مسجد عریان ۱؎ کے مؤذن ابو جعفر کہتے ہیں کہ میں نے بڑی مسجد کے مؤذن ابو مثنیٰ کو کہتے سنا کہ میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے سنا ہے، پھر انہوں نے اوپر والی حدیث پوری بیان کی۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبله، (تحفة الأشراف: 7455) (حسن)»
This tradition has been narrated by Abu Jafar, the Muadhdhin of ‘Uryan mosque (at Kufah), from Abu al-Muthanna, the Muadhdhin of masjid al-akbar (at kufah) on the authority of Ibn Umar. The rest of the tradition was transmitted in a like manner.
USC-MSA web (English) Reference: Book 2 , Number 511
(مرفوع) حدثنا عثمان بن ابي شيبة، حدثنا حماد بن خالد، حدثنا محمد بن عمرو، عن محمد بن عبد الله، عن عمه عبد الله بن زيد، قال:"اراد النبي صلى الله عليه وسلم في الاذان اشياء لم يصنع منها شيئا، قال: فاري عبد الله بن زيد الاذان في المنام، فاتى النبي صلى الله عليه وسلم فاخبره، فقال: القه على بلال، فالقاه عليه، فاذن بلال، فقال عبد الله: انا رايته وانا كنت اريده، قال: فاقم انت". (مرفوع) حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ عَمِّهِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدٍ، قَالَ:"أَرَادَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْأَذَانِ أَشْيَاءَ لَمْ يَصْنَعْ مِنْهَا شَيْئًا، قَالَ: فَأُرِيَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ زَيْدٍ الْأَذَانَ فِي الْمَنَامِ، فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَهُ، فَقَالَ: أَلْقِهِ عَلَى بِلَالٍ، فَأَلْقَاهُ عَلَيْهِ، فَأَذَّنَ بِلَالٌ، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ: أَنَا رَأَيْتُهُ وَأَنَا كُنْتُ أُرِيدُهُ، قَالَ: فَأَقِمْ أَنْتَ".
عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اذان کے سلسلہ میں کئی کام کرنے کا (جیسے ناقوس بجانے یا سنکھ میں پھونک مارنے کا) ارادہ کیا لیکن ان میں سے کوئی کام کیا نہیں۔ محمد بن عبداللہ کہتے ہیں: پھر عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ کو خواب میں اذان دکھائی گئی تو وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ کو اس کی خبر دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے بلال کو سکھا دو“، چنانچہ عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ نے اسے بلال رضی اللہ عنہ کو سکھا دیا، اور بلال رضی اللہ عنہ نے اذان دی، اس پر عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ نے کہا: اسے میں نے دیکھا تھا اور میں ہی اذان دینا چاہتا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو تم تکبیر کہہ لو“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 5310)، مسند احمد (4/42) (ضعیف)» (ا س کے راوی محمد بن عمرو انصاری لین الحدیث ہیں)
Narrated Abdullah ibn Zayd: The Prophet ﷺ intended to do many things for calling (the people) to prayer, but he did not do any of them. Then Abdullah ibn Zayd was taught in a dream how to pronounce the call to prayer. He came to the Prophet ﷺ and informed him. He said: Teach it to Bilal. He then taught him, and Bilal made a call to prayer. Abdullah said: I saw it in a dream and I wished to pronounce it, but he (the Prophet) said: You should pronounce iqamah.
