(مرفوع) حدثنا محمد بن إسماعيل، حدثنا إبراهيم بن موسى، حدثنا الوليد بن مسلم، عن المثنى بن الصباح، عن عمرو بن شعيب، عن ابيه، عن جده، ان النبي صلى الله عليه وسلم خطب الناس، فقال: " الا من ولي يتيما له مال فليتجر فيه ولا يتركه حتى تاكله الصدقة ". قال ابو عيسى: وإنما روي هذا الحديث من هذا الوجه، وفي إسناده مقال، لان المثنى بن الصباح يضعف في الحديث، وروى بعضهم هذا الحديث عن عمرو بن شعيب، ان عمر بن الخطاب فذكر هذا الحديث، وقد اختلف اهل العلم في هذا الباب، فراى غير واحد من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم في مال اليتيم زكاة، منهم عمر، وعلي، وعائشة، وابن عمر، وبه يقول مالك، والشافعي، واحمد، وإسحاق، وقالت طائفة من اهل العلم: ليس في مال اليتيم زكاة، وبه يقول سفيان الثوري، وعبد الله بن المبارك، وعمرو بن شعيب هو ابن محمد بن عبد الله بن عمرو بن العاص، وشعيب قد سمع من جده عبد الله بن عمرو، وقد تكلم يحيى بن سعيد في حديث عمرو بن شعيب، وقال: هو عندنا واه ومن ضعفه فإنما ضعفه من قبل انه يحدث من صحيفة جده عبد الله بن عمرو، واما اكثر اهل الحديث فيحتجون بحديث عمرو بن شعيب فيثبتونه، منهم احمد، وإسحاق وغيرهما.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنْ الْمُثَنَّى بْنِ الصَّبَّاحِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَطَبَ النَّاسَ، فَقَالَ: " أَلَا مَنْ وَلِيَ يَتِيمًا لَهُ مَالٌ فَلْيَتَّجِرْ فِيهِ وَلَا يَتْرُكْهُ حَتَّى تَأْكُلَهُ الصَّدَقَةُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَإِنَّمَا رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَفِي إِسْنَادِهِ مَقَالٌ، لِأَنَّ الْمُثَنَّى بْنَ الصَّبَّاحِ يُضَعَّفُ فِي الْحَدِيثِ، وَرَوَى بَعْضُهُمْ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ فَذَكَرَ هَذَا الْحَدِيثَ، وَقَدِ اخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي هَذَا الْبَاب، فَرَأَى غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَالِ الْيَتِيمِ زَكَاةً، مِنْهُمْ عُمَرُ، وَعَلِيٌّ، وَعَائِشَةُ، وَابْنُ عُمَرَ، وَبِهِ يَقُولُ مَالِكٌ، وَالشَّافِعِيُّ، وَأَحْمَدُ، وَإِسْحَاق، وَقَالَتْ طَائِفَةٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ: لَيْسَ فِي مَالِ الْيَتِيمِ زَكَاةٌ، وَبِهِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، وَعَمْرُو بْنُ شُعَيْبٍ هُوَ ابْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، وَشُعَيْبٌ قَدْ سَمِعَ مِنْ جَدِّهِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، وَقَدْ تَكَلَّمَ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ فِي حَدِيثِ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، وَقَالَ: هُوَ عِنْدَنَا وَاهٍ وَمَنْ ضَعَّفَهُ فَإِنَّمَا ضَعَّفَهُ مِنْ قِبَلِ أَنَّهُ يُحَدِّثُ مِنْ صَحِيفَةِ جَدِّهِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، وَأَمَّا أَكْثَرُ أَهْلِ الْحَدِيثِ فَيَحْتَجُّونَ بِحَدِيثِ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ فَيُثْبِتُونَهُ، مِنْهُمْ أَحْمَدُ، وَإِسْحَاق وَغَيْرُهُمَا.
عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے خطاب کیا تو فرمایا: ”جو کسی ایسے یتیم کا ولی (سر پرست) ہو جس کے پاس کچھ مال ہو تو وہ اسے تجارت میں لگا دے، اسے یونہی نہ چھوڑ دے کہ اسے زکاۃ کھا لے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث صرف اسی سند سے مروی ہے اور اس کی سند میں کلام ہے اس لیے کہ مثنیٰ بن صباح حدیث میں ضعیف گردانے جاتے ہیں، ۲- بعض لوگوں نے یہ حدیث عمرو بن شعیب سے روایت کی ہے کہ عمر بن خطاب نے کہا: … اور آگے یہی حدیث ذکر کی، ۳- عمرو: شعیب کے بیٹے ہیں، اور شعیب محمد بن عبداللہ بن عمرو بن العاص کے بیٹے ہیں۔ اور شعیب نے اپنے دادا عبداللہ بن عمرو سے سماعت کی ہے، یحییٰ بن سعید نے عمرو بن شعیب کی حدیث میں کلام کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں: یہ ہمارے نزدیک ضعیف ہیں، اور جس نے انہیں ضعیف قرار دیا ہے صرف اس وجہ سے ضعیف کہا ہے کہ انہوں نے اپنے دادا عبداللہ بن عمرو کے صحیفے سے حدیث بیان کی ہے۔ لیکن اکثر اہل حدیث علماء عمرو بن شعیب کی حدیث سے دلیل لیتے ہیں اور اسے ثابت مانتے ہیں جن میں احمد اور اسحاق بن راہویہ وغیرہما بھی شامل ہیں، ۴- اس باب میں اہل علم کا اختلاف ہے، صحابہ کرام میں سے کئی لوگوں کی رائے ہے کہ یتیم کے مال میں زکاۃ ہے، انہیں میں عمر، علی، عائشہ، اور ابن عمر ہیں۔ اور یہی مالک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں، ۵- اور اہل علم کی ایک جماعت کہتی ہے کہ یتیم کے مال میں زکاۃ نہیں ہے۔ سفیان ثوری اور عبداللہ بن مبارک کا یہی قول ہے ۲؎۔
