صحيح ابن خزيمه کل احادیث 3080 :حدیث نمبر
صحيح ابن خزيمه
نفل نماز کے متعلق غیر مذکور احادیث کے ابواب کا مجموعہ
762. (529) بَابُ الْأَمْرِ بِصَلَاةِ التَّطَوُّعِ فِي الْبُيُوتِ
762. گھروں میں نفل نماز پڑھنے کے حُکم کا بیان،
حدیث نمبر: Q1205
Save to word اعراب
والنهي عن اتخاذ البيوت قبورا فيتحامى الصلاة فيهن وهذا الخبر دال على الزجر عن الصلاة في المقابر وَالنَّهْيِ عَنِ اتِّخَاذِ الْبُيُوتِ قُبُورًا فَيَتَحَامَى الصَّلَاةَ فِيهِنَّ وَهَذَا الْخَبَرُ دَالٌّ عَلَى الزَّجْرِ عَنِ الصَّلَاةِ فِي الْمَقَابِرِ
اور گھروں کو قبرستان بنانے کی ممانعت کہ ان میں نماز ہی نہ پڑھی جائے اور یہ حدیث قبرستان میں نماز پڑھنے کی ممانعت کی دلیل ہے

تخریج الحدیث:
حدیث نمبر: 1205
Save to word اعراب
حدثنا بندار ، نا يحيى بن سعيد ، حدثنا عبيد الله ، اخبرني نافع ، عن ابن عمر ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " اجعلوا من صلاتكم في بيوتكم، ولا تتخذوها قبورا" حَدَّثَنَا بُنْدَارٌ ، نَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ ، أَخْبَرَنِي نَافِعٌ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " اجْعَلُوا مِنْ صَلاتِكُمْ فِي بُيُوتِكُمْ، وَلا تَتَّخِذُوهَا قُبُورًا"
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنی نمازوں کا کچھ حصّہ اپنے گھروں میں پڑھا کرو اور انہیں قبرستان نہ بناؤ۔

تخریج الحدیث: صحيح بخاري
763. (530) بَابُ ذِكْرِ الدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا أَمَرَ بِأَنْ يُجْعَلَ بَعْضُ صَلَاةِ التَّطَوُّعِ فِي الْبُيُوتِ لَا كُلُّهَا؛
763. اس بات کی دلیل کا بیان کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے گھروں میں بعض نفلی نمازوں کے پڑھنے کا حُکم دیا ہے۔ ساری نفلی نماز کا حُکم نہیں دیا
حدیث نمبر: Q1206
Save to word اعراب
«إذ الله جل وعلا يجعل في بيت المصلي من صلاته خيرا»  خبر ابن عمر: «اجعلوا من صلاتكم في بيوتكم»  دال على انه إنما امر بان يجعل بعض الصلاة في البيوت لا كلها«إِذِ اللَّهُ جَلَّ وَعَلَا يَجْعَلُ فِي بَيْتِ الْمُصَلِّي مِنْ صَلَاتِهِ خَيْرًا»  خَبَرُ ابْنِ عُمَرَ: «اجْعَلُوا مِنْ صَلَاتِكُمْ فِي بُيُوتِكُمْ»  دَالٌّ عَلَى أَنَّهُ إِنَّمَا أَمَرَ بِأَنْ يَجْعَلَ بَعْضَ الصَّلَاةِ فِي الْبُيُوتِ لَا كُلَّهَا

