(مرفوع) حدثنا سعيد بن منصور، حدثنا عبد الرحمن بن ابي الزناد، عن ابيه، عن خارجة بن زيد، عن زيد بن ثابت، قال: كنت إلى جنب رسول الله صلى الله عليه وسلم، فغشيته السكينة، فوقعت فخذ رسول الله صلى الله عليه وسلم على فخذي فما وجدت ثقل شيء اثقل من فخذ رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم سري عنه فقال:" اكتب، فكتبت في كتف لا يستوي القاعدون من المؤمنين سورة النساء آية 95، والمجاهدون في سبيل الله سورة النساء آية 95 إلى آخر الآية، فقام ابن ام مكتوم وكان رجلا اعمى لما سمع فضيلة المجاهدين، فقال: يا رسول الله فكيف بمن لا يستطيع الجهاد من المؤمنين؟، فلما قضى كلامه غشيت رسول الله صلى الله عليه وسلم السكينة، فوقعت فخذه على فخذي ووجدت من ثقلها في المرة الثانية كما وجدت في المرة الاولى، ثم سري عن رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: اقرا يا زيد، فقرات لا يستوي القاعدون من المؤمنين سورة النساء آية 95، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: غير اولي الضرر سورة النساء آية 95 الآية كلها، قال زيد: فانزلها الله وحدها فالحقتها، والذي نفسي بيده لكاني انظر إلى ملحقها عند صدع في كتف". (مرفوع) حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ خَارِجَةَ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، قَالَ: كُنْتُ إِلَى جَنْبِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَغَشِيَتْهُ السَّكِينَةُ، فَوَقَعَتْ فَخِذُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى فَخِذِي فَمَا وَجَدْتُ ثِقْلَ شَيْءٍ أَثْقَلَ مِنْ فَخِذِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ سُرِّيَ عَنْهُ فَقَالَ:" اكْتُبْ، فَكَتَبْتُ فِي كَتِفٍ لا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ سورة النساء آية 95، وَالْمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ سورة النساء آية 95 إِلَى آخِرِ الْآيَةِ، فَقَامَ ابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ وَكَانَ رَجُلًا أَعْمَى لَمَّا سَمِعَ فَضِيلَةَ الْمُجَاهِدِينَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ فَكَيْفَ بِمَنْ لَا يَسْتَطِيعُ الْجِهَادَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ؟، فَلَمَّا قَضَى كَلَامَهُ غَشِيَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ السَّكِينَةُ، فَوَقَعَتْ فَخِذُهُ عَلَى فَخِذِي وَوَجَدْتُ مِنْ ثِقَلِهَا فِي الْمَرَّةِ الثَّانِيَةِ كَمَا وَجَدْتُ فِي الْمَرَّةِ الْأُولَى، ثُمَّ سُرِّيَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: اقْرَأْ يَا زَيْدُ، فَقَرَأْتُ لا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ سورة النساء آية 95، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ سورة النساء آية 95 الْآيَةَ كُلَّهَا، قَالَ زَيْدٌ: فَأَنْزَلَهَا اللَّهُ وَحْدَهَا فَأَلْحَقْتُهَا، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَكَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى مُلْحَقِهَا عِنْدَ صَدْعٍ فِي كَتِفٍ".
زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں تھا تو آپ کو سکینت نے ڈھانپ لیا (یعنی وحی اترنے لگی)(اسی دوران) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ران میری ران پر پڑ گئی تو کوئی بھی چیز مجھے آپ کی ران سے زیادہ بوجھل محسوس نہیں ہوئی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے وحی کی کیفیت ختم ہوئی تو آپ نے فرمایا: ”لکھو“، میں نے شانہ (کی ایک ہڈی) پر «لا يستوي القاعدون من المؤمنين والمجاهدون في سبيل الله»”اپنی جانوں اور مالوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے مومن اور بغیر عذر کے بیٹھ رہنے والے مومن برابر نہیں“(سورۃ النساء: ۹۵) آخر آیت تک لکھ لیا، عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ (ایک نابینا شخص تھے) نے جب مجاہدین کی فضیلت سنی تو کھڑے ہو کر کہا: اللہ کے رسول! مومنوں میں سے جو جہاد کی طاقت نہیں رکھتا اس کا کیا حال ہے؟ جب انہوں نے اپنی بات پوری کر لی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پھر سکینت نے ڈھانپ لیا (وحی اترنے لگی)، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ران میری ران پر پڑی تو میں نے اس کا بھاری پن پھر دوسری بار محسوس کیا جس طرح پہلی بار محسوس کیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے وحی کی جب کیفیت ختم ہوئی تو آپ نے فرمایا: ”زید! پڑھو“، تو میں نے «لا يستوي القاعدون من المؤمنين» پوری آیت پڑھی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے: «غير أولي الضرر» کا اضافہ فرمایا، زید کہتے ہیں: تو «غير أولي الضرر» کو اللہ نے الگ سے نازل کیا، میں نے اس کو اس کے ساتھ شامل کر دیا، اللہ کی قسم! گویا میں شانہ کے دراز کو دیکھ رہا ہوں جہاں میں نے اسے شامل کیا تھا۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 3708)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/184، 190، 191) (حسن صحیح)»
Zaid bin Thabit said “I was beside the Messenger of Allah ﷺ when the divinely-inspired calmness overtook him and the thigh of the Messenger of Allah ﷺ fell on my thigh. I did not find any weightier than the thigh of the Messenger of Allah ﷺ. He then regained his composure and said “Write down. I wrote on a shoulder. Not equal are thise believers who sit (at home), other than those who have a (disabling) hurt, and those who strive in the way of Allaah. When Ibn Umm Makhtum who was blind heard the excellence of the warriors. He stood up and said “Messenger of Allah ﷺ how is it for those believers who are unable to fight (in the path of Allaah)? When he finished his question his divinely-inspired calmness overtook him, and his thigh fell on my thigh and I found its weight the second time as I found the first time. ” When the Messenger of Allah ﷺ regained his composure, he said “Messenger of Allah ﷺ said “Other than those who have a (disabling hurt). Zaid said “Allaah, the exalted, revealed it alone and I appended it. ” By Him in Whose hands is my life, I am seeing, as it were the place where I put it (i. e., the verse) at the crack in the shoulder. ”
USC-MSA web (English) Reference: Book 14 , Number 2501
(مرفوع) حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا حماد، عن حميد، عن موسى بن انس بن مالك، عن ابيه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" لقد تركتم بالمدينة اقواما ما سرتم مسيرا ولا انفقتم من نفقة، ولا قطعتم من واد، إلا وهم معكم فيه، قالوا: يا رسول الله وكيف يكونون معنا وهم بالمدينة؟ فقال: حبسهم العذر". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ مُوسَى بْنِ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" لَقَدْ تَرَكْتُمْ بِالْمَدِينَةِ أَقْوَامًا مَا سِرْتُمْ مَسِيرًا وَلَا أَنْفَقْتُمْ مِنْ نَفَقَةٍ، وَلَا قَطَعْتُمْ مِنْ وَادٍ، إِلَّا وَهُمْ مَعَكُمْ فِيهِ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ وَكَيْفَ يَكُونُونَ مَعَنَا وَهُمْ بِالْمَدِينَةِ؟ فَقَالَ: حَبَسَهُمُ الْعُذْرُ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم مدینہ میں کچھ ایسے لوگوں کو چھوڑ کر آئے کہ تم کوئی قدم نہیں چلے یا کچھ خرچ نہیں کیا یا کوئی وادی طے نہیں کی مگر وہ تمہارے ساتھ رہے“، صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! وہ ہمارے ہمراہ کیسے ہو سکتے ہیں جب کہ وہ مدینہ میں ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انہیں عذر نے روک رکھا ہے“۔
