عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: گھر کو قبرستان بنانے کا مطلب یہ ہے کہ قبرستان کی طرح گھر میں بھی عدم عبادت والی ویرانی ماحول پیدا نہ کرو، بلکہ نفلی نماز گھر ہی میں پڑھا کرو تاکہ گھر میں بھی اللہ کی عبادت والا ایک پر رونق ماحول دیکھائی دے کہ جس سے بچوں کی تربیت میں بھی پاکیزگی کا اثر نمایاں ہو گا۔
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1377
اردو حاشہ: فوائد و مسائل:
(1) ذکر الٰہی دل کی زندگی ہے۔ ذکر نہ کرنے والا مردے کی مانند ہے۔ نمازذکر کا بہترین طریقہ ہے۔
(2) قبرستان میں نماز پڑھنا منع ہے۔
(3) گھروں کوقبریں بنانے کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح قبرستان میں نماز نہیں پڑھی جاتی۔ اسی طرح گھروں میں نماز پڑھنے سے پرہیز نہ کرو۔ کہ فرض نمازوں کے علاوہ تمام نفلی نمازیں بھی مسجد میں ہی ادا کرنے لگو۔ بلکہ نفلی نمازیں گھر میں بھی پڑھا کرو۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1377
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 432
´قبروں میں نماز کے مکروہ ہونے کا بیان` «. . . قَالَ: اجْعَلُوا فِي بُيُوتِكُمْ مِنْ صَلَاتِكُمْ، وَلَا تَتَّخِذُوهَا قُبُورًا . . .» ”. . . نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنے گھروں میں بھی نمازیں پڑھا کرو اور انہیں بالکل مقبرہ نہ بنا لو . . .“[صحيح البخاري/كِتَاب الصَّلَاةِ: 432]
فوائد و مسائل: باب اور حدیث میں مناسبت: امام بخاری رحمہ اللہ نے باب قائم فرمایا کہ قبروں میں نماز کے مکروہ ہونے کا بیان اور حدیث پیش کی کہ اپنے گھروں کو قبریں نہ بناؤ مناسبت یہ ہے کہ قبروں پر نماز پڑھنا مکروہ ہے، لہٰذا اگر گھر میں نماز نفل نہ ادا کی گئی تو وہ بھی قبروں کے مانند ہوں گیں۔ دوسری مناسبت یہ ہے کہ قبر میں مردے نماز نہیں پڑھتے اور ان سے اعمال منقطع ہو جاتے ہیں اسی لیے حکم دیا کہ اپنے گھروں کو قبریں نہ بنائیں۔
◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ رقمطراز ہیں: «كأن المصنف أشار إلى ما رواه أبوداؤد والترمذي فى ذالك ليس على شرطه وهو حديث أبى سعيد الخدري مرفوعًا الأرض كلها مسجد إلا المقبرة والحمام، واستنبط من قوله فى الحديث ”ولا تتخذوها قبورًا“ ان القبور ليست بمحل للعبادة فتكون الصلاة فيها مكروهة»[فتح الباري، ج1، ص529] گویا مصنف رحمہ اللہ نے اشارہ فرمایا ہے اس حدیث کی طرف جس کو ابوداؤد اور ترمذی نے روایت فرمایا ہے۔ سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً (لیکن) یہ حدیث امام بخاری رحمہ اللہ کے شرط پر نہیں ہے کہ تمام زمین مسجد ہے سوائے مقبرے اور حمام کے اور اپنے قول کے لیے استنباط فرمایا حدیث سے کہ اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ۔ یقیناًً قبریں عبادت کے لیے نہیں ہوا کرتیں اور اس میں (یعنی مقبروں میں) نماز مکروہ ہوتی ہے۔
◈ ابن المنیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: ”حدیث اس بات پر دال ہے کہ گھر اور قبرستان میں (واضح) فرق ہے کیونکہ نماز کا حکم گھر میں دیا گیا ہے اور اسے قبرستان نہ بننے دینے کا حکم ہے۔ سوچیے کہ قبرستان نماز کی جگہ نہیں ہے۔ پس لہٰذا اسی وجہ سے اس کے تحت اس حدیث کو داخل فرمایا ہے۔“[المتواري، ص86]
