(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا ابن لهيعة، عن عمرو بن شعيب، عن ابيه، عن جده، ان امراتين اتتا رسول الله صلى الله عليه وسلم وفي ايديهما سواران من ذهب، فقال لهما: " اتؤديان زكاته؟ " قالتا: لا، قال: فقال لهما رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اتحبان ان يسوركما الله بسوارين من نار؟ " قالتا: لا، قال: " فاديا زكاته ". قال ابو عيسى: وهذا حديث قد رواه المثنى بن الصباح عن عمرو بن شعيب نحو هذا، والمثنى بن الصباح، وابن لهيعة يضعفان في الحديث، ولا يصح في هذا الباب، عن النبي صلى الله عليه وسلم شيء.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّ امْرَأَتَيْنِ أَتَتَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَفِي أَيْدِيهِمَا سُوَارَانِ مِنْ ذَهَبٍ، فَقَالَ لَهُمَا: " أَتُؤَدِّيَانِ زَكَاتَهُ؟ " قَالَتَا: لَا، قَالَ: فَقَالَ لَهُمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَتُحِبَّانِ أَنْ يُسَوِّرَكُمَا اللَّهُ بِسُوَارَيْنِ مِنْ نَارٍ؟ " قَالَتَا: لَا، قَالَ: " فَأَدِّيَا زَكَاتَهُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا حَدِيثٌ قَدْ رَوَاهُ الْمُثَنَّى بْنُ الصَّبَّاحِ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ نَحْوَ هَذَا، وَالْمُثَنَّى بْنُ الصَّبَّاحِ، وَابْنُ لَهِيعَةَ يُضَعَّفَانِ فِي الْحَدِيثِ، وَلَا يَصِحُّ فِي هَذَا الْبَاب، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْءٌ.
عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ دو عورتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں ان کے ہاتھوں میں سونے کے دو کنگن تھے، تو آپ نے ان سے فرمایا: ”کیا تم دونوں اس کی زکاۃ ادا کرتی ہو؟“ انہوں نے عرض کیا: نہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”کیا تم پسند کرو گی کہ اللہ تم دونوں کو آگ کے دو کنگن پہنائے؟“ انہوں نے عرض کیا: نہیں، آپ نے فرمایا: ”تو تم دونوں ان کی زکاۃ ادا کرو“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: اس حدیث کو مثنیٰ بن صباح نے بھی عمرو بن شعیب سے اسی طرح روایت کیا ہے اور مثنیٰ بن صباح اور ابن لہیعہ دونوں حدیث میں ضعیف گردانے جاتے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس باب میں کوئی چیز صحیح نہیں ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 8730) (حسن) (یہ حدیث اس سیاق سے ضعیف ہے، سند میں ابن لہیعہ ضعیف ہیں، مگر دوسری سند اور دوسرے سیاق سے یہ حدیث حسن ہے، الإرواء 3/296، صحیح ابی داود 1396)»
قال الشيخ الألباني: حسن بغير هذا اللفظ، الإرواء (3 / 296) // 817 //، المشكاة (1809)، صحيح أبي داود (1396)
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 637
اردو حاشہ: نوٹ: (یہ حدیث اس سیاق سے ضعیف ہے، سند میں ابن لہیعہ ضعیف ہیں، مگر دوسری سند اور دوسرے سیاق سے یہ حدیث حسن ہے، الإرواء: 3/296، صحیح ابی داؤد: 1396)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 637
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 499
´زیور میں زکاۃ کا بیان` ”سیدنا عمرو بن شعیب رحمہ اللہ اپنے والد اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ ایک خاتون نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ اس کے ہمراہ اس کی بیٹی بھی تھی۔ جس کے ہاتھ میں سونے کے دو کنگن تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا ”کیا تو اس کی زکوٰۃ دیتی ہے؟“ اس نے عرض کیا نہیں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”کیا تجھے پسند ہے کہ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ ان کے بدلے تجھے آگ کے دو کنگن پہنائے؟“ یہ سن کر اس خاتون نے دونوں کنگن پھینک دیئے۔“[بلوغ المرام /كتاب الجنائز/حدیث: 499]
