جناب ابوعمرالغدانی رحمه الله سے روایت ہے کہ بنی عامر کا ایک شخص ان کے پاس سے گزرا تو کہا گیا کہ یہ سب سے زیادہ مالدارشخص ہے تو سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اُسے بلایا اور اُس سے اُس کے بارے میں پوچھا تو اُس شخص نے جواب دیا کہ جی ہاں، میرے پاس سو بہترین سرخ اونٹ ہیں یا میرے پاس سو خاکستری اونٹ ہیں اور میرے پاس اتنی اتنی بکریاں ہیں۔ اس پر سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ خبردار، اونٹوں کے پاؤں اور بکریوں کے کھروں (تلے روندیں جانے) سے بچنا۔ بیشک میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”جس شخص کے پاس اونٹ ہوں اور وہ تنگی اور خوشحالی میں ان کی زکوٰۃ ادا نہ کرے تو انہیں ایک چٹیل میدان میں لایا جائیگا۔ وہ خوب موٹے تازہ اور فربہ ہوکر آئیںگے اور اس شخص کو اپنے قدموں تلے روندیںگے۔ جب بھی آخری اونٹ گزرجائیگا تو پہلا اونٹ اُس پر واپس آئیگا۔ (یہ عذاب مسلسل) پچاس ہزار سال والے دن میں ہوتا رہیگا حتّیٰ کہ لوگوں کے درمیان فیصلہ ہو جائیگا تو یہ شخص بھی اپنا راستہ دیکھ لیگا۔ اور جس شخص کے پاس بکریاں ہوں اور خوشحالی میں ان کی زکوٰۃ ادا نہ کرتا ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نَجْدَتِهَا وَرِسْلِهَا“(تنگی اور خوشحالی میں) تو انہیں ایک ہموار میدان میں جمع کیا جائیگا وہ بہت زیادہ فربہ حالت میں آئیںگی تو اس شخص کو اپنے کھروں کے ساتھ روندیںگی اور سینگوں کے ساتھ ٹکریں ماریںگی۔ جب بھی آخری بکری گزرجائیگی تو پہلی بکری اس پر لوٹ آئیگی۔ (اسے یہ عذاب مسلسل ہوتا رہیگا) اس دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہے حتّیٰ کہ لوگوں کے درمیاں فیصلہ کردیا جائے تو یہ شخص بھی اپنا راستہ (جنّت یا جہنّم کر طرف) دیکھ لیگا۔ اور جو شخص بھی گائیوں کا مالک ہو اور وہ تنگی اور خوشحالی میں ان کی زکوٰۃ ادا نہ کرتا ہو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نَجْدَتِهَا وَرِسْلِهَا“ اس سے مراد تنگی اور خوشحالی ہے، تو انہیں ایک بالکل ہموار میدان میں جمع کیا جائیگا وہ خوب موٹی تازی، چاک چوبند اور فربہ حالت میں آئیںگی تو اسے اپنے قدموں تلے روندیںگی اور اسے اپنے سینگوں سے ٹکریں ماریںگی۔ جب بھی آخری گائے گزر جائیگی تو پہلی گائے اس پر لوٹ آئیگی۔ ایک ایسے دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہوگی۔ یہاں تک کہ لوگوں کے درمیان فیصلہ کر دیا جائیگا تو یہ شخص اپناراستہ (جنّت یا جہنّم) کی طرف دیکھ لیگا۔“ تو بنی عامر کے شخص نے عرض کی کہ اے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ، اونٹوں کا حق کیا ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ تو اپنی بہترین اونٹنی دیدے اور اپنی دودھ والی اونٹنی دودھ پینے کے لئے دیدے اور کسی (ضرورت مند کو) سواری کے لئے اونٹ دیدے، جفتی کے لئے نر اونٹ دیدے اور (غرباء کو) دودھ پلادے۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ یہ حدیث امام شعبہ سے صرف یزید بن ہارون ہی بیان کرتے ہیں۔
جناب بلال بن حارث سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ مقام پر واقع معدنیات میں سے زکوٰۃ وصول کی اور آپ نے بلال بن حارث کے لئے پوری وادی عقیق الاٹ کی تھی۔ پھر جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا دور آیا تو انہوں نے بلال سے کہا کہ بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں یہ علاقہ اس لئے الاٹ نہیں کیا تھا کہ تم لوگوں کو اس سے روکو بلکہ تمہیں یہ علاقہ صرف اس لئے دیا تھا کہ تم اس میں کام کرو (اس میں سے معدنیات نکالو) پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے وادی عقیق کا علاقہ تمام لوگوں کے لئے الاٹ کر دیا (کہ سب لوگ اس سے فائدہ اٹھائیں)۔
سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ فہم قبیلے کی ایک شاخ بنی شبابہ کے لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی شہد کی پیداوار کا دسواں حصّہ ادا کرتے تھے۔ ہر دس مشکیزوں میں سے ایک مشکیزہ ادا کرتے تھے اور آپ نے انہیں دو وادیاں الاٹ کی ہوئی تھیں۔ پھر جب سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا دور حکومت آیا تو انہوں نے سفیان بن عبداللہ ثقفی کو ان کا امیر مقرر کیا تو اُنہوں نے سفیان کو زکوٰۃ ادا کرنے سے انکار کردیا اور کہنے لگے کہ ہم اس کی زکوٰۃ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کو ادا کیا کرتے تھے تو جناب سفیان نے یہ بات سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو لکھ کر بھیج دی تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں خط لکھا کہ بیشک شہد کی مکھیاں تو بارش کی مکھیاں ہیں۔ جنہیں اللہ تعالیٰ رزق بناکر جس کی طرف چاہتا ہے چلاتا ہے۔ لہٰذا اگر یہ لوگ تمہیں وہی زکوٰۃ ادا کریں جو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ادا کیا کرتے تھے تو تم انہیں ان کی دو وادیاں ٹھیکے پردے دینا وگرنہ ان کے ساتھ دیگر لوگوں کو بھی اجازت دے دینا (کہ وہ ان دو وادیوں کی گھاس اور شہد سے مستفید ہوں) چنانچہ انہوں نے سفیان کو وہ مقدار ادا کردی جو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ادا کیا کرتے تھے اور سفیان نے ان کی دو وادیاں ان کو الاٹ کردیں۔
حدثنا الربيع ، حدثنا ابن وهب ، حدثني اسامة ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، ان بني شبابة، بطن من فهم، فذكر مثل حديث المغيرة بن عبد الرحمن سواء، قال ابو بكر: هذا الخبر إن ثبت ففيه ما دل على ان بني شبابة، إنما كانوا يؤدون من العسل العشر لعلة، لا لان العشر واجب عليهم في العسل بل متطوعين بالدفع لحماهم الواديين، الا تسمع احتجاجهم على سفيان بن عبد الله، وكتاب عمر بن الخطاب إلى سفيان، لانهم إن ادوا ما كانوا يؤدون إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم ان يحمي لهم وادييهم، وإلا خلى بين الناس وبين الواديين، ومن المحال ان يمتنع صاحب المال من اداء الصدقة الواجب عليه في ماله إن لم يحمى له ما يرعى فيه ماشيته من الكلاء، وغير جائز ان يحمي الإمام لبعض اهل المواشي ارضا ذات الكلإ ليؤدي صدقة ماله، إن لم يحم لهم تلك الارض، والفاروق رحمه الله قد علم ان هذا الخبر بان بني شبابة قد كانوا يؤدون إلى النبي صلى الله عليه وسلم من العسل العشر، وان النبي صلى الله عليه وسلم كان يحمي لهم الواديين، فامر عامله سفيان بن عبد الله ان يحمي لهم الواديين إن ادوا من عسلهم مثل ما كانوا يؤدون إلى النبي صلى الله عليه وسلم، وإلا خلى بين الناس، وبين الواديين، ولو كان عند الفاروق رحمه الله اخذ النبي صلى الله عليه وسلم العشر من غلهم على معنى الإيجاب كوجوب صدقة المال الذي يجب فيه الزكاة لم يرض بامتناعهم من اداء الزكاة، ولعله كان يحاربهم لو امتنعوا من اداء ما يجب عليهم من الصدقة، إذ قد تابع الصديق رحمه الله مع اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم على قتال من امتنع من اداء الصدقة مع حلف الصديق انه مقاتل من امتنع من اداء عقال كان يؤديه إلى النبي صلى الله عليه وسلم، والفاروق رحمه الله قد واطاه على قتالهم، فلو كان اخذ النبي صلى الله عليه وسلم العشر من نحل بني شبابة عند عمر بن الخطاب على معنى الوجوب، لكان الحكم عنده فيهم كالحكم فيمن امتنع عند وفاة النبي صلى الله عليه وسلم من اداء الصدقة إلى الصديق، والله اعلم.