◈ علامہ صدیق بن حسن القنوجی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: «وقد حمل البخاري هذا الحديث على منع الصلاة فى المقابر ولهذا ترجم به، وتعقب بأنه ليس فيه تعرض لجواز الصلاة فى المقابر ولا منعها، بل المراد منه الحث على الصلاة فى البيت، فأن الموتي لا يصلون فى بيوتهم، وكأنه قال: لا تكونوا كالموتي فى القبور حيث انقطعت عنهم الأعمال . . .»[عون الباري، ج1، ص453] یعنی امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ ثابت فرمایا حدیث سے کہ مقبروں پر نماز درست نہیں ہے اور اسی پر باب بھی قائم کیا، تعقب کیا ہے کہ اس حدیث میں کوئی تعرض نہیں ہے۔ مقبروں پر نماز ادا کرنے کا بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ نمازِ نفل گھر میں ادا کرنی چاہیے۔ کیونکہ مردے اپنے گھروں میں (یعنی قبروں میں) نماز ادا نہیں کرتے۔ گویا کہ یوں کہا: مردوں کی طرح نہ ہو جاؤ جو قبروں میں ہیں جبکہ ان کے اعمال ان سے منقطع ہو گئے۔۔۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی عادت کے موافق اس روایت کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ جو آپ کی شرائط پر نہیں (تمام زمین مسجد ہے سوائے مقبرے اور حمام کے)۔
◈ صدیق حسن خان صاحب رحمہ اللہ کی وضاحت سے واضح ہوا کہ حدیث میں ممانعت کے کوئی ایسے واضح الفاظ موجود نہیں ہیں۔ مگر امام بخاری رحمہ اللہ کا اشارہ ترمذی کی حدیث کی طرف ہے جہاں پر حکم واضح الفاظوں میں موجود ہے کہ مقبروں پر نماز نہ ادا کی جائے، بس یہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت ہے۔
فائدہ: چاروں مذاہب کے نزدیک قبروں پر مساجد بنانا حرام ہے۔ کیونکہ حدیث میں واضح طور پر سختی سے اس کی ممانعت وارد ہوئی ہے۔ ہم یہاں چاروں مذاہب سے قبروں کو مساجد بنانے کی نفی ثابت کریں گے۔ ان شاء اللہ ➊ شافعی مذہب: شافعی مذہب کے فقیہ ابن حجر الھیثمی نے [الزواجر عن اقتراف الكبائر، ج1، ص120] میں قبروں پر نماز پڑھنا، اسے مسجد بنانے کو کبیرہ گناہوں میں شمار کیا ہے۔ اور مزید فقیہ ابن حجر الھیتمی فرماتے ہیں ”کسی آدمی کا قبر پر تبرک حاصل کرنا اور اسے مسجد بنانا اسباب شرک سے ہے۔ قبروں پر قبے لگانا اور ایسی قبریں تو مسجد ضرار سے بھی زیادہ مضر ہیں۔ کیونکہ اس کی بنیاد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی پر ہے۔“[روح المعاني، ج5ص31] ➋ حنفی مذہب: امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے تلمیذ خاص فرماتے ہیں: «لا نري أن يزاد على ما خرج من القبر ونكره أن يجصص أو يطبن أو يجعل عنده مسجدًا»[كتاب الاثار، ص45] ”یعنی احناف کے نزدیک بھی قبر کو پختہ بنانا یا اسے مسجد بنانا کراہیت سے موقوف ہے۔“ ➌ مالکی مذہب: امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «قال علماؤنا: وهذا يحرم على المسلمين أن يتخذوا قبور الانبياء والعلماء مساجد»[تفسير القرطبي، ج10، ص38] ”ہمارے علماؤں نے فرمایا کہ مسلمانوں پر حرام ہے کہ وہ انبیاء اور علماء کی قبروں کو مساجد بنائیں۔“ ➍ حنبلی مذہب: ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”قبروں پر چراغاں کرنا حرام ہے، اور اسے مسجد بنانا بھی اور اس مسئلے پر ہم نے معروف علماء میں کسی کو خلاف نہیں پایا۔“[الاختيارات العلمية، ص52]
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1599
