سنن ابي داود
كِتَاب الْجِهَادِ
کتاب: جہاد کے مسائل
25. باب فِي مَنْ يَغْزُو وَيَلْتَمِسُ الدُّنْيَا
باب: دنیا طلبی کی خاطر جہاد کرنے والے کا بیان۔
حدیث نمبر: 2516
حَدَّثَنَا أَبُو تَوْبَةَ الرَّبِيعُ بْنُ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ الْمُبَارَكِ، عَنْ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ الْقَاسِمِ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْأَشَجِّ، عَنْ ابْنِ مِكْرَزٍ رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الشَّامِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَجُلًا قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ رَجُلٌ يُرِيدُ الْجِهَادَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَهُوَ يَبْتَغِي عَرَضًا مِنْ عَرَضِ الدُّنْيَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"" لَا أَجْرَ لَهُ، فَأَعْظَمَ ذَلِكَ النَّاسُ وَقَالُوا لِلرَّجُلِ: عُدْ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَعَلَّكَ لَمْ تُفَهِّمْهُ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ رَجُلٌ يُرِيدُ الْجِهَادَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَهُوَ يَبْتَغِي عَرَضًا مِنْ عَرَضِ الدُّنْيَا، فَقَالَ: لَا أَجْرَ لَهُ، فَقَالُوا لِلرَّجُلِ: عُدْ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لَهُ: الثَّالِثَةَ، فَقَالَ لَهُ: لَا أَجْرَ لَهُ.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے کہا: اللہ کے رسول! ایک شخص اللہ کی راہ میں جہاد کا ارادہ رکھتا ہے اور وہ دنیاوی مال و منال چاہتا ہے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کے لیے کوئی اجر و ثواب نہیں“، لوگوں نے اسے بڑی بات سمجھی اور اس شخص سے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پھر پوچھو، شاید تم انہیں نہ سمجھا سکے ہو، اس شخص نے کہا: اللہ کے رسول! ایک شخص اللہ کی راہ میں جہاد کا ارادہ رکھتا ہے اور وہ دنیاوی مال و اسباب چاہتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کے لیے کوئی اجر و ثواب نہیں“، لوگوں نے اس شخص سے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پھر پوچھو، اس نے آپ سے تیسری بار پوچھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر اس سے فرمایا: ”اس کے لیے کوئی اجر و ثواب نہیں“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 15484)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/290، 366) (حسن)»
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
مشكوة المصابيح (3845)
سنن ابی داود کی حدیث نمبر 2516 کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2516
فوائد ومسائل:
اگر مجاہد کی نیت بنیادی طور پر ریا کاری اور حصول مال کی ہو تو اس کا سب عمل باطل ہے۔
اس کے لئے کوئی اجر نہیں۔
لیکن اگر اصل اور بنیادی نیت جہاد اور اللہ کا کلمہ بلند کرنا اور ا س کے ساتھ حصول مال جیسی نیت بھی خلط ملط ہوجائے تو اس سے اجر میں کمی آجاتی ہے۔
عمل باطل نہیں ہوتا۔
جیسے کہ سابقہ حدیث 2497 میں گزرا ہے۔
کہ مجاہدین کو اگر غنیمت مل جائے تو اپنا وہ دو تہائی اجر اس دنیا میں ہی حاصل کرلیتے ہیں۔
ورنہ ان کا سارا اجر محفوظ رہتا ہے۔
امام احمد فرماتے ہیں کہ جہاد میں تاجر مزدور اور کرائے پر کام کرنے والے افراد کا اجر ان کی اپنی اپنی نیت کی مقدار پر ہوتا ہے نیت اور اخلاص کا معاملہ انتہائی مشکل اور توجہ طلب ہوتا ہے۔
اس مسئلہ میں جامع العلوم والحکم (لابن رجب حنبلی) میں شرح حدیث۔
انما الاعمال بالنیات بار بار پڑھنے کے لائق ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2516