سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کون ساعمل افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بلند آواز سے تلبیہ پکارنا اور قربانی کرنا“ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ ”العج“ سے مراد بلند آواز سے تلبیہ پکارنا ہے اور ”الثج“ سے مراد اونٹ ذبح کرنا ہے، اور اس کا خون بہانا ہے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکّہ مکرّمہ سے مدینہ منوّرہ کی طرف چلے۔ پھر جب ہم وادی ازرق میں پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ کون سی وادی ہے؟“ ہم نے عرض کیا کہ یہ وادی ازرق ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”گویا کہ میں حضرت موسیٰ عليه السلام کو دیکھ رہا ہوں“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت موسیٰ عليه السلام کے طویل قد و قامت، ان کے بالوں اور رنگ کی صفت بیان کی، حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی انگلیاں کانوں میں ڈال کر بلند آواز سے تلبیہ پکارتے ہوئے اس وادی سے گزر رہے ہیں۔ پھر ہم چلتے رہے حتّیٰ کہ ہم ثنیہ ہرشی کے پاس آگئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا: ”یہ کونسی گھاٹی ہے؟“ ہم نے عرض کیا یہ ہرشی گھاٹی ہے۔ آپ نے فرمایا: ”گویا کہ میں حضرت یونس عليه السلام کو دیکھ رہا ہوں۔ وہ سرخ رنگ کی اونٹنی پر سوار ہیں جس کی لگام کھجور کی چھال کی رسی ہے۔ حضرت یونس عليه السلام نے اونی جبہ پہنا ہوا ہے اور وہ تلبیہ پکارتے ہوئے اس گھاٹی سے گزر رہے ہیں۔“
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکّہ مکرّمہ اور مدینہ منوّرہ کے درمیان سفر کیا۔ ہم ایک وادی سے گزرے تو آپ نے فرمایا: ”یہ کونسی وادی ہے؟“ ہم نے عرض کیا کہ یہ وادی ازرق ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”گویا کہ میں حضرت موسیٰ عليه السلام کو دیکھ رہا ہوں پھر آپ نے ان کے بالوں اور رنگت کے بارے میں کچھ بتایا، داؤد راوی کو وہ یاد نہیں ہے۔ حضرت موسیٰ عليه السلام اپنی اُنگلیاں اپنے کانوں میں ڈال کر بلند آواز سے تلبیہ پکارتے ہوئے اس وادی سے گزر رہے ہیں۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ پھر ہم چلتے رہے حتّیٰ کہ ہم ایک گھاٹی پر آ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا: ”یہ کونسی گھاٹی ہے؟“ صحابہ کرام نے عرض کیا کہ ”هَرْشٰي يَالَفَتَ“ گھاٹی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”گویا کہ میں حضرت یونس عليه السلام کو دیکھ رہا ہوں وہ سرخ اونٹنی پر سوار ہیں۔ اور اونی جبہ پہنے ہوئے ہیں۔ ان کی روشنی کی مہار کھجور کی چھال کی رسّی ہے، وہ تلبیہ پڑھتے ہوئے اس وادی سے گزر رہے ہیں۔“
سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب کوئی تلبیہ کہنے والا تلبیہ کہتا ہے تو اس کے دائیں اور بائیں جانب زمین کے آخری کناروں تک موجود ہر درخت اور پتھر بھی تلبیہ کہتے ہیں۔“
حضرت عبد اللہ بن ابی قتادہ اپنے والد گرامی سیدنا ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ وہ ایک سفر میں تھے، ان کے کچھ ساتھی محرم تھے۔ سیدنا ابو قتادہ رضی اللہ عنہ نے شکار دیکھا تو اپنے گھوڑے پر سوار ہوکر جنگلی گدھے کا پیچھا کیا اور اسے شکار کرلیا پھر لوگوں نے اس کا گوشت کھایا۔ پھر وہ (حالت احرام میں شکار کا گوشت کھانے پر) گویا کہ ڈرنے لگے۔ تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا: کیا تم نے شکار کرنے میں شرکت کی ہے، یا تم نے اس شکار کی طرف اشارہ (کرکے سیدنا ابو قتادہ رضی اللہ عنہ کو متوجہ) کیا تھا۔؟“ انہوں نے عرض کی کہ جی نہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حُکم دیا کہ ”تم اسے کھا لو“ جناب ابن عدی کی روایت میں ہے کہ کیا تم نے اشارہ یا مدد کی تھی؟“ ابن ابی عدی کی امام شعبہ سے روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ ”کیا تم نے اشارہ کیا تھا یا شکار کیا تھا یا تم نے شکار کرنے میں مدد کی تھی؟“ صحابہ کرام نے عرض کیا کہ جی نہیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اسے کھا لو۔ “