Anas bin Malik reported on the authority of his father, The Messenger of Allah ﷺ said “ You left behind some people in Madeenah who did not fail to be with you wherever you went and whatever you spent (of your goods) and whatever valley you crossed. They asked Messenger of Allah ﷺ how can they be with us when they are still in Madeenah? He replied “They were declined by a valid excuse. ”
USC-MSA web (English) Reference: Book 14 , Number 2502
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح رواه حميد عن أنس بن مالك، انظر سنن ابن ماجه (2764 وسنده صحيح) وانظر صحيح البخاري (2838، 2839) وغيره
زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والے کے لیے سامان جہاد فراہم کیا اس نے جہاد کیا اور جس نے مجاہد کے اہل و عیال کی اچھی طرح خبرگیری کی اس نے جہاد کیا“۔
Zaid bin Khalid al Juhani reported that Messenger of Allah ﷺ as saying “He who equips a fighter in Allaah’s path has taken part in the fighting. And he looks after a fighter’s family when he is away has taken part in the fighting. ”
USC-MSA web (English) Reference: Book 14 , Number 2503
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (2843) صحيح مسلم (1895)
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو لحیان کی طرف ایک لشکر بھیجا اور فرمایا: ”ہر دو آدمی میں سے ایک آدمی نکل کھڑا ہو“، اور پھر خانہ نشینوں سے فرمایا: ”تم میں جو کوئی مجاہد کے اہل و عیال اور مال کی اچھی طرح خبرگیری کرے گا تو اسے جہاد کے لیے نکلنے والے کا نصف ثواب ملے گا“۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الإمارة 38 (1896)، (تحفة الأشراف: 4414)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/15، 49، 55) (صحیح)»
Abu Saeed Al Khudri said “The Messenger of Allah ﷺ sent an expedition towards Banu Lihyan and said “One of the two persons should go forth. He then said to those who sat (at home), If any one of you looks after the family and property of a warrior, he will receive half the reward of the one who goes forth (in jihad). ”
USC-MSA web (English) Reference: Book 14 , Number 2504
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”آدمی میں پائی جانے والی سب سے بری چیز انتہا کو پہنچی ہوئی بخیلی اور سخت بزدلی ہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 14101)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/302، 320) (صحیح)»
(موقوف) حدثنا احمد بن عمرو بن السرح، حدثنا ابن وهب، عن حيوة بن شريح، وابن لهيعة، عن يزيد بن ابي حبيب، عن اسلم ابي عمران، قال: غزونا من المدينة نريد القسطنطينية، وعلى الجماعة عبد الرحمن بن خالد بن الوليد، والروم ملصقو ظهورهم بحائط المدينة، فحمل رجل على العدو، فقال الناس: مه مه لا إله إلا الله يلقي بيديه إلى التهلكة، فقال ابو ايوب: إنما نزلت هذه الآية فينا معشر الانصار لما نصر الله نبيه واظهر الإسلام قلنا: هلم نقيم في اموالنا ونصلحها فانزل الله تعالى: وانفقوا في سبيل الله ولا تلقوا بايديكم إلى التهلكة سورة البقرة آية 195، فالإلقاء بالايدي إلى التهلكة ان نقيم في اموالنا ونصلحها وندع الجهاد، قال ابو عمران: فلم يزل ابو ايوب يجاهد في سبيل الله حتى دفن. (موقوف) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ حَيْوَةَ بْنِ شُرَيْحٍ، وَابْنِ لَهِيعَةَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ أَسْلَمَ أَبِي عِمْرَانَ، قَالَ: غَزَوْنَا مِنَ الْمَدِينَةِ نُرِيدُ الْقُسْطَنْطِينِيَّةَ، وَعَلَى الْجَمَاعَةِ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ خَالِدِ بْنِ الْوَلِيدِ، وَالرُّومُ مُلْصِقُو ظُهُورِهِمْ بِحَائِطِ الْمَدِينَةِ، فَحَمَلَ رَجُلٌ عَلَى الْعَدُوِّ، فَقَالَ النَّاسُ: مَهْ مَهْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ يُلْقِي بِيَدَيْهِ إِلَى التَّهْلُكَةِ، فَقَالَ أَبُو أَيُّوبَ: إِنَّمَا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ فِينَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ لَمَّا نَصَرَ اللَّهُ نَبِيَّهُ وَأَظْهَرَ الْإِسْلَامَ قُلْنَا: هَلُمَّ نُقِيمُ فِي أَمْوَالِنَا وَنُصْلِحُهَا فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ سورة البقرة آية 195، فَالْإِلْقَاءُ بِالْأَيْدِي إِلَى التَّهْلُكَةِ أَنْ نُقِيمَ فِي أَمْوَالِنَا وَنُصْلِحَهَا وَنَدَعَ الْجِهَادَ، قَالَ أَبُو عِمْرَانَ: فَلَمْ يَزَلْ أَبُو أَيُّوبَ يُجَاهِدُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ حَتَّى دُفِنَ.
