انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں داخل ہوئے، تو دو ستونوں کے درمیان ایک رسی تنی ہوئی دیکھی، پوچھا ”یہ رسی کیسی ہے؟“ لوگوں نے کہا: زینب کی ہے، وہ یہاں نماز پڑھتی ہیں، جب تھک جاتی ہیں تو اسی رسی سے لٹک جاتی ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے کھول دو، اسے کھول دو، تم میں سے نماز پڑھنے والے کو نماز اپنی نشاط اور چستی میں پڑھنی چاہیئے، اور جب تھک جائے تو بیٹھ رہے“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: جب تھک جائے تو نماز سے رک جائے اور آرام کرے، مقصد یہ ہے کہ طاقت سے زیادہ نفلی عبادت ضروری نہیں ہے، جب تک دل لگے اس وقت تک کرے، بے دلی اور نفرت کے ساتھ عبادت کرنے سے بچتا رہے، اور اگر نفلی عبادت سے تھک کر کوئی آرام کرے، تاکہ دوبارہ عبادت کی قوت حاصل ہو جائے، تو اس کا یہ آرام بھی مثل عبادت کے ہو گا۔
It was narrated from Anas bin Malik that the Messenger of Allah (ﷺ) entered the mosque and saw a rope tied between two pillars. He said, “What is this rope?” They said:
“It belongs to Zainab. She prays here and when she gets tired she holds on to it.” He said: “Untie it, untie it; let any one of you pray when he has energy, if he gets tired let him sit down.”
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب کوئی شخص نماز کے لیے کھڑا ہو پھر (نیند کے غلبے کی وجہ سے) قرآن اس کی زبان پر لڑکھڑانے لگے، اور اسے معلوم نہ رہے کہ زبان سے کیا کہہ رہا ہے، تو اسے سو جانا چاہیئے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 14815)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/المسافرین 31 (787)، سنن ابی داود/الصلاة 308 (1311)، مسند احمد (2/218) (صحیح)»
It was narrated from Abu Hurairah that the Prophet (ﷺ) said:
“When anyone of you gets up to pray at night, and his tongue stumbles over the words of the Qur’an, and he does not know what he is saying, let him lie down.”
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے مغرب اور عشاء کے درمیان بیس رکعت پڑھی، اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں گھر بنائے گا“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ (تحفة الأشراف: 17336، ومصباح الزجاجة: 481)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الصلاة 204 (435) (موضوع)» (اس کی سند میں یعقوب بن ولید ہے جو حدیثیں وضع کیا کرتا تھا، نیز ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی: 467)
It was narrated that ‘Aishah said:
“The Messenger of Allah (ﷺ) said: ‘Whoever prays twenty Rak’ah between Maghrib and ‘Isha’, Allah will build for him a house in Paradise.’”
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: موضوع
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده موضوع يعقوب بن الوليد:كذاب،كذبه أحمد وغيره وللحديث شاهد موضوع عند ابن عدي (1798/5) فيه عمرو بن جرير كذبه أبو حاتم انوار الصحيفه، صفحه نمبر 425
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے مغرب کے بعد چھ رکعتیں پڑھیں، اور بیچ میں زبان سے کوئی غلط بات نہیں نکالی، تو اس کی یہ نماز بارہ سال کی عبادت کے برابر قرار دی جائے گی“۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: (1167)، (تحفة الأشراف: 15412) (ضعیف جدا)» (اس کی سند میں عمر بن ابی خثعم الیمانی منکر الحدیث اور ابو عمر حفص بن عمر ضعیف ہے)
It was narrated that Abu Hurairah said:
“The Messenger of Allah (ﷺ) said: ‘Whoever prays six Rak’ah after the Maghrib and does not speak evil between them, they will be made equivalent to twelve years’ worship.’”
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: ضعيف جدا
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف ضعيف جدًا انظر الحديث السابق (1167) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 425
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا ابو الاحوص ، عن طارق ، عن عاصم بن عمرو ، قال: خرج نفر من اهل العراق إلى عمر، فلما قدموا عليه قال لهم: ممن انتم؟، قالوا: من اهل العراق، قال: فبإذن جئتم؟، قالوا: نعم، قال: فسالوه عن صلاة الرجل في بيته، فقال عمر : سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال:" اما صلاة الرجل في بيته فنور فنوروا بيوتكم". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ ، عَنْ طَارِقٍ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ: خَرَجَ نَفَرٌ مِنْ أَهْلِ الْعِرَاقِ إِلَى عُمَرَ، فَلَمَّا قَدِمُوا عَلَيْهِ قَالَ لَهُمْ: مِمَّنْ أَنْتُمْ؟، قَالُوا: مِنْ أَهْلِ الْعِرَاقِ، قَالَ: فَبِإِذْنٍ جِئْتُمْ؟، قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: فَسَأَلُوهُ عَنْ صَلَاةِ الرَّجُلِ فِي بَيْتِهِ، فَقَالَ عُمَرُ : سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" أَمَّا صَلَاةُ الرَّجُلِ فِي بَيْتِهِ فَنُورٌ فَنَوِّرُوا بُيُوتَكُمْ".
