ام کرز رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”لڑکے کی طرف سے دو ہم عمر بکریاں ہیں، اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری ہے“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: جو جانور نومولود کی طرف سے ذبح کیا جاتا ہے اسے عقیقہ کہتے ہیں، اور نومولود کے بالوں کو بھی عقیقہ کہا جاتا ہے، جو جانور کے ذبح کے وقت اتارے جاتے ہیں۔
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا: ہم لڑکے کی طرف سے دو بکریاں اور لڑکی طرف سے ایک بکری کا عقیقہ کریں۔
سلمان بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”لڑکے کا عقیقہ ہے تو تم اس کی طرف سے خون بہاؤ، اور اس سے گندگی کو دور کرو“۔
سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر لڑکا اپنے عقیقہ میں گروی ہے، اس کی طرف سے ساتویں دن عقیقہ کیا جائے، اس کا سر مونڈا جائے، اور نام رکھا جائے“۔
یزید بن عبدالمزنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لڑکے کی طرف سے عقیقہ کیا جائے، اور اس کے سر میں عقیقہ کے جانور کا خون نہ لگایا جائے“۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 11832) (صحیح) (یزید بن عبد المزنی مجہول ہے، لیکن عائشہ وبریدہ رضی اللہ عنہما کی حدیث سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے، ملاحظہ ہو: الإرواء: 4/ 388 / 399)»
وضاحت: ۱؎: جیسا کہ جاہلیت میں رواج تھا، سنن ابی داود کی روایت رقم (۲۸۳۷) جس میں عقیقہ کا خون بچے کے سر پر لگانے کا ذکر ہے یہ روایت منسوخ ہے۔
(مرفوع) حدثنا ابو بشر بكر بن خلف ، حدثنا يزيد بن زريع ، عن خالد الحذاء ، عن ابي المليح ، عن نبيشة ، قال: نادى رجل رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، إنا كنا نعتر عتيرة في الجاهلية في رجب، فما تامرنا؟، قال:" اذبحوا لله عز وجل في اي شهر ما كان، وبروا لله، واطعموا"، قالوا: يا رسول الله، إنا كنا نفرع فرعا في الجاهلية، فما تامرنا به؟، قال:" في كل سائمة فرع تغذوه ماشيتك، حتى إذا استحمل ذبحته، فتصدقت بلحمه اره، قال على: ابن السبيل فإن ذلك هو خير". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بِشْرٍ بَكْرُ بْنُ خَلَفٍ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ ، عَنْ أَبِي الْمَلِيحِ ، عَنْ نُبَيْشَةَ ، قَالَ: نَادَى رَجُلٌ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا كُنَّا نَعْتِرُ عَتِيرَةً فِي الْجَاهِلِيَّةِ فِي رَجَبٍ، فَمَا تَأْمُرُنَا؟، قَالَ:" اذْبَحُوا لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ فِي أَيِّ شَهْرٍ مَا كَانَ، وَبَرُّوا لِلَّهِ، وَأَطْعِمُوا"، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا كُنَّا نُفْرِعُ فَرَعًا فِي الْجَاهِلِيَّةِ، فَمَا تَأْمُرُنَا بِهِ؟، قَالَ:" فِي كُلِّ سَائِمَةٍ فَرَعٌ تَغْذُوهُ مَاشِيَتُكَ، حَتَّى إِذَا اسْتَحْمَلَ ذَبَحْتَهُ، فَتَصَدَّقْتَ بِلَحْمِهِ أُرَهُ، قَالَ عَلَى: ابْنِ السَّبِيلِ فَإِنَّ ذَلِكَ هُوَ خَيْرٌ".
نبیشہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آواز دی اور کہا: اللہ کے رسول! ہم زمانہ جاہلیت میں ماہ رجب میں «عتیرہ» کرتے تھے، اب آپ اس سلسلے میں ہمیں کیا حکم فرماتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس مہینے میں چاہو اللہ کے لیے قربانی کرو، اللہ تعالیٰ کے لیے نیک عمل کرو، اور (غریبوں کو) کھانا کھلاؤ“، لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم لوگ زمانہ جاہلیت میں «فرع» کرتے تھے، اب آپ اس سلسلے میں ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر «سائمہ»(چرنے والے جانور) میں «فرع» ہے جس کو تمہارا جانور جنے یہاں تک کہ جب وہ بوجھ لادنے کے لائق (یعنی جوان) ہو جائے تو اسے ذبح کرو، اور اس کا گوشت (میرا خیال ہے انہوں نے کہا) مسافروں پر صدقہ کر دے تو یہ بہتر ہے“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: «عتیرہ» رجب کی قربانی ہے، اور «فرع» جاہلیت میں جو مروج تھا وہ اونٹنی کا پہلونٹا بچہ ہوتا تھا، جس کو مشرک بتوں کے لئے ذبح کرتے تھے اور بعضوں نے کہا کہ جب سو اونٹ کسی کے پاس پورے ہو جاتے تو وہ ایک بچہ ذبج کرتا،اس کو «فرع» کہتے ہیں، اسلام میں یہ لغو ہو گیا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بچہ کاٹنے سے تو یہ بہتر ہے کہ اس کو جوان ہونے دے، جب مضبوط اور تیار ہو جائے تو اس کو اس وقت ذبح کر کے مسافروں کو کھلا دیا جائے“، بعضوں نے کہا: «فرع» اور «عتیرہ» اب بھی مستحب ہے لیکن اللہ تعالی کے لئے کرنا چاہئے، اور اس حدیث سے «فرع» کا جواز نکلتا ہے، دوسری روایت میں ہے کہ جب وہ جوان ہو جائے، تو اس کو اللہ تعالی کی راہ میں دے دے تاکہ جہاد میں اس پر سواری یا بوجھ لایا جائے۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہ «فرعہ» ہے اور نہ «عتیرہ»“(یعنی واجب اور ضروری نہیں ہے)، ہشام کہتے ہیں: «فرعہ»: جانور کے پہلوٹے بچے کو کہتے ہیں، ۱؎ اور «عتیرہ: وہ بکری ہے جسے گھر والے رجب میں ذبح کرتے ہیں ۲؎۔
وضاحت: ۱؎: جاہلیت میں اونٹنی کے پہلوٹے بچے کو لوگ اپنے معبودوں کے نام پر ذبح کر دیا کرتے تھے اسے «فرعہ» کہتے تھے۔ ۲؎: اسے «رجبیہ» بھی کہا جاتا ہے۔ یعنی وہ جانور جسے رجب کے مہینے میں ایک خاص نیت و ارادہ سے ذبح کیا جائے۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہ «فرعہ»(واجب) ہے اور نہ «عتیرہ»“۔ ابن ماجہ کہتے ہیں: یہ حدیث محمد بن ابی عمر عدنی کے تفردات میں سے ہے۔
شداد بن اوس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک اللہ عزوجل نے ہر چیز میں احسان (رحم اور انصاف) کو فرض قرار دیا ہے، پس جب تم قتل کرو تو اچھی طرح قتل کرو (تاکہ مخلوق کو تکلیف نہ ہو) اور جب ذبح کرو تو اچھی طرح ذبح کرو، اور چاہیئے کہ تم میں سے ہر ایک اپنی چھری کو تیز کر لے، اور اپنے ذبیحہ کو آرام پہنچائے“۱؎۔
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایک ایسے شخص پر ہوا جو ایک بکری کا کان پکڑے اسے گھسیٹ رہا تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کا کان چھوڑ دو، اور اس کی گردن کی طرف پکڑ لو (تاکہ اسے تکلیف نہ ہو)“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 4293، ومصباح الزجاجة: 1097) (ضعیف جدا)» (سند میں موسیٰ بن محمد منکر الحدیث راوی ہے)
قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد جدا
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف جدًا قال أبو حاتم الرازي: ”ھذه أحاديث منكرة كأنھا موضوعة،وموسي(بن محمد بن إبراهيم التيمي): ضعيف الحديث جدًا و أبوه …… لم يسمع من جابر ولا أبي سعيد“ (علل الحديث 241/2 ح 2214) وانظر الحديث الآتي (3185) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 490