سنن ابي داود کل احادیث 5274 :حدیث نمبر
سنن ابي داود
کتاب: وصیت کے احکام و مسائل
Wills (Kitab Al-Wasaya)
1. باب مَا جَاءَ فِيمَا يُؤْمَرُ بِهِ مِنَ الْوَصِيَّةِ
1. باب: وصیت کرنے کی تاکید کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About What Is Commanded About The Will.
حدیث نمبر: 2862
Save to word اعراب English
(مرفوع) حدثنا مسدد بن مسرهد، حدثنا يحيى بن سعيد، عن عبيد الله، حدثني نافع، عن عبد الله يعني ابن عمر، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ما حق امرئ مسلم له شيء يوصي فيه يبيت ليلتين إلا ووصيته مكتوبة عنده".
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدُ بْنُ مُسَرْهَدٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنِي نَافِعٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ يَعْنِي ابْنَ عُمَرَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَا حَقُّ امْرِئٍ مُسْلِمٍ لَهُ شَيْءٌ يُوصِي فِيهِ يَبِيتُ لَيْلَتَيْنِ إِلَّا وَوَصِيَّتُهُ مَكْتُوبَةٌ عِنْدَهُ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی مسلمان کے لیے جس کے پاس کوئی ایسی چیز ہو جس میں اسے وصیت کرنی ہو مناسب نہیں ہے کہ اس کی دو راتیں بھی ایسی گزریں کہ اس کی لکھی ہوئی وصیت اس کے پاس موجود نہ ہو۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/الوصایا 1 (1627)، (تحفة الأشراف:7944، 8176)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الوصایا 1 (2738)، سنن الترمذی/الجنائز 5 (974)، والوصایا 3 (2119)، سنن النسائی/الوصایا 1 (3645)، سنن ابن ماجہ/الوصایا 2 (2699)، موطا امام مالک/الوصایا 1 (1)، مسند احمد (2/4، 10، 34، 50، 57،80، 113)، سنن الدارمی/الوصایا 1 (3219) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: اگر کسی شخص کے ذمہ کوئی ایسا واجبی حق ہے جس کی ادائیگی ضروری ہے مثلاً قرض و امانت وغیرہ تو ایسے شخص پر وصیت واجب ہے اور اگر اس کے ذمہ کوئی واجبی حق نہیں ہے تو وصیت مستحب ہے۔

Narrated Abdullah bin Umar: The Messenger of Allah ﷺ as saying: It is the duty of a Muslim man who has something which is to be given as bequest not to have it for two nights without having his will written regarding it.
USC-MSA web (English) Reference: Book 17 , Number 2856


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (2738) صحيح مسلم (1627)
حدیث نمبر: 2863
Save to word اعراب English
(مرفوع) حدثنا مسدد، ومحمد بن العلاء، قالا: حدثنا ابو معاوية، عن الاعمش، عن ابي وائل، عن مسروق، عن عائشة، قالت: ما ترك رسول الله صلى الله عليه وسلم دينارا ولا درهما ولا بعيرا ولا شاة ولا اوصى بشيء.
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: مَا تَرَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دِينَارًا وَلَا دِرْهَمًا وَلَا بَعِيرًا وَلَا شَاةً وَلَا أَوْصَى بِشَيْءٍ.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اپنی وفات کے وقت) دینار و درہم، اونٹ و بکری نہیں چھوڑی اور نہ کسی چیز کی وصیت فرمائی ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/الوصایا 6 (1635)، سنن النسائی/الوصایا 2 (3651)، سنن ابن ماجہ/الوصایا 1 (2695)، (تحفة الأشراف: 17610)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/44) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: کسی چیز کی وصیت نہیں فرمائی کا مطلب یہ ہے کہ مال و جائیداد سے متعلق کسی چیز کی وصیت نہیں فرمائی، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو عام وصیت فرمائی ہے، مثلاً نماز سے متعلق وصیت، اسی طرح جزیرۃ العرب سے یہودیوں کو نکالنے کی وصیت وغیرہ وغیرہ۔

Narrated Aishah: The Messenger of Allah ﷺ did not leave dinars, dirhams, camels and goats, nor did he leave will for anything.
USC-MSA web (English) Reference: Book 17 , Number 2857


