، الإرواء (788) // ضعيف الجامع الصغير (2179) //
قال الشيخ زبير على زئي: (641) إسناده ضعيف المثني: ضعيف (د 1899) وتابعه محمد بن عبدالله العرزمي وھو متروك (تق:6108)وللحديث طرق ضعيفة
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا الليث بن سعد، عن ابن شهاب، عن سعيد بن المسيب، وابي سلمة، عن ابي هريرة، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " العجماء جرحها جبار، والمعدن جبار، والبئر جبار، وفي الركاز الخمس ". قال: وفي الباب عن انس بن مالك، وعبد الله بن عمرو، وعبادة بن الصامت، وعمرو بن عوف المزني، وجابر. قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، وَأَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " الْعَجْمَاءُ جَرْحُهَا جُبَارٌ، وَالْمَعْدِنُ جُبَارٌ، وَالْبِئْرُ جُبَارٌ، وَفِي الرِّكَازِ الْخُمُسُ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، وَعُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، وَعَمْرِو بْنِ عَوْفٍ الْمُزَنِيِّ، وَجَابِرٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جانور کا زخم رائیگاں ہے ۱؎ یعنی معاف ہے، کان رائیگاں ہے اور کنواں رائیگاں ہے ۲؎ اور رکاز (دفینے) میں سے پانچواں حصہ دیا جائے گا“۳؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں انس بن مالک، عبداللہ بن عمرو، عبادہ بن صامت، عمرو بن عوف مزنی اور جابر رضی الله عنہ سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت: ۱؎: یعنی جانور کسی کو زخمی کر دے تو جانور کے مالک پر اس زخم کی دیت نہ ہو گی۔
۲؎: یعنی کان یا کنویں میں گر کر کوئی ہلاک ہو جائے تو ان کے مالکوں پر اس کی دیت نہ ہو گی۔
۳؎: یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ رکاز (دفینہ) میں زکاۃ نہیں بلکہ خمس ہے، اس کی حیثیت مال غنیمت کی سی ہے، اس میں خمس واجب ہے جو بیت المال میں جمع کیا جائے گا اور باقی کا مالک وہ ہو گا جسے یہ دفینہ ملا ہے، رہا «معدن»”کان“ تو وہ رکاز نہیں ہے اس لیے اس میں خمس نہیں ہو گا بلکہ اگر وہ نصاب کو پہنچ رہا ہے تو اس میں زکاۃ واجب ہو گی، جمہور کی یہی رائے ہے، حنفیہ کہتے ہیں رکاز معدن اور کنز دونوں کو عام ہے اس لیے وہ معدن میں بھی خمس کے قائل ہیں۔
(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا ابو داود الطيالسي، اخبرنا شعبة، اخبرني خبيب بن عبد الرحمن، قال: سمعت عبد الرحمن بن مسعود بن نيار، يقول: جاء سهل بن ابي حثمة إلى مجلسنا، فحدث ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يقول: " إذا خرصتم فخذوا ودعوا الثلث فإن لم تدعوا الثلث فدعوا الربع ". قال: وفي الباب عن عائشة، وعتاب بن اسيد، وابن عباس. قال ابو عيسى: والعمل على حديث سهل بن ابي حثمة عند اكثر اهل العلم في الخرص، وبحديث سهل بن ابي حثمة، يقول احمد، وإسحاق: والخرص: إذا ادركت الثمار من الرطب والعنب مما فيه الزكاة بعث السلطان خارصا يخرص عليهم، والخرص ان ينظر من يبصر ذلك، فيقول: يخرج من هذا الزبيب كذا وكذا ومن التمر كذا وكذا فيحصي عليهم وينظر مبلغ العشر من ذلك فيثبت عليهم، ثم يخلي بينهم وبين الثمار فيصنعون ما احبوا، فإذا ادركت الثمار اخذ منهم العشر. هكذا فسره بعض اهل العلم، وبهذا يقول مالك، والشافعي، واحمد، وإسحاق.