صحيح ابن خزيمه کل احادیث 3080 :حدیث نمبر

صحيح ابن خزيمه
اناج اور پھلوں کی زکوٰۃ کے ابواب کا مجموعہ
1613. ‏(‏58‏)‏ بَابُ الرُّخْصَةِ فِي تَقْدِيمِ الصَّدَقَةِ قَبْلَ حُلُولِ الْحَوْلِ عَلَى الْمَالِ، وَالْفَرْقِ بَيْنَ الْفَرْضِ الَّذِي يَجِبُ فِي الْمَالِ وَبَيْنَ الْفَرْضِ الْوَاجِبِ عَلَى الْبُدْنِ
1613. سال پورا ہونے سے پہلے مال کی زکوٰۃ ادا کرنے کی رخصت کا بیان اور مالی اور بدنی فرض زکوٰۃ میں فرق کا بیان
حدیث نمبر: 2330
Save to word اعراب
حدثنا الحسن بن محمد بن الصباح ، حدثنا شبابة ، حدثنا ورقاء ، عن ابي الزناد ، عن الاعرج ، عن ابي هريرة ، قال: " بعث رسول الله صلى الله عليه وسلم عمر بن الخطاب ساعيا على الصدقة" ، حدثنا محمد بن يحيى ، حدثنا علي بن عياش الحمصي ، حدثنا شعيب بن ابي حمزة ، عن ابي الزناد ، عن الاعرج ، عن ابي هريرة ، قال: قال عمر :" امر رسول الله صلى الله عليه وسلم بصدقة، فقيل: منع ابن جميل، وخالد بن الوليد، والعباس بن عبد المطلب، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ما ينقم ابن جميل، إلا انه كان فقيرا اغناه الله، واما خالد بن الوليد فإنكم تظلمون خالدا، قد احتبس ادراعه واعبده في سبيل الله، اما العباس بن عبد المطلب عم رسول الله صلى الله عليه وسلم" ، قال ابو بكر: قال في خبر ورقاء: واما العباس عم رسول الله صلى الله عليه وسلم فهي علي، ومثلها معها، وقال في خبر موسى بن عقبة: اما العباس بن عبد المطلب فهي له ومثلها معها، وقال في خبر شعيب بن ابي حمزة: اما العباس بن عبد المطلب عم رسول الله صلى الله عليه وسلم فهي عليه صدقة ومثلها معها، فخبر موسى بن عقبة: فهي له ومثلها معها يشبه ان يكون اراد ما قال ورقاء اي فهي له علي، فاما اللفظة التي ذكرها شعيب بن ابي حمزة، فهي عليه صدقة فيشبه ان يكون معناها فهي له علي ما بينت في غير موضع من كتبنا ان العرب تقول: عليه يعني له، وله يعني عليه، كقوله جل وعلا: اولئك لهم اللعنة ولهم سوء الدار سورة الرعد آية 25، فمعنى لهم اللعنة: اي عليهم اللعنة، ومحال ان يترك النبي صلى الله عليه وسلم للعباس بن عبد المطلب صدقة قد وجبت عليه في ماله، وبعده ترك صدقة اخرى إذا وجبت عليه، والعباس من صليبة بني هاشم ممن حرم عليه صدقة غيره ايضا فكيف صدقة نفسه، والنبي صلى الله عليه وسلم، قد اخبر ان الممتنع من اداء صدقته في العسر واليسر يعذب يوم القيامة في يوم مقداره خمسين الف سنة بالوان عذاب قد ذكرناها في موضعها في هذا الكتاب، فكيف يكون ان يتاول على النبي صلى الله عليه وسلم ان يترك لعمه صنو ابيه صدقة قد وجبت عليه لاهل سهمان الصدقة او يبيح له ترك ادائها وإيصالها إلى مستحقيها هذا ما لا يتوهمه عندي عالم، والصحيح في هذه اللفظة قوله: فهي له، وقوله فهي علي، ومثلها معها اي إني قد استعجلت منه صدقة عامين، فهذه الصدقة التي امرت بقبضها من الناس هي للعباس علي ومثلها معها اي صدقة ثانية على ما روى الحجاج بن دينار، وإن كان في القلب منه عن الحكم عن حجية بن عدي، عن علي بن ابي طالب،" ان العباس بن عبد المطلب سال رسول الله صلى الله عليه وسلم في تعجيل صدقته قبل ان تحل، فرخص له في ذلك"،حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الصَّبَّاحِ ، حَدَّثَنَا شَبَابَةُ ، حَدَّثَنَا وَرْقَاءُ ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ ، عَنِ الأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: " بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ سَاعِيًا عَلَى الصَّدَقَةِ" ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَيَّاشٍ الْحِمْصِيُّ ، حَدَّثَنَا شُعَيْبُ بْنُ أَبِي حَمْزَةَ ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ ، عَنِ الأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ :" أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِصَدَقَةٍ، فَقِيلَ: مَنَعَ ابْنَ جَمِيلٍ، وَخَالِدَ بْنَ الْوَلِيدِ، وَالْعَبَّاسَ بْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا يَنْقِمُ ابْنُ جَمِيلٍ، إِلا أَنَّهُ كَانَ فَقِيرًا أَغْنَاهُ اللَّهُ، وَأَمَّا خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ فَإِنَّكُمْ تَظْلِمُونَ خَالِدًا، قَدِ احْتَبَسَ أَدْرَاعَهُ وَأَعْبُدَهُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، أَمَّا الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ عَمُّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: قَالَ فِي خَبَرِ وَرْقَاءَ: وَأَمَّا الْعَبَّاسُ عَمُّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَهِيَ عَلَيَّ، وَمِثْلُهَا مَعَهَا، وَقَالَ فِي خَبَرِ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ: أَمَّا الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَهِيَ لَهُ وَمِثْلُهَا مَعَهَا، وَقَالَ فِي خَبَرِ شُعَيْبِ بْنِ أَبِي حَمْزَةَ: أَمَّا الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ عَمُّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَهِيَ عَلَيْهِ صَدَقَةٌ وَمِثْلُهَا مَعَهَا، فَخَبَرُ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ: فَهِيَ لَهُ وَمِثْلُهَا مَعَهَا يُشْبِهُ أَنْ يَكُونَ أَرَادَ مَا قَالَ وَرْقَاءُ أَيْ فَهِيَ لَهُ عَلَيَّ، فَأَمَّا اللَّفْظَةُ الَّتِي ذَكَرَهَا شُعَيْبُ بْنُ أَبِي حَمْزَةَ، فَهِيَ عَلَيْهِ صَدَقَةٌ فَيُشْبِهُ أَنْ يَكُونَ مَعْنَاهَا فَهِيَ لَهُ عَلَيَّ مَا بَيَّنْتُ فِي غَيْرِ مَوْضِعٍ مِنْ كُتُبِنَا أَنَّ الْعَرَبَ تَقُولُ: عَلَيْهِ يَعْنِي لَهُ، وَلَهُ يَعْنِي عَلَيْهِ، كَقَوْلِهِ جَلَّ وَعَلا: أُولَئِكَ لَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ سورة الرعد آية 25، فَمَعْنَى لَهُمُ اللَّعْنَةُ: أَيْ عَلَيْهِمُ اللَّعْنَةُ، وَمُحَالٌ أَنْ يَتْرُكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ صَدَقَةً قَدْ وَجَبَتْ عَلَيْهِ فِي مَالِهِ، وَبَعْدَهُ تَرَكَ صَدَقَةً أُخْرَى إِذَا وَجَبَتْ عَلَيْهِ، وَالْعَبَّاسُ مِنْ صَلِيبَةِ بَنِي هَاشِمٍ مِمَّنْ حُرِّمَ عَلَيْهِ صَدَقَةُ غَيْرِهِ أَيْضًا فَكَيْفَ صَدَقَةُ نَفْسِهِ، وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَدْ أَخْبَرَ أَنَّ الْمُمْتَنِعَ مِنْ أَدَاءِ صَدَقَتِهِ فِي الْعُسْرِ وَالْيُسْرِ يُعَذَّبُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِي يَوْمٍ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ بِأَلْوَانِ عَذَابٍ قَدْ ذَكَرْنَاهَا فِي مَوْضِعِهَا فِي هَذَا الْكِتَابِ، فَكَيْفَ يَكُونُ أَنْ يَتَأَوَّلَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَتْرُكَ لِعَمِّهِ صِنْوِ أَبِيهِ صَدَقَةً قَدْ وَجَبَتْ عَلَيْهِ لأَهْلِ سُهْمَانِ الصَّدَقَةِ أَوْ يُبِيحُ لَهُ تَرْكَ أَدَائِهَا وَإِيصَالِهَا إِلَى مُسْتَحِقِّيهَا هَذَا مَا لا يَتَوَهَّمُهُ عِنْدِي عَالِمٌ، وَالصَّحِيحُ فِي هَذِهِ اللَّفْظَةِ قَوْلُهُ: فَهِيَ لَهُ، وَقَوْلُهُ فَهِيَ عَلَيَّ، وَمِثْلُهَا مَعَهَا أَيْ إِنِّي قَدِ اسْتَعْجَلْتُ مِنْهُ صَدَقَةَ عَامَيْنِ، فَهَذِهِ الصَّدَقَةُ الَّتِي أُمِرْتُ بِقَبْضِهَا مِنَ النَّاسِ هِيَ لِلْعَبَّاسِ عَلَيَّ وَمِثْلُهَا مَعَهَا أَيْ صَدَقَةٌ ثَانِيَةٌ عَلَى مَا رَوَى الْحَجَّاجُ بْنُ دِينَارٍ، وَإِنْ كَانَ فِي الْقَلْبِ مِنْهُ عَنِ الْحَكَمِ عَنْ حُجَيَّةَ بْنِ عَدِيٍّ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ،" أَنَّ الْعَبَّاسَ بْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي تَعْجِيلِ صَدَقَتِهِ قَبْلَ أَنْ تَحِلَّ، فَرَخَّصَ لَهُ فِي ذَلِكَ"،