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم (1635)
2. باب مَا جَاءَ فِيمَا لاَ يَجُوزُ لِلْمُوصِي فِي مَالِهِ
2. باب: وصیت کرنے والے کے لیے جو چیز ناجائز ہے اس کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related Regarding What Is Allowed For A Testor To Give From His Wealth.
حدیث نمبر: 2864
Save to word اعراب English
(مرفوع) حدثنا عثمان بن ابي شيبة، وابن ابي خلف، قالا: حدثنا سفيان، عن الزهري، عن عامر بن سعد، عن ابيه، قال: مرض مرضا، قال ابن ابي خلف بمكة، ثم اتفقا اشفى فيه فعاده رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال:" يا رسول الله إن لي مالا كثيرا وليس يرثني إلا ابنتي افاتصدق بالثلثين؟ قال: لا، قال: فبالشطر قال: لا، قال: فبالثلث قال: الثلث، والثلث كثير إنك ان تترك ورثتك اغنياء خير من ان تدعهم عالة يتكففون الناس، وإنك لن تنفق نفقة إلا اجرت بها حتى اللقمة ترفعها إلى في امراتك، قلت: يا رسول الله اتخلف عن هجرتي؟ قال: إنك إن تخلف بعدي فتعمل عملا صالحا تريد به وجه الله لا تزداد به إلا رفعة ودرجة لعلك ان تخلف حتى ينتفع بك اقوام ويضر بك آخرون، ثم قال: اللهم امض لاصحابي هجرتهم ولا تردهم على اعقابهم"، لكن البائس سعد بن خولة يرثي له رسول الله صلى الله عليه وسلم ان مات بمكة.
(مرفوع) حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَابْنُ أَبِي خَلَفٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: مَرِضَ مَرَضًا، قَالَ ابْنُ أَبِي خَلَفٍ بِمَكَّةَ، ثُمَّ اتَّفَقَا أَشْفَى فِيهِ فَعَادَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ لِي مَالًا كَثِيرًا وَلَيْسَ يَرِثُنِي إِلَّا ابْنَتِي أَفَأَتَصَدَّقُ بِالثُّلُثَيْنِ؟ قَالَ: لَا، قَالَ: فَبِالشَّطْرِ قَالَ: لَا، قَالَ: فَبِالثُّلُثِ قَالَ: الثُّلُثُ، وَالثُّلُثُ كَثِيرٌ إِنَّكَ أَنْ تَتْرُكَ وَرَثَتَكَ أَغْنِيَاءَ خَيْرٌ مِنْ أَنْ تَدَعَهُمْ عَالَةً يَتَكَفَّفُونَ النَّاسَ، وَإِنَّكَ لَنْ تُنْفِقَ نَفَقَةً إِلَّا أُجِرْتَ بِهَا حَتَّى اللُّقْمَةُ تَرْفَعُهَا إِلَى فِي امْرَأَتِكِ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَتَخَلَّفُ عَنْ هِجْرَتِي؟ قَالَ: إِنَّكَ إِنْ تُخَلَّفْ بَعْدِي فَتَعْمَلَ عَمَلًا صَالِحًا تُرِيدُ بِهِ وَجْهَ اللَّهِ لَا تَزْدَادُ بِهِ إِلَّا رِفْعَةً وَدَرَجَةً لَعَلَّكَ أَنْ تُخَلَّفَ حَتَّى يَنْتَفِعَ بِكَ أَقْوَامٌ وَيُضَرَّ بِكَ آخَرُونَ، ثُمَّ قَالَ: اللَّهُمَّ أَمْضِ لِأَصْحَابِي هِجْرَتَهُمْ وَلَا تَرُدَّهُمْ عَلَى أَعْقَابِهِمْ"، لَكِنَ الْبَائِسُ سَعْدُ بْنُ خَوْلَةَ يَرْثِي لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ مَاتَ بِمَكَّةَ.
سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ وہ بیمار ہوئے (ابن ابی خلف کی روایت میں ہے: مکہ میں، آگے دونوں راوی متفق ہیں کہ) اس بیماری میں وہ مرنے کے قریب پہنچ گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی عیادت فرمائی، تو میں نے کہا: اللہ کے رسول! میں بہت مالدار ہوں اور میری بیٹی کے سوا میرا کوئی وارث نہیں، کیا میں اپنے مال کا دو تہائی صدقہ کر دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، پوچھا: کیا آدھا مال صدقہ کر دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، پھر پوچھا: تہائی مال خیرات کر دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تہائی مال (دے سکتے ہو) اور تہائی مال بھی بہت ہے، تمہارا اپنے ورثاء کو مالدار چھوڑنا اس سے بہتر ہے کہ تم انہیں محتاج چھوڑ کر جاؤ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں، اور جو چیز بھی تم اللہ کی رضا مندی کے لیے خرچ کرو گے اس کا ثواب تمہیں ملے گا، یہاں تک کہ تم اپنی بیوی کے منہ میں لقمہ اٹھا کر دو گے تو اس کا ثواب بھی پاؤ گے ۱؎، میں نے کہا: اللہ کے رسول! کیا میں ہجرت سے پیچھے رہ جاؤں گا؟ (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے چلے جائیں گے، اور میں اپنی بیماری کی وجہ سے مکہ ہی میں رہ جاؤں گا، جب کہ صحابہ مکہ چھوڑ کر ہجرت کر چکے تھے)، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم پیچھے رہ گئے، اور میرے بعد میرے غائبانہ میں بھی نیک عمل اللہ کی رضا مندی کے لیے کرتے رہے تو تمہارا درجہ بلند رہے گا، امید ہے کہ تم زندہ رہو گے، یہاں تک کہ تمہاری ذات سے کچھ اقوام کو فائدہ پہنچے گا اور کچھ کو نقصان و تکلیف ۲؎، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی کہ: اے اللہ! میرے اصحاب کی ہجرت مکمل فرما، اور انہیں ان کے ایڑیوں کے بل پیچھے کی طرف نہ پلٹا، لیکن بیچارے سعد بن خولہ رضی اللہ عنہ ان کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رنج و افسوس کا اظہار فرماتے تھے کہ وہ مکہ ہی میں انتقال فرما گئے ۳؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الجنائز 36 (1295)، الوصایا 2 (2742)، 3 (2744)، مناقب الأنصار 49 (3936)، المغازي 77 (4395)، النفقات 1 (5354)، المرضی 13 (5659)، 16 (5668)، الدعوات 43 (6373)، الفرائض 6 (6733)، صحیح مسلم/الوصایا 2 (1628)، سنن الترمذی/الجنائز 6 (975)، الوصایا 1 (2117)، سنن النسائی/الوصایا 3 (3628)، سنن ابن ماجہ/الوصایا 5 (2708)، (تحفة الأشراف:3890)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الوصایا 3 (4)، مسند احمد (1/168، 172، 176، 179)، دی/ الوصایا 7 (3238) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ وارثوں کا حق فقیروں پر مقدم ہے، اور تہائی سے زیادہ وصیت درست نہیں، اور بیوی بچوں پر خرچ کرنے میں بھی ثواب ہے، بشرطیکہ اسے اللہ تعالی کا حکم سمجھ کر خرچ کرے۔
۲؎: چنانچہ ایسا ہی ہوا وہ اس کے بعد (۴۵) سال تک زندہ رہے، اور جنگ قادسیہ وغیرہ میں مسلم فوج کے قائد و سربراہ رہے اور رب العزت نے ان کے ہاتھوں مسلمانوں کو فتح و کامرانی سے نوازا، جب کہ مشرکین کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
۳؎: سعد بن خولہ رضی اللہ عنہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رنج و افسوس کا اظہار اس لئے کیا کہ ان کا انتقال مکہ میں ہوا، اور مکہ ہی سے وہ ہجرت کر کے گئے تھے، اگر وہ مکہ کے علاوہ دوسری سرزمین میں وفات پاتے تو ان کا مقام و مرتبہ کچھ اور ہوتا۔