اسلم ابوعمران کہتے ہیں کہ ہم مدینہ سے جہاد کے لیے چلے، ہم قسطنطنیہ کا ارادہ کر رہے تھے، اور جماعت (اسلامی لشکر) کے سردار عبدالرحمٰن بن خالد بن ولید تھے، اور رومی شہر (قسطنطنیہ) کی دیواروں سے اپنی پیٹھ لگائے ہوئے تھے ۱؎، تو ہم میں سے ایک دشمن پر چڑھ دوڑا تو لوگوں نے کہا: رکو، رکو، اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں، یہ تو اپنی جان ہلاکت میں ڈال رہا ہے، ابوایوب رضی اللہ عنہ نے کہا: یہ آیت تو ہم انصار کی جماعت کے بارے میں اتری، جب اللہ نے اپنے نبی کی مدد کی اور اسلام کو غلبہ عطا کیا تو ہم نے اپنے دلوں میں کہا (اب جہاد کی کیا ضرورت ہے) آؤ اپنے مالوں میں رہیں اور اس کی دیکھ بھال کریں، تب اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی «وأنفقوا في سبيل الله ولا تلقوا بأيديكم إلى التهلكة»”اللہ کے راستے میں خرچ کرو اور اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو“(سورۃ البقرہ: ۱۹۵) اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا یہ ہے کہ ہم اپنے مالوں میں مصروف رہیں، ان کی فکر کریں اور جہاد چھوڑ دیں۔ ابوعمران کہتے ہیں: ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ ہمیشہ اللہ کی راہ میں جہاد کرتے رہے یہاں تک کہ قسطنطنیہ میں دفن ہوئے۔
Narrated Abu Ayyub: Abu Imran said: We went out on an expedition from Madina with the intention of (attacking) Constantinople. Abdur Rahman ibn Khalid ibn al-Walid was the leader of the company. The Romans were just keeping their backs to the walls of the city. A man (suddenly) attacked the enemy. Thereupon the people said: Stop! Stop! There is no god but Allah. He is putting himself into danger. Abu Ayyub said: This verse was revealed about us, the group of the Ansar (the Helpers). When Allah helped His Prophet ﷺ and gave Islam dominance, we said (i. e. thought): Come on! Let us stay in our property and improve it. Thereupon Allah, the Exalted, revealed, "And spend of your substance in the cause of Allah, and make not your hands contribute to (your destruction)". To put oneself into danger means that we stay in our property and commit ourselves to its improvement, and abandon fighting (i. e. jihad). Abu Imran said: Abu Ayyub continued to strive in the cause of Allah until he (died and) was buried in Constantinople.
USC-MSA web (English) Reference: Book 14 , Number 2506
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح أخرجه الترمذي (2972 وسنده صحيح) عبد الله بن وھب صرح بالسماع عند ابن جرير (2/118، 119)
(مرفوع) حدثنا سعيد بن منصور، حدثنا عبد الله بن المبارك، حدثني عبد الرحمن بن يزيد بن جابر، حدثني ابو سلام، عن خالد بن زيد، عن عقبة بن عامر، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" إن الله عز وجل يدخل بالسهم الواحد ثلاثة نفر الجنة صانعه يحتسب في صنعته الخير والرامي به، ومنبله وارموا واركبوا، وان ترموا احب إلي من ان تركبوا، ليس من اللهو إلا ثلاث: تاديب الرجل فرسه، وملاعبته اهله، ورميه بقوسه ونبله، ومن ترك الرمي بعد ما علمه رغبة عنه فإنها نعمة تركها او قال كفرها". (مرفوع) حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ، حَدَّثَنِي أَبُو سَلَّامٍ، عَنْ خَالِدِ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يُدْخِلُ بِالسَّهْمِ الْوَاحِدِ ثَلَاثَةَ نَفَرٍ الْجَنَّةَ صَانِعَهُ يَحْتَسِبُ فِي صَنْعَتِهِ الْخَيْرَ وَالرَّامِيَ بِهِ، وَمُنْبِلَهُ وَارْمُوا وَارْكَبُوا، وَأَنْ تَرْمُوا أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ تَرْكَبُوا، لَيْسَ مِنَ اللَّهْوِ إِلَّا ثَلَاثٌ: تَأْدِيبُ الرَّجُلِ فَرَسَهُ، وَمُلَاعَبَتُهُ أَهْلَهُ، وَرَمْيُهُ بِقَوْسِهِ وَنَبْلِهِ، وَمَنْ تَرَكَ الرَّمْيَ بَعْدَ مَا عَلِمَهُ رَغْبَةً عَنْهُ فَإِنَّهَا نِعْمَةٌ تَرَكَهَا أَوْ قَالَ كَفَرَهَا".
عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”اللہ ایک تیر سے تین افراد کو جنت میں داخل کرتا ہے: ایک اس کے بنانے والے کو جو ثواب کے ارادہ سے بنائے، دوسرے اس کے چلانے والے کو، اور تیسرے اٹھا کر دینے والے کو، تم تیر اندازی کرو اور سواری کرو، اور تمہارا تیر اندازی کرنا، مجھے سواری کرنے سے زیادہ پسند ہے، لہو و لعب میں سے صرف تین طرح کا لہو و لعب جائز ہے: ایک آدمی کا اپنے گھوڑے کو ادب سکھانا، دوسرے اپنی بیوی کے ساتھ کھیل کود کرنا، تیسرے اپنے تیر کمان سے تیر اندازی کرنا اور جس نے تیر اندازی سیکھنے کے بعد اس سے بیزار ہو کر اسے چھوڑ دیا، تو یہ ایک نعمت ہے جسے اس نے چھوڑ دیا“، یا راوی نے کہا: ”جس کی اس نے ناشکری کی“۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/الجھاد 26 (3148)، والخیل 8 (3608)، (تحفة الأشراف: 9922) (ضعیف)» (اس کے راوی خالد لین الحدیث ہیں) (حدیث کے بعض الفاظ ثابت ہیں یعنی یہ ٹکڑا: «لَيْسَ مِنَ اللَّهْوِ إِلا ثَلاثٌ: تَأْدِيبُ الرَّجُلِ فَرَسَهُ، وَمُلاعَبَتُهُ أَهْلَهُ، وَرَمْيُهُ بِقَوْسِهِ وَنَبْلِهِ» اس لیے کہ اس کی روایت میں عبداللہ بن الأزرق نے خالد کی متابعت کی ہے، ملاحظہ ہو: سنن الترمذی/فضائل الجھاد 11 (1637)، سنن ابن ماجہ/الجھاد 19 (2811)، مسند احمد (4/144، 146، 148، 154)، سنن الدارمی/الجھاد 14 (2449) (نیز اس ٹکڑے کے مزید شواہد کے لیے ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحہ، للالبانی: 315)
وضاحت: ۱؎: یہ روایت سنداً تو ضعیف ہے مگر عقبہ ہی سے صحیح مسلم (امارۃ: ۵۲) میں ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں: ” جس نے تیر اندازی جاننے کے بعد اسے چھوڑ دیا وہ ہم میں سے نہیں ہے“، یا فرمایا: ”اس نے نافرمانی کی“، نیز اس حدیث سے تیراندازی کی فضیلت ثابت ہوتی ہے، اس طرح زمانے کے جتنے سامان جنگ ہیں ان کا سیکھنا اور حاصل کرنا اور اس کے لئے سفر کرنا جہاد میں داخل ہے۔
Narrated Uqbah ibn Amir: I heard the Messenger of Allah ﷺ say: Allah, Most High, will cause three persons to enter Paradise for one arrow: the maker when he has a good motive in making it, the one who shoots it, and the one who hands it; so shoot and ride, but your shooting is dearer to me than your riding. Everything with which a man amuses himself is vain except three (things): a man's training of his horse, his playing with his wife, and his shooting with his bow and arrow. If anyone abandons archery after becoming an adept through distaste for it, it is a blessing he has abandoned; or he said: for which he has been ungrateful.
