(مرفوع) حدثنا عثمان بن ابي شيبة، حدثنا وكيع بن الجراح، حدثنا الوليد بن عبد الله بن جميع، قال: حدثتني جدتي، وعبد الرحمن بن خلاد الانصاري، عن ام ورقة بنت عبد الله بن نوفل الانصارية، ان النبي صلى الله عليه وسلم لما غزا بدرا، قالت: قلت له: يا رسول الله، ائذن لي في الغزو معك امرض مرضاكم، لعل الله ان يرزقني شهادة، قال:" قري في بيتك، فإن الله تعالى يرزقك الشهادة، قال: فكانت تسمى الشهيدة، قال: وكانت قد قرات القرآن، فاستاذنت النبي صلى الله عليه وسلم ان تتخذ في دارها مؤذنا، فاذن لها"، قال: وكانت قد دبرت غلاما لها وجارية، فقاما إليها بالليل فغماها بقطيفة لها حتى ماتت وذهبا، فاصبح عمر فقام في الناس، فقال: من كان عنده من هذين علم او من رآهما فليجئ بهما، فامر بهما فصلبا فكانا اول مصلوب بالمدينة. (مرفوع) حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعُ بْنُ الْجَرَّاحِ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جُمَيْعٍ، قَالَ: حَدَّثَتْنِي جَدَّتِي، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ خَلَّادٍ الْأَنْصَارِيُّ، عَنْ أُمِّ وَرَقَةَ بِنْتِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نَوْفَلٍ الْأَنْصَارِيَّةِ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا غَزَا بَدْرًا، قَالَتْ: قُلْتُ لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، ائْذَنْ لِي فِي الْغَزْوِ مَعَكَ أُمَرِّضُ مَرْضَاكُمْ، لَعَلَّ اللَّهَ أَنْ يَرْزُقَنِي شَهَادَةً، قَالَ:" قَرِّي فِي بَيْتِكِ، فَإِنَّ اللَّهَ تَعَالَى يَرْزُقُكِ الشَّهَادَةَ، قَالَ: فَكَانَتْ تُسَمَّى الشَّهِيدَةُ، قَالَ: وَكَانَتْ قَدْ قَرَأَتِ الْقُرْآنَ، فَاسْتَأْذَنَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ تَتَّخِذَ فِي دَارِهَا مُؤَذِّنًا، فَأَذِنَ لَهَا"، قَالَ: وَكَانَتْ قَدْ دَبَّرَتْ غُلَامًا لَهَا وَجَارِيَةً، فَقَامَا إِلَيْهَا بِاللَّيْلِ فَغَمَّاهَا بِقَطِيفَةٍ لَهَا حَتَّى مَاتَتْ وَذَهَبَا، فَأَصْبَحَ عُمَرُ فَقَامَ فِي النَّاسِ، فَقَالَ: مَنْ كَانَ عِنْدَهُ مِنْ هَذَيْنِ عِلْمٌ أَوْ مَنْ رَآهُمَا فَلْيَجِئْ بِهِمَا، فَأَمَرَ بِهِمَا فَصُلِبَا فَكَانَا أَوَّلَ مَصْلُوبٍ بِالْمَدِينَةِ.
