سنن ابي داود
كِتَاب الصَّلَاةِ
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
62. باب إِمَامَةِ النِّسَاءِ
باب: عورتوں کی امامت کا بیان۔
حدیث نمبر: 592
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ حَمَّادٍ الْحَضْرَمِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ الْوَلِيدِ بْنِ جُمَيْعٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ خَلَّادٍ،عَنْ أُمِّ وَرَقَةَ بِنْتِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ، بِهَذَا الْحَدِيثِ، وَالْأَوَّلُ أَتَمُّ، قَالَ: وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَزُورُهَا فِي بَيْتِهَا، وَجَعَلَ لَهَا مُؤَذِّنًا يُؤَذِّنُ لَهَا وَأَمَرَهَا أَنْ تَؤُمَّ أَهْلَ دَارِهَا، قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ: فَأَنَا رَأَيْتُ مُؤَذِّنَهَا شَيْخًا كَبِيرًا.
اس سند سے بھی ام ورقہ بنت عبداللہ بن حارث رضی اللہ عنہا سے یہی حدیث مروی ہے، لیکن پہلی حدیث زیادہ کامل ہے، اس میں یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ام ورقہ سے ملنے ان کے گھر تشریف لے جاتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے ایک مؤذن مقرر کر دیا تھا، جو اذان دیتا تھا اور انہیں حکم دیا تھا کہ اپنے گھر والوں کی امامت کریں۔ عبدالرحمٰن کہتے ہیں: میں نے ان کے مؤذن کو دیکھا، وہ بہت بوڑھے تھے۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبله، (تحفة الأشراف: 18364) (حسن)» (ملاحظہ ہو حدیث سابق)
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: حسن
انظر الحديث السابق (591)
سنن ابی داود کی حدیث نمبر 592 کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 592
592۔ اردو حاشیہ:
➊ یہ حدیث دلیل ہے کہ اگر عورت اہلیت رکھتی ہو تو وہ عورتوں کی امامت کرا سکتی ہے۔ حضرت ام ورقہ رضی اللہ عنہا کے علاوہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے بھی فرض اور تراویح میں عورتوں کی امامت کرائی ہے۔ [التلخيص الجبير]
بعض لوگ اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ عورت مردوں کی امت کرا سکتی ہے، کیونکہ وہ بوڑھا موذن بھی ان کے پیچھے نماز پڑھتا ہو گا۔ لیکن یہ محض ایک احتمال ہی ہے۔ حدیث میں موذن کے نماز پڑھنے کا قطعاً ذکر نہیں ہے۔ اس لئے غالب احتمال یہی ہے کہ وہ موذن اذان دے کر نماز مسجد نبوی ہی میں پڑھتا ہو گا۔ اسلام کے مزا ج اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کا عمومی طرز عمل اسی بات کا موئد ہے نہ کہ احتمال کا دوسرا استدلال لفظ «دار» سے کرتے ہیں کہ اس میں «بيت» سے زیادہ وسعت ہے اور یہ محلے کے مفہوم میں ہے۔ یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو محلہ کی امامت کا حکم دیا تھا، جن میں عورتوں کے ساتھ مرد بھی ہوتے ہوں گے۔ لیکن یہ استدلال بھی احتمالات پر مبنی ہے، یہ ٹھیک ہے کہ «دار» کا لفظ حویلی کے لئے خاندان اور قبیلے کے لئے اور گھر کے لئے سب ہی معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ لیکن یہاں یہ گھر کے ہی معنی میں استعمال ہوا ہے۔ کیونکہ سنن دارقطنی کے الفاظ ہیں۔ «وتؤم نساءها» وہ اپنے گھر کی عورتوں کی امامت کرے۔ سنن دارقطنی۔ باب فى ذکر الجماعۃ۔۔۔ حدیث [1069] کے ان الفاظ سے «أن تؤم أهل دارها» کا مفہوم متعین ہو جاتا ہے کہ اس سے مراد نہ محلے اور حویلی کے لوگ ہیں اور نہ اس میں مردوں کی شمولیت کا کوئی احتمال ہے، بلکہ اس سے مراد صرف اپنے گھر کی عورتیں ہیں اور عورت کا عورتوں کی امامت کرانا بالکل جائز ہے۔ اور ام ورقہ رضی اللہ عنہا کی حدیث سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے، اس سے زیادہ کچھ نہیں۔
➋ جہاد اور دیگر اہم ضرورت کے مواقع پر عورتیں مردوں کا علاج معالجہ کر سکتی ہیں، مگر اسلامی ستر و حجاب کی پابندی ضروری ہے۔
➌ حکومت اسلامیہ اپنی رعیت کے جان و مال اور عزت کی محافظ ہوا کرتی ہے، چنانچہ مجرمیں کو پکڑنا اور قانون کے مطابق فوری سزا دینا ضروری ہے، اس سے معاشرے میں امن اور اللہ کی رحمت اترتی ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 592