حَدَّثَنَا الرَّبِيعُ ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، حَدَّثَنِي أُسَامَةُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، أَنَّ بَنِي شَبَابَةَ، بَطْنٌ مِنْ فَهْمٍ، فَذَكَرَ مِثْلَ حَدِيثِ الْمُغِيرَةِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ سَوَاءً، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: هَذَا الْخَبَرُ إِنْ ثَبَتَ فَفِيهِ مَا دَلَّ عَلَى أَنَّ بَنِي شَبَابَةَ، إِنَّمَا كَانُوا يُؤَدُّونَ مِنَ الْعَسَلِ الْعُشْرَ لِعِلَّةٍ، لا لأَنَّ الْعُشْرَ وَاجِبٌ عَلَيْهِمْ فِي الْعَسَلِ بَلْ مُتَطَوِّعِينَ بِالدَّفْعِ لِحِمَاهُمُ الْوَادِيَيْنِ، أَلا تَسْمَعُ احْتِجَاجَهُمْ عَلَى سُفْيَانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، وَكِتَابَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ إِلَى سُفْيَانَ، لأَنَّهُمْ إِنْ أَدُّوا مَا كَانُوا يُؤَدُّونَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَحْمِيَ لَهُمْ وَادِيَيْهِمْ، وَإِلا خَلَّى بَيْنَ النَّاسِ وَبَيْنَ الْوَادِيَيْنِ، وَمِنَ الْمُحَالِ أَنْ يَمْتَنِعَ صَاحِبُ الْمَالِ مِنْ أَدَاءِ الصَّدَقَةِ الْوَاجِبِ عَلَيْهِ فِي مَالِهِ إِنْ لَمْ يُحْمَى لَهُ مَا يَرْعَى فِيهِ مَاشِيَتَهُ مِنَ الْكَلاءِ، وَغَيْرُ جَائِزٍ أَنْ يَحْمِيَ الإِمَامُ لِبَعْضِ أَهْلِ الْمَوَاشِي أَرْضًا ذَاتَ الْكَلإِ لِيُؤَدِّيَ صَدَقَةَ مَالِهِ، إِنْ لَمْ يَحْمِ لَهُمْ تِلْكَ الأَرْضَ، وَالْفَارُوقُ رَحِمَهُ اللَّهُ قَدْ عَلِمَ أَنَّ هَذَا الْخَبَرَ بِأَنَّ بَنِي شَبَابَةَ قَدْ كَانُوا يُؤَدُّونَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْعَسَلِ الْعُشْرَ، وَأَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَحْمِي لَهُمُ الْوَادِيَيْنِ، فَأَمَرَ عَامِلَهُ سُفْيَانَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ أَنْ يَحْمِيَ لَهُمُ الْوَادِيَيْنِ إِنْ أَدُّوا مِنْ عَسَلِهِمْ مِثْلَ مَا كَانُوا يُؤَدُّونَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَإِلا خَلَّى بَيْنَ النَّاسِ، وَبَيْنَ الْوَادِيَيْنِ، وَلَوْ كَانَ عِنْدَ الْفَارُوقِ رَحِمَهُ اللَّهُ أَخْذُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعُشْرَ مِنْ غَلِّهِمِ عَلَى مَعْنَى الإِيجَابِ كَوُجُوبِ صَدَقَةِ الْمَالِ الَّذِي يَجِبُ فِيهِ الزَّكَاةُ لَمْ يَرْضَ بِامْتِنَاعِهِمْ مِنْ أَدَاءِ الزَّكَاةِ، وَلَعَلَّهُ كَانَ يُحَارِبُهُمْ لَوِ امْتَنَعُوا مِنْ أَدَاءِ مَا يَجِبُ عَلَيْهِمْ مِنَ الصَّدَقَةِ، إِذْ قَدْ تَابَعَ الصِّدِّيقُ رَحِمَهُ اللَّهُ مَعَ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى قِتَالِ مَنِ امْتَنَعَ مِنْ أَدَاءِ الصَّدَقَةِ مَعَ حَلِفِ الصِّدِّيقِ أَنَّهُ مُقَاتِلٌ مَنِ امْتَنَعَ مِنْ أَدَاءِ عِقَالٍ كَانَ يُؤَدِّيهِ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالْفَارُوقُ رَحِمَهُ اللَّهُ قَدْ وَاطَأَهُ عَلَى قِتَالِهِمْ، فَلَوْ كَانَ أَخْذُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعُشْرَ مِنْ نَحْلِ بَنِي شَبَابَةَ عِنْدَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ عَلَى مَعْنَى الْوُجُوبِ، لَكَانَ الْحُكْمُ عِنْدَهُ فِيهِمْ كَالْحُكْمِ فِيمَنِ امْتَنَعَ عِنْدَ وَفَاةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَدَاءِ الصَّدَقَةِ إِلَى الصِّدِّيقِ، وَاللَّهُ أَعْلَمُ.