ام ورقہ بنت عبداللہ بن نوفل انصاریہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب غزوہ بدر میں جانے لگے تو میں نے آپ سے کہا: اللہ کے رسول! اپنے ساتھ مجھے بھی جہاد میں چلنے کی اجازت دیجئیے، میں آپ کے بیماروں کی خدمت کروں گی، شاید اللہ تعالیٰ مجھے بھی شہادت نصیب فرمائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اپنے گھر میں بیٹھی رہو، اللہ تمہیں شہادت نصیب کرے گا“۔ راوی کہتے ہیں: چنانچہ انہیں شہیدہ کہا جاتا تھا، وہ کہتے ہیں: ام ورقہ رضی اللہ عنہا نے قرآن پڑھ رکھا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے گھر میں مؤذن مقرر کرنے کی اجازت چاہی، تو آپ نے انہیں اس کی اجازت دی، اپنے ایک غلام اور ایک لونڈی کو اپنے مر جانے کے بعد آزاد کر دینے کی وصیت کر دی تھی، چنانچہ وہ دونوں (یعنی غلام اور لونڈی) رات کو ام ورقہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے اور انہی کی ایک چادر سے ان کا گلا گھونٹ دیا یہاں تک کہ وہ مر گئیں اور وہ دونوں بھاگ نکلے، صبح ہوئی تو عمر رضی اللہ عنہ لوگوں میں کھڑے ہو کر اعلان کیا کہ ان دونوں کے متعلق جس کو بھی کچھ معلوم ہو، یا جس نے بھی ان دونوں کو دیکھا ہو وہ انہیں پکڑ کر لائے، (چنانچہ وہ پکڑ کر لائے گئے) تو آپ نے ان دونوں کے متعلق حکم دیا تو انہیں سولی دے دی گئی، یہی دونوں تھے جنہیں مدینہ منورہ میں سب سے پہلے سولی دی گئی۔
تخریج الحدیث: «تفرد به أبو داود، (تحفة الأشراف: 18364)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/405) (حسن)» (اس کے دو راوی ولید کی دادی اور عبدالرحمن بن خلاد دونوں مجہول ہیں، لیکن ایک دوسرے کے لئے تقویت کا باعث ہیں، ابن خزیمہ نے حدیث کو صحیح کہا ہے، ملاحظہ ہو: صحیح ابی داود: 3؍142)
Narrated Umm Waraqah daughter of Nawfal: When the Prophet ﷺ proceeded for the Battle of Badr, I said to him: Messenger of Allah allow me to accompany you in the battle. I shall act as a nurse for patients. It is possible that Allah might bestow martyrdom upon me. He said: Stay at your home. Allah, the Almighty, will bestow martyrdom upon you. The narrator said: Hence she was called martyr. She read the Quran. She sought permission from the Prophet ﷺ to have a muadhdhin in her house. He, therefore, permitted her (to do so). She announced that her slave and slave-girl would be free after her death. One night they went to her and strangled her with a sheet of cloth until she died, and they ran away. Next day Umar announced among the people, "Anyone who has knowledge about them, or has seen them, should bring them (to him). " Umar (after their arrest) ordered (to crucify them) and they were crucified. This was the first crucifixion at Madina.
USC-MSA web (English) Reference: Book 2 , Number 591
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن صححه ابن خزيمة (1676 وسنده حسن)
اس سند سے بھی ام ورقہ بنت عبداللہ بن حارث رضی اللہ عنہا سے یہی حدیث مروی ہے، لیکن پہلی حدیث زیادہ کامل ہے، اس میں یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ام ورقہ سے ملنے ان کے گھر تشریف لے جاتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے ایک مؤذن مقرر کر دیا تھا، جو اذان دیتا تھا اور انہیں حکم دیا تھا کہ اپنے گھر والوں کی امامت کریں۔ عبدالرحمٰن کہتے ہیں: میں نے ان کے مؤذن کو دیکھا، وہ بہت بوڑھے تھے۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبله، (تحفة الأشراف: 18364) (حسن)» (ملاحظہ ہو حدیث سابق)
This tradition has also been narrated through a different chain of transmitters by Umm Waraqah daughter of Abdullah bin al-Harith. The first version is complete. This version goes: The Messenger of Allah ﷺ used to visit her at her house. He appointed a Muadhdhin to call adhan for her; and he commanded her to lead the inmates of her house in prayer. Abdur-Rahman said: I saw her Muadhdhin who was an old man.
USC-MSA web (English) Reference: Book 2 , Number 592
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: حسن انظر الحديث السابق (591)
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”تین آدمیوں کی نماز اللہ قبول نہیں فرماتا: ایک تو وہ شخص جو لوگوں کی امامت کرے اور لوگ اسے ناپسند کرتے ہوں، دوسرا وہ شخص جو نماز میں پیچھے آئے، پیچھے آنا یہ ہے کہ جماعت فوت ہو جانے یا وقت گزر جانے کے بعد آئے، اور تیسرا وہ شخص جو اپنے آزاد کئے ہوئے شخص کو دوبارہ غلام بنا لے“۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة 43 (970)، (تحفة الأشراف: 8903) (ضعیف)» (اس کے دو راوی عبدالرحمن افریقی اور عمران ضعیف ہیں، مگر اس کا پہلا جزء شواہد سے تقویت پاکر صحیح ہے)
Narrated Abdullah ibn Umar: The Prophet ﷺ said: There are three types of people whose prayer is not accepted by Allah: One who goes in front of people when they do not like him; a man who comes dibaran, which means that he comes to it too late; and a man who takes into slavery an emancipated male or female slave.