Narrated Amir bin Saad: On the authority of his father (Saad bin Abi Waqqas): When he (Saad) fell ill at Makkah (according to the version of Ibn Abi Kkalaf) - then the agreed version has: which brought him near to death - the Messenger of Allah ﷺ went to visit him. He said: Messenger of Allah, I have a large amount of property, and my daughter is my only heir. May I give two-thirds (of my property) as a sadaqah (charity)? He said: No. He asked: Then a half ? He replied: No. He asked: Then one-third ? He replied: (You may will away) a third and third is a lot. To leave your heirs rich is better than to leave them poor begging from people. You will not spend anything, seeking thereby to please Allah, without being rewarded for it, even the mouthful you give your wife. I said: Messenger of Allah, shall I be left behind form immigration (to Madina)? He said: If you remain behind after me and do good works seeking the pleasure of Allah, your rank will be raised and degree increased. Perhaps you will not remain behind, and some people will benefit from you and others will be harmed by you. He then said: O Allah, complete the immigration of my Companions and do not turn them back. But miserable was Saad bin Khawlah. The Messenger of Allah ﷺ lamented on him as he died at Makkah.
USC-MSA web (English) Reference: Book 17 , Number 2858


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (6373) صحيح مسلم (1628)
3. باب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ الإِضْرَارِ فِي الْوَصِيَّةِ
3. باب: وصیت سے (ورثہ کو) نقصان پہنچانے کی کراہت کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About It Being Disliked To Cause Harm With The Will.
حدیث نمبر: 2865
Save to word اعراب English
(مرفوع) حدثنا مسدد، حدثنا عبد الواحد بن زياد، حدثنا عمارة بن القعقاع، عن ابي زرعة بن عمرو بن جرير، عن ابي هريرة، قال: قال رجل للنبي صلى الله عليه وسلم: يا رسول الله اي الصدقة افضل؟ قال:" ان تصدق وانت صحيح حريص تامل البقاء وتخشى الفقر ولا تمهل حتى إذا بلغت الحلقوم"، قلت لفلان كذا ولفلان كذا وقد كان لفلان.
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ، حَدَّثَنَا عُمَارَةُ بْنُ الْقَعْقَاعِ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ بْنِ عَمْرِو بْنِ جَرِيرٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَجُلٌ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَيُّ الصَّدَقَةِ أَفْضَلُ؟ قَالَ:" أَنْ تَصَدَّقَ وَأَنْتَ صَحِيحٌ حَرِيصٌ تَأْمُلُ الْبَقَاءَ وَتَخْشَى الْفَقْرَ وَلَا تُمْهِلَ حَتَّى إِذَا بَلَغَتِ الْحُلْقُومَ"، قُلْتَ لِفُلَانٍ كَذَا وَلِفُلَانٍ كَذَا وَقَدْ كَانَ لِفُلَانٍ.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: کون سا صدقہ افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ جسے تم صحت و حرص کی حالت میں کرو، اور تمہیں زندگی کی امید ہو، اور محتاجی کا خوف ہو، یہ نہیں کہ تم اسے مرنے کے وقت کے لیے اٹھا رکھو یہاں تک کہ جب جان حلق میں اٹکنے لگے تو کہو کہ: فلاں کو اتنا دے دینا، فلاں کو اتنا، حالانکہ اس وقت وہ فلاں کا ہو چکا ہو گا ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الزکاة 11 (1419)، والوصایا 7 (2748)، صحیح مسلم/الزکاة 31 (1032)، سنن النسائی/الزکاة 60 (2543)، الوصایا 1 (3641)، (تحفة الأشراف:14900)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/231، 250، 415، 447) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: یعنی مرتے وقت جب مال کے وارث اس کے حقدار ہو گئے تو صدقہ کے ذریعہ ان کے حق میں خلل ڈالنا مناسب نہیں، بہتر یہ ہے کہ حالت صحت میں صدقہ کرے کیونکہ یہ اس کے لئے زیادہ باعث ثواب ہو گا۔

Narrated Abu Hurairah: A man asked the Messenger of Allah ﷺ: Messenger of Allah, which sadaqah (charity) is the best ? He replied: (The best sadaqah is) that you give something as sadaqah (charity) when you are healthy, greedy, expect survival and fear poverty, and not that you postpone it until your death. and then you say: For so-and-so is such-and-such, and for so-and-so is such-and-such, while it was already for so-and-so.
USC-MSA web (English) Reference: Book 17 , Number 2859


