(مرفوع) حدثنا محمد بن إسماعيل بن البختري الواسطي ، حدثنا يزيد بن هارون ، عن إبراهيم بن سعد ، عن الزهري ، عن سالم ، عن ابيه ، قال: جاء اعرابي إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، إن ابي كان يصل الرحم، وكان وكان فاين هو؟، قال:" في النار"، قال: فكانه وجد من ذلك، فقال: يا رسول الله، فاين ابوك، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" حيثما مررت بقبر كافر، فبشره بالنار"، قال: فاسلم الاعرابي بعد، وقال: لقد كلفني رسول الله صلى الله عليه وسلم تعبا، ما مررت بقبر كافر، إلا بشرته بالنار. (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل بْنِ الْبَخْتَرِيِّ الْوَاسِطِيُّ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: جَاءَ أَعْرَابِيٌّ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ أَبِي كَانَ يَصِلُ الرَّحِمَ، وَكَانَ وَكَانَ فَأَيْنَ هُوَ؟، قَالَ:" فِي النَّارِ"، قَالَ: فَكَأَنَّهُ وَجَدَ مِنْ ذَلِكَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَأَيْنَ أَبُوكَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" حَيْثُمَا مَرَرْتَ بِقَبْرِ كَافِرٍ، فَبَشِّرْهُ بِالنَّارِ"، قَالَ: فَأَسْلَمَ الْأَعْرَابِيُّ بَعْدُ، وَقَالَ: لَقَدْ كَلَّفَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَعَبًا، مَا مَرَرْتُ بِقَبْرِ كَافِرٍ، إِلَّا بَشَّرْتُهُ بِالنَّارِ.
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک اعرابی (دیہاتی) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور کہا: اللہ کے رسول! میرے والد صلہ رحمی کیا کرتے تھے، اور اس اس طرح کے اچھے کام کیا کرتے تھے، تو اب وہ کہاں ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ جہنم میں ہیں“ اس بات سے گویا وہ رنجیدہ ہوا، پھر اس نے کہا: اللہ کے رسول! آپ کے والد کہاں ہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم کسی مشرک کی قبر کے پاس سے گزرو، تو اس کو جہنم کی خوشخبری دو“ اس کے بعد وہ اعرابی (دیہاتی) مسلمان ہو گیا، اور کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ پر ایک ذمہ داری ڈال دی ہے، اب کسی بھی کافر کی قبر سے گزرتا ہوں تو اسے جہنم کی بشارت دیتا ہوں۔
It was narrated from Salim that his father said:
“A Bedouin came to the Prophet (ﷺ) and said: ‘O Messenger of Allah, my father used to uphold the ties of kinship, and so and so forth, where is he?’ He said: ‘In the Fire.’ It was as if he found that difficult to bear. Then he said: ‘O Messenger of Allah. Where is your father?’ The Messenger of Allah (ﷺ) said: ‘Whenever you pass by the grave of an idolater, give him the tidings of Hell-fire.’ The Bedouin later became Muslim, and he said: ‘The Messenger of Allah (ﷺ) gave me a difficult task. I never passed the grave of an idolater but I gave him the tidings of Hell-fire.’”