تخریج الحدیث:
حدیث نمبر: 1206
Save to word اعراب
حدثنا ابو موسى ، نا عبد الرحمن ، عن سفيان ، عن الاعمش ، عن ابي سفيان ، عن جابر ، عن ابي سعيد الخدري : عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " إذا قضى احدكم صلاته في المسجد فليجعل لبيته نصيبا من صلاته ؛ فإن الله جاعل في بيته من صلاته خيرا" . روى هذا الخبر ابو خالد الاحمر، وابو معاوية، وعبدة بن سليمان، وغيرهم عن الاعمش، عن ابي سفيان، عن جابر، لم يذكروا ابا سعيد، ثناه ابو كريب ، نا ابو خالد ، عن الاعمش ، ح وحدثنا احمد بن منيع ، نا ابو معاوية ، ح وحدثنا زياد بن ايوب ، نا ابو معاوية ، وعبدة بن سليمان ، قالا: حدثنا الاعمش حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى ، نَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ ، عَنِ جَابِرٍ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ : عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِذَا قَضَى أَحَدُكُمْ صَلاتَهُ فِي الْمَسْجِدِ فَلْيَجْعَلْ لِبَيْتِهِ نَصِيبًا مِنْ صَلاتِهِ ؛ فَإِنَّ اللَّهَ جَاعِلٌ فِي بَيْتِهِ مِنْ صَلاتِهِ خَيْرًا" . رَوَى هَذَا الْخَبَرَ أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ، وَأَبُو مُعَاوِيَةَ، وَعَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، وَغَيْرُهُمْ عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ جَابِرٍ، لَمْ يَذْكُرُوا أَبَا سَعِيدٍ، ثَنَاهُ أَبُو كُرَيْبٍ ، نَا أَبُو خَالِدٍ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، ح وَحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ ، نَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، ح وَحَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ ، نَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، وَعَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، قَالا: حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی شخص مسجد میں اپنی نماز پڑھ لے تو اُسے چاہیے کہ وہ اپنی نماز سے اپنے گھر کا حصّہ بھی رکھے۔ پس بیشک اللہ تعالیٰ اس کی نماز کے باعث اس کے گھر میں خیر و برکت کر دیتا ہے۔ یہ روایت ابوخالد احمر، ابومعاویہ اور عبدہ بن سلیمان وغیرہ نے اپنی اپنی اسانید کے ساتھ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے بیان کی ہے اور اُنہوں نے سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ کا ذکر نہیں کیا۔

تخریج الحدیث: اسناده صحيح
764. (531) بَابُ الْأَمْرِ بِإِكْرَامِ الْبُيُوتِ بِبَعْضِ الصَّلَاةِ فِيهَا
764. گھروں میں کچھ نماز پڑھ کر انہیں عزت و شرف دینے کے حُکم کا بیان
حدیث نمبر: 1207
Save to word اعراب
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنی کچھ نماز کے ساتھ اپنے گھروں کو عزت و شرف دو۔

تخریج الحدیث: اسناده ضعيف
765. (532) بَابُ فَضْلِ صَلَاةِ التَّطَوُّعِ فِي عَقِبِ كُلِّ وُضُوءٍ يَتَوَضَّؤُهُ الْمُحْدِثُ
765. بے وضو ہونے والے شخص کے ہر وضو کے بعد نفل نماز پڑھنے کی فضیلت کا بیان
حدیث نمبر: 1208
Save to word اعراب
حدثنا يعقوب بن إبراهيم الدورقي ، وموسى بن عبد الرحمن المسروقي ، قالا: حدثنا ابو اسامة ، عن ابي حيان ، وقال الدورقي: قال: ثنا ابو حيان، ح وحدثنا عبدة بن عبد الله الخزاعي ، اخبرنا محمد يعني ابن بشر ، حدثنا ابو حيان ، نا ابو زرعة ، عن ابي هريرة ، قال: قال نبي الله صلى الله عليه وسلم لبلال عند صلاة الفجر:" يا بلال! حدثني بارجى عمل عملته عندك منفعة في الإسلام، فإني قد سمعت الليلة خشف نعليك بين يدي في الجنة"، فقال: ما عملت يا رسول الله في الإسلام عندي عملا ارجى منفعة من اني لم اتطهر طهورا تاما قط في ساعة من ليل او نهار إلا صليت بذلك الطهور لربي ما كتب لي ان اصلي حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدَّوْرَقِيُّ ، وَمُوسَى بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمَسْرُوقِيُّ ، قَالا: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ أَبِي حَيَّانَ ، وَقَالَ الدَّوْرَقِيُّ: قَالَ: ثنا أَبُو حَيَّانَ، ح وَحَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْخُزَاعِيُّ ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدٌ يَعْنِي ابْنَ بِشْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو حَيَّانَ ، نَا أَبُو زُرْعَةَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِبِلالٍ عِنْدَ صَلاةِ الْفَجْرِ:" يَا بِلالُ! حَدِّثْنِي بِأَرْجَى عَمَلٍ عَمِلْتَهُ عِنْدَكَ مَنْفَعَةً فِي الإِسْلامِ، فَإِنِّي قَدْ سَمِعْتُ اللَّيْلَةَ خَشْفَ نَعْلَيْكَ بَيْنَ يَدَيَّ فِي الْجَنَّةِ"، فَقَالَ: مَا عَمِلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ فِي الإِسْلامِ عِنْدِي عَمَلا أَرْجَى مَنْفَعَةً مِنْ أَنِّي لَمْ أَتَطَهَّرْ طَهُورًا تَامًّا قَطُّ فِي سَاعَةٍ مِنْ لَيْلٍ أَوْ نَهَارٍ إِلا صَلَّيْتُ بِذَلِكَ الطَّهُورِ لِرَبِّي مَا كَتَبَ لِي أَنْ أُصَلِّيَ
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کو نماز فجر کے وقت فرمایا: اے بلال مجھے اپنا وہ عمل بتاؤ جو تمہارے نزدیک اسلام لانے کے بعد سب سے زیادہ نفع کی امید والا ہے۔ بیشک میں نے آج رات جنّت میں تیرے جُوتوں کی آہٹ اپنے آگے سنی ہے۔ تو اُنہوں نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول، میرے نزدیک میں نے اسلام لانے کے بعد اس سے زیادہ نفع اور اجر و ثواب کی امید والا کوئی عمل نہیں کیا کہ میں نے رات یا دن کی جس گھڑی میں بھی مکمّل وضو کیا تو میں نے اس وضو کے ساتھ اپنے رب کی رضا کے لئے نفل نماز پڑھی جتنی اُس نے میرے مقدر میں پڑھنی لکھی تھی۔