لغوی تشریح: «اَنَّ امْرَاَةَّ» اس خاتون کا نام اسماء بنت یزید بن سکن ہے۔ «مَسَكَتَانِ» کے ”میم“ سین اور ”کاف“ تینوں پر فتحہ ہے اور یہ «مسكة» کا تثنیہ ہے، یعنی وہ زیور جو ہاتھوں میں پہنا جاتا ہے جسے فارسی میں دست برنجن اور کنگن کہا جاتا ہے۔ «مسكة» پازیب کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ پازیب وہ زیور ہے جو پاوں میں اس طرح پہنا جاتا ہے جس طرح کنگن ہاتھوں میں پہنے جاتے ہیں۔ «اَيَسُرُّكِ» اس میں ہمزہ استفہامیہ ہے اور سرور سے ماخوذ فعل مضارع ہے اور ”کاف خطاب“ مونث کے لیے (مکسور) ہے۔ معنی ہیں: کیا تجھے یہ پسند ہے، اچھا لگتا ہے۔ «اَنْ يُسَوَّرَكِ» «تسوير» سے ماخوذ ہے، کنگن پہنانے کو کہتے ہیں۔ «بِهِمَا» ان دونوں کی جگہ، ان دونوں کے بدلے میں، یا یہ معنی ہیں کہ ان دونوں کے سبب، یعنی ان دونوں کی زکاۃ ادا نہ کرنے کی وجہ سے تجھے آگ کے دو کنگن پہنائے جائیں۔ «فَاَلْقَتْهُمَا» تو اس خاتون نے وہ دونوں کنگن پھینک مارے۔
فائدہ: اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ زیورات میں زکاۃ ہے لیکن اس کے بارے میں فقہاء کا اختلاف ہے۔ پہلا قول یہ ہے کہ زیور میں زکاۃ واجب ہے۔ دوسرا یہ کہ زیور میں زکاۃ فرض نہیں۔ امام مالک، احمد رحمہ اللہ علہیم اور ایک قول کے مطابق امام شافعی رحمہ اللہ بھی اسی کے قائل ہیں۔ تیسرا قول یہ ہے کہ زیور کی زکاۃ اسے ضرورت مند کو عاریتاً دینا ہے۔ الگ زکاۃ نہیں۔ چوتھا قول یہ ہے کہ زیورات میں صرف ایک ہی بار زکاۃ دینا فرض ہے۔ راجح قول یہی ہے کہ زیورات میں زکاۃ فرض ہے اور یہ صحیح حدیث اس کی واضح دلیل ہے۔ اس کے مقابلے میں بعض آثار کی بنا پر جو کہا گیا ہے کہ زیورات میں زکاۃ نہیں وہ قابل التفات نہیں۔ [دارالسلام]
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 499
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1563
´کنز کیا ہے؟ اور زیور کی زکاۃ کا بیان۔` عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی، اس کے ساتھ اس کی ایک بچی تھی، اس بچی کے ہاتھ میں سونے کے دو موٹے موٹے کنگن تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا: ”کیا تم ان کی زکاۃ دیتی ہو؟“ اس نے کہا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تمہیں یہ اچھا لگے گا کہ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ تمہیں آگ کے دو کنگن ان کے بدلے میں پہنائے۔“ عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ اس عورت نے دونوں کنگن اتار کر انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ڈال دئیے اور بولی: یہ اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہیں۔ [سنن ابي داود/كتاب الزكاة /حدیث: 1563]
1563. اردو حاشیہ: ➊ مال کو جوڑ جوڑ کر رکھنا، خزانہ بنانا اور اللہ کا حق ادا نہ کرنا، عند اللہ بہت معیوب اور عذاب الیم کا باعث ہے۔ جیسے کہ سورہ توبہ میں ارشاد ہے: ﴿وَالَّذينَ يَكنِزونَ الذَّهَبَ وَالفِضَّةَ وَلا يُنفِقونَها فى سَبيلِ اللَّهِ فَبَشِّرهُم بِعَذابٍ أَليمٍ * يَومَ يحمىٰ عَلَيها فى نارِ جَهَنَّمَ فَتُكوىٰ بِها جِباهُهُم وَجُنوبُهُم وَظُهورُهُم ۖ هـٰذا ما كَنَزتُم لِأَنفُسِكُم فَذوقوا ما كُنتُم تَكنِزونَ﴾[التوبة:3 ➍ 35)”اور جو لوگ سونے چاندی کا خزانہ رکھتے ہیں اور اللہ کی راه میں خرچ نہیں کرتے، انہیں دردناک عذاب کی خبر پہنچا دیجئے۔ جس دن اس خزانے کو آتش دوزخ میں تپایا جائے گا پھر اس سے ان کی پیشانیاں اور پہلو اور پیٹھیں داغی جائیں گی (ان سے کہا جائے گا) یہ ہے جسے تم نے اپنے لئے خزانہ بنا کر رکھا تھا۔ پس اپنے خزانوں کا مزه چکھو۔“ لغت میں «کنز» یہ ہے کہ دولت کو زمین میں دفن کر کے رکھا جائے، مگر عرف شرع میں جس مال کی زکوۃ نہ دی جائے، وہ کنز کہلاتا ہے۔ سونا چاندی کے زیور کی زکوۃ میں کچھ اختلاف ہے۔ تاہم جمہور علماء زیور میں زکوۃ کے قائل ہیں اور احتیاط کے لحاظ سے بھی یہی مسلک زیادہ صحیح ہے۔ زیورکی زکوۃ دونوں طریقوں سےنکالی جا سکتی ہے۔ زیور میں چالیسواں حصہ سونا یاچاندی بطور زکوۃ نکال دی جائے یا چالیسواں حصے کی قیمت ادا کر دی جائے۔ دونوں طرح جائز ہے۔ تاہم کسی کے پاس اگر حد نصاب (7 ½) تولہ سونا یا 52 ½ تولے چاندی) سے کم زیور ہے تو اس پر زکوۃ عائد نہیں ہو گی۔ (29 بچے بچیاں جب اپنے ماں باپ کی سر پرستی میں ہوں تو ان پر واجب ہے کہ ان کی کے مال کی زکوۃ ادا کریں یا کروائیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1563
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2481
´زیور کی زکاۃ کا بیان۔` عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ یمن کی رہنے والی ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی، اس کے ساتھ اس کی ایک بیٹی تھی جس کے ہاتھ میں سونے کے دو موٹے موٹے کنگن تھے۔ آپ نے فرمایا: ”کیا تم اس کی زکاۃ دیتی ہو؟“ اس نے کہا: نہیں، آپ نے فرمایا: ”کیا تجھے اچھا لگے گا کہ اللہ عزوجل ان کے بدلے قیامت کے دن تمہیں آگ کے دو کنگن پہنائے؟“ یہ سن کر اس عورت نے دونوں کنگن (بچی کے ہاتھ سے) نکال لیے۔ اور انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ک [سنن نسائي/كتاب الزكاة/حدیث: 2481]
اردو حاشہ: (1) حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ عمرو بن شعیب کے دادا نہیں بلکہ پردادا ہیں۔ (2)”یہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کے لیے ہیں۔“ یعنی یہ بیت المال کے ہیں، اللہ اور اس کے رسولﷺ کے دین اور مرضی کی راہ میں ہیں تاکہ صحیح مصرف میں صرف کر دیے جائیں۔ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہﷺ کا ذکر دیناً اور تبرکاً ہے۔ آپ بیت المال کے والی تھے، اس لیے آپ کا ذکر کیا ورنہ زکاۃ اور صدقہ آپ نے نہ صرف اپنے لیے بلکہ پورے خاندان کے لیے حرام کر رکھا تھا…ﷺ… (3) کیا زیورات میں زکاۃ ہے؟ اس بارے میں علماء کے دو مشہور قول ہیں، بعض علماء کا کہنا ہے کہ زیورات میں زکاۃ نہیں اور بعض کا قول یہ ہے کہ زیورات میں زکاۃ واجب ہے دونوں اقوال میں سے دوسرا قول دلائل کے لحاظ سے زیادہ قوی ہے اور اس کی تائید چند صحیح روایات سے بھی ہوتی ہے، لہٰذا درست موقف یہی ہے کہ وہ زیورات جو زکاۃ کے نصاب کو پہنچیں ان کی زکاۃ ادا کی جائے گی۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرۃ العقبیٰ شرح سنن النسائی: 22/ 179-181) سونے کا نصاب 20 دینار ہے جیسا کہ مرفوع روایت میں ہے۔ اس دور میں 20 دینار 200 درہم کے برابر تھے۔ آج کل سونے چاندی کے بھاؤ میں یہ تناسب نہیں رہا۔ 20 دینار کا وزن تقریباً ساڑھے سات تو لے بنتا ہے۔ اس کی قیمت چاندی کے نصاب سے بہت زیادہ ہے، اس لیے بعض محققین نے سونے میں بھی چاندی کے نصاب ہی کو معتبر سمجھا ہے، یعنی 200 درہم یا ساڑھے باون تولے چاندی کے برابر سونا ہو تو اس میں زکاۃ ہوگی، مگر یہ موقف مرجوح ہے۔ جمہور نے اسے قبول نہیں کیا۔ واللہ أعلم۔ البتہ ان کے برعکس عصر حاضر کے بعض علماء نے کرنسی کے نصاب میں ساڑھے باون تولے چاندی کی قیمت کے بجائے ساڑھے سات تولے سونے کی قیمت کو نصاف بنانے کی رائے ظاہر کی ہے۔ یہ رائے قابل غور ہو سکتی ہے لیکن اس سے زکاۃ کا اصل مقصد فوت ہو جائے گا۔ زکاۃ کا مقصد تو غرباء ومساکین کی امداد اور جہاد اور مجاہدین کی ضروریات کا پورا کرنا ہے۔ سونے کے نصاب کو کرنسی کی زکاۃ کا نصاب مقرر کرنے سے لاکھوں اصحاب حیثیت زکاۃ سے مستثنیٰ قرار پا جائیں گے، جس کا نقصان دینی اداروں اور معاشرے کے ضرورت مندوں کو ہوگا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2481