صحيح ابن خزيمه کل احادیث 3080 :حدیث نمبر
صحيح ابن خزيمه
حج کے احکام و مسائل
1842. (101) بَابُ ذِكْرِ الْبَيَانِ أَنَّ رَفْعَ الصَّوْتِ بِالْإِهْلَالِ مِنْ أَفْضَلِ الْأَعْمَالِ
1842. اس بات کی بیان کہ بلند آواز سے تلبیہ پکارنا افضل اعمال میں سے ایک افضل عمل ہے
حدیث نمبر: 2631
Save to word اعراب
حدثنا محمد بن رافع ، حدثنا محمد بن إسماعيل بن ابي فديك ، اخبرنا الضحاك بن عثمان ، عن ابن المنكدر ، عن عبد الرحمن بن يربوع ، عن ابي بكر الصديق ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم سئل: اي الاعمال افضل؟ قال:" العج والثج" ، قال ابو بكر: العج: رفع الصوت بالتلبية، والثج: نحر البدن، والدم من المنحرحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي فُدَيْكٍ ، أَخْبَرَنَا الضَّحَّاكُ بْنُ عُثْمَانَ ، عَنِ ابْنِ الْمُنْكَدِرِ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَرْبُوعٍ ، عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُئِلَ: أَيُّ الأَعْمَالِ أَفْضَلُ؟ قَالَ:" الْعَجُّ وَالثَّجُّ" ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: الْعَجُّ: رَفْعُ الصَّوْتِ بِالتَّلْبِيَةِ، وَالثَّجُّ: نَحْرُ الْبُدْنِ، وَالدَّمُ مِنَ الْمَنْحَرِ
سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کون ساعمل افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بلند آواز سے تلبیہ پکارنا اور قربانی کرنا امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ العج سے مراد بلند آواز سے تلبیہ پکارنا ہے اور الثج سے مراد اونٹ ذبح کرنا ہے، اور اس کا خون بہانا ہے۔

تخریج الحدیث: صحيح
1843. (102) بَابُ اسْتِحْبَابِ وَضَعِ الْإِصْبَعَيْنِ فِي الْأُذُنَيْنِ عِنْدَ رَفَعِ الصَّوْتِ وَالتَّلْبِيَةِ، إِذْ وَضْعُ الْإِصْبَعَيْنِ فِي الْأُذُنَيْنِ عِنْدَ رَفَعِ الصَّوْتِ يَكُونُ أَرْفَعَ صَوْتًا، وَأَمَدَّهُ
1843. آواز بلند کرنے اور تلبیہ پکارتے وقت انگلیاں کانوں میں ڈالنا مستحب ہے کیونکہ کانوں میں انگلیاں ڈالنے سے آواز بلند اور لمبی ہوجاتی ہے
حدیث نمبر: 2632
Save to word اعراب
حدثنا علي بن سعيد بن مسروق الكندي ، حدثنا يحيى بن ابي زائدة ، عن داود بن ابي هند ، عن ابي العالية ، قال: حدثنا ابن عباس ، قال: انطلقنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم من مكة إلى المدينة فلما اتينا وادي الازرق، قال: " اي واد هذا؟" قلنا: وادي الازرق، قال:" كانما انظر إلى موسى"، فنعت من طوله، وشعره، ولونه واضعا اصبعيه في اذنيه له جواز إلى الله بالتلبية مارا بهذا الوادي، ثم نظرنا حتى اتينا، قال داود: اظنه ثنية موسى، فقال:" اي ثنية هذه؟" فقلنا: ثنية موسى، قال: كانما انظر إلى يونس على ناقة حمراء، خطام الناقة خلية، عليه جبة له من صوف بهذه الثنية ملبيا" حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ سَعِيدِ بْنِ مَسْرُوقٍ الْكِنْدِيُّ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي زَائِدَةَ ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدَ ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ عَبَّاسٍ ، قَالَ: انْطَلَقْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ مَكَّةَ إِلَى الْمَدِينَةِ فَلَمَّا أَتَيْنَا وَادِيَ الأَزْرَقِ، قَالَ: " أَيُّ وَادٍ هَذَا؟" قُلْنَا: وَادِي الأَزْرَقِ، قَالَ:" كَأَنَّمَا أَنْظُرُ إِلَى مُوسَى"، فَنَعَتَ مِنْ طُولِهِ، وَشَعْرِهِ، وَلَوْنِهِ وَاضِعًا أُصْبُعَيْهِ فِي أُذُنَيْهِ لَهُ جَوَازٌ إِلَى اللَّهِ بِالتَّلْبِيَةِ مَارًّا بِهَذَا الْوَادِي، ثُمَّ نَظَرْنَا حَتَّى أَتَيْنَا، قَالَ دَاوُدُ: أَظُنُّهُ ثَنِيَّةَ مُوسَى، فَقَالَ:" أَيُّ ثَنِيَّةٍ هَذِهِ؟" فَقُلْنَا: ثَنِيَّةُ مُوسَى، قَالَ: كَأَنَّمَا أَنْظُرُ إِلَى يُونُسَ عَلَى نَاقَةٍ حَمْرَاءَ، خِطَامُ النَّاقَةِ خَلِيَّةٌ، عَلَيْهِ جُبَّةٌ لَهُ مِنْ صُوفٍ بِهَذِهِ الثَّنِيَّةِ مُلَبِّيًا"
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکّہ مکرّمہ سے مدینہ منوّرہ کی طرف چلے۔ پھر جب ہم وادی ازرق میں پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ کون سی وادی ہے؟ ہم نے عرض کیا کہ یہ وادی ازرق ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: گویا کہ میں حضرت موسیٰ عليه السلام کو دیکھ رہا ہوں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت موسیٰ عليه السلام کے طویل قد و قامت، ان کے بالوں اور رنگ کی صفت بیان کی، حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی انگلیاں کانوں میں ڈال کر بلند آواز سے تلبیہ پکارتے ہوئے اس وادی سے گزر رہے ہیں۔ پھر ہم چلتے رہے حتّیٰ کہ ہم ثنیہ ہرشی کے پاس آگئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا: یہ کونسی گھاٹی ہے؟ ہم نے عرض کیا یہ ہرشی گھاٹی ہے۔ آپ نے فرمایا: گویا کہ میں حضرت یونس عليه السلام کو دیکھ رہا ہوں۔ وہ سرخ رنگ کی اونٹنی پر سوار ہیں جس کی لگام کھجور کی چھال کی رسی ہے۔ حضرت یونس عليه السلام نے اونی جبہ پہنا ہوا ہے اور وہ تلبیہ پکارتے ہوئے اس گھاٹی سے گزر رہے ہیں۔

تخریج الحدیث: صحيح مسلم
حدیث نمبر: 2633
Save to word اعراب
حدثنا ابو موسى ، حدثنا ابن ابي عدي ، عن داود ، عن ابي عالية ، عن ابن عباس ، قال: سرنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم بين مكة والمدينة، فمررنا بواد، فقال: " اي واد هذا؟" فقالوا: وادي الازرق، قال:" كاني انظر إلى موسى"، فذكر من لونه، وشعره شيئا لم يحفظه داود واضعا اصبعيه في اذنيه له جواز إلى الله بالتلبية مارا بهذا الوادي، قال: ثم سرنا حتى اتينا على ثنية، قال:" اي ثنية هذه؟" فقالوا: هو شيء او كذا، فقال:" كاني انظر إلى يونس على ناقة حمراء عليه جبة صوف، خطام ناقته خلية مارا بهذا الوادي ملبيا" حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ ، عَنْ دَاوُدَ ، عَنْ أَبِي عَالِيَةِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: سِرْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ مَكَّةَ وَالْمَدِينَةِ، فَمَرَرْنَا بِوَادٍ، فَقَالَ: " أَيُّ وَادٍ هَذَا؟" فَقَالُوا: وَادِي الأَزْرَقِ، قَالَ:" كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى مُوسَى"، فَذَكَرَ مِنْ لَوْنِهِ، وَشَعَرِهِ شَيْئًا لَمْ يَحْفَظْهُ دَاوُدُ وَاضِعًا أُصْبُعَيْهِ فِي أُذُنَيْهِ لَهُ جَوَازٌ إِلَى اللَّهِ بِالتَّلْبِيَةِ مَارًّا بِهَذَا الْوَادِي، قَالَ: ثُمَّ سِرْنَا حَتَّى أَتَيْنَا عَلَى ثَنِيَّةٍ، قَالَ:" أَيُّ ثَنِيَّةٍ هَذِهِ؟" فَقَالُوا: هُوَ شَيْءٌ أَوْ كَذَا، فَقَالَ:" كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى يُونُسَ عَلَى نَاقَةٍ حَمْرَاءَ عَلَيْهِ جُبَّةٌ صُوفٌ، خِطَامُ نَاقَتِهِ خَلِيَّةٌ مَارًّا بِهَذَا الْوَادِي مُلَبِّيًا"