تخریج الحدیث: صحيح بخاري
766. (533) بَابُ اسْتِحْبَابِ الصَّلَاةِ عِنْدَ الذَّنْبِ يُحْدِثُهُ الْمَرْءُ لِتَكُونَ تِلْكَ الصَّلَاةُ كَفَّارَةً لِمَا أَحْدَثَ مِنَ الذَّنْبِ
766. آدمی سے گناہ سرزد ہونے کے بعد نماز پڑھنا مستحب ہے تا کہ وہ نماز اس گناہ کا کفارہ بن جائے
حدیث نمبر: 1209
Save to word اعراب
حدثنا يعقوب بن إبراهيم الدورقي ، حدثنا علي بن الحسن بن شقيق ، اخبرنا الحسين بن واقد ، حدثنا عبد الله بن بريدة ، عن ابيه ، قال: اصبح رسول الله صلى الله عليه وسلم يوما فدعا بلالا، فقال:" يا بلال! بم سبقتني إلى الجنة، إني دخلت البارحة الجنة فسمعت خشخشتك امامي"، فقال بلال: يا رسول الله، ما اذنبت قط إلا صليت ركعتين، وما اصابني حدث قط إلا توضات عندها، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" بهذا" حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدَّوْرَقِيُّ ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ شَقِيقٍ ، أَخْبَرَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ وَاقِدٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بُرَيْدَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: أَصْبَحَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا فَدَعَا بِلالا، فَقَالَ:" يَا بِلالُ! بِمَ سَبَقْتَنِي إِلَى الْجَنَّةِ، إِنِّي دَخَلْتُ الْبَارِحَةَ الْجَنَّةَ فَسَمِعْتُ خَشْخَشَتَكَ أَمَامِي"، فَقَالَ بِلالٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا أَذْنَبْتُ قَطُّ إِلا صَلَّيْتُ رَكْعَتَيْنِ، وَمَا أَصَابَنِي حَدَثٌ قَطُّ إِلا تَوَضَّأْتُ عِنْدَهَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" بِهَذَا"
سیدنا بریدہ رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک روز رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی تو سیدنا بلال رضی اﷲ عنہ کو بلا کر فرمایا: اے بلال، کس عمل کی وجہ سے تم جنّت میں مجھ سے سبقت لے گئے ہو؟ بیشک میں گزشتہ رات جنّت میں داخل ہوا تو میں نے تمہارے چلنے کی آواز اپنے آگے آگے سنی۔ تو سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول، میں نے جب بھی کوئی گناہ کیا تو میں نے دو رکعات ادا کیں، اور جب بھی میرا وضو ٹوٹ جاتا ہے تو میں اسی وقت وضو کر لیتا ہوں۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسی عمل کی وجہ سے (تم سبقت لے گئے ہو)۔