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو زکوٰۃ وصول کرنے کے لئے بھیجا۔ سیدنا عمررضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زکوٰۃ ادا کرنے کا حُکم دیا تو آپ سے عرض کیا گیا کہ ابن جمیل، خالد بن ولید اور سیدنا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہم نے زکوٰۃ ادا نہیں کی۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابن جمیل تو صرف اس لئے (زکوٰۃ ادا کرنا) ناپسند کرتا ہے کہ وہ فقیر تھا تو اللہ تعالیٰ نے اُسے غنی کردیا اور خالد بن ولید پر تم ظلم کرتے ہو (کہ اس سے زکوٰۃ طلب کرتے ہو) حالانکہ اس نے اپنی زرہیں اور غلام اللہ کے راستے میں وقف کر رکھے ہیں جبکہ سیدنا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ہیں۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ جناب ورقاء کی روایت میں ہے۔ رہے سیدنا عباس رضی اللہ عنہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ہیں تو ان کی زکوٰۃ دو گنا میرے ذمے ہے۔ اور جناب موسیٰ بن عقبہ کی روایت میں ہے کہ رہے عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ تو ان کی زکوٰۃ ان کے لئے ہے اور اس کی مثل مزید بھی۔ جناب شعیب بن ابی حمزہ کی روایت میں ہے کہ رہے عباس بن عبدالمطلب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا تو ان کی زکوٰۃ ان پر صدقہ ہے اور اس کے ساتھ اتنی مقدار اور بھی صدقہ ہے۔ چنانچہ جناب موسیٰ بن عقبہ کی یہ روایت کہ تو ان کی زکوٰۃ انہی کے لئے ہے اور اس کی مثل اور بھی۔ تو ممکن ہے اس کا معنی وہی ہو جو ورقاء کی روایت میں ہے کہ ان کی زکوٰۃ میرے ذمے ہے جبکہ جناب شعیب بن ابی حمزہ کی یہ روایت کہ ان کی زکوٰۃ ان پر صدقہ ہے تو اس کا معنی بھی یہی ہوسکتا ہے کہ ان کی زکوٰۃ میرے ذمے ہے۔ جیسا کہ میں نے اپنی کتابوں میں متعدد جگہوں پر بیان کیا ہے کہ عرب کہتے ہیں عَلَيْهِ (اس کے ذمے ہے) یعنی لَهُ (اس کے لئے ہے) اور عرب لوگ کہتے ہیں: وَلَهُ (اُس کے لئے ہے) یعنی عَلَيْهِ (اس کے ذمے ہے) (یعنی عَلٰی اور لَهُ ایک دوسرے کے معنوں میں مستعمل ہیں) جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے «‏‏‏‏أُولَٰئِكَ لَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ» ‏‏‏‏ [ سورة الرعد: 25 ] اس کا معنی ہے کہ ان پر لعنت ہے(لَهُمُ کا معنی عَلَیْھِمْ ہے) یہ بات ناممکن ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کو ان کے مال میں واجب ہونے والی زکوٰۃ معاف کردیں اور پھر دوبارہ واجب زکوٰۃ ان سے وصول نہ کریں۔ حالانکہ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ بنو ہاشم سے تعلق رکھتے ہیں جن پردیگر لوگوں کی زکوٰۃ حرام ہے تو پھر اُن پر اپنی ہی زکوٰۃ استعمال کرنا کیسے حلال ہوسکتا ہے؟ جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیان فرما چکے ہیں کہ تنگی اور خوشحالی میں زکوٰۃ ادانہ کرنے والے شخص کو قیامت کے دن پچاس ہزار سال والے دن میں طرح طرح کے عذاب ہوںگے۔ یہ بات ہم اسی کتاب میں بیان کرچکے ہیں۔ لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ اپنے چچا جو کہ باپ کی طرح ہوتا ہے، انہیں ان پر واجب زکوٰۃ معاف کر دیںگے حالانکہ وہ زکوٰۃ کے مستحقین کا حصّہ ہے یا آپ کیسے ان کے لئے زکوٰۃ ادا نہ کرنا حلال قرار دیںگے۔ میرے خیا ل میں کوئی بھی عالم دین اس کا گمان بھی نہیں کرسکتا۔ اس لئے روایت کے صحیح الفاظ یہ ہوںگے کہ زکوٰۃ ان کے لئے ہے یا ان کی زکوٰۃ دگنی میرے ذمے ہے کا معنی یہ ہے کہ میں نے عباس سے دو سال کی پیشگی زکوٰۃ وصول کرلی تھی اس لئے اب جو زکوٰۃ لوگوں کے مالوں میں واجب قراردی گئی ہے وہ عباس کی زکوٰۃ میرے ذمے ہے اور دوسری بار بھی میرے ذمے ہے۔ جیسا کہ حجاج بن دینار کی روایت میں ہے اگرچہ مجھے اس کی روایت میں تردد ہے۔ وہ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ سیدنا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وقت سے پہلے زکوٰۃ ادا کرنے کی اجازت طلب کی تو آپ نے انہیں رخصت دے دی۔

تخریج الحدیث: صحيح بخاري


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.