(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، أَخْبَرَنِي خُبَيْبُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَال: سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ مَسْعُودِ بْنِ نِيَارٍ، يَقُولُ: جَاءَ سَهْلُ بْنُ أَبِي حَثْمَةَ إِلَى مَجْلِسِنَا، فَحَدَّثَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ: " إِذَا خَرَصْتُمْ فَخُذُوا وَدَعُوا الثُّلُثَ فَإِنْ لَمْ تَدَعُوا الثُّلُثَ فَدَعُوا الرُّبُعَ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ، وَعَتَّابِ بْنِ أَسِيدٍ، وَابْنِ عَبَّاسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَالْعَمَلُ عَلَى حَدِيثِ سَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي الْخَرْصِ، وَبِحَدِيثِ سَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ، يَقُولُ أَحْمَدُ، وَإِسْحَاق: وَالْخَرْصُ: إِذَا أَدْرَكَتِ الثِّمَارُ مِنَ الرُّطَبِ وَالْعِنَبِ مِمَّا فِيهِ الزَّكَاةُ بَعَثَ السُّلْطَانُ خَارِصًا يَخْرُصُ عَلَيْهِمْ، وَالْخَرْصُ أَنْ يَنْظُرَ مَنْ يُبْصِرُ ذَلِكَ، فَيَقُولُ: يَخْرُجُ مِنْ هَذَا الزَّبِيبِ كَذَا وَكَذَا وَمِنَ التَّمْرِ كَذَا وَكَذَا فَيُحْصِي عَلَيْهِمْ وَيَنْظُرُ مَبْلَغَ الْعُشْرِ مِنْ ذَلِكَ فَيُثْبِتُ عَلَيْهِمْ، ثُمَّ يُخَلِّي بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ الثِّمَارِ فَيَصْنَعُونَ مَا أَحَبُّوا، فَإِذَا أَدْرَكَتِ الثِّمَارُ أُخِذَ مِنْهُمُ الْعُشْرُ. هَكَذَا فَسَّرَهُ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ، وَبِهَذَا يَقُولُ مَالِكٌ، وَالشَّافِعِيُّ، وَأَحْمَدُ، وَإِسْحَاق.
عبدالرحمٰن بن مسعود بن نیار کہتے ہیں کہ سہل بن ابی حثمہ رضی الله عنہ ہماری مجلس میں آئے تو بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”جب تم تخمینہ لگاؤ تو تخمینہ کے مطابق لو اور ایک تہائی چھوڑ دیا کرو، اگر ایک تہائی نہ چھوڑ سکو تو چوتھائی چھوڑ دیا کرو“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں عائشہ، عتاب بن اسید اور ابن عباس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ ۲- تخمینہ لگانے کے سلسلے میں اکثر اہل علم کا عمل سہل بن ابی حثمہ رضی الله عنہ کی حدیث پر ہے اور سہل بن ابی حثمہ رضی الله عنہ کی حدیث ہی کے مطابق احمد اور شافعی بھی کہتے ہیں، تخمینہ لگانا یہ ہے کہ جب کھجور یا انگور کے پھل جن کی زکاۃ دی جاتی ہے پک جائیں تو سلطان (انتظامیہ) ایک تخمینہ لگانے والے کو بھیجے جو اندازہ لگا کر بتائے کہ اس میں کتنا غلہ یا پھل ہو گا اور تخمینہ لگانا یہ ہے کہ کوئی تجربہ کار آدمی دیکھ کر یہ بتائے کہ اس درخت سے اتنا اتنا انگور نکلے گا، اور اس سے اتنی اتنی کھجور نکلے گی۔ پھر وہ اسے جوڑ کر دیکھے کہ کتنا عشر کی مقدار کو پہنچا، تو ان پر وہی عشر مقرر کر دے۔ اور پھل کے پکنے تک ان کو مہلت دے، پھل توڑنے کے وقت اپنا عشر دیتے رہیں۔ پھر مالکوں کو اختیار ہو گا کہ بقیہ سے جو چاہیں کریں۔ بعض اہل علم نے تخمینہ لگانے کی تشریح اسی طرح کی ہے، اور یہی مالک شافعی احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں۔
وضاحت: ۱؎: یہ خطاب زکاۃ وصول کرنے والے عمال اور ان لوگوں کو ہے جو زکاۃ کی وصولی کے لیے دوڑ دھوپ کرتے ہیں، تہائی یا چوتھائی حصہ چھوڑ دینے کا حکم اس لیے ہے تاکہ مالک پھل توڑتے وقت اپنے اعزہ و اقرباء اور اپنے ہمسایوں مسافروں وغیرہ پر خرچ کر سکے اور اس کی وجہ سے وہ کسی حرج اور تنگی میں مبتلا نہ ہو۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف، ضعيف أبي داود (281)، الضعيفة (2556)