امام صاحب نے ایک اور سند سے مذکورہ بالا روایت بیان کی ہے۔ امام ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اگر یہ روایت صحیح ثابت ہو جائے تو اس میں یہ دلیل موجود ہے کہ بنی شبابہ کے لوگ شہد کا دسواں حصّہ بطور صدقہ کسی سبب کی بنا پر ادا کرتے تھے اس لئے نہیں کہ ان پر شہد کی زکوٰۃ واجب تھی بلکہ وہ نفلی طور پر یہ صدقہ ادا کرتے تھے کیونکہ انہیں خصوصی طور پر دو وادیاں ٹھیکے پردی گئی تھیں۔ کیا آپ نے سفیان بن عبداللہ کے خلاف ان کی دلیل اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے جوابی خط کو نہیں دیکھا کہ اگر وہ شہد کی اتنی ہی مقدار ادا کردیں جو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ادا کیا کرتے تھے تو ٹھیک ہے وگرنہ ان کی خصوصی الاٹ منٹ ختم کردی جائے اور عام لوگوں کو بھی ان دو وادیوں سے فائدہ اُٹھانے کی اجازت دیدی جائے اور یہ بات ناممکن ہے کہ مالدار شخص اپنے مال کی واجب زکوٰۃ دینے سے صرف اس لئے انکار کردے کہ اس کے جانوروں کے لئے چراگاہ مختص نہیں کی گئی اور امام و حکمران کے لئے بھی یہ جائز نہیں کہ وہ مخصوص لوگوں کے جانوروں کے لئے چراگاہ مختص کرے تاکہ وہ اپنے جانوروں کی زکوٰۃ ادا کریں اور اگروہ ان کے لئے چراگاہ مختص نہ کرے (تو وہ زکوٰۃ ادا نہیں کریںگے) اورسیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو یہ بات معلوم تھی کہ بنی شبابہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی زکوٰۃ کا عشرادا کرتے تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے دو وادیاں مختص کی ہوئی تھیں۔ اس لئے انہوں نے اپنے گورنر سفیان بن عبداللہ کو یہ حُکم دیا کہ اگر وہ لوگ اپنے شہد میں سے اتنی مقدار ادا کردیں جو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ادا کیا کرتے تھے تو ان کے لئے دونوں وادیاں مخصوص رکھی جائیں وگرنہ عام لوگوں کو بھی ان سے مستفید ہونے کی اجازت دیدی جائے اور اگر سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے نزدیک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ان سے زکوٰۃ وصول کرنا واجب حُکم ہوتا جیسے کہ دیگر اموال کی واجب زکوٰۃ ہے تو سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ ان کے زکوٰۃ ادا نہ کرنے پر خاموش نہ رہتے بلکہ وہ فرض زکوٰۃ ادا نہ کرنے پر ان کے ساتھ جنگ کرتے کیونکہ سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے صحابہ کرام کی معیت میں زکوٰۃ ادانہ کرنے والوں کے ساتھ جنگ کی تھی اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے یہ قسم اُٹھائی تھی کہ اگر وہ ایک رسی جسے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ادا کرتے تھے، اب ادا نہ کریںگے تو وہ ان کے ساتھ جنگ کریںگے اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابوبکر صد یق رضی اللہ عنہ کی اس رائے میں موافقت کی تھی۔ لہٰذا اگر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے نزدیک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بنی شبانہ سے شہد کا دسواں حصّہ بطور قرض زکوٰۃ وصول کرنا ہوتا تو ان لوگوں کا حُکم سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے نزدیک وہی ہوتا جوحُکم ان لوگوں کا تھا جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو زکوٰۃ دینے سے انکار کیا تھا۔ واللہ اعلم۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جانور زخمی کردے تو اس کا بدلہ نہیں ہے، کنویں میں گر کر مرنے والے کا خون رائیگاں ہے اور معدن کی کھدائی میں دب کرمرنے والے کا خون بھی رائیگاں ہے اور رکاز (مدفون خزانے) میں پانچواں حصّہ زکوٰۃ ہے۔“ جناب عمرو نے معدن کا ذکر نہیں کیا۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ میں نے اس روایت کی تمام طرق کتاب الدیات میں بیان کیے ہیں۔ جناب مکحول فرماتے ہیں کہ جبار کا معنی هدر ہے یعنی اس کے خون کا کوئی بدلہ نہیں۔ امام ابن شہاب فرماتے ہیں کہ الجبار سے مراد ہے کہ اس کے قتل پر دیت نہیں ہوگی۔ امام مالک نے بھی اس کا یہی معنی کیا ہے۔
والدليل على ان الركاز ليس بدفن الجاهلية، إذ النبي صلى الله عليه وسلم إن ثبت هذا الخبر عنه- قد فرق بين الموجود في الخرب العادي، وبين الركاز، فاوجب فيهما جميعا الخمس وَالدَّلِيلُ عَلَى أَنَّ الرِّكَازَ لَيْسَ بِدَفْنِ الْجَاهِلِيَّةِ، إِذِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنْ ثَبَتَ هَذَا الْخَبَرُ عَنْهُ- قَدْ فَرَّقَ بَيْنَ الْمَوْجُودِ فِي الْخَرِبِ الْعَادِيِّ، وَبَيْنَ الرِّكَازِ، فَأَوْجَبَ فِيهِمَا جَمِيعًا الْخُمُسَ
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مزینہ قبیلے کا ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ آپ اس چیز کے بارے میں کیا فرماتے ہیں جو آباد راستے یا آباد بستی میں مل جائے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک سال تک اس کا اعلان کرو، پھر اگر اس کا مالک آجائے تو اس کے حوالے کرو وگرنہ تم اپنے استعال میں لے آؤ۔ پھر اگر زندگی میں کبھی اس کا طالب آجائے تو اسے دیدو اور جومال ویران راستے یا غیر آباد بستی میں ملے تو اس مال میں اور کان میں پانچوان حصّہ زکوٰۃ ادا کرو۔“
قال ابو بكر: روى هذا الخبر محمد بن إسحاق، عن محمد بن شعيب، عن ابيه، عن جده، عن عبد الله بن عمرو، قال: سمعت رجلا من مزينة يسال رسول الله صلى الله عليه وسلم، حدثناه يونس بن موسى ، حدثنا جرير ، عن محمد بن إسحاق .قَالَ أَبُو بَكْرٍ: رَوَى هَذَا الْخَبَرَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: سَمِعْتُ رَجُلا مِنْ مُزَيْنَةَ يَسْأَلُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَدَّثَنَاهُ يُونُسُ بْنُ مُوسَى ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ .
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اُنہوں نے ایک مزنی شخص کو سنا جبکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ رہا تھا۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زکوٰۃ ادا کرنے کا حُکم دیا تو بعض طعنہ زن کہنے لگے کہ ابن جمیل، خالد بن ولید اور سیدنا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہم نے زکوٰۃ دینے سے انکار کر دیا ہے۔
حدثنا الحسن بن محمد بن الصباح ، حدثنا شبابة ، حدثنا ورقاء ، عن ابي الزناد ، عن الاعرج ، عن ابي هريرة ، قال: " بعث رسول الله صلى الله عليه وسلم عمر بن الخطاب ساعيا على الصدقة" ، حدثنا محمد بن يحيى ، حدثنا علي بن عياش الحمصي ، حدثنا شعيب بن ابي حمزة ، عن ابي الزناد ، عن الاعرج ، عن ابي هريرة ، قال: قال عمر :" امر رسول الله صلى الله عليه وسلم بصدقة، فقيل: منع ابن جميل، وخالد بن الوليد، والعباس بن عبد المطلب، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ما ينقم ابن جميل، إلا انه كان فقيرا اغناه الله، واما خالد بن الوليد فإنكم تظلمون خالدا، قد احتبس ادراعه واعبده في سبيل الله، اما العباس بن عبد المطلب عم رسول