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (1419) صحيح مسلم (1032)
حدیث نمبر: 2866
Save to word اعراب English
(مرفوع) حدثنا احمد بن صالح، حدثنا ابن ابي فديك، اخبرني ابن ابي ذئب، عن شرحبيل، عن ابي سعيد الخدري، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" لان يتصدق المرء في حياته بدرهم خير له من ان يتصدق بمائة درهم عند موته".
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ، أَخْبَرَنِي ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ شُرَحْبِيلَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" لَأَنْ يَتَصَدَّقَ الْمَرْءُ فِي حَيَاتِهِ بِدِرْهَمٍ خَيْرٌ لَهُ مِنْ أَنْ يَتَصَدَّقَ بِمِائَةِ دِرْهَمٍ عِنْدَ مَوْتِهِ".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آدمی کا اپنی زندگی میں (جب تندرست ہو) ایک درہم خیرات کر دینا اس سے بہتر ہے کہ مرتے وقت سو درہم خیرات کرے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف:4071) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (اس کے راوی شرحبیل آخر عمر میں مختلط ہو گئے تھے)

Narrated Abu Saeed al-Khudri: The Prophet ﷺ said: A man giving a dirham as sadaqah (charity) during his life is better than giving one hundred dirhams as sadaqah (charity) at the moment of his death.
USC-MSA web (English) Reference: Book 17 , Number 2860


قال الشيخ الألباني: ضعيف

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
شرحبيل بن سعد اختلط وضعفه الجمهور وھو ضعيف،و قال الھيثمي: و ضعفه جمھور الأئمة (مجمع الزوائد 115/4) و قال: وھو ضعيف عند الجمھور (مجمع الزوائد 159/2)
وانظر الحديث الآتي: 4813
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 103
حدیث نمبر: 2867
Save to word اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبدة بن عبد الله، اخبرنا عبد الصمد، حدثنا نصر بن علي الحداني، حدثنا الاشعث بن جابر، حدثني شهر بن حوشب، ان ابا هريرة حدثه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" إن الرجل ليعمل والمراة بطاعة الله ستين سنة، ثم يحضرهما الموت فيضاران في الوصية فتجب لهما النار"، قال: وقرا علي ابو هريرة من ها هنا من بعد وصية يوصى بها او دين غير مضار حتى بلغ ذلك الفوز العظيم، قال ابو داود: هذا يعني الاشعث بن جابر، جد نصر بن علي.
(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْصَّمَدِ، حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْحُدَّانِيُّ، حَدَّثَنَا الْأَشْعَثُ بْنُ جَابِرٍ، حَدَّثَنِي شَهْرُ بْنُ حَوْشَبٍ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ حَدَّثَهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" إِنَّ الرَّجُلَ لَيَعْمَلُ وَالْمَرْأَةُ بِطَاعَةِ اللَّهِ سِتِّينَ سَنَةً، ثُمَّ يَحْضُرُهُمَا الْمَوْتُ فَيُضَارَّانِ فِي الْوَصِيَّةِ فَتَجِبُ لَهُمَا النَّارُ"، قَالَ: وَقَرَأَ عَلَيَّ أَبُو هُرَيْرَةَ مِنْ هَا هُنَا مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصَى بِهَا أَوْ دَيْنٍ غَيْرَ مُضَارٍّ حَتَّى بَلَغَ ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ، قَالَ أَبُو دَاوُد: هَذَا يَعْنِي الأَشْعَثَ بْنَ جَابِرٍ، جَدُّ نَصْرِ بْنِ عَلِيٍّ.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مرد اور عورت دونوں ساٹھ برس تک اللہ کی اطاعت کے کام میں لگے رہتے ہیں، پھر جب انہیں موت آنے لگتی ہے، تو وہ غلط وصیت کر کے وارثوں کو نقصان پہنچاتے ہیں (کسی کو محروم کر دیتے ہیں، کسی کا حق کم کر دیتے ہیں) تو ان کے لیے جہنم واجب ہو جاتی ہے۔ شہر بن حوشب کہتے ہیں: اس موقع پر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے آیت کریمہ «من بعد وصية يوصى بها أو دين غير مضار» پڑھی یہاں تک کہ «ذلك الفوز العظيم» پر پہنچے۔ یعنی (اس وصیت کے بعد جو کی جائے اور قرض کے بعد جب کہ اوروں کا نقصان نہ کیا گیا ہو، یہ مقرر کیا ہوا اللہ کی طرف سے ہے، اور اللہ تعالیٰ دانا ہے بردبار، یہ حدیں اللہ تعالیٰ کی مقرر کی ہوئی ہیں، اور جو اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول کی فرماں برداری کرے گا اسے اللہ تعالیٰ جنتوں میں لے جائے گا جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں، جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے، اور یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔ (سورۃ النساء: ۱۱، ۱۲))۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ یعنی اشعت بن جابر، نصر بن علی کے دادا ہیں۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن الترمذی/الوصایا 2 (2117)، سنن ابن ماجہ/الوصایا 3 (2704)، (تحفة الأشراف:13495)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/278) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (اس کے راوی شہر بن حوشب ضعیف ہیں)

