ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ وہ قرض لیا کرتی تھیں تو ان کے گھر والوں میں سے کسی نے ان سے کہا: آپ ایسا نہ کریں، اور ان کے ایسا کرنے کو اس نے ناپسند کیا، تو وہ بولیں: کیوں ایسا نہ کریں، میں نے اپنے نبی اور خلیل صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ”کوئی بھی مسلمان ایسا نہیں جو قرض لیتا ہو اور اللہ جانتا ہو کہ وہ اس کو ادا کرنا چاہتا ہے مگر اللہ اس کو دنیا ہی میں اس سے ادا کرا دے گا“۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/البیوع 97 (4690)، (تحفة الأشراف: 18077) (صحیح)» (حدیث میں «فِي الدُّنْيَا» کا لفظ ثابت نہیں ہے، ملاحظہ ہو: تراجع الألبانی: رقم: 496)۔
وضاحت: ۱؎: یعنی اس کی ادائیگی کا راستہ پیدا کرے گا۔
قال الشيخ الألباني: صحيح دون قوله في الدنيا
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف نسائي (4690) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 465
(مرفوع) حدثنا إبراهيم بن المنذر ، حدثنا ابن ابي فديك ، حدثنا سعيد بن سفيان مولى الاسلميين، عن جعفر بن محمد ، عن ابيه ، عن عبد الله بن جعفر ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" كان الله مع الدائن حتى يقضي دينه ما لم يكن فيما يكره الله"، قال: فكان عبد الله بن جعفر يقول لخازنه، اذهب فخذ لي بدين، فإني اكره ان ابيت ليلة إلا والله معي بعد الذي سمعت من رسول الله صلى الله عليه وسلم. (مرفوع) حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ سُفْيَانَ مَوْلَى الْأَسْلَمِيِّينَ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" كَانَ اللَّهُ مَعَ الدَّائِنِ حَتَّى يَقْضِيَ دَيْنَهُ مَا لَمْ يَكُنْ فِيمَا يَكْرَهُ اللَّهُ"، قَالَ: فَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ يَقُولُ لِخَازِنِهِ، اذْهَبْ فَخُذْ لِي بِدَيْنٍ، فَإِنِّي أَكْرَهُ أَنْ أَبِيتَ لَيْلَةً إِلَّا وَاللَّهُ مَعِي بَعْدَ الَّذِي سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ قرض دار کے ساتھ ہوتا ہے یہاں تک کہ وہ اپنا قرض ادا کر دے، جب کہ وہ قرض ایسی چیز کے لیے نہ ہو جس کو اللہ ناپسند کرتا ہے، راوی کہتے ہیں کہ عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہما اپنے خازن سے کہتے کہ جاؤ میرے لیے قرض لے کر آؤ، اس لیے کہ میں ناپسند کرتا ہوں کہ میں کوئی رات گزاروں اور اللہ تعالیٰ میرے ساتھ نہ ہو۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 5228، ومصباح الزجاجة: 844)، وقد أخرجہ: سنن الدارمی/البیوع 55 (2637) (صحیح)»
صہیب الخیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو قرض لے اور اس کو ادا کرنے کی نیت نہ رکھتا ہو، تو وہ اللہ تعالیٰ سے چور ہو کر ملے گا“۔
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف يوسف بن محمد بن صيفي و عبد الحميد بن زياد ضعيفان و للحديث شواھد ضعيفة عند الطبراني (الأوسط 506/2 ح 1872،119/7 ح 6409) وغيره انوار الصحيفه، صفحه نمبر 465
ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کی روح بدن سے جدا ہوئی اور وہ تین چیزوں غرور (گھمنڈ) خیانت اور قرض سے پاک ہو، تو وہ جنت میں داخل ہو گا“۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آدمی کی جان اس کے قرض کے ساتھ لٹکی رہتی ہے یہاں تک کہ اس کی طرف سے ادائیگی کر دی جائے“۱؎۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو مر جائے اور اس کے ذمہ کسی کا کوئی دینار یا درہم ہو تو (قیامت میں) جہاں دینار اور درہم نہیں ہو گا، اس کی نیکیوں سے ادا کیا جائے گا“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 8447، ومصباح الزجاجة: 847)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/82) (صحیح)» (یہ سند حسن ہے لیکن شواہد کی بناء پر صحیح ہے)
