سنن ابي داود
كِتَاب الْجِهَادِ
کتاب: جہاد کے مسائل
20. باب فِي الرُّخْصَةِ فِي الْقُعُودِ مِنَ الْعُذْرِ
باب: عذر کی بنا پر جہاد میں نہ جانے کی اجازت کا بیان۔
حدیث نمبر: 2507
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ خَارِجَةَ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، قَالَ: كُنْتُ إِلَى جَنْبِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَغَشِيَتْهُ السَّكِينَةُ، فَوَقَعَتْ فَخِذُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى فَخِذِي فَمَا وَجَدْتُ ثِقْلَ شَيْءٍ أَثْقَلَ مِنْ فَخِذِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ سُرِّيَ عَنْهُ فَقَالَ:" اكْتُبْ، فَكَتَبْتُ فِي كَتِفٍ لا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ سورة النساء آية 95، وَالْمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ سورة النساء آية 95 إِلَى آخِرِ الْآيَةِ، فَقَامَ ابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ وَكَانَ رَجُلًا أَعْمَى لَمَّا سَمِعَ فَضِيلَةَ الْمُجَاهِدِينَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ فَكَيْفَ بِمَنْ لَا يَسْتَطِيعُ الْجِهَادَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ؟، فَلَمَّا قَضَى كَلَامَهُ غَشِيَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ السَّكِينَةُ، فَوَقَعَتْ فَخِذُهُ عَلَى فَخِذِي وَوَجَدْتُ مِنْ ثِقَلِهَا فِي الْمَرَّةِ الثَّانِيَةِ كَمَا وَجَدْتُ فِي الْمَرَّةِ الْأُولَى، ثُمَّ سُرِّيَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: اقْرَأْ يَا زَيْدُ، فَقَرَأْتُ لا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ سورة النساء آية 95، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ سورة النساء آية 95 الْآيَةَ كُلَّهَا، قَالَ زَيْدٌ: فَأَنْزَلَهَا اللَّهُ وَحْدَهَا فَأَلْحَقْتُهَا، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَكَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى مُلْحَقِهَا عِنْدَ صَدْعٍ فِي كَتِفٍ".
زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں تھا تو آپ کو سکینت نے ڈھانپ لیا (یعنی وحی اترنے لگی) (اسی دوران) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ران میری ران پر پڑ گئی تو کوئی بھی چیز مجھے آپ کی ران سے زیادہ بوجھل محسوس نہیں ہوئی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے وحی کی کیفیت ختم ہوئی تو آپ نے فرمایا: ”لکھو“، میں نے شانہ (کی ایک ہڈی) پر «لا يستوي القاعدون من المؤمنين والمجاهدون في سبيل الله» ”اپنی جانوں اور مالوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے مومن اور بغیر عذر کے بیٹھ رہنے والے مومن برابر نہیں“ (سورۃ النساء: ۹۵) آخر آیت تک لکھ لیا، عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ (ایک نابینا شخص تھے) نے جب مجاہدین کی فضیلت سنی تو کھڑے ہو کر کہا: اللہ کے رسول! مومنوں میں سے جو جہاد کی طاقت نہیں رکھتا اس کا کیا حال ہے؟ جب انہوں نے اپنی بات پوری کر لی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پھر سکینت نے ڈھانپ لیا (وحی اترنے لگی)، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ران میری ران پر پڑی تو میں نے اس کا بھاری پن پھر دوسری بار محسوس کیا جس طرح پہلی بار محسوس کیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے وحی کی جب کیفیت ختم ہوئی تو آپ نے فرمایا: ”زید! پڑھو“، تو میں نے «لا يستوي القاعدون من المؤمنين» پوری آیت پڑھی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے: «غير أولي الضرر» کا اضافہ فرمایا، زید کہتے ہیں: تو «غير أولي الضرر» کو اللہ نے الگ سے نازل کیا، میں نے اس کو اس کے ساتھ شامل کر دیا، اللہ کی قسم! گویا میں شانہ کے دراز کو دیکھ رہا ہوں جہاں میں نے اسے شامل کیا تھا۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 3708)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/184، 190، 191) (حسن صحیح)»
قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
سنن ابی داود کی حدیث نمبر 2507 کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2507
فوائد ومسائل:
1۔
مریض، نابینا، اپاہج، یا دیگر شرعی عذر کی بنا ء پر اگر کوئی جہاد سے پیچھے رہ جائے۔
تو مباح ہے، لیکن جب نفیر عام کا حکم ہو تو بلا عذر پیچھے رہنا کسی طرح روا نہیں۔
2۔
نزول وحی کے وقت رسول اللہ ﷺ پر انتہائی بوجھ پڑتا تھا۔
حتیٰ کے سخت سردی میں بھی آپﷺ کو پسینہ آجاتا تھا۔
اور اگر آپ اونٹنی پر ہوتے تو وہ بھی ٹک کرکھڑی ہوجاتی تھی۔
اور چل نہ سکتی تھی۔
3۔
قرآن مجید جس قدر اترتا تھا نبی کریم ﷺ اس کی کتابت کروا دیا کرتے تھے۔
البتہ ابتداء میں احادیث کے لکھنے کی عام اجازت نہ تھی۔
سوائے چند ایک صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین کے زیادہ وثائق جو آپ نے بالخصوص لکھوائے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2507
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3101
´گھر بیٹھ رہنے والوں پر جہاد کے لیے نکلنے والوں کی فضیلت کا بیان۔`
سہل بن سعد رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے مروان بن حکم کو بیٹھے دیکھا تو ان کے پاس آ کر بیٹھ گیا، تو انہوں نے ہم سے بیان کیا کہ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر آیت: «لا يستوي القاعدون من المؤمنين والمجاهدون في سبيل اللہ» ”اپنی جانوں اور مالوں سے اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والے مومن اور بغیر عذر کے بیٹھ رہنے والے مومن برابر نہیں۔“ (النساء: ۹۵) نازل ہوئی اور آپ اسے بول کر مجھ س۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الجهاد/حدیث: 3101]
اردو حاشہ:
(1) خالص اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے اپنی جان خطرے میں ڈالنا بلکہ قربان کردینا کوئی معمولی نیکی نہیں۔ اسی لیے مجاہدین کو دوسرے نیک لوگوں پر بہت زیادہ فضیلت حاصل ہے مگر معذور شحص جہاد کی نیت رکھے تو اسے بھی جہاد کا ثواب ملے گا۔
(2) حضرت ابن کلثوم رضی اللہ عنہ نابینا تھے۔ عربی زبان میں ”مکتوم“ نابینے کو کہتے ہیں۔ ان کے نام کے بارے میں اختلاف ہے۔ اکثر محققین نے عبداللہ بتایا ہے۔ بعض نے عمرو بھی کہا ہے۔ واللہ أعلم۔
(3) ﴿غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ﴾ (النسائي:4:95) کے الفاظ کے بعد میں اترنے پر کوئی اعتراض نہیں کیونکہ اگر یہ الفاظ نہ ہوتے تب بھی شرعی ادلہ کی رو سے معذور کی رخصت ہے اور نیت کا اجر ملنا بھی قطعی مسئلہ ہے، تاہم جہاد کی اہمیت کے پیش نظر وضاحت کی ضرورت محسوس ہوئی تو وضاحت کردی گئی۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3101
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2832