USC-MSA web (English) Reference: Book 14 , Number 2507
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن مشكوة المصابيح (3872) خالد بن زيد حسن الحديث علي الراجح
عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر فرماتے ہوئے سنا: آپ آیت کریمہ «وأعدوا لهم ما استطعتم من قوة»”تم ان کے مقابلہ کے لیے اپنی طاقت بھر قوت کی تیاری کرو“(سورۃ الأنفال: ۶۰) پڑھ رہے تھے اور فرما رہے تھے: ”سن لو، قوت تیر اندازی ہی ہے، سن لو قوت تیر اندازی ہی ہے، سن لو قوت تیر اندازی ہی ہے“۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الإمارة 52 (1917)، سنن ابن ماجہ/الجھاد 19 (2813)، (تحفة الأشراف: 9911)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/تفسیر القرآن 9 (3083)، مسند احمد (4/157)، سنن الدارمی/الجھاد 14 (2448) (صحیح)»
Uqabah bin Amir Al Juhani said “I heard the Messenger of Allah ﷺ recite when he was on the pulpit “Against them make ready your strength to the utmost of your power. Beware, strength is shooting, beware strength is shooting, beware strength is shooting. ”
USC-MSA web (English) Reference: Book 14 , Number 2508
(مرفوع) حدثنا حيوة بن شريح الحضرمي، حدثنا بقية، حدثني بحير، عن خالد بن معدان، عن ابي بحرية، عن معاذ بن جبل، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، انه قال:" الغزو غزوان فاما من ابتغى وجه الله، واطاع الإمام، وانفق الكريمة وياسر الشريك، واجتنب الفساد، فإن نومه ونبهه اجر كله، واما من غزا فخرا ورياء وسمعة وعصى الإمام وافسد في الارض فإنه لم يرجع بالكفاف". (مرفوع) حَدَّثَنَا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ الْحَضْرَمِيُّ، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ، حَدَّثَنِي بَحِيرٌ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، عَنْ أَبِي بَحْرِيَّةَ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ:" الْغَزْوُ غَزْوَانِ فَأَمَّا مَنِ ابْتَغَى وَجْهَ اللَّهِ، وَأَطَاعَ الْإِمَامَ، وَأَنْفَقَ الْكَرِيمَةَ وَيَاسَرَ الشَّرِيكَ، وَاجْتَنَبَ الْفَسَادَ، فَإِنَّ نَوْمَهُ وَنُبْهَهُ أَجْرٌ كُلُّهُ، وَأَمَّا مَنِ غَزَا فَخْرًا وَرِيَاءً وَسُمْعَةً وَعَصَى الْإِمَامَ وَأَفْسَدَ فِي الْأَرْضِ فَإِنَّهُ لَمْ يَرْجِعْ بِالْكَفَافِ".
معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جہاد دو طرح کے ہیں: رہا وہ شخص جس نے اللہ کی رضا مندی چاہی، امام کی اطاعت کی، اچھے سے اچھا مال خرچ کیا، ساتھی کے ساتھ نرمی اور محبت کی، اور جھگڑے فساد سے دور رہا تو اس کا سونا اور اس کا جاگنا سب باعث اجر ہے، اور جس نے اپنی بڑائی کے اظہار، دکھاوے اور شہرت طلبی کے لیے جہاد کیا، امام کی نافرمانی کی، اور زمین میں فساد مچایا تو (اسے ثواب کیا ملنا) وہ تو برابر برابر بھی نہیں لوٹا ۱؎“۔
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/الجھاد 46 (310)، والبیعة 29 (4200)، (تحفة الأشراف: 11329)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الجھاد 18 (43) موقوفاً، مسند احمد (5/234)، سنن الدارمی/ الجھاد 25 (2461) (حسن)»
وضاحت: ۱؎: یعنی ایسے جہاد میں اگر گناہ سے بچ جائے تو یہی غنیمت ہے، ثواب کا کیا ذکر۔
Narrated Muadh ibn Jabal: The Prophet ﷺ said: Fighting is of two kinds: The one who seeks Allah's favour, obeys the leader, gives the property he values, treats his associates gently and avoids doing mischief, will have the reward for all the time whether he is asleep or awake; but the one who fights in a boasting spirit, for the sake of display and to gain a reputation, who disobeys the leader and does mischief in the earth will not return credit or without blame.