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف الزهري عنعن انوار الصحيفه، صفحه نمبر 435
حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کی بہت زیادہ زیارت کرنے والی عورتوں پر لعنت بھیجی ہے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 3403، ومصباح الزجاجة: 565)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/442، 443) (حسن)» (نیز ملاحظہ ہو: الإرواء)
وضاحت: ۱؎: یہ اور اس معنی کی دوسری احادیث سے یہ امر قوی ہوتا ہے کہ عورتوں کو قبروں کی زیارت کرنا منع ہے، اس حدیث میں زوارات مبالغہ کا صیغہ ہے، اس لئے عام عورتوں کے لئے زیارت قبور کی اجازت اوپر کی (حدیث نمبر ۱۵۷۱) سے حاصل ہے، جس میں رسول اکرم ﷺ نے ممانعت کے بعد مسلمانوں کو زیارت قبور کا اذن عام دیا ہے، تاکہ وہ اس سے عبرت و موعظت حاصل کریں، اور عورتیں بھی اس سے عبرت و موعظت کے حصول میں مردوں کی طرح محتاج اور حقدار ہیں۔ اس سلسلے میں متعدد احادیث بھی ہیں۔ ۱- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے عورتوں کو قبروں کی زیارت کی اجازت دی۔(سنن الاثرم ومستدرک الحاکم)۲- صحیح مسلم میں ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! جب میں قبروں کی زیارت کروں تو کیا کہوں؟۔ آپ ﷺ نے یوں فرمایا: کہو «السلام على أهل الديار من المؤمنين» ۔ ۳- حاکم نے روایت کی ہے کہ فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہا اپنے چچا حمزہ رضی اللہ عنہ کے قبر کی زیارت ہر جمعہ کو کیا کرتیں تھیں۔ ۴- صحیح بخاری میں ہے کہ نبی کریم ﷺ ایک عورت پر سے گزرے جو ایک قبر پر رو رہی تھی، لیکن آپ ﷺ نے اس پر قبر کی زیارت کی وجہ سے نکیر نہیں فرمائی۔ اجازت اور عدم اجازت میں یوں مطابقت ہو سکتی ہے کہ ان عورتوں کے لئے ممانعت ہے جو زیارت میں مبالغہ سے کام لیں، یا زیارت کے وقت نوحہ وغیرہ کریں، اور ان عورتوں کے لئے اجازت ہے جو خلاف شرع کام نہ کریں۔ قرطبی نے کہا کہ لعنت ان عورتوں سے خاص ہے جو بہت زیادہ زیارت کو جائیں، کیونکہ حدیث میں زوارات القبور مبالغہ کا صیغہ منقول ہے، اور شاید اس کی وجہ یہ ہو گی کہ جب عورت اکثر زیارت کو جائے گی تو مرد کے کاموں اور ضرورتوں میں خلل واقع ہو گا۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کی بہت زیادہ زیارت کرنے والی عورتوں پر لعنت بھیجی ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الجنائز 82 (3236)، سنن الترمذی/الصلاة 122 (320)، سنن النسائی/الجنائز104 (2045)، (تحفة الأشراف: 5370)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/229، 324، 337) (حسن)» (سابقہ حدیث سے یہ حسن ہے، لیکن «زائرات» کے لفظ کی روایت ضعیف ہے)
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کی بہت زیادہ زیارت کرنے والی عورتوں پر لعنت بھیجی ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الجنائز 62 (1056)، (تحفة الأشراف: 14980)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/337، 356) (حسن)» (شواہد و متابعات کی بناء پر یہ حدیث حسن ہے، ورنہ اس کی سند میں محمد بن طالب مجہول ہیں، ملاحظہ ہو: الإرواء: 762)
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نکلے اور کئی عورتیں بیٹھی ہوئی تھیں، آپ نے پوچھا: ”تم لوگ کیوں بیٹھی ہوئی ہو“؟ انہوں نے کہا: ہم جنازے کا انتظار کر رہی ہیں، آپ نے پوچھا: ”کیا تم لوگ جنازے کو غسل دو گی“؟ انہوں نے کہا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کیا اسے اٹھاؤ گی“؟ انہوں نے کہا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کیا تم بھی ان لوگوں کے ساتھ جنازہ قبر میں اتارو گی جو اسے اتاریں گے“؟ انہوں نے کہا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم لوگ گناہ گار ہو کر ثواب سے خالی ہاتھ (اپنے گھروں کو) واپس جاؤ“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 10269، ومصباح الزجاجة: 566) (ضعیف)» (اس کی سند میں دینار ابو عمر اور اسماعیل بن سلمان ضعیف ہیں، ابن الجوزی نے اس حدیث کو العلل المتناہیہ میں ذکر کیا ہے، نیز ملاحظہ ہو: 1لضعیفہ: 2742)
It was narrated that ‘Ali said:
“The Messenger of Allah (ﷺ) went out and saw some women sitting, and he said: ‘What are you sitting here for?’ They said: ‘We are waiting for the funeral.’ He said: ‘Are you going to wash the deceased?’ They said: ‘No.’ He said: ‘Are you going to lower him into the grave?’ They said: ‘No.’ He said: ‘Then go back with a burden of sin and not rewarded.’”