USC-MSA web (English) Reference: Book 2 , Number 593
قال الشيخ الألباني: ضعيف إلا الشطر الأول فصحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ابن ماجه (970) عبد الرحمٰن بن زياد الإفريقي ضعيف وعمران بن عبد ٍالمعافري: ضعيف (تقريب: 5160) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 34
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”فرض نماز ہر مسلمان کے پیچھے واجب ہے چاہے وہ نیک ہو یا بد اگرچہ وہ کبائر کا مرتکب ہو“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 14619) (ضعیف)» (علاء بن حارث مختلط ہو گئے تھے اور مکحول کی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ملاقات ثابت نہیں)
Abu Hurairah reported the Messenger of Allah ﷺ as saying: The obligatory prayer is essential behind every Muslim, pious or impious, even if he has committed a sins.
USC-MSA web (English) Reference: Book 2 , Number 594
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف مكحول لم يسمع من أبي هريرة رضي اللّٰه عنه كما سيأتي(2533) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 34
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کو اپنا جانشین مقرر فرمایا، وہ لوگوں کی امامت کرتے تھے، حالانکہ وہ نابینا تھے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 1321)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/192) (حسن صحیح)»
وضاحت: نابینے شخص کی امامت بلا کراہت جائز ہے بشرطیکہ اس میں صلاحیت ہو۔
(مرفوع) حدثنا مسلم بن إبراهيم، حدثنا ابان، عن بديل، حدثني ابو عطية مولى منا، قال: كان مالك بن حويرث ياتينا إلى مصلانا هذا فاقيمت الصلاة، فقلنا له: تقدم فصله، فقال لنا: قدموا رجلا منكم يصلي بكم، وساحدثكم لم لا اصلي بكم، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" من زار قوما فلا يؤمهم وليؤمهم رجل منهم". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا أَبَانُ، عَنْ بُدَيْلٍ، حَدَّثَنِي أَبُو عَطِيَّةَ مَوْلًى مِنَّا، قَالَ: كَانَ مَالِكُ بْنُ حُوَيْرِثٍ يَأْتِينَا إِلَى مُصَلَّانَا هَذَا فَأُقِيمَتِ الصَّلَاةُ، فَقُلْنَا لَهُ: تَقَدَّمْ فَصَلِّهْ، فَقَالَ لَنَا: قَدِّمُوا رَجُلًا مِنْكُمْ يُصَلِّي بِكُمْ، وَسَأُحَدِّثُكُمْ لِمَ لَا أُصَلِّي بِكُمْ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" مَنْ زَارَ قَوْمًا فَلَا يَؤُمَّهُمْ وَلْيَؤُمَّهُمْ رَجُلٌ مِنْهُمْ".
بدیل کہتے ہیں کہ ہمارے ایک غلام ابوعطیہ نے ہم سے بیان کیا کہ مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ ہماری اس مسجد میں آتے تھے، (ایک بار) نماز کے لیے تکبیر کہی گئی تو ہم نے ان سے کہا: آپ آگے بڑھئیے اور نماز پڑھائیے، انہوں نے ہم سے کہا: تم اپنے لوگوں میں سے کسی کو آگے بڑھاؤ تاکہ وہ تمہیں نماز پڑھائے، میں ابھی تم لوگوں بتاؤں گا کہ میں تمہیں نماز کیوں نہیں پڑھا رہا ہوں؟ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ”جو شخص کسی قوم کی زیارت کے لیے جائے تو وہ ان کی امامت نہ کرے بلکہ انہیں لوگوں میں سے کوئی آدمی ان کی امامت کرے ۱؎“۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الصلاة 148 (356)، سنن النسائی/الإمامة 9 (788)، (تحفة الأشراف: 11186)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/436)، (صحیح)» (مالک بن حویرث کے قصہ کے بغیر حدیث صحیح ہے)
وضاحت: ۱؎: اگر خوشی و رضا مندی سے لوگ زائر کو امام بنانا چاہیں اور وہ امامت کا مستحق بھی ہو تو اس کا امام بننا جائز ہے، کیونکہ ابومسعود کی ایک روایت میں «إلا بإذنه» کا اضافہ ہے۔
Abu Atiyyah, a freed slave of us, said: Malik bin al-Huwairith came to this place of prayer of ours, and the iqamah for prayer was called. We said to him: Come forward and lead the prayer. He said to us: Put one of your own men forward to lead you in prayer. I heard the Messenger of Allah ﷺ say: If anyone visits people, he should not lead them in prayer, but some person of them should lead the prayer.
