سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان المبارک کے آخری عشرے میں اعتکاف کیا کرتے تھے۔ ایک سال آپ اعتکاف نہ کرسکے، پھر جب اگلا سال آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیس دن کا اعتکاف کیا۔
1541. جس شخص نے شرک کی حالت میں اعتکاف کرنے کی نذر مانی ہو پھر وہ نذر پوری کرنے سے پہلے مسلمان ہو جائے تو اُسے نذر پوری کرنے کے حُکم کا بیان۔ اور رمضان المبارک کے عشرے میں ایک رات کا اعتکاف بھی جائز ہے۔
جناب نافع بیان کرتے ہیں کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جعرانہ مقام سے عمرہ کرنے کا تذکرہ کیا گیا تو اُنہوں نے فرمایا کہ آپ نے جعرانہ سے کوئی عمرہ نہیں کیا۔ اُنہوں نے فرمایا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ پر زمانہ جاہلیت کی ایک رات کے اعتکاف کی نذر تھی تو اُنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے (یہ نذر پوری کرنے کے بارے میں) پوچھا۔ تو آپ نے اُنہیں یہ نذر پوری کرنے کا حُکم دیا تو وہ اُس رات مسجد میں داخل ہوئے۔ پھر مکمّل حدیث بیان کی۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ میں کتاب الجہاد میں فتح حنین کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مکّہ مکرّمہ واپسی کا وقت بیان کرچکا ہوں اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اُس رات کا اعتکاف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی واپسی اور آپ کے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو حنین کے قیدیوں میں سے ایک لونڈی عطا کرنے کے بعد کیا تھا۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ذمہ جاہلیت میں مانی ہوئی ایک رات کا اعتکاف کرنے کی نذر تھی۔ تو اُنہوں نے (اس بارے میں) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُنہیں اعتکاف کرنے کا حُکم دیا۔ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُنہیں حنین کے قیدیوں میں سے ایک لونڈی دی تھی۔ پس اس دوران کہ وہ مسجد حرام میں اعتکاف کے لئے بیٹھے ہوئے تھے جب لوگ اللہ اکبر کہتے ہوئے مسجد حرام میں داخل ہوئے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے پو چھا کہ یہ کیا ہے؟ اُنہوں نے جواب دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حنین کے قیدی آزاد کر دیئے ہیں (اور لوگ خوشی سے نعرہ تکبیر بلند کر رہے ہیں) سیدنا عمررضی اللہ عنہ کہا کہ تو وہ لونڈی بھی آزاد کردو۔ حضرت نافع کی، سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے واسطے سے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی روایت کے ایک راوی نے یہ الفاظ بیان کیے ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ بیشک میں نے ایک دن اعتکاف کرنے کی نذر مانی تھی۔ اگر یہ الفاظ ثابت ہوجائیں تو یہ اسی قسم سے ہوں گے جسے میں بیان کرچکا ہوں کہ عرب لوگ کبھی دن بول کر رات سمیت دن مراد لیتے ہیں اور کبھی رات بول کردن سمیت رات مراد لیتے ہیں اور اس مسئلے کی دلیل اللہ کی کتاب سے ثابت ہوچکی ہے۔
سیدنا عروہ بن زبیر اور عمرہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا جب مسجد میں اعتکاف کرتیں پھر کسی ضرورت کے لئے اپنے گھر میں داخل ہوتیں تو چلتے چلتے مریض کی تیمار داری کرلیتیں۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں صرف کسی انسانی حاجت ہی کے لئے داخل ہوتے تھے اور آپ مسجد ہی سے اپنا سرمبارک میری طرف کر دیتے تو میں آپ کی کنگھی کر دیتی تھی۔