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکّہ مکرّمہ اور مدینہ منوّرہ کے درمیان سفر کیا۔ ہم ایک وادی سے گزرے تو آپ نے فرمایا: یہ کونسی وادی ہے؟ ہم نے عرض کیا کہ یہ وادی ازرق ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: گویا کہ میں حضرت موسیٰ عليه السلام کو دیکھ رہا ہوں پھر آپ نے ان کے بالوں اور رنگت کے بارے میں کچھ بتایا، داؤد راوی کو وہ یاد نہیں ہے۔ حضرت موسیٰ عليه السلام اپنی اُنگلیاں اپنے کانوں میں ڈال کر بلند آواز سے تلبیہ پکارتے ہوئے اس وادی سے گزر رہے ہیں۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ پھر ہم چلتے رہے حتّیٰ کہ ہم ایک گھاٹی پر آ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا: یہ کونسی گھاٹی ہے؟ صحابہ کرام نے عرض کیا کہ هَرْشٰي يَالَفَتَ گھاٹی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: گویا کہ میں حضرت یونس عليه السلام کو دیکھ رہا ہوں وہ سرخ اونٹنی پر سوار ہیں۔ اور اونی جبہ پہنے ہوئے ہیں۔ ان کی روشنی کی مہار کھجور کی چھال کی رسّی ہے، وہ تلبیہ پڑھتے ہوئے اس وادی سے گزر رہے ہیں۔

تخریج الحدیث: انظر الحديث السابق
1844. (103) بَابُ ذِكْرِ تَلْبِيَةِ الْأَشْجَارِ وَالْأَحْجَارِ اللَّوَاتِي عَنْ يَمِينِ الْمُلَبِّي وَعَنْ شِمَالِهِ عِنْدَ تَلْبِيَةِ الْمُلَبِّي
1844. جب محرم تلبیہ پکارتا ہے تو اس کے دائیں بائیں موجود درخت اور پتھر بھی تلبیہ پکارتے ہیں
حدیث نمبر: 2634
Save to word اعراب
سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب کوئی تلبیہ کہنے والا تلبیہ کہتا ہے تو اس کے دائیں اور بائیں جانب زمین کے آخری کناروں تک موجود ہر درخت اور پتھر بھی تلبیہ کہتے ہیں۔

تخریج الحدیث: صحيح
1845. (104) بَابُ الزَّجْرِ عَنْ مَعُونَةِ الْمُحْرِمِ لِلْحَلَالِ عَلَى الِاصْطِيَادِ بِالْإِشَارَةِ وَمُنَاوَلَةِ السِّلَاحِ الَّذِي يَكُونُ عَوْنًا لِلْحَلَالِ عَلَى الِاصْطِيَادِ
1845. محرم شخص کے لئے جائز نہیں کہ وہ غیر محرم کو شکار کرنے کے لئے، شکار کی طرف اشارہ کرکے یا اسلحہ وغیرہ پکڑا کر شکار کرنے میں مدد و تعاون کرے
حدیث نمبر: 2635
Save to word اعراب
حدثنا محمد بن بشار ، حدثنا ابو عامر ، حدثنا شعبة . ح وحدثنا محمد بن عبد الله بن بزيع ، حدثنا ابن ابي عدي ، عن شعبة . ح حدثنا محمد بن الوليد ، حدثنا ابن ابي عدي ، عن شعبة ، عن عثمان بن عبد الله بن موهب ، قال: سمعت عبد الله بن ابي قتادة ، يحدث عن ابيه: انهم كانوا في سفر وفيهم من قد احرم، قال: فركب ابو قتادة فرسه، فاتى حمار وحش فاصابه فاكلوا من لحمه، ثم كانهم هابوا ذلك، فسالوا رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: " اشتركتم او اشرتم؟" قالوا: لا، قال النبي صلى الله عليه وسلم:" فكلوه" ، وفي خبر ابن ابي عدي، قال: اشرتم او اعنتم، وفي خبر ابن ابي عدي، عن شعبة، بمثله وقال:" اشرتم او صدتم او اعنتم"، قالوا: لا، قال:" فكلوه"حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ . ح وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بَزِيعٍ ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ ، عَنْ شُعْبَةَ . ح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْوَلِيدِ ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ ، عَنْ شُعْبَةَ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَوْهَبٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي قَتَادَةَ ، يُحَدِّثُ عَنْ أَبِيهِ: أَنَّهُمْ كَانُوا فِي سَفَرٍ وَفِيهِمْ مَنْ قَدْ أَحْرَمَ، قَالَ: فَرَكِبَ أَبُو قَتَادَةَ فَرَسَهُ، فَأَتَى حِمَارَ وَحْشٍ فَأَصَابَهُ فَأَكَلُوا مِنْ لَحْمِهِ، ثُمَّ كَأَنَّهُمْ هَابُوا ذَلِكَ، فَسَأَلُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " اشْتَرَكْتُمْ أَوْ أَشَرْتُمْ؟" قَالُوا: لا، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" فَكُلُوهُ" ، وَفِي خَبَرِ ابْنِ أَبِي عَدِيٍّ، قَالَ: أَشَرْتُمْ أَوْ أَعَنْتُمْ، وَفِي خَبَرِ ابْنِ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ شُعْبَةَ، بِمِثْلِهِ وَقَالَ:" أَشَرْتُمْ أَوْ صِدْتُمْ أَوْ أَعَنْتُمْ"، قَالُوا: لا، قَالَ:" فَكُلُوهُ"
حضرت عبد اللہ بن ابی قتادہ اپنے والد گرامی سیدنا ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ وہ ایک سفر میں تھے، ان کے کچھ ساتھی محرم تھے۔ سیدنا ابو قتادہ رضی اللہ عنہ نے شکار دیکھا تو اپنے گھوڑے پر سوار ہوکر جنگلی گدھے کا پیچھا کیا اور اسے شکار کرلیا پھر لوگوں نے اس کا گوشت کھایا۔ پھر وہ (حالت احرام میں شکار کا گوشت کھانے پر) گویا کہ ڈرنے لگے۔ تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا: کیا تم نے شکار کرنے میں شرکت کی ہے، یا تم نے اس شکار کی طرف اشارہ (کرکے سیدنا ابو قتادہ رضی اللہ عنہ کو متوجہ) کیا تھا۔؟ انہوں نے عرض کی کہ جی نہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حُکم دیا کہ تم اسے کھا لو جناب ابن عدی کی روایت میں ہے کہ کیا تم نے اشارہ یا مدد کی تھی؟ ابن ابی عدی کی امام شعبہ سے روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ کیا تم نے اشارہ کیا تھا یا شکار کیا تھا یا تم نے شکار کرنے میں مدد کی تھی؟ صحابہ کرام نے عرض کیا کہ جی نہیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اسے کھا لو۔

تخریج الحدیث: صحيح بخاري
1846. (105) بَابُ ذِكْرِ الدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ الْمُحْرِمَ إِذَا أَشَارَ لِلْحَلَالِ الصَّيْدَ فَاصْطَادَهُ الْحَلَالُ، لَمْ يُجَزْ أَكْلُهُ لِلْمُحْرِمِ
1846. اس بات کی دلیل کا بیان کہ جب محرم شخص غیر محرم کا شکار کے جانور کی طرف اشارہ کرکے متوجہ کرے اور غیر محرم اسے شکار کرلے تو محرم کے لئے اس شکار کو کھانا حلال نہیں
حدیث نمبر: 2636
Save to word اعراب
حدثنا يعقوب بن إبراهيم الدورقي ، حدثنا يزيد يعني ابن هارون ، اخبرنا شعبة ، عن عثمان بن عبد الله بن موهب ، عن عبد الله بن ابي قتادة ، عن ابيه : انه اصاب حمار وحش، وهو مع قوم، وهم محرمون، فذكروه للنبي صلى الله عليه وسلم، فقال: " اصدتم، او اعنتم، او اشرتم؟" قالوا: لا، قال:" فكلوه" حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدَّوْرَقِيُّ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ يَعْنِي ابْنَ هَارُونَ ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَوْهَبٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي قَتَادَةَ ، عَنْ أَبِيهِ : أَنَّهُ أَصَابَ حِمَارَ وَحْشٍ، وَهُوَ مَعَ قَوْمٍ، وَهُمْ مُحْرِمُونَ، فَذَكَرُوهُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " أَصِدْتُمْ، أَوْ أَعَنْتُمْ، أَوْ أَشَرْتُمْ؟" قَالُوا: لا، قَالَ:" فَكُلُوهُ"