Narrated Abu Hurairah: The Prophet ﷺ said: A man or a woman acts in obedience to Allah for sixty years, then when they are about to die they cause injury by their will, so they must go to Hell. Then Abu Hurairah recited: "After a legacy which you bequeath or a debt, causing no injury. . . that will be the mighty success. Abu Dawud said: Al-Ashath bin Jabir is the grandfather of Nasr bin Ali.
USC-MSA web (English) Reference: Book 17 , Number 2861


قال الشيخ الألباني: ضعيف

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
مشكوة المصابيح (3075)
أخرجه الترمذي (2117 وسنده حسن) شھر بن حوشب حسن الحديث
4. باب مَا جَاءَ فِي الدُّخُولِ فِي الْوَصَايَا
4. باب: وصی بننا اور ذمہ داری قبول کرنا کیسا ہے؟
Chapter: What Has Been Related About Accepting The Position Of Executing A Will.
حدیث نمبر: 2868
Save to word اعراب English
(مرفوع) حدثنا الحسن بن علي، حدثنا ابو عبد الرحمن المقرئ، حدثنا سعيد بن ابي ايوب، عن عبيد الله بن ابي جعفر، عن سالم بن ابي سالم الجيشاني، عن ابيه، عن ابي ذر، قال: قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يا ابا ذر إني اراك ضعيفا وإني احب لك ما احب لنفسي، فلا تامرن على اثنين ولا تولين مال يتيم"، قال ابو داود: تفرد به اهل مصر.
(مرفوع) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمُقْرِئُ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي أَيُّوبَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي جَعْفَرٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي سَالِمٍ الْجَيْشَانِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا أَبَا ذَرٍّ إِنِّي أَرَاكَ ضَعِيفًا وَإِنِّي أُحِبُّ لَكَ مَا أُحِبُّ لِنَفْسِي، فَلَا تَأَمَّرَنَّ عَلَى اثْنَيْنِ وَلَا تَوَلَّيَنَّ مَالَ يَتِيمٍ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: تَفَرَّدَ بِهِ أَهْلُ مِصْرَ.
ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: اے ابوذر! میں تمہیں ضعیف دیکھتا ہوں اور میں تمہارے لیے وہی پسند کرتا ہوں جو میں اپنے لیے پسند کرتا ہوں، تو تم دو آدمیوں پر بھی حاکم نہ ہونا، اور نہ یتیم کے مال کا ولی بننا ۱؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اس حدیث کی روایت کرنے میں اہل مصر منفرد ہیں۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/الإمارة 4 (1825)، سنن النسائی/الوصایا 9 (3697)، (تحفة الأشراف:11919)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/180) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ جس طرح یتیم کے مال کا ولی بننا اور لوگوں پر حاکم بننا ایک مشکل کام ہے اور خوف کا باعث ہے اسی طرح وصیت کرنے والے کا وصی بننا بھی ایک مشکل عمل اور باعث خوف ہے۔

Narrated Abu Dharr: The Messenger of Allah ﷺ said to me: Abu Dharr, I see you weak, and I like for you what I like for myself. Do not be a leader of two (persons), and do not be a guardian of an orphan. Abu Dawud said: This has been narrated only by the people of Egypt.
USC-MSA web (English) Reference: Book 17 , Number 2862