USC-MSA web (English) Reference: Book 2 , Number 512
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف محمد بن عمرو ھو أبو سھل كما في مسند الإمام أحمد (42/4) وھو ضعيف وللحديث شاھد ضعيف عند البيهقي (399/1) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 32
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن مسلمة، حدثنا عبد الله بن عمر بن غانم، عن عبد الرحمن بن زياد يعني الافريقي، انه سمع زياد بن نعيم الحضرمي، انه سمع زياد بن الحارث الصدائي، قال:" لما كان اول اذان الصبح، امرني يعني النبي صلى الله عليه وسلم، فاذنت، فجعلت اقول: اقيم يا رسول الله، فجعل ينظر إلى ناحية المشرق إلى الفجر، فيقول: لا حتى إذا طلع الفجر، نزل فبرز ثم انصرف إلي وقد تلاحق اصحابه يعني فتوضا، فاراد بلال ان يقيم، فقال له نبي الله صلى الله عليه وسلم: إن اخا صداء هو اذن، ومن اذن فهو يقيم، قال: فاقمت". (مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ بْنِ غَانِمٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زِيَادٍ يَعْنِي الْأَفْرِيقِيَّ، أَنَّهُ سَمِعَ زِيَادَ بْنَ نُعَيْمٍ الْحَضْرَمِيَّ، أَنَّهُ سَمِعَ زِيَادَ بْنَ الْحَارِثِ الصُّدَائِيَّ، قَالَ:" لَمَّا كَانَ أَوَّلُ أَذَانِ الصُّبْحِ، أَمَرَنِي يَعْنِي النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَذَّنْتُ، فَجَعَلْتُ أَقُولُ: أُقِيمُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَجَعَلَ يَنْظُرُ إِلَى نَاحِيَةِ الْمَشْرِقِ إِلَى الْفَجْرِ، فَيَقُولُ: لَا حَتَّى إِذَا طَلَعَ الْفَجْرُ، نَزَلَ فَبَرَزَ ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَيَّ وَقَدْ تَلَاحَقَ أَصْحَابُهُ يَعْنِي فَتَوَضَّأَ، فَأَرَادَ بِلَالٌ أَنْ يُقِيمَ، فَقَالَ لَهُ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ أَخَا صُدَاءٍ هُوَ أَذَّنَ، وَمَنْ أَذَّنَ فَهُوَ يُقِيمُ، قَالَ: فَأَقَمْتُ".
زیاد بن حارث صدائی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب صبح کی پہلی اذان کا وقت ہوا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے (اذان دینے کا) حکم دیا تو میں نے اذان کہی، پھر میں کہنے لگا: اللہ کے رسول! اقامت کہوں؟ تو آپ مشرق کی طرف فجر کی روشنی دیکھنے لگے اور فرما رہے تھے: ”ابھی نہیں (جب تک طلوع فجر نہ ہو جائے)“، یہاں تک کہ جب فجر طلوع ہو گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اترے اور وضو کیا، پھر میری طرف واپس پلٹے اور صحابہ کرام اکھٹا ہو گئے، تو بلال رضی اللہ عنہ نے تکبیر کہنی چاہی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”صدائی نے اذان دی ہے اور جس نے اذان دی ہے وہی تکبیر کہے“۔ زیاد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: تو میں نے تکبیر کہی۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الصلاة 32 (199)، سنن ابن ماجہ/الأذان 3 (717)، (تحفة الأشراف: 3653)، مسند احمد (4/169) (ضعیف)» (اس کے راوی عبدالرحمن افریقی ضعیف ہیں)
Narrated Ziyad ibn al-Harith as-Sudai: When the adhan for the dawn prayer was initially introduced, the Prophet ﷺ commanded me to call the adhan and I did so. Then I began to ask: Should I utter iqamah, Messenger of Allah? But he began to look at the direction of the east, (waiting) for the break of dawn, and said: No. When the dawn broke, he came down and performed ablution and he then turned to me. In the meantime his Companions joined him. Then Bilal wanted to utter the iqamah, but the Prophet ﷺ said to him: The man of Suda' has called the adhan, and he who calls the adhan utters the iqamah.
