ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”اے ابوذر! میں تمہیں ضعیف دیکھتا ہوں اور میں تمہارے لیے وہی پسند کرتا ہوں جو میں اپنے لیے پسند کرتا ہوں، تو تم دو آدمیوں پر بھی حاکم نہ ہونا، اور نہ یتیم کے مال کا ولی بننا ۱؎“۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اس حدیث کی روایت کرنے میں اہل مصر منفرد ہیں۔
وضاحت: ۱؎: حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ جس طرح یتیم کے مال کا ولی بننا اور لوگوں پر حاکم بننا ایک مشکل کام ہے اور خوف کا باعث ہے اسی طرح وصیت کرنے والے کا وصی بننا بھی ایک مشکل عمل اور باعث خوف ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الإمارة 4 (1825)، سنن النسائی/الوصایا 9 (3697)، (تحفة الأشراف:11919)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/180) (صحیح)»
Narrated Abu Dharr: The Messenger of Allah ﷺ said to me: Abu Dharr, I see you weak, and I like for you what I like for myself. Do not be a leader of two (persons), and do not be a guardian of an orphan. Abu Dawud said: This has been narrated only by the people of Egypt.
USC-MSA web (English) Reference: Book 17 , Number 2862
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2868
فوائد ومسائل: بلاشبہ کسی قوم کا ولی قاضی اور سربراہ بننا اور ایسے ہی یتیم کا سرپرست اور ذمہ دار ہونا لوگوں کے ہاں اور پھر اللہ کے ہاں بھی سخت باز پرس کا مقام ہے۔ جو شخص ان ذمہ داریوں کو اٹھائے تو چاہیے کہ لوگوں کا اور اللہ کا حق ادا کرنے میں کوتاہی نہ کرے۔ اور جو اپنے آپ کو کمزور پائے تو وہ ابتدائی طور پر ہی ایسی ذمہ داری سے معذرت کرلے تاکہ دنیا اورآخرت میں رسوائی نہ ہو۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2868
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3697
´یتیم کے مال کی تولیت (ذمہ داری) لینے سے پرہیز کرنے کا بیان۔` ابوذر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”ابوذر! میں تمہیں کمزور دیکھتا ہوں اور تمہارے لیے وہی چیز پسند کرتا ہوں جو اپنے لیے پسند کرتا ہوں (لہٰذا تم) دو آدمیوں کا بھی سردار نہ بننا اور نہ یتیم کے مال کا والی بننا“۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الوصايا/حدیث: 3697]
اردو حاشہ: (1) یتیم کے مال کی سرپرستی چونکہ بہت بڑی ذمہ داری ہے جس میں فریق ثانی کی طرف سے مزاحمت یا نگرانی کا خطرہ نہیں ہوتا‘ لہٰذا یہ انتہائی ہمدردی‘ اللہ کے ڈر بلکہ ایثار کی متقاضی ہے۔ ہر آدمی اس مرتبے کا نہیں ہوتا‘ لہٰذا اس میں جلد بازی یا پیش کش سے روکا گیا ہے‘ البتہ اگر کسی پر یہ ذمہ داری مجبوراً آن پڑے تو اسے سرانجام دینی ہوگی۔ جو شخص اس کے تقاضے پورے نہ کرسکے‘ وہ اس سے انکار کردے۔ (2)”کمزور“ یعنی تجھ میں امارت وسیادت اور سربراہی کے اوصاف کمزور ہیں۔ بعد کے واقعات نے اس کا ثبوت مہیا کردیا‘ مثلاً: تمام صحابہ سے اختلاف رائے‘ خلیفۂ راشد سے اختلاف‘ مال رکھنے اور بیت المال قائم کرنے کے مسئلے میں ان کا مسلک تمام صحابہ سے جداگانہ تھا۔ اسی بنا پر انہیں زندگی کے آخری دن ربذہ میں گزارنے پڑے۔ اگرچہ وہ انتہائی زاہد اور نیک شخص تھے مگر امارت اس سے مختلف چیز ہے۔ ضروری نہیں کہ جو شخص انتہائی نیک ہو‘ وہ امارت وسیادت کا بھی اتنا ہی اہل ہو‘ لہٰـذا آپ نے انہیں امارت سے منع فرما دیا۔ (3)”سرپرست نہ بننا“ کیونکہ جو شخص مطلقاً مال جمع رکھنے کا قائل نہ ہو‘ ممکن ہے وہ اسی جوش میں یتیم کا مال بھی صدقہ کردے۔ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْهُ وَأَرْضَاہُ۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3697