USC-MSA web (English) Reference: Book 2 , Number 596
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن مشكوة المصابيح (1120) أبو عطية: حسن الحديث، وثقه ابن خزيمة (1520) والترمذي (356)
ہمام کہتے ہیں کہ حذیفہ رضی اللہ عنہ نے مدائن (کوفہ کے پاس ایک شہر ہے) میں ایک چبوترہ (اونچی جگہ) پر کھڑے ہو کر لوگوں کی امامت کی (اور لوگ نیچے تھے)، ابومسعود رضی اللہ عنہ نے ان کا کرتا پکڑ کر انہیں (نیچے) گھسیٹ لیا، جب حذیفہ نماز سے فارغ ہوئے تو ابومسعود نے ان سے کہا: کیا آپ کو معلوم نہیں کہ اس بات سے لوگوں کو منع کیا جاتا تھا، حذیفہ نے کہا: ہاں مجھے بھی اس وقت یاد آیا جب آپ نے مجھے پکڑ کر کھینچا۔
Hammam said: Hudhaifah led the people in prayer in al-Mada’in standing on the shop (or a bench). Abu Masud took him by his shirt, and brought him down. When he ( Abu Masud) finished his prayer, he said: Do you not know that they (the people) were prohibited to do so. He said: Yes, I remembered when you pulled me down.
USC-MSA web (English) Reference: Book 2 , Number 597
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف الأ عمش عنعن انوار الصحيفه، صفحه نمبر 35
(مرفوع) حدثنا احمد بن إبراهيم، حدثنا حجاج، عن ابن جريج، اخبرني ابو خالد، عن عدي بن ثابت الانصاري، حدثني رجل، انه كان مع عمار بن ياسر بالمدائن فاقيمت الصلاة، فتقدم عمار وقام على دكان يصلي والناس اسفل منه، فتقدم حذيفة فاخذ على يديه فاتبعه عمار حتى انزله حذيفة، فلما فرغ عمار من صلاته، قال له حذيفة: الم تسمع رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" إذا ام الرجل القوم فلا يقم في مكان ارفع من مقامهم"، او نحو ذلك، قال عمار: لذلك اتبعتك حين اخذت على يدي. (مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَنِي أَبُو خَالِدٍ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ الْأَنْصَارِيِّ، حَدَّثَنِي رَجُلٌ، أَنَّهُ كَانَ مَعَ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ بِالْمَدَائِنِ فَأُقِيمَتِ الصَّلَاةُ، فَتَقَدَّمَ عَمَّارٌ وَقَامَ عَلَى دُكَّانٍ يُصَلِّي وَالنَّاسُ أَسْفَلَ مِنْهُ، فَتَقَدَّمَ حُذَيْفَةُ فَأَخَذَ عَلَى يَدَيْهِ فَاتَّبَعَهُ عَمَّارٌ حَتَّى أَنْزَلَهُ حُذَيْفَةُ، فَلَمَّا فَرَغَ عَمَّارٌ مِنْ صَلَاتِهِ، قَالَ لَهُ حُذَيْفَةُ: أَلَمْ تَسْمَعْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" إِذَا أَمَّ الرَّجُلُ الْقَوْمَ فَلَا يَقُمْ فِي مَكَانٍ أَرْفَعَ مِنْ مَقَامِهِمْ"، أَوْ نَحْوَ ذَلِكَ، قَالَ عَمَّارٌ: لِذَلِكَ اتَّبَعْتُكَ حِينَ أَخَذْتَ عَلَى يَدَيَّ.