1846. اس بات کی دلیل کا بیان کہ جب محرم شخص غیر محرم کا شکار کے جانور کی طرف اشارہ کرکے متوجہ کرے اور غیر محرم اسے شکار کرلے تو محرم کے لئے اس شکار کو کھانا حلال نہیں
سیدنا ابوقتاده رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اُنہوں نے ایک جنگلی گدھا شکار کیا جب کہ وہ ایسے لوگوں کے ہمراہ تھے جو حالت احرام میں تھے تو اُنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بارے میں اطلاع دی تو آپ نے فرمایا: ”کیا تم نے شکار کیا تھا، یا تم نے شکار کرنے میں مدد کی تھی یا تم نے اس کی طرف اشارہ کیا تھا؟“ صحابہ نے عرض کیا کہ جی نہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو پھر اس کا گوشت کھا لو۔“
سیدنا مصعب بن جثامه رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس سے گزرے جب کہ میں ودان یا ابواء مقام پر تھا۔ میں نے آپ کو ایک جنگلی گدھے کا شکار پیش کیا تو آپ نے وہ قبول نہ کیا پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے چہرے پر رنج و افسوس کے آثار دیکھے تو (تسلی دینے کے لئے) فرمایا: ”ہم نے تمہارا ہدیہ کسی غصّے کی وجہ سے واپس نہیں کیا بلکہ وجہ صرف یہ ہے کہ ہم حالت احرام میں ہیں اور یہ شکار ہمارے لئے جائز نہیں“ جناب جریج کی روایت میں ہے کہ میں نے امام ابن شہاب زہری رحمه الله سے پوچھا، کیا گدھا ذبح کیا ہوا تھا؟ اُنہوں نے فرمایا کہ مجھے معلوم نہیں۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ امام ابن جریج کا یہ سوال اور امام زہری رحمه الله کا یہ جواب اس بات کی دلیل ہے کہ جن راویوں نے سیدنا مصعب رضی اللہ عنہ کی روایت کے یہ الفاظ روایت کیے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جنگلی گدھے کا گوشت پیش کیا۔ یا جنگلی گدھے کی ران پیش کی۔ تو یہ اُن راویوں کا وہم ہے۔ کیونکہ امام زہری رحمه الله نے بیان کردیا ہے کہ انہیں معلوم نہیں کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گدھا پیش کیا گیا تھا تو وہ ذبح تھا یا نہیں۔ لہٰذا یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ یہ روایت کریں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوجنگلی گدھے کا گوشت یا اُس کی ران پیش کی گئی تھی حالانکہ انہیں یہ بھی علم نہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش کیا گیا جنگلی گدھا ذبح کیا ہوا تھا یا نہیں؟ میں نے اس روایت کے مختلف طرق کتاب الکبیر میں بیان کر دیے ہیں۔ جن راویوں نے یہ الفاظ بیان کیے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جنگلی گدھے کا گوشت پیش کیا، یا جنہوں نے کہا کہ گدھے کی ران ہدیہ کی۔ یا جنہوں نے روایت کیا کہ جنگلی گدھا پیش کیا۔ ان سب روایات کو میں نے بیان کردیا ہے۔
قد يحسب بعض من لا يميز بين الخبر المجمل والمفسر، ان اكل لحم الصيد للمحرم إذا اصطاده الحلال، طلق حلال بكل حال قَدْ يَحْسَبُ بَعْضُ مَنْ لَا يُمَيِّزُ بَيْنَ الْخَبَرِ الْمُجْمَلِ وَالْمُفَسَّرِ، أَنَّ أَكَلَ لَحْمِ الصَّيْدِ لِلْمُحْرِمِ إِذَا اصْطَادَهُ الْحَلَالُ، طَلْقٌ حَلَالٌ بِكُلِّ حَالٍ
جناب عبد الرحمٰن التیمی بیان کرتے ہیں کہ ہم سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ حالت احرام میں تھے تو انہیں ایک پرندہ ہدیہ دیا گیا جب کہ وہ سوئے ہوئے تھے، لہٰذا کچھ لوگوں نے اس کا گوشت کھا لیا اور کچھ نے کھانے سے اجتناب کیا۔ پھر جب سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ بیدار ہوئے تو اُنہوں نے گوشت کھانے والوں کی موافقت کی اور فرمایا کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (حالت احرام میں) پرندے کا گوشت کھایا تھا۔ یہ الفاظ جناب دورقی کی روایت کے ہیں۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ سیدنا ابو قتاده رضی اللہ عنہ کے شکار کرنے والی حدیث جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شکار کا گوشت کھانے والے صحابہ کے عمل کو درست قرار دیا تھا اور پوچھا تھا: ”کیا تمہارے پاس اس کا گوشت موجود ہے۔“ پھر گوشت ملنے پر آپ نے بھی کھایا تھا۔ وہ حدیث بھی اسی مسئله کے متعلق ہے۔ حضرت عمیر بن سلمہ الضمیری کی روایت بھی اسی مسئلہ کے متعلق ہے۔