سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”جس کھیتی کو بارش سیراب کرتی ہے اس میں دسواں حصّہ زکوٰۃ ہے اور جو رہٹ یا اونٹوں کے ذریعے سے سیراب کی جاتی ہے اس میں بیسواں حصّہ زکوٰۃ ہے۔“
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ زمینیں جو بارش یا چشمے سے سیراب ہوتی ہیں یا وہ بغیر سیراب کیے پیداوار دیتی ہوں تو اس میں دسواں حصّہ زکوٰۃ ہے اور جس کھیتی کو ڈول (کنویں) سے سیراب کیا جاتا ہو اس میں بیسواں حصّہ زکوٰۃ ہے۔“ امام شافعی رحمه الله فرماتے ہیں: عَثِرَيُّ سے مراد بَعْلُ ہے۔ امام اصمعی رحمه الله کہتے ہیں کہ بَعْلُ سے مراد وہ کھیتی ہے جو اپنی جڑوں کے ذریعے سے پانی حاصل کرلیتی ہے اور اسے باقاعدہ سیراب نہیں کیا جاتا۔
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو زمین بارشوں اور نہروں سے سیراب کی جائے اس میں دسواں حصّہ زکوٰۃ ہے اور جو کنویں سے ڈول کے ذریعے سے سیراب ہو اس میں بیسواں حصّہ زکوٰۃ واجب ہے۔“ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ یونس نے ہم سے کہا کہ ابو زبیر نے ان سے بیان کیا کہ عیسیٰ نے ابراہیم سے الغیم (بارش) کا لفظ بیان نہیں کیا۔
1602. ایک وسق کی مقدار کا بیان بشرطیکہ یہ روایت صحیح ہو، اس روایت میں مذکور اس کی مقدار کی وجہ سے علماء کرام میں اس کی مقدار کے متعلق کوئی اختلاف نہیں ہے لیکن میرے خیال میں ابوالبختری نے سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ سے روایت نہیں سنی ہے
ولا خلاف بين العلماء في مبلغه على ما روي في هذا الخبر إلا ان ابا البختري لا احسبه سمع من ابي سعيد وَلَا خِلَافَ بَيْنَ الْعُلَمَاءِ فِي مَبْلَغِهِ عَلَى مَا رُوِيَ فِي هَذَا الْخَبَرِ إِلَّا أَنَّ أَبَا الْبَخْتَرِيِّ لَا أَحْسَبُهُ سَمِعَ مِنْ أَبِي سَعِيدٍ
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ مرفوعاً روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پانچ وسق سے کم میں زکوٰۃ نہیں ہے اور ایک وسق ساٹھ صاع ہوتا ہے۔“ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ مختوم سے مراد صاع ہے۔ علمائے کرام کا اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ ایک وسق ساٹھ صاع ہوتا ہے اور میں کتاب الایمان والنذور میں قسم کے کفارے کے بیان میں صاع کی مقدار بیان کرچکا ہوں۔
سیدنا سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ کچھ لوگ اپنے خراب اور ردی پھل (مسجد نبوی میں) لٹکا دیتے تھے تو اللہ عزوجل نے یہ آیت نازل کی «وَلَا تَيَمَّمُوا الْخَبِيثَ مِنْهُ تُنفِقُونَ وَلَسْتُم بِآخِذِيهِ إِلَّا أَن تُغْمِضُوا فِيهِ» ”اور تم ردی اور خراب چیزیں (اللہ کی راہ میں) خرچ کرنے کا ارادہ مت کرو حالانکہ تم تو انہیں لینا بھی پسند نہیں کرتے الاّیہ کہ تم ان کے بارے میں چشم پوشی کرو۔“[ سورة البقرة: 267 ] تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (زکوٰۃ اور صدقے میں) کھجور کی دو قسمیں جعروراور حبیق دینے سے منع کر دیا (کیونکہ یہ ردی اقسام ہیں)۔
سیدنا سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد «وَلَا تَيَمَّمُوا الْخَبِيثَ مِنْهُ تُنفِقُونَ» [ سورة البقرة: 267 ] کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ وہ کھجور کی جعرور اور حبیق قسمیں ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں زکوٰۃ میں وصول کرنے سے منع فرما دیا۔
سیدنا سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زکوٰۃ کا حُکم دیا تو ایک شخص کھجور کے چند ایسے خوشے لایا جن کی گٹھلیاں کچی اور نرم تھیں۔ امام سفیان کہتے ہیں، یعنی شیص (پلپلی کھجوریں) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”یہ (نکمّی اور ردی کھجوریں) کون لایا ہے؟“ اور جو شخص جو چیز لیکرآتا تھا اس کی نسبت اس کی طرف کی جاتی تھی اور یہ آیت نازل ہوئی «وَلَا تَيَمَّمُوا الْخَبِيثَ مِنْهُ تُنفِقُونَ» [ سورة البقرة: 267 ] اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زکوٰۃ میں جعرور اور حبیق قسم کی کھجور یں وصول کرنے سے منع کردیا۔ امام زہری فرماتے ہیں کہ جعرور اور حبیق مدینہ منوّرہ کی کھجوروں کی دو قسمیں ہیں۔
سیدنا ابوحمید الساعدی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تبوک والے سال (جنگ تبوک کے لئے) نکلے حتّیٰ کہ ہم وادی القریٰ میں پہنچے تو ہم نے ایک عورت کو اس کے باغ میں کھڑے دیکھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام سے کہا: ”(اس باغ میں موجود پھل کا) اندزاہ لگاؤ۔“ تو صحابہ کرام نے اپنا اپنا اندازہ بیان کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا تخمینہ دس وسق لگایا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کو حُکم دیا کہ اس باغ سے جتنی کھجوریں حاصل ہوں اُنہیں شمار کرکے رکھنا حتّیٰ کہ میں تمہارے پاس لوٹ کرآؤں۔ ان شاء اللہ۔“(تومجھے بتانا) پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تبوک کی طرف تشریف لے گئے پھر آپ واپس آئے تو ہم بھی آپ کے ساتھ واپس پلٹے۔ حتّیٰ کہ ہم وادی القریٰ میں پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت سے پوچھا: ”تمہارے باغ سے کتنی کھجوریں حاصل ہوئیں؟“ اُس نے عرض کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تخمینے کے مطابق دس وسق کھجوریں حاصل ہوئی ہیں۔