USC-MSA web (English) Reference: Book 2 , Number 514
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ترمذي (199) ابن ماجه (717) الإ فريقي ضعيف انوار الصحيفه، صفحه نمبر 32
(مرفوع) حدثنا حفص بن عمر النمري، حدثنا شعبة، عن موسى بن ابي عثمان، عن ابي يحيى، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" المؤذن يغفر له مدى صوته ويشهد له كل رطب ويابس، وشاهد الصلاة يكتب له خمس وعشرون صلاة ويكفر عنه ما بينهما". (مرفوع) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ النَّمَرِيُّ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ مُوسَى بْنِ أَبِي عُثْمَانَ، عَنْ أَبِي يَحْيَى، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" الْمُؤَذِّنُ يُغْفَرُ لَهُ مَدَى صَوْتِهِ وَيَشْهَدُ لَهُ كُلُّ رَطْبٍ وَيَابِسٍ، وَشَاهِدُ الصَّلَاةِ يُكْتَبُ لَهُ خَمْسٌ وَعِشْرُونَ صَلَاةً وَيُكَفَّرُ عَنْهُ مَا بَيْنَهُمَا".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مؤذن کی بخشش کر دی جاتی ہے، جہاں تک اس کی آواز جاتی ہے ۱؎، اور اس کے لیے تمام خشک و تر گواہی دیتے ہیں، اور جو شخص نماز میں حاضر ہوتا ہے اس کے لیے پچیس نماز کا ثواب لکھا جاتا ہے اور ایک نماز سے دوسری نماز کے درمیان جو کوتاہی سرزد ہوئی ہو وہ مٹا دی جاتی ہے“۔
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/الأذان 14 (646)، سنن ابن ماجہ/الأذان 5 (724)، (تحفة الأشراف: 15466)، مسند احمد (2/429، 458) (صحیح)» (شواہد سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ مؤلف کی سند میں ابویحییٰ مجہول راوی ہیں، بعض لوگ کہتے ہیں: یہ ابویحییٰ اسلمی ہیں، اگر ایسا ہے تو یہ حسن کے مرتبہ کے راوی ہیں)
وضاحت: ۱؎: یعنی اس کے اتنے گناہ بخش دیے جاتے ہیں جو اتنی جگہ میں سما سکیں۔
Narrated Abu Hurairah: The Prophet ﷺ said: The muadhdhin will receive forgiveness to the extent to which his voice reaches, and every moist and dry place will testify on his behalf; and he who attends (the congregation of) prayer will have twenty-five prayers recorded for him and will have expiation for sins committed between every two times of prayer.
USC-MSA web (English) Reference: Book 2 , Number 515
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن مشكوة المصابيح (667)
(مرفوع) حدثنا القعنبي، عن مالك، عن ابي الزناد، عن الاعرج، عن ابي هريرة، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" إذا نودي بالصلاة ادبر الشيطان وله ضراط حتى لا يسمع التاذين، فإذا قضي النداء اقبل حتى إذا ثوب بالصلاة ادبر، حتى إذا قضي التثويب اقبل حتى يخطر بين المرء ونفسه، ويقول: اذكر كذا اذكر كذا لما لم يكن يذكر حتى يضل الرجل ان يدري كم صلى". (مرفوع) حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِذَا نُودِيَ بِالصَّلَاةِ أَدْبَرَ الشَّيْطَانُ وَلَهُ ضُرَاطٌ حَتَّى لَا يَسْمَعَ التَّأْذِينَ، فَإِذَا قُضِيَ النِّدَاءُ أَقْبَلَ حَتَّى إِذَا ثُوِّبَ بِالصَّلَاةِ أَدْبَرَ، حَتَّى إِذَا قُضِيَ التَّثْوِيبُ أَقْبَلَ حَتَّى يَخْطُرَ بَيْنَ الْمَرْءِ وَنَفْسِهِ، وَيَقُولُ: اذْكُرْ كَذَا اذْكُرْ كَذَا لِمَا لَمْ يَكُنْ يَذْكُرُ حَتَّى يَضِلَّ الرَّجُلُ أَنْ يَدْرِيَ كَمْ صَلَّى".