ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کی بہت زیادہ زیارت کرنے والی عورتوں پر لعنت بھیجی ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الجنائز 62 (1056)، (تحفة الأشراف: 14980)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/337، 356) (حسن)» (شواہد و متابعات کی بناء پر یہ حدیث حسن ہے، ورنہ اس کی سند میں محمد بن طالب مجہول ہیں، ملاحظہ ہو: الإرواء: 762)
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1576
اردو حاشہ: فائدہ: اس سے مراد بار بار زیارت کرنے والیاں ہیں۔ زوارات مبالغے کا صیغہ ہے۔ یعنی کثرت سے یا بار بار زیارت کرنے والی عورتیں۔ کبھی کبھار جانے کا جواز اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔ کہ حضرت عائشہ نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت فرمایا کہ قبرستان میں جا کر مدفونین کے لئے کس طرح دعا کروں تو رسول اللہﷺ نے انھیں یہ نہیں فرمایا تم جایا ہی نہ کرو۔ یوں کہا۔ (السَّلَامُ عَلَي أَهْلَ الدِّيَارِ مِنَ الْمُوْمِنِيْنَ وَالْمُسْلِمِيْن...الخ) ديكھیے: (صحیح مسلم، الجنائز، باب ما یقال عند دخول القبور والدعاء لأھلھا: حدیث: 974)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1576
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
ابوعبدالله صارم حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ترمذي 1056
´عوتوں کے لیے قبروں کی زیارت` «. . . أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَعَنَ زَوَّارَاتِ الْقُبُورِ . . .» ”. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کی زیادہ زیارت کرنے والی عورتوں پر لعنت بھیجی ہے . . .“[سنن ترمذي/كتاب الجنائز عن رسول الله صلى الله عليه وسلم: 1056]
فوائد و مسائل: یہ ممانعت منسوخ ہے: قبروں کی زیارت سے مردوں اور عوتوں سب کو منع کیا گیا تھا، لیکن بعد میں یہ ممانعت منسوخ کر کے سب کو اجازت دے دی گئی۔ یہ حدیث اس دور کی ہے، جب قبروں کی زیارت منع تھی۔ امام حاکم رحمہ اللہ اس اور اس جیسی دیگر احادیث کے بارے میں فرماتے ہیں: ”زیارت قبور سے ممانعت کے بارے میں مروی یہ احادیث منسوخ ہیں۔“[المستدرك على الصحيحين: 1385] ↰ امام حاکم رحمہ اللہ کہ یہ بات بالکل درست ہے، درج ذیل دلائل بھی اسی موقف کی تائید کرتے ہیں۔
دلیل نمبر: ➊ عبداللہ بن ابوملیکہ تابعی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں: سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ایک دن قبرستان کی جانب سے آئیں، تو میں نے ان سے دریافت کیا: مومنوں کی ماں! آپ کہاں سے آئی ہیں؟ انہوں نے فرمایا: اپنے بھائی عبدالرحمٰن بن ابوبکر رضی اللہ عنہما کی قبر سے۔ میں عرض کیا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کی زیارت سے منع نہیں فرمایا تھا؟ سیدہ رضی اللہ عنہا فرمانے لگیں: جی منع تو فرمایا تھا، لیکن بعد میں قبروں کی زیارت کا حکم فرما دیا تھا۔“[المستدرك على الصحيحين للحاكم: 376/1، السنن الكبريٰ للبيهقي 78/3 وسنده صحيح] ◈ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو ”صحیح“ قرار دیا ہے۔ [تلخيص المستدرك: 376/1] ◈ حافظ عراقی رحمہ اللہ نے اس کی سند کو ”جید“ کہا ہے۔ [تخريج احاديث الاحياء: 2608/8] ◈ حافظ بوصیری لکھتے ہیں: ”یہ سند صحیح اور اس کے راوی ثقہ ہیں۔“[مسباح الزجاجة: 568] سنن ابن ماجہ [1570] کے الفاظ یوں ہیں: «رخص فى زيارة القبور» ”پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کی زیارت کرنے کی اجازت دے دی۔“
دلیل نمبر: ➋ سیدنا بریدہ اسلمی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: «نهيتكم عن زيارة القبور، فزوروها» ”میں تمہیں قبروں کی زیارت سے منع کرتا تھا، لیکن اب تم قبرستان چلے جایا کرو۔“[صحيح مسلم: 977] ↰ یہ حدیث پاک عام ہے، جس میں مرد و عورت دونوں شامل ہیں۔ مذکورہ بالا حدیث بھی یہی بتاتی ہے۔