سیدنا ابوقتاده رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اُنہوں نے ایک جنگلی گدھا شکار کیا جب کہ وہ ایسے لوگوں کے ہمراہ تھے جو حالت احرام میں تھے تو اُنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بارے میں اطلاع دی تو آپ نے فرمایا: کیا تم نے شکار کیا تھا، یا تم نے شکار کرنے میں مدد کی تھی یا تم نے اس کی طرف اشارہ کیا تھا؟ صحابہ نے عرض کیا کہ جی نہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو پھر اس کا گوشت کھا لو۔

تخریج الحدیث: انظر الحديث السابق
1847. (106) بَابُ كَرَاهِيَةِ قَبُولِ الْمُحْرِمِ الصَّيْدَ إِذَا أُهْدِيَ لَهُ فِي إِحْرَامِهِ،
1847. جب محرم کو حالت احرام میں شکار کا گوشت پیش کیا جائے تو اسکو یہ ہدیہ قبول کرنا ناپسندیدہ ہے۔
حدیث نمبر: Q2637
Save to word اعراب
والدليل على ان المحرم غير جائز له ملك الصيد في إحرامه.وَالدَّلِيلُ عَلَى أَنَّ الْمُحْرِمَ غَيْرُ جَائِزٍ لَهُ مِلْكُ الصَّيْدِ فِي إِحْرَامِهِ.
اور اس بات کی دلیل کا بیان کہ محرم کے لئےحالت احرام میں کسی شکار کا مالک بننا جائز نہیں ہے

تخریج الحدیث:
حدیث نمبر: 2637
Save to word اعراب
حدثنا محمد بن يحيى ، حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا معمر ، عن الزهري . ح وحدثنا محمد بن معمر القيسي ، حدثنا محمد بن بكر البرساني ، اخبرنا ابن جريج ، اخبرني ابن شهاب ، عن عبيد الله بن عبد الله بن عتبة ، عن عبد الله بن عباس ، عن الصعب بن جثامة ، قال: مر بي رسول الله صلى الله عليه وسلم، وانا بالابواء، قال ابن معمر: او بودان، فاهديت له حمارا وحشيا فرده إلي، فلما راى رسول الله صلى الله عليه وسلم الكراهية في وجهي، قال:" إنه ليس براد عليك، ولكنا حرم" ، وفي خبر ابن جريج، قلت لابن شهاب: الحمار عقير؟ قال: لا ادري، قال ابو بكر: في مسالة ابن جريج الزهري وإجابته إياه دلالة على ان من قال في خبر الصعب: اهديت له لحم حمار، او رجل حمار واهم فيه، إذ الزهري قد اعلم انه لا يدري الحمار كان عقيرا ام لا حين اهدي للنبي صلى الله عليه وسلم؟ وكيف يروى ان النبي صلى الله عليه وسلم اهدي له لحم حمار او رجل حمار، وهو لا يدري كان الحمار المهدى إلى النبي صلى الله عليه وسلم عقيرا ام لا؟ قد خرجت الفاظ هذا الخبر في كتاب الكبير، من قال في الخبر: اهديت له لحم حمار، او قال رجل حمار، او قال حماراحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ . ح وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَعْمَرٍ الْقَيْسِيُّ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ الْبُرْسَانِيُّ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي ابْنُ شِهَابٍ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ ، عَنِ الصَّعْبِ بْنِ جَثَّامَةَ ، قَالَ: مَرَّ بِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَنَا بِالأَبْوَاءِ، قَالَ ابْنُ مَعْمَرٍ: أَوْ بِوَدَّانَ، فَأَهْدَيْتُ لَهُ حِمَارًا وَحْشِيًّا فَرَدَّهُ إِلَيَّ، فَلَمَّا رَأَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْكَرَاهِيَةَ فِي وَجْهِي، قَالَ:" إِنَّهُ لَيْسَ بِرَادٍّ عَلَيْكَ، وَلَكِنَّا حُرُمٌ" ، وَفِي خَبَرِ ابْنِ جُرَيْجً، قُلْتُ لابْنِ شِهَابٍ: الْحِمَارُ عَقِيرٌ؟ قَالَ: لا أَدْرِي، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: فِي مَسْأَلَةِ ابْنِ جُرَيْجٍ الزُّهْرِيَّ وَإِجَابَتِهِ إِيَّاهُ دَلالَةٌ عَلَى أَنَّ مَنْ قَالَ فِي خَبَرِ الصَّعْبِ: أَهْدَيْتُ لَهُ لَحْمَ حِمَارٍ، أَوْ رِجْلَ حِمَارٍ وَاهِمٌ فِيهِ، إِذِ الزُّهْرِيُّ قَدْ أَعْلَمَ أَنَّهُ لا يَدْرِي الْحِمَارَ كَانَ عَقِيرًا أَمْ لا حِينَ أُهْدِيَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ وَكَيْفَ يُرْوَى أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُهْدِيَ لَهُ لَحْمُ حِمَارٍ أَوْ رِجْلُ حِمَارٍ، وَهُوَ لا يَدْرِي كَانَ الْحِمَارُ الْمُهْدَى إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَقِيرًا أَمْ لا؟ قَدْ خَرَّجْتُ أَلْفَاظَ هَذَا الْخَبَرِ فِي كِتَابِ الْكَبِيرِ، مَنْ قَالَ فِي الْخَبَرِ: أَهْدَيْتُ لَهُ لَحْمَ حِمَارٍ، أَوْ قَالَ رِجْلَ حِمَارٍ، أَوْ قَالَ حِمَارًا
سیدنا مصعب بن جثامه رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس سے گزرے جب کہ میں ودان یا ابواء مقام پر تھا۔ میں نے آپ کو ایک جنگلی گدھے کا شکار پیش کیا تو آپ نے وہ قبول نہ کیا پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے چہرے پر رنج و افسوس کے آثار دیکھے تو (تسلی دینے کے لئے) فرمایا: ہم نے تمہارا ہدیہ کسی غصّے کی وجہ سے واپس نہیں کیا بلکہ وجہ صرف یہ ہے کہ ہم حالت احرام میں ہیں اور یہ شکار ہمارے لئے جائز نہیں جناب جریج کی روایت میں ہے کہ میں نے امام ابن شہاب زہری رحمه الله سے پوچھا، کیا گدھا ذبح کیا ہوا تھا؟ اُنہوں نے فرمایا کہ مجھے معلوم نہیں۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ امام ابن جریج کا یہ سوال اور امام زہری رحمه الله کا یہ جواب اس بات کی دلیل ہے کہ جن راویوں نے سیدنا مصعب رضی اللہ عنہ کی روایت کے یہ الفاظ روایت کیے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جنگلی گدھے کا گوشت پیش کیا۔ یا جنگلی گدھے کی ران پیش کی۔ تو یہ اُن راویوں کا وہم ہے۔ کیونکہ امام زہری رحمه الله نے بیان کردیا ہے کہ انہیں معلوم نہیں کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گدھا پیش کیا گیا تھا تو وہ ذبح تھا یا نہیں۔ لہٰذا یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ یہ روایت کریں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوجنگلی گدھے کا گوشت یا اُس کی ران پیش کی گئی تھی حالانکہ انہیں یہ بھی علم نہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش کیا گیا جنگلی گدھا ذبح کیا ہوا تھا یا نہیں؟ میں نے اس روایت کے مختلف طرق کتاب الکبیر میں بیان کر دیے ہیں۔ جن راویوں نے یہ الفاظ بیان کیے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جنگلی گدھے کا گوشت پیش کیا، یا جنہوں نے کہا کہ گدھے کی ران ہدیہ کی۔ یا جنہوں نے روایت کیا کہ جنگلی گدھا پیش کیا۔ ان سب روایات کو میں نے بیان کردیا ہے۔

تخریج الحدیث: صحيح بخاري
1848. (107) بَابُ ذِكْرِ خَبَرٍ رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي إِبَاحَةِ أَكْلِ لَحْمَ الصَّيْدِ لِلْمُحْرِمِ مُجْمَلٍ غَيْرِ مُفَسَّرٍ
1848. ایک مجمل غیر مفسر روایت کی بیان، جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے محرم کو شکار کا گوشت کھانے کی اجازت دی ہے
حدیث نمبر: Q2638
Save to word اعراب
قد يحسب بعض من لا يميز بين الخبر المجمل والمفسر، ان اكل لحم الصيد للمحرم إذا اصطاده الحلال، طلق حلال بكل حال قَدْ يَحْسَبُ بَعْضُ مَنْ لَا يُمَيِّزُ بَيْنَ الْخَبَرِ الْمُجْمَلِ وَالْمُفَسَّرِ، أَنَّ أَكَلَ لَحْمِ الصَّيْدِ لِلْمُحْرِمِ إِذَا اصْطَادَهُ الْحَلَالُ، طَلْقٌ حَلَالٌ بِكُلِّ حَالٍ