´گھروں میں نماز پڑھنے کی ترغیب اور اس کی فضیلت کا بیان۔` عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے گھروں میں نماز پڑھو، انہیں قبرستان نہ بناؤ۔“[سنن نسائي/كتاب قيام الليل وتطوع النهار/حدیث: 1599]
1599۔ اردو حاشیہ: ➊ عذر کے سوا فرض نماز مسجد میں باجماعت پڑھنی چاہیے، البتہ نفل نماز گھر اور مسجد دونوں میں پڑھی جا سکتی ہے۔ مسجد فرض نمازوں سے آباد ہو جائے گی۔ گھروں کو نفل نماز ہی سے آباد کیا جا سکتا ہے، لہٰذا نفل نماز گھر میں پڑھنا بہتر اور افضل ہے۔ عورتوں کے لیے فرض نماز بھی گھر ہی میں پڑھنا افضل ہے اگرچہ مسجد میں بھی وہ فرض نماز پڑھ سکتی ہیں۔ اس طرح گھروں کواللہ کے ذکر سے آباد کیا جا سکتا ہے۔ گھر اور دل وہی آباد اور زندہ ہیں جن میں اللہ کا ذکر ہو ورنہ ویران اور مردہ ہیں۔ اس لحاظ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان گھروں کو قبرستان سے تشبیہ دی ہے جہاں اللہ کا ذکر نہیں ہوتا اور جہاں نماز پڑھنی قطعاً منع ہے۔ اور اللہ کے ذکر کی اصل اور اعلیٰ صورت نماز ہی ہے۔ ➋ اس روایت سے ضمناً یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ قبرستان میں نماز نہیں پڑھی جا سکتی سوائے نماز جنازہ کے کہ اس میں رکوع اور سجدہ نہیں ہے۔ بعض شارعین نے اس روایت کے یہ معنی بھی کیے ہیں کہ گھروں میں قبریں نہ بناؤ ورنہ قبروں کی وجہ سے گھروں میں نماز نہ پڑھ سکو گے۔ یہ مسئلہ تو صحیح ہے مگر اس معنی میں ذرا تکلف ہے۔ ➌ اس روایت کا یہ مطلب نہیں کہ مسجد میں نفل اور سنت پڑھے نہیں جاسکتے بلکہ مطلب یہ ہے کہ گھروں میں بھی نوافل پڑھا کرو۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1599
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1043
´آدمی کے اپنے گھر میں نفل پڑھنے کا بیان۔` عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم لوگ اپنی بعض نمازیں اپنے گھروں میں پڑھا کرو اور انہیں قبرستان نہ بناؤ۔“[سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 1043]
1043۔ اردو حاشیہ: ➊ اس سے مراد صرف سنتیں اور نوافل ہیں۔ ➋ قبرستان سے مشابہت اس لئے دی گئی ہے کہ وہاں نہ نماز پڑھی جاتی ہے اور نہ ہی جائز ہے۔ ➌ اس میں اہم تر حکمت یہ ہے کہ اس عمل کے باعث گھر میں اللہ تعالیٰ کی رحمت اترتی ہے۔ فرشتے نازل ہوتے ہیں انسان ریا سے محفوظ رہتا ہے اور اس سے بڑھ کر یہ بھی ہے کہ گھر والوں کو ترغیب اور بچوں کی تربیت ہوتی ہے۔ ➍ ان نوافل سے احرام و طواف کی سنتیں اور باجماعت تراویح وغیرہ مستثنیٰ ہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1043
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1448
´نفلی نماز گھر میں پڑھنے کی فضیلت کا بیان۔` عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنی نماز میں سے کچھ گھروں میں پڑھا کرو، اور انہیں قبرستان نہ بناؤ۔“[سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الوتر /حدیث: 1448]
1448. اردو حاشیہ: اس سے مراد سنن اور نوافل ہیں۔ اور قبرستان کا ذکر اس لئے فرمایا کہ وہاں نماز پڑھنے سے منع فرمایا گیا ہے گویا قبرستان نماز پڑھنے کی جگہ نہیں ہے۔ پس تم گھروں میں نفلی نمازیں اور سنتیں نہیں پڑھو گے۔ تو گھر بھی قبرستان بن جایئں گے۔ یہ حدیث پہلے بھی گزر چکی ہے۔ (1043)
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1448
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 451