(مرفوع) حدثنا احمد بن عمرو بن السرح المصري ، حدثنا عبد الله بن وهب ، اخبرني يونس ، عن ابن شهاب ، عن ابي سلمة ، عن ابي هريرة ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يقول إذا توفي المؤمن في عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم وعليه الدين فيسال:" هل ترك لدينه من قضاء؟"، فإن قالوا: نعم، صلى عليه. وإن قالوا: لا، قال:" صلوا على صاحبكم" فلما فتح الله على رسوله صلى الله عليه وسلم الفتوح قال:" انا اولى بالمؤمنين من انفسهم فمن توفي وعليه دين فعلي قضاؤه، ومن ترك مالا فهو لورثته". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ الْمِصْرِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ إِذَا تُوُفِّيَ الْمُؤْمِنُ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَلَيْهِ الدَّيْنُ فَيَسْأَلُ:" هَلْ تَرَكَ لِدَيْنِهِ مِنْ قَضَاءٍ؟"، فَإِنْ قَالُوا: نَعَمْ، صَلَّى عَلَيْهِ. وَإِنْ قَالُوا: لَا، قَالَ:" صَلُّوا عَلَى صَاحِبِكُمْ" فَلَمَّا فَتَحَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْفُتُوحَ قَالَ:" أَنَا أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ فَمَنْ تُوُفِّيَ وَعَلَيْهِ دَيْنٌ فَعَلَيَّ قَضَاؤُهُ، وَمَنْ تَرَكَ مَالًا فَهُوَ لِوَرَثَتِهِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب کوئی مومن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں وفات پا جاتا، اور اس کے ذمہ قرض ہوتا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پوچھتے: ”کیا اپنے قرض کی ادائیگی کے لیے اس نے کچھ چھوڑا ہے“؟ تو اگر لوگ کہتے: جی ہاں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی نماز جنازہ پڑھتے، اور اگر کہتے: نہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے: ”تم لوگ اپنے ساتھی کی نماز جنازہ پڑھ لو“، پھر جب اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو فتوحات عطا کیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں مومنوں سے ان کی جانوں سے زیادہ قریب ہوں، تو جو کوئی وفات پا جائے اور اس پر قرض ہو، تو اس کی ادائیگی میرے ذمے ہے، اور جو کوئی مال چھوڑے تو وہ اس کے وارثوں کا ہے“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: اسلام کے ابتدائی عہد میں جب مال و دولت کی کمی تھی تو جب کوئی مقروض مرتا نبی کریم ﷺ اس کی نماز جنازہ نہ پڑھتے تھے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو فرماتے وہ پڑھ لیتے، پھر جب اللہ تعالی نے فتوحات دیں، اور مال غنیمت ہاتھ آیا تو آپ نے حکم دیا کہ اب جو کوئی مسلمان مقروض مرے اس کا قرضہ میں ادا کروں گا، اسی طرح بے سہارا بال بچے چھوڑ جائے تو ان کی پرورش کا ذمہ بھی میر ے سر ہے۔
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو مال چھوڑ جائے تو وہ اس کے وارثوں کا ہے، اور جو قرض یا بال بچے چھوڑ جائے تو اس کے قرض کی ادائیگی اور اس کے بال بچوں کا خرچ مجھ پر ہے، اور ان کا معاملہ میرے سپرد ہے، اور میں مومنوں کے زیادہ قریب ہوں“۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الخراج 15 (2954)، (تحفة الأشراف: 2605)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/296، 371)، وھوطرف حدیث تقدم برقم: 45) (صحیح)»