(مرفوع) حدثنا ابو عمرو مسلم بن عمرو الحذاء المدني، حدثنا عبد الله بن نافع الصائغ، عن محمد بن صالح التمار، عن ابن شهاب، عن سعيد بن المسيب، عن عتاب بن اسيد، ان النبي صلى الله عليه وسلم كان " يبعث على الناس من يخرص عليهم كرومهم وثمارهم " وبهذا الإسناد ان النبي صلى الله عليه وسلم قال في زكاة الكروم: " إنها تخرص كما يخرص النخل ثم تؤدى زكاته زبيبا كما تؤدى زكاة النخل تمرا ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب، وقد روى ابن جريج هذا الحديث عن ابن شهاب، عن عروة، عن عائشة، وسالت محمدا عن هذا الحديث، فقال: حديث ابن جريج غير محفوظ وحديث ابن المسيب، عن عتاب بن اسيد اثبت واصح.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو عَمْرٍو مُسْلِمُ بْنُ عَمْرٍو الْحَذَّاءُ الْمَدَنِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نَافِعٍ الصَّائِغُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ صَالِحٍ التَّمَارِ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ عَتَّابِ بْنِ أَسِيدٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ " يَبْعَثُ عَلَى النَّاسِ مَنْ يَخْرُصُ عَلَيْهِمْ كُرُومَهُمْ وَثِمَارَهُمْ " وَبِهَذَا الْإِسْنَادِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فِي زَكَاةِ الْكُرُومِ: " إِنَّهَا تُخْرَصُ كَمَا يُخْرَصُ النَّخْلُ ثُمَّ تُؤَدَّى زَكَاتُهُ زَبِيبًا كَمَا تُؤَدَّى زَكَاةُ النَّخْلِ تَمْرًا ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَقَدْ رَوَى ابْنُ جُرَيْجٍ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، وَسَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ، فَقَالَ: حَدِيثُ ابْنِ جُرَيْجٍ غَيْرُ مَحْفُوظٍ وَحَدِيثُ ابْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ عَتَّابِ بْنِ أَسِيدٍ أَثْبَتُ وَأَصَحُّ.
عتاب بن اسید رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے پاس ایک آدمی بھیجتے تھے جو ان کے انگوروں اور دوسرے پھلوں کا تخمینہ لگاتا تھا۔ اسی سند سے ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انگور کی زکاۃ کے بارے میں فرمایا: ”اس کا بھی تخمینہ لگایا جائے گا، جیسے کھجور کا لگایا جاتا ہے، پھر کشمش ہو جانے کے بعد اس کی زکاۃ نکالی جائے گی جیسے کھجور کی زکاۃ تمر ہو جانے کے بعد نکالی جاتی ہے۔ (یعنی جب خشک ہو جائیں)“
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- ابن جریج نے یہ حدیث بطریق: «ابن شهاب، عن عروة، عن عائشة» روایت کی ہے، ۳- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا: تو انہوں نے کہا: ابن جریج کی حدیث محفوظ نہیں ہے اور ابن مسیب کی حدیث جسے انہوں نے عتاب بن اسید سے روایت کی ہے زیادہ ثابت اور زیادہ صحیح ہے (بس صرف سنداً، ورنہ ضعیف یہ بھی ہے)۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الزکاة 13 (1603)، سنن النسائی/الزکاة 100 (2619)، سنن ابن ماجہ/الزکاة 18 (1891)، (تحفة الأشراف: 9748) (ضعیف) (سعید بن المسیب اور عتاب رضی الله عنہ کے درمیان سند میں انقطاع ہے)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، الإرواء (807)، ضعيف أبي داود (280) // عندنا برقم (347 / 1603) //
قال الشيخ زبير على زئي: (644) إسناده ضعيف /د 1603،1604، ن 2619، جه 1819