´نفل نماز گھر میں پڑھنے کی فضیلت کا بیان۔` عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اپنے گھروں میں نماز پڑھو ۱؎ اور انہیں قبرستان نہ بناؤ“۲؎۔ [سنن ترمذي/أبواب السهو/حدیث: 451]
اردو حاشہ: 1؎: اس سے مراد نوافل اور سنن ہیں۔
2؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جن گھروں میں نوافل کی ادائیگی کا اہتمام ہوتا ہے وہ قبرستان کی طرح نہیں ہیں، اور جن گھروں میں نوافل وغیرہ کا اہتمام نہیں کیا جاتا وہ قبرستان کے مثل ہیں، جس طرح قبریں عمل اور عبادت سے خالی ہوتی ہیں ایسے گھر بھی عمل و عبادت سے محروم قبرستان کے ہوتے ہیں۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 451
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1820
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فر یا: ”کچھ نمازیں گھر میں پڑھا کرو اور انہیں قبریں نہ بناؤ۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:1820]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: فرض نمازوں کے لیے جماعت کی پابندی ضروری ہے اس لیے وہ تو مسجد میں ہی پڑھی جائیں گی یا تحیۃ المسجد کا تعلق تو مسجد ہی سے ہے اس کے سوا سنن مؤکّدہ اور سنن غیر مؤکّدہ، نوافل (چاشت) اشراق، اوابین، تہجد) گھر میں پڑھنا بہتر اور افضل ہے۔ اور: (وَلَا تَتَّخِذُوهَا قُبُورًا) کا مقصد یہ ہے کہ گھروں میں قبریں نہ بناؤ اور نہ گھروں کو قبرستان سمجھو جہاں نماز نہیں ہوتی یا اپنے آپ کو قبرستان کے مردے نہ سمجھو۔ جن پر نماز نہیں ہے یا گھروں کومحض آرام گاہ نہ سمجھو کہ نیند بھی ایک قسم کی موت ہے اس لیے یہ سجھو گھر تو محض سونے اور آرام کرنے کے لیے ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1820
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1187
1187. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”اپنے گھروں میں کچھ نماز پڑھ لیا کرو اور انہیں قبرستان نہ بناؤ۔“ عبدالوہاب نے ایوب سختیانی سے روایت کرنے میں وہیب کی متابعت کی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1187]
حدیث حاشیہ: نماز سے مراد یہاں نفل ہی ہے کیونکہ دوسری حدیث میں ہے کہ آدمی کی افضل نماز وہ ہے جو گھر میں ہو۔ مگر فرض نماز کا مسجد میں پڑھنا افضل ہے۔ قبر میں مردہ نماز نہیں پڑھتا لہذا جس گھر میں نماز نہ پڑھی جائے وہ بھی قبر ہوا۔ قبرستان میں نماز پڑھنا ممنوع ہے۔ اس لیے فرمایا کہ گھروں کو قبرستان کی طرح نماز کے لیے مقام ممنوعہ نہ بنالو۔ عبدالوہاب کی روایت کو امام مسلم ؒ نے اپنی جامع الصحیح میں نکالا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1187
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:432
432. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں: آپ نے فرمایا: ”کچھ نماز (نوافل وغیرہ) اپنے گھروں میں ادا کرو، انہیں قبرستان مت بناؤ۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:432]