تخریج الحدیث:
حدیث نمبر: 2638
Save to word اعراب
حدثنا يعقوب بن إبراهيم الدورقي ، حدثنا يحيى . ح وقراته على بندار ، عن يحيى ، عن ابن جريج ، قال: اخبرنا محمد بن المنكدر ، عن معاذ بن عبد الرحمن التيمي ، عن ابيه ، قال: كنا مع طلحة ونحن حرم فاهدي له طير، وطلحة راقد، فمنا من اكل، ومنا من تورع، فلما استيقظ طلحة، وفق من اكل، وقال:" اكلناه مع رسول الله صلى الله عليه وسلم" ، هذا لفظ حديث الدورقي، وقال بندار: عن محمد بن المنكدر، قال ابو بكر: اخبار ابي قتادة وتصويب النبي صلى الله عليه وسلم فعل من اكل الصيد الذي اصطاده ابو قتادة، ومسالته إياهم هل معكم من لحمه شيء؟ واكله من ذلك اللحم من هذا الباب، وخبر عمير بن سلمة الضميري من هذا الباب ايضاحَدَثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدَّوْرَقِيُّ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى . ح وَقَرَأْتُهُ عَلَى بُنْدَارٍ ، عَنْ يَحْيَى ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُنْكَدِرِ ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ التَّيْمِيِّ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: كُنَّا مَعَ طَلْحَةَ وَنَحْنُ حُرُمٌ فَأُهْدِيَ لَهُ طَيْرٌ، وَطَلْحَةُ رَاقِدٌ، فَمِنَّا مَنْ أَكَلَ، وَمِنَّا مَنْ تَوَرَّعَ، فَلَمَّا اسْتَيْقَظَ طَلْحَةُ، وَفَّقَ مَنْ أَكَلَ، وَقَالَ:" أَكَلْنَاهُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" ، هَذَا لَفْظُ حَدِيثِ الدَّوْرَقِيُّ، وَقَالَ بُنْدَارٌ: عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: أَخْبَارُ أَبِي قَتَادَةَ وَتَصْوِيبُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِعْلَ مَنْ أَكَلَ الصَّيْدَ الَّذِي اصْطَادَهُ أَبُو قَتَادَةَ، وَمَسْأَلَتُهُ إِيَّاهُمْ هَلْ مَعَكُمْ مِنْ لَحْمِهِ شَيْءٌ؟ وَأَكْلُهُ مِنْ ذَلِكَ اللَّحْمِ مِنْ هَذَا الْبَابِ، وَخَبَرُ عُمَيْرِ بْنِ سَلَمَةَ الضُّمَيْرِيِّ مِنْ هَذَا الْبَابِ أَيْضًا
جناب عبد الرحمٰن التیمی بیان کرتے ہیں کہ ہم سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ حالت احرام میں تھے تو انہیں ایک پرندہ ہدیہ دیا گیا جب کہ وہ سوئے ہوئے تھے، لہٰذا کچھ لوگوں نے اس کا گوشت کھا لیا اور کچھ نے کھانے سے اجتناب کیا۔ پھر جب سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ بیدار ہوئے تو اُنہوں نے گوشت کھانے والوں کی موافقت کی اور فرمایا کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (حالت احرام میں) پرندے کا گوشت کھایا تھا۔ یہ الفاظ جناب دورقی کی روایت کے ہیں۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ سیدنا ابو قتاده رضی اللہ عنہ کے شکار کرنے والی حدیث جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شکار کا گوشت کھانے والے صحابہ کے عمل کو درست قرار دیا تھا اور پوچھا تھا: کیا تمہارے پاس اس کا گوشت موجود ہے۔ پھر گوشت ملنے پر آپ نے بھی کھایا تھا۔ وہ حدیث بھی اسی مسئله کے متعلق ہے۔ حضرت عمیر بن سلمہ الضمیری کی روایت بھی اسی مسئلہ کے متعلق ہے۔

تخریج الحدیث: صحيح مسلم

Previous    13    14    15    16    17    18    19    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.