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم (1826)
5. باب مَا جَاءَ فِي نَسْخِ الْوَصِيَّةِ لِلْوَالِدَيْنِ وَالأَقْرَبِينَ
5. باب: ماں باپ اور رشتہ داروں کے لیے وصیت کے منسوخ ہونے کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About Abrogating The Will For The Parents And Near Relatives.
حدیث نمبر: 2869
Save to word اعراب English
(موقوف) حدثنا احمد بن محمد المروزي، حدثني علي بن حسين بن واقد، عن ابيه، عن يزيد النحوي، عن عكرمة، عن ابن عباس، إن ترك خيرا الوصية للوالدين والاقربين سورة البقرة آية 180 فكانت الوصية كذلك حتى نسختها آية الميراث.
(موقوف) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمَرْوَزِيُّ، حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ حُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ يَزِيدَ النَّحْوِيِّ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، إِنْ تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالأَقْرَبِينَ سورة البقرة آية 180 فَكَانَتِ الْوَصِيَّةُ كَذَلِكَ حَتَّى نَسَخَتْهَا آيَةُ الْمِيرَاثِ.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ آیت کریمہ: «إن ترك خيرا الوصية للوالدين والأقربين» اگر مال چھوڑ جاتا ہو تو اپنے ماں باپ اور قرابت داروں کے لیے اچھائی کے ساتھ وصیت کر جائے (سورۃ البقرہ: ۱۸۰)، وصیت اسی طرح تھی (جیسے اس آیت میں مذکور ہے) یہاں تک کہ میراث کی آیت نے اسے منسوخ کر دیا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف:6260)، وقد أخرجہ: سنن الدارمی/الوصایا 28 (3306) (حسن صحیح)» ‏‏‏‏

Narrated Ibn Abbas: The Quranic verse goes: " (It is prescribed when death approaches any of you), if he leaves any goods, that he may bequest to parents and next to kin. " The bequest was made in this way until the verse of inheritance repealed it.
USC-MSA web (English) Reference: Book 17 , Number 2863


قال الشيخ الألباني: حسن صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
6. باب مَا جَاءَ فِي الْوَصِيَّةِ لِلْوَارِثِ
6. باب: وارث کے لیے وصیت کرنا کیسا ہے؟
Chapter: What Has Been Related About Willing To An Heir.
حدیث نمبر: 2870
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبد الوهاب بن نجدة، حدثنا ابن عياش، عن شرحبيل بن مسلم، سمعت ابا امامة، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" إن الله قد اعطى كل ذي حق حقه فلا وصية لوارث".
(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ نَجْدَةَ، حَدَّثَنَا ابْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ شُرَحْبِيلَ بْنِ مُسْلِمٍ، سَمِعْتُ أَبَا أُمَامَةَ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" إِنَّ اللَّهَ قَدْ أَعْطَى كُلَّ ذِي حَقٍّ حَقَّهُ فَلَا وَصِيَّةَ لِوَارِثٍ".
ابوامامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: کہ اللہ نے ہر صاحب حق کو اس کا حق دے دیا ہے ۱؎ لہٰذا اب وارث کے لیے کوئی وصیت نہیں۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن الترمذی/الوصایا 5 (2120)، سنن ابن ماجہ/الوصایا 6 (2713)، (تحفة الأشراف:4882)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/267)، ویأتي ہذا الحدیث برقم: 3565 (حسن صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: آیت میراث نازل فرما کر اس کا حصہ مقرر کر دیا ہے۔

Narrated Abu Hurairah: I heard the Messenger of Allah ﷺ say: Allah has appointed for everyone who has a right what is due to him, and no bequest must be made to an heir.
USC-MSA web (English) Reference: Book 17 , Number 2864