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب نماز کے لیے اذان دی جاتی ہے تو شیطان گوز مارتا ہوا پیٹھ پھیر کر بھاگتا ہے یہاں تک کہ (وہ اتنی دور چلا جاتا ہے کہ) اذان نہیں سنتا، پھر جب اذان ختم ہو جاتی ہے تو واپس آ جاتا ہے، لیکن جوں ہی تکبیر شروع ہوتی ہے وہ پھر پیٹھ پھیر کر بھاگتا ہے، جب تکبیر ختم ہو جاتی ہے تو شیطان دوبارہ آ جاتا ہے اور نمازی کے دل میں وسوسے ڈالتا ہے، کہتا ہے: فلاں بات یاد کرو، فلاں بات یاد کرو، ایسی باتیں یاد دلاتا ہے جو اسے یاد نہیں تھیں یہاں تک کہ اس شخص کو یاد نہیں رہ جاتا کہ اس نے کتنی رکعتیں پڑھی ہیں؟“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأذان 4 (608)، سنن النسائی/الأذان 30 (671)، (تحفة الأشراف: 13818)، موطا امام مالک/السہو 1 (1)، مسند احمد (2/313، 460، 522)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الصلاة 8 (389)، سنن الترمذی/الصلاة 175 (399)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة 135 (1217)، ویأتي برقم (1030) (صحیح)»
Abu Hurairah reported the Messenger of Allah ﷺ as saying: when the call to prayer is made; the devil turns his back and breaks wind so as not to hear the call being made; but when the call is finished, he turns round. When the second call to prayer (iqamah) is made, he turns his back, and when the second call is finished, he turns round and suggest notions in the mind of the man (at prayer) to distract his attention, saying: remember such and such, referring to something the man did not have n mind, with the result that he does not know how much he has prayed.
USC-MSA web (English) Reference: Book 2 , Number 516
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (608) صحيح مسلم (389)
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”امام (مقتدیوں کی نماز کا) ضامن ۱؎ اور کفیل ہے اور مؤذن امین ہے ۲؎، اے اللہ! تو اماموں کو راہ راست پر رکھ ۳؎ اور مؤذنوں کو بخش دے ۴؎“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 12429)، مسند احمد (2/232، 382، 419، 524)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الصلاة 39 (207) (صحیح)» (مؤلف کی سند میں رجل مبہم راوی ہے، اگلی سند بھی ایسی ہی ہے، البتہ دیگر بہت سے مصادر میں یہ حدیث ثقہ راویوں سے مروی ہے، اعمش نے بھی خود براہ راست ابو صالح سے یہ حدیث سنی ہے (دیکھیے: ارواء الغلیل حدیث نمبر: 217)
وضاحت: ۱؎: امام کی ذمہ داری یہ ہے کہ صحیح سنت کے مطابق نماز پڑھائے۔ دعاؤں میں اپنے مقتدیوں کو شامل رکھے اور صرف اپنے آپ ہی کو مخصوص نہ کرے۔ مقتدیوں کی نماز کی صحت و درستگی امام کی نماز کی صحت و درستگی پر موقوف ہے؛ اس لئے امام طہارت وغیرہ میں احتیاط برتے اور نماز کے ارکان و واجبات کو اچھی طرح ادا کرے۔ ۲؎: یعنی لوگ مؤذن کی اذان پر اعتماد کر کے نماز پڑھ لیتے اور روزہ رکھ لیتے ہیں، اس لئے مؤذن کو وقت کا خیال رکھنا چاہئے، نہ پہلے اذان دے نہ دیر کرے۔ ۳؎: یعنی جو ذمہ داری اماموں نے اٹھا رکھی ہے اس کا شعور رکھنے اور اس سے عہدہ برآ ہونے کی انہیں توفیق دے۔ ۴؎: مؤذنوں کو بخش دے یعنی اس امانت کی ادائیگی میں مؤذنوں سے جو کوتاہی اور تقصیر ہوئی ہو اسے معاف کر دے۔
This tradition has also been transmitted through a different chain of narrators by Abu Hurairah who reported it in a similar manner from the Messenger of Allah ﷺ.