1543. صرف انسانی حاجت کے سوا معتکف شخص اپنے گھر میں داخل نہ ہو اور معتکف کے لئے اپنا سر مسجد سے باہر اپنی بیوی کی طرف نکالنا جائز ہے تاکہ وہ اسے دھودے اور کنگھی کردے۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں معتکف ہوتے تھے۔ پھر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا تشریف لاتیں تو آپ اپنا سر مبارک باہر نکالتے اور وہ آپ کی کنگھی کر دیتیں حالانکہ وہ حائضہ ہوتی تھیں۔
سیدہ صفیہ بنت حیی رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اعتکاف میں بیٹھے ہوئے تھے تو میں رات کے وقت آپ سے ملاقات کے لئے آئی اور آپ سے گفتگو بھی کی پھر میں واپس آنے کے لئے اُٹھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے رخصت کرنے کے لئے اُٹھے اور سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا کا گھر سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ کے محلے میں تھا۔ اس دوران دو انصاری صحابہ پاس سے گزرے، پھر جب اُنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو تیزی سے آگے بڑھ گئے۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم دونوں آرام وسکون سے جاؤ یہ صفیہ بنت حیی رضی اللہ عنہا ہیں تو دونوں نے کہا ”سُبْحَانَ اللَٰه“ اے اللہ کے رسول، (کیا ہم آپ کے بارے میں کسی بدگمانی کا تصور کرسکتے ہیں)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک شیطان انسانی جسم میں خون کی طرح دوڑتا ہے اور مجھے خدشہ ہوا کہ کہیں وہ تمہارے دل میں کوئی برا خیال نہ ڈال دے یا فرمایا: ”کوئی چیز نہ ڈال دے۔“
1546. اس بات کی دلیل کا بیان کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا صفیہ رضی اللہ عنہا کو اُن کے گھر کی طرف رخصت کرتے وقت، اُن کے ساتھ مسجد کے دروازے تک گئے تھے یہ نہیں کہ آپ مسجد سے نکل کر اُنہیں اُن کے گھر چھوڑکر آئے تھے
سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ بیان کرتی ہیں کہ وہ رمضان المبارک کے آخری عشرے میں مسجد میں نبی کریم کی زیارت کے لئے حاضر ہوئیں جبکہ آپ اعتکاف بیٹھے ہوئے تھے تو اُنہوں نے تھوڑی دیر آپ سے بات چیت کی پھر وہ واپس جانے کے لئے اُٹھ کھڑی ہوئیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اُنہیں رخصت کرنے کے لئے اُٹھے۔ حتّیٰ کہ جب وہ سیدہ اُم سلمہ رضی اللہ عنہا کے دروازے کے قریب مسجد کے دروازے پر پہنچی تو اُن کے پاس سے دو انصاری صحابی گزرے۔ پھر مکمّل حدیث بیان کی۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس رات کو گفتگو کیا کرتی تھی جبکہ آپ اعتکاف بیٹھے ہوتے تھے اور بعض اوقات راوی نے یہ الفاظ بیان کیے ہیں، وہ فرماتی ہیں کہ میں شب بیداری کرتی تھی۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ اس روایت کا میرے دل میں کوئی مقام ومرتبہ نہیں ہے۔ اور یہ منکر روایت ہے اور اگر میں نے معتکف شخص کے لئے رات کی گفتگو کے جواز کے لئے سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں سے استدلال نہ کیا ہوتا تو اس روایت کے لئے اپنی شرط کے مطابق باب نہ باندھتا۔ کیونکہ یہ روایت اُن روایات میں سے نہیں ہے کہ جن سے دلیل لینا جائز ہے مگر یہ کہ سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں اس سے کفایت ہے۔ سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا کی روایت صحیح ثابت ہے۔ اور اس میں یہ دلیل موجود ہے کہ بیوی اپنے خاوند سے رات کے وقت اس کے اعتکاف میں گفتگو کرسکتی ہے اور یہی سمر (شب گوئی) ہے۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ جب آپ اعتکاف کرنا چاہتے تو آپ کا بستر یا آپ کی چار پائی توبہ کے ستون کے پیچھے بچھا دی جاتی۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ توبہ کا ستون وہ ہے جس کے ساتھ سیدنا ابوالبابہ بن عبدالمنذر رضی اللہ عنہ نے خود کو باندھ لیا تھا اور وہ قبلہ شریف کی مخالف سمت میں ہے۔