سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
کتاب سنن ابن ماجه تفصیلات

سنن ابن ماجه
کتاب: صلاۃ جنازہ کے احکام و مسائل
Chapters: Regarding Funerals
48. بَابُ : مَا جَاءَ فِي زِيَارَةِ قُبُورِ الْمُشْرِكِينَ
48. باب: کفار و مشرکین کی قبروں کی زیارت کا بیان۔
Chapter: What was narrated concerning visiting the graves of the idolaters
حدیث نمبر: 1573
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن إسماعيل بن البختري الواسطي ، حدثنا يزيد بن هارون ، عن إبراهيم بن سعد ، عن الزهري ، عن سالم ، عن ابيه ، قال: جاء اعرابي إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، إن ابي كان يصل الرحم، وكان وكان فاين هو؟، قال:" في النار"، قال: فكانه وجد من ذلك، فقال: يا رسول الله، فاين ابوك، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" حيثما مررت بقبر كافر، فبشره بالنار"، قال: فاسلم الاعرابي بعد، وقال: لقد كلفني رسول الله صلى الله عليه وسلم تعبا، ما مررت بقبر كافر، إلا بشرته بالنار.
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل بْنِ الْبَخْتَرِيِّ الْوَاسِطِيُّ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: جَاءَ أَعْرَابِيٌّ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ أَبِي كَانَ يَصِلُ الرَّحِمَ، وَكَانَ وَكَانَ فَأَيْنَ هُوَ؟، قَالَ:" فِي النَّارِ"، قَالَ: فَكَأَنَّهُ وَجَدَ مِنْ ذَلِكَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَأَيْنَ أَبُوكَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" حَيْثُمَا مَرَرْتَ بِقَبْرِ كَافِرٍ، فَبَشِّرْهُ بِالنَّارِ"، قَالَ: فَأَسْلَمَ الْأَعْرَابِيُّ بَعْدُ، وَقَالَ: لَقَدْ كَلَّفَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَعَبًا، مَا مَرَرْتُ بِقَبْرِ كَافِرٍ، إِلَّا بَشَّرْتُهُ بِالنَّارِ.
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک اعرابی (دیہاتی) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور کہا: اللہ کے رسول! میرے والد صلہ رحمی کیا کرتے تھے، اور اس اس طرح کے اچھے کام کیا کرتے تھے، تو اب وہ کہاں ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ جہنم میں ہیں اس بات سے گویا وہ رنجیدہ ہوا، پھر اس نے کہا: اللہ کے رسول! آپ کے والد کہاں ہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم کسی مشرک کی قبر کے پاس سے گزرو، تو اس کو جہنم کی خوشخبری دو اس کے بعد وہ اعرابی (دیہاتی) مسلمان ہو گیا، اور کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ پر ایک ذمہ داری ڈال دی ہے، اب کسی بھی کافر کی قبر سے گزرتا ہوں تو اسے جہنم کی بشارت دیتا ہوں۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 6803، ومصباح الزجاجة: 564) (صحیح)» ‏‏‏‏ (ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی: 18)

It was narrated from Salim that his father said: “A Bedouin came to the Prophet (ﷺ) and said: ‘O Messenger of Allah, my father used to uphold the ties of kinship, and so and so forth, where is he?’ He said: ‘In the Fire.’ It was as if he found that difficult to bear. Then he said: ‘O Messenger of Allah. Where is your father?’ The Messenger of Allah (ﷺ) said: ‘Whenever you pass by the grave of an idolater, give him the tidings of Hell-fire.’ The Bedouin later became Muslim, and he said: ‘The Messenger of Allah (ﷺ) gave me a difficult task. I never passed the grave of an idolater but I gave him the tidings of Hell-fire.’”
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
الزهري عنعن
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 435

   سنن ابن ماجه1573عبد الله بن عمرحيثما مررت بقبر كافر فبشره بالنار

سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 1573 کے فوائد و مسائل
  حافظ ابويحييٰ نورپوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابن ماجه 1573  
فوائد و مسائل
اس کی سند ضعیف ہے۔
امام زہری مدلس ہیں اور بصیغہ عن روایت کر رہے ہیں۔ کہیں بھی سماع کی تصریح نہیں ملی۔
البتہ اسی معنی کی ایک روایت صحیح مسلم (203) میں بھی موجود ہے، لیکن اس روایت میں دیہاتی کو ہرمشرک کی قبر سے گزرتے ہوئے اسے جہنم کی بشارت دینے کا حکم مذکور نہیں۔
   ماہنامہ السنہ جہلم ، شمارہ نمبر 46-48، حدیث/صفحہ نمبر: 38   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1573  
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
مذکورہ روایت کو ہمارے شیخ نے ضعیف قرار دیا ہے۔
جبکہ دیگر محققین نے اسے صحیح قرار دیتے ہیں۔
دیکھئے: (الصحیحة للألبانی، رقم: 18، وسنن ابن ماجة للدکتور بشار عواد، حدیث: 1572)

(2)
اسلام قبول کئے بغیر بڑی سے بڑی نیکیاں بھی جہنم سے نجات کا ذریعہ نہیں بن سکتیں۔

(3)
نبی کریمﷺ کی نبوت کا یقین ہونے کے باوجود جب تک باقاعدہ اسلام قبول کرکے نبی اکرمﷺ کی اطاعت اور احکام شریعت پر عمل کرنے کا وعدہ نہ کیاجائے۔
نجات نہیں ہوتی جیسے فرعون کو یقین تھا۔
کہ موسیٰ علیہ السلام سچے ہیں۔
لیکن ایمان واطاعت کے بغیر اس یقین کا اسے کوئی فائدہ نہیں ہوا۔
اس لئے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا تھا۔
﴿لَقَدْ عَلِمْتَ مَآ أَنزَلَ هَـٰٓؤُلَآءِ إِلَّا رَبُّ ٱلسَّمَـٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ بَصَآئِرَ وَإِنِّى لَأَظُنُّكَ يَـٰفِرْعَوْنُ مَثْبُورًا﴾  (بنی اسرایئل: 102)
 تجھے معلوم ہے کہ یہ (معجزات ودلائل)
آسمان اور زمین کے مالک ہی نے بصیرت بنا کر (غور کرنے کےلئے)
نازل کیے ہیں۔
اور اے فرعون! میں تو سمجھتا ہوں کہ تو یقیناً تباہ ہونے والا ہے۔
اس طرح ابو طالب بھی اسی بات کا اقرارکرتا تھا کہ حضرت محمد ﷺ دین کا سچا ہے۔
لیکن اسے قبول نہیں کیا۔
لہٰذا نبی کریمﷺ کی قرابت بھی اسے جہنم سے نہیں بچا سکی
(4)
اگر کوئی ایسا سوال پوچھ لیا جائے۔
جس کا صریح جواب دینا حکمت کے منافی ہو تو مناسب انداز سے سائل کو کسی بہتر چیز کی طرف متوجہ کیا جاسکتا ہے۔

(5)
ہرمشرک کو جہنم کی خوشخبری دینے کا حکم ایک نفسیاتی علاج تھا۔
اسے اپنے والد کے جہنمی ہونے کا سن کر جو صدمہ ہوا تھا اس کا علاج کیا گیا کہ صرف تمھارے باپ کے لئے نہیں بلکہ ہر کافر کےلئے یہی حکم ہے۔
داعی اور عالم کو چاہیے کہ لوگوں کی نفسیات کا خیال رکھے۔
لیکن صحیح کو غلط اور غلط کو صحیح نہ کہے
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1573   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.