USC-MSA web (English) Reference: Book 2 , Number 518
قال الشيخ زبير على زئي: حسن مشكوة المصابيح (663) انظر الحديث السابق (517)
(موقوف) حدثنا احمد بن محمد بن ايوب، حدثنا إبراهيم بن سعد، عن محمد بن إسحاق، عن محمد بن جعفر بن الزبير، عن عروة بن الزبير،عن امراة من بني النجار، قالت:" كان بيتي من اطول بيت حول المسجد وكان بلال يؤذن عليه الفجر، فياتي بسحر فيجلس على البيت ينظر إلى الفجر، فإذا رآه تمطى، ثم قال: اللهم إني احمدك واستعينك على قريش ان يقيموا دينك، قالت: ثم يؤذن"، قالت: والله ما علمته كان تركها ليلة واحدة تعني هذه الكلمات. (موقوف) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَيُّوبَ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ،عَنْ امْرَأَةٍ مِنْ بَنِي النَّجَّارِ، قَالَتْ:" كَانَ بَيْتِي مِنْ أَطْوَلِ بَيْتٍ حَوْلَ الْمَسْجِدِ وَكَانَ بِلَالٌ يُؤَذِّنُ عَلَيْهِ الْفَجْرَ، فَيَأْتِي بِسَحَرٍ فَيَجْلِسُ عَلَى الْبَيْتِ يَنْظُرُ إِلَى الْفَجْرِ، فَإِذَا رَآهُ تَمَطَّى، ثُمَّ قَالَ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَحْمَدُكَ وَأَسْتَعِينُكَ عَلَى قُرَيْشٍ أَنْ يُقِيمُوا دِينَكَ، قَالَتْ: ثُمَّ يُؤَذِّنُ"، قَالَتْ: وَاللَّهِ مَا عَلِمْتُهُ كَانَ تَرَكَهَا لَيْلَةً وَاحِدَةً تَعْنِي هَذِهِ الْكَلِمَاتِ.
قبیلہ بنی نجار کی ایک عورت کہتی ہے مسجد کے اردگرد گھروں میں سب سے اونچا میرا گھر تھا، بلال رضی اللہ عنہ اسی پر فجر کی اذان دیا کرتے تھے، چنانچہ وہ صبح سے کچھ پہلے ہی آتے اور گھر پر بیٹھ جاتے اور صبح صادق کو دیکھتے رہتے، جب اسے دیکھ لیتے تو انگڑائی لیتے، پھر کہتے: ”اے اللہ! میں تیرا شکر ادا کرتا ہوں اور تجھ ہی سے قریش پر مدد چاہتا ہوں کہ وہ تیرے دین کو قائم کریں“، وہ کہتی ہے: پھر وہ اذان دیتے، قسم اللہ کی، میں نہیں جانتی کہ انہوں نے کسی ایک رات بھی ان کلمات کو ترک کیا ہو۔
تخریج الحدیث: «تفرد به أبو داود، (تحفة الأشراف: 18378) (حسن)»
Narrated A woman from Banu an-Najjar: Urwah ibn az-Zubayr reported on the authority of a woman from Banu an-Najjar. She said: My house was the loftiest of all the houses around the mosque (of the Prophet at Madina). Bilal used to make a call to the morning prayer from it. He would come there before the break of dawn and wait for it. When he saw it, he would yawn and say: O Allah, I praise you and seek Your assistance for the Quraysh so that they might establish Thine religion. He then would make the call to prayer. She (the narrator) said: By Allah, I do not know whether he ever left saying these words on any night.
