سنن ابي داود
كِتَاب الصَّلَاةِ
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
64. باب إِمَامَةِ الْبَرِّ وَالْفَاجِرِ
باب: نیک اور فاجر کی امامت کا بیان۔
حدیث نمبر: 594
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنِي مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ الْعَلَاءِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ مَكْحُولٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الصَّلَاةُ الْمَكْتُوبَةُ وَاجِبَةٌ خَلْفَ كُلِّ مُسْلِمٍ بَرًّا كَانَ أَوْ فَاجِرًا وَإِنْ عَمِلَ الْكَبَائِرَ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”فرض نماز ہر مسلمان کے پیچھے واجب ہے چاہے وہ نیک ہو یا بد اگرچہ وہ کبائر کا مرتکب ہو“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 14619) (ضعیف)» (علاء بن حارث مختلط ہو گئے تھے اور مکحول کی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ملاقات ثابت نہیں)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
مكحول لم يسمع من أبي هريرة رضي اللّٰه عنه كما سيأتي(2533)
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 34
سنن ابی داود کی حدیث نمبر 594 کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 594
594۔ اردو حاشیہ:
یہ روایت سنداً ضعیف ہے، البتہ اگر کبھی اتفاقاً ان لوگوں کے پیچھے نماز پڑھنی پڑ جائے تو نماز ہو جائے گی بشرطیکہ موحد مسلمان ہو۔ قاعدہ یہ ہے کہ جس کی اپنی نماز صحیح ہے اس کی امامت بھی صحیح ہے۔ تاریخ بخاری میں ہے عبد الکریم کہتے ہیں کہ میں نے دس اصحاب محمد رضوان اللہ عنہم اجمعین کو پایا جو ظالم حکام کے پیچھے نمازیں پڑھتے تھے۔ کتاب الصلاۃ کے ہی گزشتہ باب 10 «إذا أخر الإمام الصلاة عن الوقت» میں بیان ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تیرا کیا حال ہو گا جب تم پر ایسے حکام ہوں گے، جو نماز کو بےوقت کر کے پڑھیں گے۔“یا فرمایا: ”نمازوں کو ان کے اوقات سے مار دیں گے۔“ کہا: تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیا فرماتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نماز اپنے وقت پر پڑھنا اگر ان کے ساتھ پاؤ تو ان کے ساتھ بھی پڑھ لینا یہ تمہارے لئے نفل ہو گی۔“ اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان ظالموں کے پیچھے نماز کی اجازت دی ہے اور بتایا کہ یہ نفل ہو گی۔ [صحيح مسلم۔ حديث 648۔ سنن أبى داود۔ حديث: 431]
رہا کسی انسان کا بدعقیدہ ہونا، اگر کوئی امام ایسا ہو جو اعلانیہ شرک اکبر کا مرتکب ہوتا ہو۔ یعنی غیر اللہ کی ندا اور غیر اللہ سے استغاثہ وغیرہ کو مباح جانتا ہو، تو اس کے پیچھے نماز کے کوئی معنی نہیں ہیں۔ اگر کہیں کوئی اضطراری صورت پیش آ جائے، تو اعادہ ضروری ہو گا۔ لیکن اگر کوئی پوشیدہ طور پر ایسے عقائد رکھتا ہو، تو ہم اس کی کرید کے مکلف نہیں ہیں۔ ان کے پیچھے نماز درست ہے۔ فقہی اختلافات و ترجیحات قابل برداشت ہیں، اگر کوئی عدم اعتدال کا مرتکب ہو اور جلدی جلدی نماز پڑھاتا ہو کہ ارکان کی ادائیگی مشکل ہوتی ہو، تو اس سے بھی پرہیز کرنا چاہیے۔ اس کی مثال ظالم حکام کی سی ہے اور اس کا حل ذکر ہو چکا ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 594