حدیث حاشیہ: 1۔ حافظ ابن حجر ؒ کہتے ہیں کہ امام بخاری ؒ نے ”گھروں کو قبرستان نہ بناؤ“ سے موجودہ مسئلے کا استنباط کیا ہے کہ چونکہ قبریں محل عبادت نہیں، لہٰذا ان میں نماز پڑھنا جائز نہیں۔ (فتح الباری: 685/1) لیکن علامہ ابن منیر ؒ نے اس معنی اور استنباط کو محل نظر قراردیا ہے۔ ان کے نزدیک اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ تم گھروں میں اس انداز سے مت رہو، جیسا کہ قبروں میں مردے ہوتے ہیں ان مردوں کا اعمال سے تعلق ختم ہوجاتا ہے اور شرعی پابندیاں بھی ان سے اٹھالی جاتی ہیں۔ اس بنا پر زندوں کے لیے قبرستان میں نماز پڑھنے یا نہ پڑھنے کے متعلق یہ حدیث خاموش ہے۔ یہ مفہوم مراد لینے کی دلیل یہ ہے کہ حدیث میں بھی لفظ قبور ہے مقابر نہیں اور قبر اس گڑھے کو کہتے ہیں جس میں مردہ دفن کیا جا تا ہے اور مقبرہ اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں قبریں ہوں۔ (المتواري، ص: 84) لیکن ان کا امام بخاریؒ کے استنباط کو محل نظر قراردینا بجائے خود محل نظر ہے، کیونکہ انھوں نے اس کے لیے حدیث کے الفاظ "قبور" کو بنیاد بنایا ہے۔ حالانکہ بعض روایات میں مقابر کے الفاظ بھی موجود ہیں جس کے معنی قبرستان ہیں۔ (صحیح مسلم، صلاة االمسافرین، حدیث: 824 (780) اسی طرح حدیث میں صراحت کے ساتھ موجود ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے قبرستان کو مسجد کا درجہ دینے سے منع فرمایا ہے۔ (صحیح مسلم، المساجد، حدیث: 1188(532) اس کے علاوہ ابن المنذر ؒ نے اکثر اہل علم سے نقل کیا ہے کہ قبرستان محل صلاۃ نہیں، انھوں نے امام بخاری ؒ کی طرح اسی حدیث کو بنیاد بنا کر استنباط کیا ہے۔ امام بغوی ؒ اور علامہ خطابی ؒ نے اس سے موافقت کی ہے۔ (فتح الباری: 685/1) 2۔ اس حدیث کے اور بھی معنی کیے گئے ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے۔
اپنے مردوں کو گھروں میں دفن نہ کرو، کیونکہ ایسا کرنے سے گھروں میں نماز پڑھنے کی گنجائش نہیں رہے گی۔ (فتح الباری: 686/1) لیکن چونکہ یہاں نماز کا بیان ہے, لہٰذا یہ معنی مناسب معلوم نہیں ہوتے.
گھروں کوصرف نیند کی آماجگاہ نہ بنایا جائے کہ ان میں مردوں کی طرح سوتے رہو کبھی نماز پڑھنے کا خیال تک نہ آئے۔ (فتح الباری: 685/1) ہمارے نزدیک راجح موقف یہی ہے کہ قبرستان میں نماز پڑھنا درست نہیں۔ البتہ نماز جنازہ قبرستان میں پڑھی جا سکتی ہے۔ گھروں کو مقبرہ نہ بناؤ کا یہی مطلب ہے کہ نفل نمازیں گھر میں پڑھا کرو قبر ستان کی طرح وہاں نماز پڑھنے سے پرہیزنہ کیا کرو۔ واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 432
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1187
1187. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”اپنے گھروں میں کچھ نماز پڑھ لیا کرو اور انہیں قبرستان نہ بناؤ۔“ عبدالوہاب نے ایوب سختیانی سے روایت کرنے میں وہیب کی متابعت کی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1187]
حدیث حاشیہ: اس حدیث کے مطابق جس گھر میں نماز نہ پڑھی جائے اسے قبر سے تشبیہ دی گئی ہے جس میں عبادت نہیں کی جاتی اور اس گھر کے باشندے کو میت سے تشبیہ دی جس سے نیک کام نہیں ہو سکتے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ قبرستان ایسی جگہ ہے جو نماز کا محل نہیں، چنانچہ امام بخاری ؒ نے اس حدیث پر ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے: (كراهية الصلاة في المقابر) ”قبرستان میں نماز پڑھنا مکروہ ہے۔ “(صحیح البخاري، الصلاة، باب: 52) عبدالوہاب کی متابعت کو امام مسلم نے اپنی متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (صحیح مسلم، صلاةالمسافرین، حدیث: 1621(777)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1187