الله صلى الله عليه وسلم" ، قال ابو بكر: قال في خبر ورقاء: واما العباس عم رسول الله صلى الله عليه وسلم فهي علي، ومثلها معها، وقال في خبر موسى بن عقبة: اما العباس بن عبد المطلب فهي له ومثلها معها، وقال في خبر شعيب بن ابي حمزة: اما العباس بن عبد المطلب عم رسول الله صلى الله عليه وسلم فهي عليه صدقة ومثلها معها، فخبر موسى بن عقبة: فهي له ومثلها معها يشبه ان يكون اراد ما قال ورقاء اي فهي له علي، فاما اللفظة التي ذكرها شعيب بن ابي حمزة، فهي عليه صدقة فيشبه ان يكون معناها فهي له علي ما بينت في غير موضع من كتبنا ان العرب تقول: عليه يعني له، وله يعني عليه، كقوله جل وعلا: اولئك لهم اللعنة ولهم سوء الدار سورة الرعد آية 25، فمعنى لهم اللعنة: اي عليهم اللعنة، ومحال ان يترك النبي صلى الله عليه وسلم للعباس بن عبد المطلب صدقة قد وجبت عليه في ماله، وبعده ترك صدقة اخرى إذا وجبت عليه، والعباس من صليبة بني هاشم ممن حرم عليه صدقة غيره ايضا فكيف صدقة نفسه، والنبي صلى الله عليه وسلم، قد اخبر ان الممتنع من اداء صدقته في العسر واليسر يعذب يوم القيامة في يوم مقداره خمسين الف سنة بالوان عذاب قد ذكرناها في موضعها في هذا الكتاب، فكيف يكون ان يتاول على النبي صلى الله عليه وسلم ان يترك لعمه صنو ابيه صدقة قد وجبت عليه لاهل سهمان الصدقة او يبيح له ترك ادائها وإيصالها إلى مستحقيها هذا ما لا يتوهمه عندي عالم، والصحيح في هذه اللفظة قوله: فهي له، وقوله فهي علي، ومثلها معها اي إني قد استعجلت منه صدقة عامين، فهذه الصدقة التي امرت بقبضها من الناس هي للعباس علي ومثلها معها اي صدقة ثانية على ما روى الحجاج بن دينار، وإن كان في القلب منه عن الحكم عن حجية بن عدي، عن علي بن ابي طالب،" ان العباس بن عبد المطلب سال رسول الله صلى الله عليه وسلم في تعجيل صدقته قبل ان تحل، فرخص له في ذلك"،حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الصَّبَّاحِ ، حَدَّثَنَا شَبَابَةُ ، حَدَّثَنَا وَرْقَاءُ ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ ، عَنِ الأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: " بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ سَاعِيًا عَلَى الصَّدَقَةِ" ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَيَّاشٍ الْحِمْصِيُّ ، حَدَّثَنَا شُعَيْبُ بْنُ أَبِي حَمْزَةَ ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ ، عَنِ الأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ :" أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِصَدَقَةٍ، فَقِيلَ: مَنَعَ ابْنَ جَمِيلٍ، وَخَالِدَ بْنَ الْوَلِيدِ، وَالْعَبَّاسَ بْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا يَنْقِمُ ابْنُ جَمِيلٍ، إِلا أَنَّهُ كَانَ فَقِيرًا أَغْنَاهُ اللَّهُ، وَأَمَّا خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ فَإِنَّكُمْ تَظْلِمُونَ خَالِدًا، قَدِ احْتَبَسَ أَدْرَاعَهُ وَأَعْبُدَهُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، أَمَّا الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ عَمُّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: قَالَ فِي خَبَرِ وَرْقَاءَ: وَأَمَّا الْعَبَّاسُ عَمُّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَهِيَ عَلَيَّ، وَمِثْلُهَا مَعَهَا، وَقَالَ فِي خَبَرِ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ: أَمَّا الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَهِيَ لَهُ وَمِثْلُهَا مَعَهَا، وَقَالَ فِي خَبَرِ شُعَيْبِ بْنِ أَبِي حَمْزَةَ: أَمَّا الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ عَمُّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَهِيَ عَلَيْهِ صَدَقَةٌ وَمِثْلُهَا مَعَهَا، فَخَبَرُ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ: فَهِيَ لَهُ وَمِثْلُهَا مَعَهَا يُشْبِهُ أَنْ يَكُونَ أَرَادَ مَا قَالَ وَرْقَاءُ أَيْ فَهِيَ لَهُ عَلَيَّ، فَأَمَّا اللَّفْظَةُ الَّتِي ذَكَرَهَا شُعَيْبُ بْنُ أَبِي حَمْزَةَ، فَهِيَ عَلَيْهِ صَدَقَةٌ فَيُشْبِهُ أَنْ يَكُونَ مَعْنَاهَا فَهِيَ لَهُ عَلَيَّ مَا بَيَّنْتُ فِي غَيْرِ مَوْضِعٍ مِنْ كُتُبِنَا أَنَّ الْعَرَبَ تَقُولُ: عَلَيْهِ يَعْنِي لَهُ، وَلَهُ يَعْنِي عَلَيْهِ، كَقَوْلِهِ جَلَّ وَعَلا: أُولَئِكَ لَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ سورة الرعد آية 25، فَمَعْنَى لَهُمُ اللَّعْنَةُ: أَيْ عَلَيْهِمُ اللَّعْنَةُ، وَمُحَالٌ أَنْ يَتْرُكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ صَدَقَةً قَدْ وَجَبَتْ عَلَيْهِ فِي مَالِهِ، وَبَعْدَهُ تَرَكَ صَدَقَةً أُخْرَى إِذَا وَجَبَتْ عَلَيْهِ، وَالْعَبَّاسُ مِنْ صَلِيبَةِ بَنِي هَاشِمٍ مِمَّنْ حُرِّمَ عَلَيْهِ صَدَقَةُ غَيْرِهِ أَيْضًا فَكَيْفَ صَدَقَةُ نَفْسِهِ، وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَدْ أَخْبَرَ أَنَّ الْمُمْتَنِعَ مِنْ أَدَاءِ صَدَقَتِهِ فِي الْعُسْرِ وَالْيُسْرِ يُعَذَّبُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِي يَوْمٍ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ بِأَلْوَانِ عَذَابٍ قَدْ ذَكَرْنَاهَا فِي مَوْضِعِهَا فِي هَذَا الْكِتَابِ، فَكَيْفَ يَكُونُ أَنْ يَتَأَوَّلَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَتْرُكَ لِعَمِّهِ صِنْوِ أَبِيهِ صَدَقَةً قَدْ وَجَبَتْ عَلَيْهِ لأَهْلِ سُهْمَانِ الصَّدَقَةِ أَوْ يُبِيحُ لَهُ تَرْكَ أَدَائِهَا وَإِيصَالِهَا إِلَى مُسْتَحِقِّيهَا هَذَا مَا لا يَتَوَهَّمُهُ عِنْدِي عَالِمٌ، وَالصَّحِيحُ فِي هَذِهِ اللَّفْظَةِ قَوْلُهُ: فَهِيَ لَهُ، وَقَوْلُهُ فَهِيَ عَلَيَّ، وَمِثْلُهَا مَعَهَا أَيْ إِنِّي قَدِ اسْتَعْجَلْتُ مِنْهُ صَدَقَةَ عَامَيْنِ، فَهَذِهِ الصَّدَقَةُ الَّتِي أُمِرْتُ بِقَبْضِهَا مِنَ النَّاسِ هِيَ لِلْعَبَّاسِ عَلَيَّ وَمِثْلُهَا مَعَهَا أَيْ صَدَقَةٌ ثَانِيَةٌ عَلَى مَا رَوَى الْحَجَّاجُ بْنُ دِينَارٍ، وَإِنْ كَانَ فِي الْقَلْبِ مِنْهُ عَنِ الْحَكَمِ عَنْ حُجَيَّةَ بْنِ عَدِيٍّ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ،" أَنَّ الْعَبَّاسَ بْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي تَعْجِيلِ صَدَقَتِهِ قَبْلَ أَنْ تَحِلَّ، فَرَخَّصَ لَهُ فِي ذَلِكَ"،
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو زکوٰۃ وصول کرنے کے لئے بھیجا۔ سیدنا عمررضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زکوٰۃ ادا کرنے کا حُکم دیا تو آپ سے عرض کیا گیا کہ ابن جمیل، خالد بن ولید اور سیدنا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہم نے زکوٰۃ ادا نہیں کی۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابن جمیل تو صرف اس لئے (زکوٰۃ ادا کرنا) ناپسند کرتا ہے کہ وہ فقیر تھا تو اللہ تعالیٰ نے اُسے غنی کردیا اور خالد بن ولید پر تم ظلم کرتے ہو (کہ اس سے زکوٰۃ طلب کرتے ہو) حالانکہ اس نے اپنی زرہیں اور غلام اللہ کے راستے میں وقف کر رکھے ہیں جبکہ سیدنا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ہیں۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ جناب ورقاء کی روایت میں ہے۔ رہے سیدنا عباس رضی اللہ عنہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ہیں تو ان کی زکوٰۃ دو گنا میرے ذمے ہے۔ اور جناب موسیٰ بن عقبہ کی روایت میں ہے کہ رہے عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ تو ان کی زکوٰۃ ان کے لئے ہے اور اس کی مثل مزید بھی۔ جناب شعیب بن ابی حمزہ کی روایت میں ہے کہ رہے عباس بن عبدالمطلب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا تو ان کی زکوٰۃ ان پر صدقہ ہے اور اس کے ساتھ اتنی مقدار اور بھی صدقہ ہے۔ چنانچہ جناب موسیٰ بن عقبہ کی یہ روایت کہ تو ان کی زکوٰۃ انہی کے لئے ہے اور اس کی مثل اور بھی۔ تو ممکن ہے اس کا معنی وہی ہو جو ورقاء کی روایت میں ہے کہ ان کی زکوٰۃ میرے ذمے ہے جبکہ جناب شعیب بن ابی حمزہ کی یہ روایت کہ ان کی زکوٰۃ ان پر صدقہ ہے تو اس کا معنی بھی یہی ہوسکتا ہے کہ ان کی زکوٰۃ میرے ذمے ہے۔ جیسا کہ میں نے اپنی کتابوں میں متعدد جگہوں پر بیان کیا ہے کہ عرب کہتے ہیں ”عَلَيْهِ“(اس کے ذمے ہے) یعنی ”لَهُ“(اس کے لئے ہے) اور عرب لوگ کہتے ہیں: ”وَلَهُ“(اُس کے لئے ہے) یعنی ”عَلَيْهِ“(اس کے ذمے ہے)(یعنی ”عَلٰی“ اور ”لَهُ“ ایک دوسرے کے معنوں میں مستعمل ہیں) جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے «أُولَٰئِكَ لَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ» [ سورة الرعد: 25 ] اس کا معنی ہے کہ ان پر لعنت ہے(لَهُمُ کا معنی عَلَیْھِمْ ہے) یہ بات ناممکن ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کو ان کے مال میں واجب ہونے والی زکوٰۃ معاف کردیں اور پھر دوبارہ واجب زکوٰۃ ان سے وصول نہ کریں۔ حالانکہ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ بنو ہاشم سے تعلق رکھتے ہیں جن پردیگر لوگوں کی زکوٰۃ حرام ہے تو پھر اُن پر اپنی ہی زکوٰۃ استعمال کرنا کیسے حلال ہوسکتا ہے؟ جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیان فرما چکے ہیں کہ تنگی اور خوشحالی میں زکوٰۃ ادانہ کرنے والے شخص کو قیامت کے دن پچاس ہزار سال والے دن میں طرح طرح کے عذاب ہوںگے۔ یہ بات ہم اسی کتاب میں بیان کرچکے ہیں۔ لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ اپنے چچا جو کہ باپ کی طرح ہوتا ہے، انہیں ان پر واجب زکوٰۃ معاف کر دیںگے حالانکہ وہ زکوٰۃ کے مستحقین کا حصّہ ہے یا آپ کیسے ان کے لئے زکوٰۃ ادا نہ کرنا حلال قرار دیںگے۔ میرے خیا ل میں کوئی بھی عالم دین اس کا گمان بھی نہیں کرسکتا۔ اس لئے روایت کے صحیح الفاظ یہ ہوںگے کہ ”زکوٰۃ ان کے لئے ہے“ یا ”ان کی زکوٰۃ دگنی میرے ذمے ہے“ کا معنی یہ ہے کہ میں نے عباس سے دو سال کی پیشگی زکوٰۃ وصول کرلی تھی اس لئے اب جو زکوٰۃ لوگوں کے مالوں میں واجب قراردی گئی ہے وہ عباس کی زکوٰۃ میرے ذمے ہے اور دوسری بار بھی میرے ذمے ہے۔ جیسا کہ حجاج بن دینار کی روایت میں ہے اگرچہ مجھے اس کی روایت میں تردد ہے۔ وہ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ سیدنا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وقت سے پہلے زکوٰۃ ادا کرنے کی اجازت طلب کی تو آپ نے انہیں رخصت دے دی۔