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف إسماعيل بن سلمان بن أبي المغيرة الكوفي: ضعيف (تقريب: 450) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 435
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت کریمہ: «ولا يعصينك في معروف»(سورة الممتنحة: 12)”نیک باتوں میں تمہاری نافرمانی نہ کریں“ کی تفسیر کے سلسلہ میں فرمایا: ”اس سے مراد نوحہ ہے ۱؎“۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/تفسیر القرآن 60 (3307)، (تحفة الأشراف: 15769)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/320) (حسن)»
وضاحت: ۱؎: نوحہ کہتے ہیں چلا چلا کر میت پر رونے، اور اس کے فضائل بیان کرنے کو، یہ جاہلیت کی رسم تھی، اور اب تک جاہلوں میں رائج ہے اس لئے نبی کریم ﷺ نے اس سے منع کیا، لیکن آہستہ سے رونا جو بے اختیاری اور رنج کی وجہ سے ہو وہ منع نہیں ہے، جیسا کہ آگے آئے گا۔
It was narrated from Umm Salamah from the Prophet (ﷺ) regarding:
“And that they will not disobey you in Ma’ruf (all that is good in Islam);” he said: “(It is about) wailing.”
معاویہ رضی اللہ عنہ کے غلام حریز کہتے ہیں کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے حمص میں خطبہ دیا تو اپنے خطبہ میں یہ ذکر کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نوحہ (چلّا کر رونے) سے منع فرمایا ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 11403، ومصباح الزجاجة: 567)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/101) (صحیح)» (دوسری سندوں سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس کی سند میں ”عبد اللہ بن دینار“ ضعیف اور حریز مجہول راوی ہیں)
Jarir, the freed slave of Mu’awiyah, said:
“Mu’awiyah delivered a sermon in Hims, and in his sermon he mentioned that the Messenger of Allah (ﷺ) forbade wailing.”
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف عبد اللّٰه بن دينار الحمصي ضعيف ضعفه الجمھور و حريز مولي معاوية مجھول و للحديث طريق آخر عند البخاري في التاريخ الكبير (7/ 234) و سنده ضعيف فيه كيسان مولي معاوية مجھول الحال،و ثقه ابن حبان وحده و في سماع محمد بن مهاجر الشامي منه نظر و حديث البخاري (4892) و مسلم (936) يغني عنه انوار الصحيفه، صفحه نمبر 435
ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نوحہ (ماتم) کرنا جاہلیت کا کام ہے، اور اگر نوحہ (ماتم) کرنے والی عورت بغیر توبہ کے مر گئی، تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے تارکول (ڈامر) کے کپڑے، اور آگ کے شعلے کی قمیص بنائے گا“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 12160، ومصباح الزجاجة: 568)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الجنائز10 (924)، مسند احمد (5/342) (صحیح)»
It was narrated from Abu Malik Ash’ari that the Messenger of Allah (ﷺ) said:
‘Wailing is one of the affairs of the Days of Ignorance, and if the woman who wails dies without having repented, Allah will cut a garment of pitch (tar) for her and a shirt of flaming fire.’”
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میت پر نوحہ کرنا جاہلیت کا کام ہے، اگر نوحہ کرنے والی عورت توبہ کرنے سے پہلے مر جائے، تو وہ قیامت کے دن اس حال میں اٹھائی جائے گی کہ تارکول کی قمیص پہنے ہو گی، اور اس کو اوپر سے جہنم کی آگ کے شعلوں کی ایک قمیص پہنا دی جائے گی“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 6247، ومصباح الزجاجة: 569) (صحیح)» (دوسری سند سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس کی سند میں ’’عمر بن راشد“ ضعیف راوی ہے، اور اس کی حدیث یحییٰ بن ابی کثیر سے مضطرب ہے)
It was narrated from Ibn ‘Abbas that the Messenger of Allah (ﷺ) said:
“Wailing over the dead is one of the affairs of the Days of Ignorance and if the woman who wails does not repent before she dies, she will be resurrected on the Day of Resurrection wearing a shirt of pitch (tar), over which she will wear a shirt of flaming fire.”