2832. حضرت سہل بن سعد ساعدی ؓسے روایت ہے۔ انھوں نے فرمایا کہ میں نے حاکم مدینہ جناب مروان بن حکم کو مسجد میں بیٹھے ہوئے دیکھا تو میں آکر اس کے پہلو میں بیٹھ گیا۔ اس نے ہمیں زید بن ثابت ؓکے حوالے سے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ انھیں ﴿لَّا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ وَالْمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ﴾ لکھوا رہے تھے اتنے میں حضرت عبد اللہ بن اُم مکتوم ؓ آئے، انھوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ!اگر مجھ میں جہاد کی طاقت ہوتی تو میں بھی جہاد میں شریک ہوتا، وہ نابینا تھے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اللہ ﷺ پر وحی بھیجی، جبکہ آپ کی ران میری ران پر تھی جو مجھ پر اس قدر گراں ہو گئی کہ مجھے میری ران ٹکڑےٹکڑے ہونے کا خطرہ محسوس ہوا۔ پھر وہ کیفیت آپ سے کھل گئی تو اللہ تعالیٰ نے ﴿غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ ﴾ کے الفاظ نازل فرمائے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2832]
حدیث حاشیہ:
رسول کریمﷺ پر جب وحی نازل ہوتی تو آپ کی حالت دگرگوں ہو جاتی‘ سخت سردی میں پسینہ پسینہ ہو جاتے اور جسم مبارک بوجھل ہو جاتا۔
اسی کیفیت کو راوی نے یہاں بیان کیا ہے۔
آیت میں ان الفاظ سے نابینا بیمار اپاہج لوگ فرضیت جہاد سے مستثنیٰ کردئیے گئے۔
سچ ہے ﴿لَا یُکَلّفُ اللہُ نَفسنا اِلا وُسْعَھَا﴾ (البقرة: 286)
احکام الٰہی صرف انسانی وسعت و طاقت کی حد تک بچا لانے ضروری ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2832
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2832
2832. حضرت سہل بن سعد ساعدی ؓسے روایت ہے۔ انھوں نے فرمایا کہ میں نے حاکم مدینہ جناب مروان بن حکم کو مسجد میں بیٹھے ہوئے دیکھا تو میں آکر اس کے پہلو میں بیٹھ گیا۔ اس نے ہمیں زید بن ثابت ؓکے حوالے سے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ انھیں ﴿لَّا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ وَالْمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ﴾ لکھوا رہے تھے اتنے میں حضرت عبد اللہ بن اُم مکتوم ؓ آئے، انھوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ!اگر مجھ میں جہاد کی طاقت ہوتی تو میں بھی جہاد میں شریک ہوتا، وہ نابینا تھے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اللہ ﷺ پر وحی بھیجی، جبکہ آپ کی ران میری ران پر تھی جو مجھ پر اس قدر گراں ہو گئی کہ مجھے میری ران ٹکڑےٹکڑے ہونے کا خطرہ محسوس ہوا۔ پھر وہ کیفیت آپ سے کھل گئی تو اللہ تعالیٰ نے ﴿غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ ﴾ کے الفاظ نازل فرمائے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2832]
حدیث حاشیہ:
1۔
اس آیت سے معلوم ہواکہ جہاد فرض عین نہیں بلکہ فرض کفایہ ہے کیونکہ معاشرے میں کئی افراد بوڑھے،ناتواں،کمزور،اندھے،لنگڑے اور بیمار وغیرہ ہوتے ہیں جو جہاد پر جا ہی نہیں سکتے،نیز کچھ لوگ ملک کے اندرونی دفاع،مجاہدین کے گھروں کی حفاظت،ان کے اہل وعیال کی دکھ بھال کے لیے ضرور پیچھے رہنے چائیں اور اس لیے بھی کہ مجاہدین کو بروقت مدد مہیا کرتے رہیں،خواہ یہ رسد اور سامان خوردونوش سے متعلق ہو یا افرادی قوت سے،پھرکچھ لوگ زخمیوں کی دیکھ بھال کے لیے بھی ضروری ہوتے ہیں۔
2۔
آیت کریمہ سے یہ بات بھی صراحت کے ساتھ ثابت ہوتی ہے کہ جو اہل ایمان میدان میں بغیر جسمانی عذر کے بھی شریک نہیں ہوتے ان کے ساتھ بھی اللہ تعالیٰ نے خیر وبھلائی اور جنت کا وعدہ کررکھاہے لیکن اگر جہاد ہرحال میں فرض عین ہوتا تو پھر جہاد سے پیچھے رہنے والوں سے خیرو بھلائی کا وعدہ کیوں کرتا،چنانچہ حافظ ابن کثیر ؓ لکھتے ہیں:
”اس آیت سے اس بات کی دلیل ہے کہ جہاد فرض عین نہیں بلکہ فرض کفایہ ہے۔
“ (تفسیر ابن کثیر: 821/1)
3۔
اللہ تعالیٰ نے اگرچہ حضرت عبداللہ بن ام مکتوم ؓ کا عذرقبول فرمالیا لیکن اس رخصت کے باوجود آپ کا جذبہ جہاد اتنا بلند تھا کہ آپ مشقت اٹھا کر بھی کئی غزوات میں شریک ہوئے۔
جہاد کن صورتوں میں فرض عین ہوتا ہے،اس کی تفصیل ہم پیچھے بیان کرآئے ہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2832