ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آدمی کی جان اس کے قرض کے ساتھ لٹکی رہتی ہے یہاں تک کہ اس کی طرف سے ادائیگی کر دی جائے“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: مطلب یہ ہے کہ اس کو آرام اس وقت تک نہ ملے گا، یا وہ جنت میں داخل نہ ہونے پائے گا۔ جب تک کہ وہ قرض ادا نہ ہو جائے۔
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2413
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) لٹکنے کا مطلب ہے کہ مرنےکے بعد بھی اس پرادائیگی کی ذمے دار باقی رہتی ہے اور وہ ادا کرنے کے قابل نہیں رہتا، اس لیے اسے پریشانی رہتی ہے۔ یا یہ مطلب ہے کہ اسے جنت میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ملتی۔
(2) مالی حقوق میں نیابت درست ہے یعنی اگرکسی کی طرف سے ادائیگی کر دی جائے توقرض وغیرہ ادا ہوجاتا ہے اور وہ اللہ کے ہاں بھی اس ذمے داری سے سبک دوش ہو جاتا ہے۔
(3) فوت ہونے والے کا ترکہ تقسیم کرنے سے پہلے اس کا قرض ادا کرنا چاہیے۔ اگر ترکہ کم ہو تو وارث اپنے پاس سےقرض ادا کریں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2413
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 433
´حقوق العباد مرنے والے سے معاف نہیں ہوتے ` ”. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مومن کی روح قرض کے ساتھ اس وقت تک معلق (لٹکی) رہتی ہے جب تک اسے ادا نہیں کر دیا جاتا . . .“[بلوغ المرام /كتاب الجنائز/حدیث: 433]
لغوی تشریح: «مُعَلَّقةٌ» «تَعٰلِيق»(باب تفعيل) سے ماخوذ ہے، یعنی جن نعمتوں اور انعامات کا وہ مستحق ہوتا ہے وہ اس کے لیے بند کر دی جاتی ہیں، نہ اس کی نجات کا فرمان جاری کیا جاتا ہے اور نہ اس کی ہلاکت کا۔ «بِدَيُنِهِ» ”دال“پر فتحہ ہے۔ قرض اور ہر وہ چیز جس کا ادا کرنا مرنے والے کے ذمے واجب ہو۔ «حَتّٰي يُقْضٰي عَنْهُ» صیغہ مجہول ہے، یعنی تاوقتیکہ وہ قرض اس کی جانب سے ادا کر دیا جائے۔ فوائد و مسائل: ➊ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حقوق العباد مرنے والے سے معاف نہیں ہوتے تاوقتیکہ جس کا حق تھا وہ اسے ازخود معاف نہ کر دے یا کوئی دوسرا اس کی طرف سے ادا نہ کر دے۔ اسی طرح قرض کا بار اور بوجھ میت کے ذمے رہتا ہے جب تک کہ اس کی طرف سے ادا نہ ہو جائے، خواہ کوئی رشتہ ادا کرے یا احباب و رفقاء میں سے کوئی شخص یا ریاست اپنے شہری کی حیثیت سے اس کا قرض ادا کر دے۔ اس سے ذرا اس بات کا اندازہ لگائیں کہ یہ مال تو مرنے والے نے مالک کی رضا مندی سے واپسی کی نیت سے لیا تھا، جب تک اس کی ادائیگی نہیں ہوتی میت اسی قرض سے معلق رہتی ہے اور جن لوگوں نے دوسروں کی کوئی چیز یا مال فریب، دھوکے سے یا ڈاکا ڈال کر حاصل کیا ہو گا، ان کا کیا حشر ہو گا؟ ➋ اگر مرنے والے نے اپنے پیچھے اتنا مال چھوڑا ہو کہ اس سے اس کا قرض ادا ہو سکتا ہو تو وارث سب سے پہلے اس کے مال میں سے قرض کی ادائیگی کے پاپند ہیں۔ اگر وہ مفلس و غریب تھا کہ ترکے میں ادائیگی قرض کے بقدر نہیں چھوڑا تو پھر اسلامی ریاست اس کے قرض ادا کرنے کی پاپند ہو گی۔ چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص مال چھوڑ کر مرے تو وہ مال اس کے وارثوں کا حق ہے اور جو کوئی قرض چھوڑ جائے، اس کی ذمہ داری ہم پر ہے۔“[صحيح البخاري الاسقراض، حديث: 2398۔ وصحيح مسلم، الفرائض، حديث 1619] اور کبھی یوں فرمایا: ”اس کی ذمہ داری اللہ اور اس کے رسول پر ہے۔“[سنن ابن ماجه، ابواب الفرائض، حديث 2738] اس سے معلوم ہوا کہ قرض کی معافی نہیں کیونکہ یہ حقوق العباد سے متعلق ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 433
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1079
´مومن کی جان قرض کی وجہ سے اٹکی رہتی ہے جب تک کہ وہ ادا نہ ہو جائے۔` اس سند سے بھی ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مومن کی جان اس کے قرض کی وجہ سے اٹکی رہتی ۱؎ ہے جب تک کہ اس کی ادائیگی نہ ہو جائے“۲؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الجنائز/حدیث: 1079]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: یعنی اس کا معاملہ موقوف رہتا ہے اس کی نجات یا ہلاکت کا فیصلہ نہیں کیا جاتا ہے۔
2؎: یہ خاص ہے اس شخص کے ساتھ جس کے پاس اتنامال ہو جس سے وہ قرض ادا کرسکے رہا وہ شخص جس کے پاس مال نہ ہو اوروہ اس حال میں مرا ہوکہ قرض کی ادائیگی کا اس کا پختہ ارادہ رہا ہو توایسے شخص کے بارے میں حدیث میں واردہے کہ اس کا قرض اللہ تعالیٰ اداکردے گا۔
نوٹ: (اوپر کی حدیث سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1079