سنن ابي داود
كِتَاب الصَّلَاةِ
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
68. باب إِمَامَةِ مَنْ يُصَلِّي بِقَوْمٍ وَقَدْ صَلَّى تِلْكَ الصَّلاَةَ
باب: جو شخص نماز پڑھ چکا ہو کیا وہ وہی نماز دوسروں کو پڑھا سکتا ہے؟
حدیث نمبر: 600
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، يَقُولُ:" إِنَّ مُعَاذًا كَانَ يُصَلِّي مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ يَرْجِعُ فَيَؤُمُّ قَوْمَهُ".
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھتے، پھر لوٹ کر جاتے اور اپنی قوم کی امامت کرتے۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الصلاة (36 (465)، سنن النسائی/الإمامة 41 (836)، (تحفة الأشراف: 2533) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (700، 701) صحيح مسلم (465)
سنن ابی داود کی حدیث نمبر 600 کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 600
600۔ اردو حاشیہ:
➊ جب کوئی معقول سبب موجود ہو تو نماز کو دہرایا جا سکتا ہے، مگر دوسری نماز نفل ہو گی۔ جیسے کہ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کی پہلی نماز فرض اور دوسری نفل ہوتی تھی اور ایک بار حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی ایک پیچھے رہ جانے والے کے ساتھ مل کر نماز پڑھی تھی۔ دیکھیے: [سنن ابي داؤد۔ حديث 574]
➋ امام نفل پڑھ رہا ہو تو مقتدی فرض کی نیت کر سکتا ہے، یہ صورت بالعموم رمضان میں نماز تراویح میں پیش آ سکتی ہے اور جائز ہے کہ دیر سے آنے والا امام کے پیچھے فرض کی نیت کر لے، امام دو رکعت پر سلام پھیر دے۔ تو وہ کھڑے ہو کر اپنی بقیہ نماز پوری کر لے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 600
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1283
1283- سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدأ میں نماز ادا کرتے تھے، پھر وہ (اپنے محلے) واپس تشریف لے جاتے تھے اور اپنی قوم کو یہ نماز پڑھایا کرتے تھے۔ راوی بیان کرتے ہیں: ایک رات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء کی نماز تاخیر سے ادا کی، تو سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں عشاء کی نماز ادا کی پھر وہ واپس چلے گئے اور انہوں نے اپنی قوم کو نماز پڑھانا شروع کی، تو سورۃ بقرہ کی تلاوت شروع کردی ان کے پیچھے نمازادا کرنے والوں میں سے ایک صاحب پیچھے ہٹے انہوں نے تنہا نماز ادا کی اور چ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1283]
فائدہ:
اس بحث سے ثابت ہوا کہ امام کو لوگوں کے احوال دیکھ کر نماز پڑھانی چاہیے، اس قدر لمبی نماز میں نہ پڑھائی جائیں کہ لوگ فتنے میں مبتلا ہو جائیں۔
سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے متعلق جس صحابی نے شکایت لگائی تھی اس کی مختلف وجوہات میں سے ایک بڑی اہم وجہ الاوسط الابن المنذر (2002) میں ہے کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز عشاء دیر سے پڑھائی، جس کی وجہ سے سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کافی تاخیر سے اپنی قوم کے پاس پہنچے، پھر جب نماز پڑھانے لگے تو سورۃ البقرہ کی تلاوت شروع کر دی، یعنی ایک تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں خاصی تاخیر کر دی، جس کی وجہ سے سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کی قوم کافی دیر تک ان کا انتظار کرتی رہی، چاہیے تو یہ تھا کہ سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ لوگوں کومختصر سی نماز پڑھا کر فارغ کر دیتے لیکن چونکہ انھیں قرآن کریم سے بہت زیادہ محبت تھی، اس لیے انہوں نے نیک نیتی سے سورۃ البقرہ پڑھنی شروع کر دی لیکن قوم میں سے ایک بندے نے نماز توڑ کر الگ پڑھ لی، اور پھر صبح شکایت کر دی۔
نیز اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ مستقل امام کے پیچھے مفترض کی نماز ہو جاتی ہے۔ رعایا امام یا استاد کی شکایت حاکم وقت سے کر سکتی ہے، حاکم وقت فیصلہ کرنے میں دیر نہ کرے، بلکہ جلدی سے جلدی فیصلہ کر دے، تا کہ مزید نقصان نہ ہو۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1283
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:711
711. حضرت جابر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ حضرت معاذ ؓ نبی ﷺ کے ہمراہ نماز پڑھتے پھر اپنی قوم کے پاس جاتے اور انہیں نماز پڑھاتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:711]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ فرض ادا کرنے والے حضرات نفل پڑھنے والے کے پیچھے اپنی نماز ادا کرسکتے ہیں، کیونکہ حضرت معاذ ؓ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز عشاء بطور اسقاط فرض پڑھتے تھے، جیسا کہ بعض روایات میں یہ صراحت ہے کہ حضرت معاذ ؓ جب اپنی قوم کو نماز عشاء پڑھاتے تو ان کی نفل نماز ہوتی اور قوم کی فرض ہوتی تھی۔
اس کے علاوہ مندرجہ ذیل دلائل بھی اس موقف کے مؤید ہیں:
٭نماز خوف میں رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے کہ آپ نے دونوں گروہوں میں سے ہر ایک کو دو، دو رکعات پڑھائیں۔
اس طرح آپ کی پہلی نماز فرض اور دوسری نفل تھی جبکہ مقتدی دونوں مرتبہ ہی فرض ادا کررہے تھے، جیسا کہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے چار رکعات اور دیگر لوگوں نے دو، دو رکعات پڑھیں۔
(صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4136)
٭حضرت عائشہ ؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب مسجد سے واپس لوٹتے تو ہمیں نماز پڑھاتے تھے۔
(تلخیص الحبیر: 38/2)
اسی طرح اگر امام فرض پڑھا رہا ہوتو مقتدی اس کے پیچھے نفل ادا کرسکتے ہیں۔
جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے ان دو آدمیوں سے فرمایا جو گھر میں نماز پڑھ آئے تھے کہ اگر تم اپنے گھروں میں نماز پڑھ چکے ہو تو امام کے ساتھ نماز پڑھ لو، یہ تمھارے لیے نفل ہوجائے گی۔
(مسند أحمد: 160/4)
حضرت ابو سعید خدری ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک آدمی کو اکیلے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تو فرمایا:
”آیا کوئی ایسا آدمی ہے جو اس پر صدقہ کرتے ہوئے اس کے ساتھ نماز پڑھ لے؟“ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: 574)
ظاہر ہے کہ اکیلا نماز پڑھنے والا فرض ادا کررہا تھا اور اس کے پیچھے جس نے بطور صدقہ نماز پڑھنی ہے وہ نفل شمار ہو گی۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 711