USC-MSA web (English) Reference: Book 14 , Number 2509
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مشكوة المصابيح (3846) أخرجه النسائي (4200) رواية بقية عن بحير صحيحة
(مرفوع) حدثنا ابو توبة الربيع بن نافع، عن ابن المبارك، عن ابن ابي ذئب، عن القاسم، عن بكير بن عبد الله بن الاشج، عن ابن مكرز رجل من اهل الشام، عن ابي هريرة، ان رجلا قال: يا رسول الله رجل يريد الجهاد في سبيل الله وهو يبتغي عرضا من عرض الدنيا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"" لا اجر له، فاعظم ذلك الناس وقالوا للرجل: عد لرسول الله صلى الله عليه وسلم فلعلك لم تفهمه، فقال: يا رسول الله رجل يريد الجهاد في سبيل الله وهو يبتغي عرضا من عرض الدنيا، فقال: لا اجر له، فقالوا للرجل: عد لرسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال له: الثالثة، فقال له: لا اجر له. (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو تَوْبَةَ الرَّبِيعُ بْنُ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ الْمُبَارَكِ، عَنْ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ الْقَاسِمِ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْأَشَجِّ، عَنْ ابْنِ مِكْرَزٍ رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الشَّامِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَجُلًا قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ رَجُلٌ يُرِيدُ الْجِهَادَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَهُوَ يَبْتَغِي عَرَضًا مِنْ عَرَضِ الدُّنْيَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"" لَا أَجْرَ لَهُ، فَأَعْظَمَ ذَلِكَ النَّاسُ وَقَالُوا لِلرَّجُلِ: عُدْ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَعَلَّكَ لَمْ تُفَهِّمْهُ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ رَجُلٌ يُرِيدُ الْجِهَادَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَهُوَ يَبْتَغِي عَرَضًا مِنْ عَرَضِ الدُّنْيَا، فَقَالَ: لَا أَجْرَ لَهُ، فَقَالُوا لِلرَّجُلِ: عُدْ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لَهُ: الثَّالِثَةَ، فَقَالَ لَهُ: لَا أَجْرَ لَهُ.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے کہا: اللہ کے رسول! ایک شخص اللہ کی راہ میں جہاد کا ارادہ رکھتا ہے اور وہ دنیاوی مال و منال چاہتا ہے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کے لیے کوئی اجر و ثواب نہیں“، لوگوں نے اسے بڑی بات سمجھی اور اس شخص سے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پھر پوچھو، شاید تم انہیں نہ سمجھا سکے ہو، اس شخص نے کہا: اللہ کے رسول! ایک شخص اللہ کی راہ میں جہاد کا ارادہ رکھتا ہے اور وہ دنیاوی مال و اسباب چاہتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کے لیے کوئی اجر و ثواب نہیں“، لوگوں نے اس شخص سے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پھر پوچھو، اس نے آپ سے تیسری بار پوچھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر اس سے فرمایا: ”اس کے لیے کوئی اجر و ثواب نہیں“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 15484)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/290، 366) (حسن)»
Narrated Abu Hurairah: A man said: Messenger of Allah, a man wishes to take part in jihad in Allah's path desiring some worldly advantage? The Prophet ﷺ said: He will have not reward. The people thought it terrible, and they said to the man: Go back to the Messenger of Allah ﷺ, for you might not have made him understand well. He, therefore, (went and again) asked: Messenger of Allah, a man wishes to take part in jihad in Allah's path desiring some worldly advantage? He replied: There is no reward for him. They again said to the man: Return to the Messenger of Allah. He, therefore, said to him third time. He replied: There is no reward for him.
USC-MSA web (English) Reference: Book 14 , Number 2510
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن مشكوة المصابيح (3845)