عاصم بن عمرو کہتے ہیں کہ عراق کے کچھ لوگ عمر رضی اللہ عنہ سے ملنے کے لیے چلے، جب آپ ان کے پاس پہنچے تو آپ نے ان سے پوچھا: تم لوگ کس جگہ سے تعلق رکھتے ہو؟ ان لوگوں نے کہا: عراق سے، پوچھا: کیا اپنے امیر کی اجازت سے آئے ہو؟ ان لوگوں نے کہا: ہاں، انہوں نے عمر رضی اللہ عنہ سے گھر میں نماز پڑھنے کے متعلق پوچھا: تو آپ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آدمی کا گھر میں نماز پڑھنا نور ہے، لہٰذا تم اپنے گھروں کو روشن کرو“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 10476، ومصباح الزجاجة: 482)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/14) (ضعیف)» (اس کی سند میں عاصم بن عمرو ضعیف ہیں)
It was narrated that ‘Asim bin ‘Amr said:
“A group from the people of ‘Iraq came to ‘Umar and when they came to him, he said to them: ‘Where are you from?’ They said: ‘From the inhabitants of ‘Iraq.’ He said: ‘Have you come with permission?’ They said: ‘Yes.’ Then they asked him about a man’s prayer in his house. ‘Umar said: ‘I asked the Messenger of Allah (ﷺ) and he said: “As for a man’s prayer in his house, it is light, so illuminate your houses.’”” Another chain with similar wording.
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف عاصم عن عمر: مرسل (تهذيب الكمال 323/9) وھو مجهول (التحرير: 5193) وأبو إسحاق عنعن انوار الصحيفه، صفحه نمبر 425
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب کوئی شخص اپنی نماز ادا کر لے تو اس میں سے اپنے گھر کے لیے بھی کچھ حصہ رکھے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ اس کی نماز کی وجہ سے اس کے گھر میں خیر پیدا کرنے والا ہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 3985، ومصباح الزجاجة: 483)، ومسند احمد (3/15، 59) (صحیح)»
It was narrated from Abu Sa’eed Al-Khudri that the Prophet (ﷺ) said:
“When anyone of you has finished his prayer, let him give his house a share of that, for Allah will put something good in his house because of that prayer.”
وضاحت: ۱؎: گھر کو قبرستان بنانے کا مطلب یہ ہے کہ قبرستان کی طرح گھر میں بھی عدم عبادت والی ویرانی ماحول پیدا نہ کرو، بلکہ نفلی نماز گھر ہی میں پڑھا کرو تاکہ گھر میں بھی اللہ کی عبادت والا ایک پر رونق ماحول دیکھائی دے کہ جس سے بچوں کی تربیت میں بھی پاکیزگی کا اثر نمایاں ہو گا۔
عبداللہ بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: دونوں میں کون افضل ہے گھر میں نماز پڑھنا یا مسجد میں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میرے گھر کو نہیں دیکھتے کس قدر مسجد سے قریب ہے، اس کے باوجود بھی مجھے فرض کے علاوہ نفلی نمازیں گھر میں پڑھنی زیادہ محبوب ہیں“۱؎۔
‘Abdullah bin Sa’d said:
“I asked the Messenger of Allah (ﷺ): ‘Which is better prayer in my house or prayer in the mosque?’ He said: ‘Do you not see how close my house is to the mosque?’ But praying in my house is dearer to me than praying in the mosque, apart from the prescribed prayers.’”
عبداللہ بن حارث کہتے ہیں کہ میں نے عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے زمانے میں نماز الضحی (چاشت کی نماز) کے متعلق پوچھا اور اس وقت لوگ (صحابہ) بہت تھے، لیکن ام ہانی رضی اللہ عنہا کے علاوہ کسی نے مجھے یہ نہیں بتایا کہ آپ نے یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نماز پڑھی، ہاں ام ہانی رضی اللہ عنہا نے یہ مجھے بتایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آٹھ رکعت پڑھی ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: بہت سی احادیث سے یہ ثابت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے چاشت کی نماز پڑھی، اور اس کے پڑھنے کی فضیلت بیان کی، اتنی بات ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے اس پر مواظبت نہیں کی، یہی وجہ ہے کہ بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نبی اکرم ﷺ کو پابندی سے چاشت کی نماز پڑھتے نہیں دیکھا، دوسری وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ آپ نوافل کی طرح اس کو گھر میں ادا کرتے رہے ہوں، جس سے اکثر لوگوں کو پتا نہ چلا ہو۔
It was narrated that ‘Abdullah bin Harith said:
“During the caliphate of ‘Uthman, when the people were present in large numbers, I asked about Duha prayer, and I could not find anyone who could tell me that he, meaning the Prophet (ﷺ), had prayed it, apart from Umm Hani’. She told me that he had prayed it with eight Rak’ah.”