عدی بن ثابت انصاری کہتے ہیں کہ مجھ سے ایک شخص نے بیان کیا کہ وہ عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما کے ساتھ مدائن میں تھا کہ نماز کے لیے اقامت کہی گئی تو عمار آگے بڑھے اور ایک چبوترے پر کھڑے ہو کر نماز پڑھانے لگے اور لوگ ان سے نیچے تھے، یہ دیکھ کر حذیفہ رضی اللہ عنہ آگے بڑھے اور عمار بن یاسر کے دونوں ہاتھ پکڑ کر انہیں پیچھے لانے لگے، عمار بن یاسر بھی پیچھے ہٹتے گئے یہاں تک کہ حذیفہ نے انہیں نیچے اتار دیا، جب عمار اپنی نماز سے فارغ ہوئے تو حذیفہ نے ان سے کہا: کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے نہیں سنا کہ جب کوئی شخص کسی قوم کی امامت کرے تو ان سے اونچی جگہ پر کھڑا نہ ہو؟ عمار رضی اللہ عنہ نے کہا: اسی لیے جب آپ نے میرا ہاتھ پکڑا تو میں آپ کے ساتھ پیچھے ہٹتا چلا گیا۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 3396) (حسن)» (اس کا جتنا حصہ پچھلی حدیث کے موافق ہے اتنا اس سے تقویت پاکر درجہ حسن تک پہنچ جاتا ہے باقی باتیں سند میں ایک مجہول راوی (رجل) کے سبب ضعیف ہیں اس میں امام عمار رضی اللہ عنہ کو اور کھینچنے والا حذیفہ رضی اللہ عنہ کو بنا دیا ہے)
Adi bin Thabit al-Ansari said; A man related to me that (once) he was in the company of Ammar bin yasir in al-Mada’in (a city near Ku’fah). The IQAMAH was called for prayer: Ammar came forward and stood on a shop (or a beach) and prayed while the people stood on a lower place than he. Hudaifah came forward and took him by the hands and Ammar followed him till Hudaifah brought him down. When Ammar finished his prayer. Hudaifah said to him: Did you not hear the Messenger of Allah ﷺ say: When a man leads the people in prayer, he must not stand in a position higher than theirs, or words to that effect? Ammar replied: that is why I followed you when you took me by the hand.
USC-MSA web (English) Reference: Book 2 , Number 598
قال الشيخ الألباني: حسن لغيره
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف أبو خالد والرجل الذي حدث عدي بن ثابت: مجهولان لا يعرفان أصلاً،انظر تقريب التهذيب (8075) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 35
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ عشاء کی نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پڑھتے پھر اپنی قوم میں آتے اور وہی نماز انہیں پڑھاتے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 2391)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الأذان 60 (700)، والأدب 74 (6106)، صحیح مسلم/الصلاة 36 (465)، سنن النسائی/الإمامة 39 (832)، 41 (836)، والافتتاح 63 (985)، 70 (998)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة 48 (986)، مسند احمد (3/ 299، 308، 369)، سنن الدارمی/ الصلاة 65 (1333)، ویأتي برقم: (790) (حسن صحیح)» (مؤلف کی سند سے حسن صحیح ہے ورنہ صحیح ہے)
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ فرض پڑھنے والے کی نماز نفل پڑھنے والے کے پیچھے درست اور صحیح ہے کیونکہ معاذ رضی اللہ عنہ فرض نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پڑھتے تھے، اور واپس آ کر اپنی قوم کو نماز پڑھاتے تھے، معاذ رضی اللہ عنہ کی دوسری نماز نفل ہوتی اور مقتدیوں کی فرض ہوتی تھی۔
Jabir bin Abdullah said: Muadh bin Jabal would pray along with the Messenger of Allah ﷺin the night prayer, then go and lead his people and lead them in the same prayer.
USC-MSA web (English) Reference: Book 2 , Number 599
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھتے، پھر لوٹ کر جاتے اور اپنی قوم کی امامت کرتے۔