قال الشيخ الألباني: حسن صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
مشكوة المصابيح (3073)
أخرجه الترمذي (2120 وسنده حسن، إسماعيل بن عياش صرح بالسماع عنده) ورواه ابن ماجه (2713 وسنده حسن)
7. باب مُخَالَطَةِ الْيَتِيمِ فِي الطَّعَامِ
7. باب: یتیم کا کھانا اپنے کھانے کے ساتھ شریک کرنا کیسا ہے؟
Chapter: Mixing One’s Food With The Food Of An Orphan.
حدیث نمبر: 2871
Save to word اعراب English
(موقوف) حدثنا عثمان بن ابي شيبة، حدثنا جرير، عن عطاء، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس قال: لما انزل الله عز وجل: ولا تقربوا مال اليتيم إلا بالتي هي احسن سورة الانعام آية 152 و إن الذين ياكلون اموال اليتامى ظلما سورة النساء آية 10 الآية، انطلق من كان عنده يتيم فعزل طعامه من طعامه وشرابه من شرابه، فجعل يفضل من طعامه فيحبس له حتى ياكله او يفسد فاشتد ذلك عليهم فذكروا ذلك لرسول الله صلى الله عليه وسلم فانزل الله عز وجل: ويسالونك عن اليتامى قل إصلاح لهم خير وإن تخالطوهم فإخوانكم سورة البقرة آية 220، فخلطوا طعامهم بطعامه وشرابهم بشرابه.
(موقوف) حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: لَمَّا أَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: وَلا تَقْرَبُوا مَالَ الْيَتِيمِ إِلا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ سورة الأنعام آية 152 وَ إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتَامَى ظُلْمًا سورة النساء آية 10 الآيَةَ، انْطَلَقَ مَنْ كَانَ عِنْدَهُ يَتِيمٌ فَعَزَلَ طَعَامَهُ مِنْ طَعَامِهِ وَشَرَابَهُ مِنْ شَرَابِهِ، فَجَعَلَ يَفْضُلُ مِنْ طَعَامِهِ فَيُحْبَسُ لَهُ حَتَّى يَأْكُلَهُ أَوْ يَفْسُدَ فَاشْتَدَّ ذَلِكَ عَلَيْهِمْ فَذَكَرُوا ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْيَتَامَى قُلْ إِصْلاحٌ لَهُمْ خَيْرٌ وَإِنْ تُخَالِطُوهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ سورة البقرة آية 220، فَخَلَطُوا طَعَامَهُمْ بِطَعَامِهِ وَشَرَابَهُمْ بِشَرَابِهِ.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں جب اللہ عزوجل نے آیت کریمہ: «ولا تقربوا مال اليتيم إلا بالتي هي أحسن» اور یتیم کے مال کے پاس نہ جاؤ مگر ایسے طریقے سے جو مستحسن ہے (سورۃ الانعام: ۱۵۲): اور «إن الذين يأكلون أموال اليتامى ظلما» جو لوگ ناحق ظلم سے یتیموں کا مال کھا جاتے ہیں (سورۃ النساء: ۱۰) نازل فرمائی تو جن لوگوں کے پاس یتیم تھے انہوں نے ان کا کھانا اپنے کھانے سے اور ان کا پانی اپنے پانی سے جدا کر دیا تو یتیم کا کھانا بچ رہتا یہاں تک کہ وہ اسے کھاتا یا سڑ جاتا، یہ امر لوگوں پر شاق گزرا تو انہوں نے اس بات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا تو اللہ نے یہ آیت «ويسألونك عن اليتامى قل إصلاح لهم خير وإن تخالطوهم فإخوانكم» اور تجھ سے یتیموں کے بارے میں بھی سوال کرتے ہیں آپ کہہ دیجئیے کہ ان کی خیر خواہی بہتر ہے، تم اگر ان کا مال اپنے مال میں ملا بھی لو تو وہ تمہارے بھائی ہیں (سورۃ البقرہ: ۲۲۰) اتاری تو لوگوں نے اپنا کھانا پینا ان کے کھانے پینے کے ساتھ ملا لیا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن النسائی/الوصایا 10 (3699)، (تحفة الأشراف:5569) (حسن)» ‏‏‏‏

Narrated Abdullah ibn Abbas: When Allah, Most High, revealed the verses: "Come not nigh to the orphan's property except to improve it". And "Those who unjustly eat up the property of orphans", everyone who had an orphan with him went and separated his food from his (orphan's) food, and his drink from his drink, and began to detain the remaining food which he (the orphan) himself ate or spoiled. This fell heavy on them, and they mentioned this to the Messenger of Allah ﷺ. So Allah, Most High, revealed the verse: "They ask thee concerning orphans. Say: The best thing to do is what is for their good; if ye mix their affairs with yours, they are your brethren. " Then they mixed their food with his food and their drink with his drink.
USC-MSA web (English) Reference: Book 17 , Number 2865


قال الشيخ الألباني: حسن

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
نسائي (3699)
عطاء بن السائب اختلط
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 103

1    2    3    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.