رافع بن خدیج رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”صحیح ڈھنگ سے صدقہ وصول کرنے والا، اللہ کی راہ میں لڑنے والے غازی کی طرح ہے، جب تک کہ وہ اپنے گھر لوٹ نہ آئے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- رافع بن خدیج کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اور یزید بن عیاض محدثین کے نزدیک ضعیف ہیں، ۳- محمد بن اسحاق کی یہ حدیث سب سے زیادہ صحیح ہے۔
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا الليث، عن يزيد بن ابي حبيب، عن سعد بن سنان، عن انس بن مالك، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " المعتدي في الصدقة كمانعها ". قال: وفي الباب عن ابن عمر، وام سلمة، وابي هريرة. قال ابو عيسى: حديث انس حديث غريب من هذا الوجه. وقد تكلم احمد بن حنبل في سعد بن سنان، وهكذا يقول الليث بن سعد، عن يزيد بن ابي حبيب، عن سعد بن سنان، عن انس بن مالك. ويقول عمرو بن الحارث، وابن لهيعة: عن يزيد بن ابي حبيب، عن سنان بن سعد، عن انس، قال: وسمعت محمدا، يقول: والصحيح سنان بن سعد. وقوله: " المعتدي في الصدقة كمانعها "، يقول: على المعتدي من الإثم كما على المانع إذا منع.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ سَعْدِ بْنِ سِنَانٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْمُعْتَدِي فِي الصَّدَقَةِ كَمَانِعِهَا ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ، وَأُمِّ سَلَمَةَ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ. وَقَدْ تَكَلَّمَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ فِي سَعْدِ بْنِ سِنَانٍ، وَهَكَذَا يَقُولُ اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ سَعْدِ بْنِ سِنَانٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ. وَيَقُولُ عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، وَابْنُ لَهِيعَةَ: عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ سِنَانِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: وسَمِعْت مُحَمَّدًا، يَقُولُ: وَالصَّحِيحُ سِنَانُ بْنُ سَعْدٍ. وَقَوْلُهُ: " الْمُعْتَدِي فِي الصَّدَقَةِ كَمَانِعِهَا "، يَقُولُ: عَلَى الْمُعْتَدِي مِنَ الْإِثْمِ كَمَا عَلَى الْمَانِعِ إِذَا مَنَعَ.
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”زکاۃ وصول کرنے میں ظلم و زیادتی کرنے والا زکاۃ نہ دینے والے کی طرح ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں ابن عمر، ام سلمہ اور ابوہریرہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۲- انس کی حدیث اس سند سے غریب ہے، ۳- احمد بن حنبل نے سعد بن سنان کے سلسلہ میں کلام کیا ہے۔ اسی طرح لیث بن سعد بھی کہتے ہیں۔ وہ بھی «عن يزيد بن حبيب، عن سعد بن سنان، عن أنس بن مالك» کہتے ہیں، اور عمرو بن حارث اور ابن لہیعہ «عن يزيد بن حبيب، عن سنان بن سعد، عن أنس بن مالك» کہتے ہیں ۱؎، ۴- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے سنا کہ صحیح ”سنان بن سعد“ ہے، ۵- اور زکاۃ وصول کرنے میں زیادتی کرنے والا زکاۃ نہ دینے والے کی طرح ہے کا مطلب یہ ہے کہ زیادتی کرنے والے پر وہی گناہ ہے جو نہ دینے والے پر ہے۔
وضاحت: ۱؎: یعنی یزید بن ابی حبیب اور انس کے درمیان جو راوی ہیں ان کے نام کے بارے میں اختلاف ہے، لیث بن سعد نے ”سعد بن سنان“ کہا ہے اور عمرو بن حارث اور لہیعہ نے ”سنان بن سعد“ کہا ہے، امام بخاری نے عمرو بن حارث اور ابن لہیعہ کے قول کو صحیح کہا ہے۔
قال الشيخ الألباني: حسن، ابن ماجة (1808)
قال الشيخ زبير على زئي: (646) إسناده ضعيف /د 1585، جه 1808