وضاحت: ۱؎: یعنی زکاۃ دیتے دیتے کل مال ختم ہو جائے
۲؎: یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ «رفع القلم عن ثلاث: صبي، ومجنون، ونائم» کے خلاف ہے اور حدیث کا جواب یہ دیتے ہیں کہ «تأكله الصدقة» میں صدقہ سے مراد نفقہ ہے۔ مدفون مال میں سے خمس (پانچواں حصہ) نکالا جائے گا۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 8777) (ضعیف) (سند میں مثنی بن الصباح ضعیف ہیں، اخیر عمر میں مختلط بھی ہو گئے تھے)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، الإرواء (788) // ضعيف الجامع الصغير (2179) //
قال الشيخ زبير على زئي: (641) إسناده ضعيف المثني: ضعيف (د 1899) وتابعه محمد بن عبدالله العرزمي وھو متروك (تق:6108)وللحديث طرق ضعيفة
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 641
اردو حاشہ: 1؎: یعنی زکاۃ دیتے دیتے کل مال ختم ہو جائے۔
2؎: یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ ((رُفِعَ الْقَلَمُ عَنْ ثَلَاثِِ: صَبِيِِّ، وَمَجْنُوْنِِ، وَنَائِمِِ)) کے خلاف ہے اور حدیث کا جواب یہ دیتے ہیں کہ ((تَأْكُلَهُ الصَّدَقَةُ)) میں صدقہ سے مراد نفقہ ہے۔
نوٹ: (سند میں مثنی بن الصباح ضعیف ہیں، اخیر عمر میں مختلط بھی ہو گئے تھے)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 641
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 491
´یتیم کے مال سے زکاۃ نکالی جائے یا نہیں` ”سیدنا عمرو بن شعیب رحمہ اللہ اپنے والد اور وہ اپنے دادا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جو شخص کسی یتیم کا متولی بنے اسے چاہیئے کہ مال یتیم کو تجارت میں لگائے، اسے یوں ہی بیکار پڑا نہ رہنے دے کہ زکوٰۃ ہی اسے کھا جائے۔“[بلوغ المرام /كتاب الجنائز/حدیث: 491]
لغوی تشریح: «مَنْ وَلِ» یَ باب «عَلِم يَعْلَمُ» کے وزن پر معروف کا صیغہ ہے۔ معنی یہ ہیں کہ جو شخص والی اور سرپرست بنے۔ اور لام پر تشدید کی صورت میں صیغہ مجہول کے ساتھ بھی پڑھا گیا ہے۔ «فَلْيَتَّحِر» باب افتعال ہے۔ تجارت سے ماخوذ ہے۔ «وَلَا يَتْرُكْهُ» نہی کا صیغہ ہے، یعنی مال یتیم کو یوں بےکار پڑا نہ رہنے دے۔ «حَتّٰي تَاَكُلَهُ الصَّدَقَةُ» کہ زکاۃ ہی اسے کھا جائے، یعنی سال بہ سال اس پر زکاۃ فرض ہوتی رہے اور آہستہ آہستہ ساری جائیداد اسی کی مد میں ادا ہو جائے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یتیم کے مال پر زکاۃ واجب ہے، باوجود اس کے کہ وہ ابھی شریعت کا مکلّف نہیں ہے۔ اگر واجب نہ ہوتی تو مال یتیم کے ختم ہونے کا اندیشہ کیسے پیدا ہوتا؟ جمہوری کی یہی رائے ہے اور یہی مسلک حق ہے۔
فائدہ: مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے۔ اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے جو اس کا شاہد بیان کیا ہے اسے بھی ضعیف قرار دیا ہے۔ تاہم مذکورہ روایت میں جو مسئلہ بیان ہوا ہے وہ درست اور راجح ہے، اگرچہ علماء اور فقہاء کے درمیان اختلاف ہے کہ یتیم کے مال سے زکاۃ نکالی جائے یا نہیں؟ اس موقف کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ حضرت عمر، حضرت علی، حضرت عبداللہ بن عمر، حضرت عائشہ اور حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم اجمعین جیسے جلیل القدر صحابہ بھی یتیم کے مال میں سے زکاۃ نکالنے کے قائل تھے۔ مولانا عبدالرحمٰن مبارک پوری رحمہ اللہ اس کی بابت لکھتے ہیں کہ کسی بھی صحابی سے صحیح سند کے ساتھ بچے کے مال میں عدم زکاۃ کا قول ثابت نہیں۔ دیکھیے: [تحفة الاحوذي: 15/2] گویا صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کا مسلک بھی یہی ہے کہ یتیم کے مال میں سے زکاۃ نکالی جائے اور جمہور علماء کا بھی یہی مسلک ہے۔ احناف، جو یتیم کے مال کی زکاۃ کے قائل نہیں، وہ کہتے ہیں کہ یتیم کے مال میں سے صدقتہ الفطر کی ادائیگی ضروری ہے۔ اسی طرح زرعی پیداوار میں سے عشر ادا کرنا بھی ضروری ہے، حالانکہ اس تفریق کی کوئی شرعی بنیاد نہیں ہے کہ یتیم کی زرعی پیدوارا میں سے عشر تو نکالا جائے لیکن اس کے دوسرے مال کو مستشنی کر دیا جائے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 491