سیدنا مصعب بن جثامه رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس سے گزرے جب کہ میں ودان یا ابواء مقام پر تھا۔ میں نے آپ کو ایک جنگلی گدھے کا شکار پیش کیا تو آپ نے وہ قبول نہ کیا پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے چہرے پر رنج و افسوس کے آثار دیکھے تو (تسلی دینے کے لئے) فرمایا: ”ہم نے تمہارا ہدیہ کسی غصّے کی وجہ سے واپس نہیں کیا بلکہ وجہ صرف یہ ہے کہ ہم حالت احرام میں ہیں اور یہ شکار ہمارے لئے جائز نہیں“ جناب جریج کی روایت میں ہے کہ میں نے امام ابن شہاب زہری رحمه الله سے پوچھا، کیا گدھا ذبح کیا ہوا تھا؟ اُنہوں نے فرمایا کہ مجھے معلوم نہیں۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ امام ابن جریج کا یہ سوال اور امام زہری رحمه الله کا یہ جواب اس بات کی دلیل ہے کہ جن راویوں نے سیدنا مصعب رضی اللہ عنہ کی روایت کے یہ الفاظ روایت کیے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جنگلی گدھے کا گوشت پیش کیا۔ یا جنگلی گدھے کی ران پیش کی۔ تو یہ اُن راویوں کا وہم ہے۔ کیونکہ امام زہری رحمه الله نے بیان کردیا ہے کہ انہیں معلوم نہیں کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گدھا پیش کیا گیا تھا تو وہ ذبح تھا یا نہیں۔ لہٰذا یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ یہ روایت کریں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوجنگلی گدھے کا گوشت یا اُس کی ران پیش کی گئی تھی حالانکہ انہیں یہ بھی علم نہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش کیا گیا جنگلی گدھا ذبح کیا ہوا تھا یا نہیں؟ میں نے اس روایت کے مختلف طرق کتاب الکبیر میں بیان کر دیے ہیں۔ جن راویوں نے یہ الفاظ بیان کیے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جنگلی گدھے کا گوشت پیش کیا، یا جنہوں نے کہا کہ گدھے کی ران ہدیہ کی۔ یا جنہوں نے روایت کیا کہ جنگلی گدھا پیش کیا۔ ان سب روایات کو میں نے بیان کردیا ہے۔