سنن ابي داود
كِتَاب الصَّلَاةِ
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
33. باب الأَذَانِ فَوْقَ الْمَنَارَةِ
باب: مینار پر اذان دینے کا بیان۔
حدیث نمبر: 519
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَيُّوبَ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ،عَنْ امْرَأَةٍ مِنْ بَنِي النَّجَّارِ، قَالَتْ:" كَانَ بَيْتِي مِنْ أَطْوَلِ بَيْتٍ حَوْلَ الْمَسْجِدِ وَكَانَ بِلَالٌ يُؤَذِّنُ عَلَيْهِ الْفَجْرَ، فَيَأْتِي بِسَحَرٍ فَيَجْلِسُ عَلَى الْبَيْتِ يَنْظُرُ إِلَى الْفَجْرِ، فَإِذَا رَآهُ تَمَطَّى، ثُمَّ قَالَ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَحْمَدُكَ وَأَسْتَعِينُكَ عَلَى قُرَيْشٍ أَنْ يُقِيمُوا دِينَكَ، قَالَتْ: ثُمَّ يُؤَذِّنُ"، قَالَتْ: وَاللَّهِ مَا عَلِمْتُهُ كَانَ تَرَكَهَا لَيْلَةً وَاحِدَةً تَعْنِي هَذِهِ الْكَلِمَاتِ.
قبیلہ بنی نجار کی ایک عورت کہتی ہے مسجد کے اردگرد گھروں میں سب سے اونچا میرا گھر تھا، بلال رضی اللہ عنہ اسی پر فجر کی اذان دیا کرتے تھے، چنانچہ وہ صبح سے کچھ پہلے ہی آتے اور گھر پر بیٹھ جاتے اور صبح صادق کو دیکھتے رہتے، جب اسے دیکھ لیتے تو انگڑائی لیتے، پھر کہتے: ”اے اللہ! میں تیرا شکر ادا کرتا ہوں اور تجھ ہی سے قریش پر مدد چاہتا ہوں کہ وہ تیرے دین کو قائم کریں“، وہ کہتی ہے: پھر وہ اذان دیتے، قسم اللہ کی، میں نہیں جانتی کہ انہوں نے کسی ایک رات بھی ان کلمات کو ترک کیا ہو۔
تخریج الحدیث: «تفرد به أبو داود، (تحفة الأشراف: 18378) (حسن)»
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: حسن
محمد بن اسحاق بن يسار صرح بالسماع في السيرة لابن هشام (2/ 156، بتحقيقي) وقال الحافظ في الدراية (1/ 120): ’’إسناده حسن‘‘
سنن ابی داود کی حدیث نمبر 519 کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 519
519۔ اردو حاشیہ:
➊ اونچی آواز اور اونچی جگہ سے اذان کہنا مستحب ہے مگر آج کل کے لاؤڈ سپیکروں نے یہ کمی پوری کر دی ہے۔
➋ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے اذان سے پہلے دعایئہ کلمات کسی طرح بھی اذان کا حصہ نہ تھے۔ بلکہ یہ عام طرح کی دعا ہوتی تھی۔ جس میں وہ کافی دیر سے مشغول ہوتے اور صبح صادق کا انتظار کر رہے ہوتے تھے۔ قریش کی ہدایت کے لئے دعا کرنے کی وجہ یہ تھی کہ اس قبیلے کو عربوں میں بڑی اہمیت حاصل تھی۔ اس مخالفت کی وجہ سے عام عرب بھی اسلام قبول کرنے سے گریز کر رہے تھے۔ جب اللہ نے اس قبیلے کو اسلام قبول کرنے کی توفیق سے نوازا تو پھر فوج در فوج لوگ اسلام میں داخل ہونے لگے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 519