USC-MSA web (English) Reference: Book 2 , Number 519
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: حسن محمد بن اسحاق بن يسار صرح بالسماع في السيرة لابن هشام (2/ 156، بتحقيقي) وقال الحافظ في الدراية (1/ 120): ’’إسناده حسن‘‘
(مرفوع) حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا قيس يعني ابن الربيع. ح وحدثنا محمد بن سليمان الانباري، حدثنا وكيع، عن سفيان، جميعا عن عون بن ابي جحيفة، عن ابيه، قال:" اتيت النبي صلى الله عليه وسلم بمكة وهو في قبة حمراء من ادم، فخرج بلال فاذن، فكنت اتتبع فمه هاهنا وهاهنا، قال: ثم خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم وعليه حلة حمراء برود يمانية قطري، وقال موسى: قال: رايت بلالا خرج إلى الابطح فاذن، فلما بلغ حي على الصلاة، حي على الفلاح، لوى عنقه يمينا وشمالا ولم يستدر، ثم دخل فاخرج العنزة"، وساق حديثه. (مرفوع) حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا قَيْسٌ يَعْنِي ابْنَ الرَّبِيعِ. ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سُلَيْمَانَ الْأَنْبَارِيُّ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، جَمِيعًا عَنْ عَوْنِ بْنِ أَبِي جُحَيْفَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ:" أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَكَّةَ وَهُوَ فِي قُبَّةٍ حَمْرَاءَ مِنْ أَدَمٍ، فَخَرَجَ بِلَالٌ فَأَذَّنَ، فَكُنْتُ أَتَتَبَّعُ فَمَهُ هَاهُنَا وَهَاهُنَا، قَالَ: ثُمَّ خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَلَيْهِ حُلَّةٌ حَمْرَاءُ بُرُودٌ يَمَانِيَةٌ قِطْرِيٌّ، وَقَالَ مُوسَى: قَالَ: رَأَيْتُ بِلَالًا خَرَجَ إِلَى الْأَبْطَحِ فَأَذَّنَ، فَلَمَّا بَلَغَ حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ، حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ، لَوَى عُنُقَهُ يَمِينًا وَشِمَالًا وَلَمْ يَسْتَدِرْ، ثُمَّ دَخَلَ فَأَخْرَجَ الْعَنَزَةَ"، وَسَاقَ حَدِيثَهُ.
ابوجحیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں مکہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ چمڑے کے ایک لال خیمہ میں تھے، بلال رضی اللہ عنہ باہر نکلے پھر اذان دی، میں انہیں اپنے منہ کو ادھر ادھر پھیرتے دیکھ رہا تھا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نکلے، آپ یمنی قطری چادروں ۱؎ سے بنے سرخ جوڑے پہنے ہوئے تھے، موسی بن اسماعیل اپنی روایت میں کہتے ہیں کہ ابوحجیفہ نے کہا: میں نے بلال رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ ابطح کی طرف نکلے پھر اذان دی، جب «حي على الصلاة» اور «حي على الفلاح» پر پہنچے تو اپنی گردن دائیں اور بائیں جانب موڑی اور خود نہیں گھومے ۲؎، پھر وہ اندر گئے اور نیزہ نکالا، پھر راوی نے پوری حدیث بیان کی۔
وضاحت: ۱؎: مکہ سے یمن جنوب میں ہے، اور قطر احساء اور بحرین کے درمیانی علاقہ کا ایک مقام ہے، مذکورہ چادر ان جنوبی علاقوں میں بن کر ”یمنی قطری چادروں“ کے نام سے مشہور تھی۔ ۲؎: اس سلسلہ میں روایتیں مختلف آئی ہیں بعض میں ہے «إنه كان يستدير» اور بعض میں ہے «لم يستدر» ان دونوں روایتوں میں تطبیق اس طرح دی جاتی ہے کہ جس نے گھومنے کا ذکر کیا ہے اس نے سر کا گھمانا مراد لیا ہے، اور جس نے نفی کی ہے اس نے جسم کے گھمانے کی نفی کی ہے۔ سرخ رنگ کے لباس کی عمومی طور پر نہی وارد ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو پہنا ہے تو شارحین اس کی بابت یہ فرماتے ہیں کہ اس میں سرخ دھاریاں تھیں۔ «واللہ اعلم»
Abu Juhaifah reported: I came to the prophet ﷺ at Makkah; he was sitting in a tent made of leather. Then Bilal came out and called to prayer. I looked at his mouth following him this side and that side (i. e., right and left). Later at his Messenger of Allah ﷺ came out clad in a red suit, i. e, wearing the sheets of the Yemen, of the Qatri design. The version narrated by Musa has the word; “I saw Bilal going towards al-Abtah”. He then made a call to prayer. When he reached the words “ come to prayer, come to salvation”. He turned his neck right and left, respectively; he did not turn himself (with his whole body). He then entered (his house) and came out with a lancet. The narrator then reported the rest of the tradition.
USC-MSA web (English) Reference: Book 2 , Number 520
قال الشيخ الألباني: صحيح، لكن من قوله: قال موسى: منكر