تخریج الحدیث: اسناده صحيح
767. (534) بَابُ التَّسْلِيمِ فِي كُلِّ رَكْعَتَيْنِ مِنْ صَلَاةِ التَّطَوُّعِ صَلَاةِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ جَمِيعًا
767. دن اور رات کی ہر نفل نماز میں دو رکعت کے بعد سلام پھیرنے کا بیان
حدیث نمبر: 1210
Save to word اعراب
حدثنا محمد بن بشار ، حدثنا محمد ، وعبد الرحمن ، نا شعبة ، عن يعلى وهو ابن عطاء ، انه سمع عليا الازدي ، انه سمع ابن عمر يحدث: عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " صلاة الليل والنهار مثنى مثنى" . حدثنا محمد بن الوليد ، حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن يعلى بن عطاء ، عن علي الازدي ، عن ابن عمر ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، بمثلهحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ ، نَا شُعْبَةُ ، عَنْ يَعْلَى وَهُوَ ابْنُ عَطَاءٍ ، أَنَّهُ سَمِعَ عَلِيًّا الأَزْدِيَّ ، أَنَّهُ سَمِعَ ابْنَ عُمَرَ يُحَدِّثُ: عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " صَلاةُ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ مَثْنَى مَثْنَى" . حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْوَلِيدِ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ يَعْلَى بْنِ عَطَاءٍ ، عَنْ عَلِيٍّ الأَزْدِيِّ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بِمِثْلِهِ
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رات اور دن کی (نفل) نماز دو دو رکعات ہیں۔

تخریج الحدیث: اسناده صحيح
768. (535) بَابُ ذِكْرِ الْأَخْبَارِ الْمَنْصُوصَةِ وَالدَّالَّةِ عَلَى خِلَافِ قَوْلِ مَنْ زَعَمَ أَنَّ تَطَوُّعَ النَّهَارِ أَرْبَعًا لَا مَثْنَى
768. ان روایات کا بیان جو اس شخص کے دعوے کے خلاف صریح نص اور دلیل ہیں جو کہتا ہے کہ دن کی نفل نماز چار رکعات ہے، دو دو نہیں
حدیث نمبر: 1210M1
Save to word اعراب
في خبر النبي صلى الله عليه وسلم: «إذا دخل احدكم المسجد، فليصل ركعتين قبل ان يجلس»  ، وفي اخبار النبي صلى الله عليه وسلم: «إذا دخل احدكم المسجد، والإمام يخطب فليصل ركعتين قبل ان يجلس»  وفي خبر كعب بن مالك: ان النبي صلى الله عليه وسلم كان لا يقدم من سفر إلا نهارا ضحى، فيبدا بالمسجد، فيصلي فيه ركعتين وفي قوله لجابر لما اتاه بالبعير ليسلمه إليه: «اصليت؟»  قال: لا قال: «قم فصل ركعتين»  وفي خبر ابن عباس: «من يصلي ركعتين لا يحدث نفسه فيهما بشيء، وله عبد او فرس»  وبصلاة النبي صلى الله عليه وسلم ركعتين في الاستسقاء نهارا لا ليلا وفي خبر ابن عمر: حفظت من النبي صلى الله عليه وسلم ركعتين قبل الظهر، وركعتين بعدها، وركعتين بعد المغرب، وركعتين بعد العشاء، وحدثتني حفصة بركعتين قبل صلاة الغداة وفي خبر علي بن ابي طالب: كان النبي صلى الله عليه وسلم يصلي على اثر كل صلاة ركعتين إلا الفجر، والعصر وفي خبر بلال: ما اذنبت قط إلا صليت ركعتين ⦗٢١٦⦘ وفي خبر ابي بكر الصديق: «ما من عبد يذنب ذنبا، فيتوضا، ثم يصلي ركعتين، ثم يستغفر الله إلا غفر له»  وفي خبر انس بن مالك: «كان النبي صلى الله عليه وسلم لا ينزل منزلا إلا ودعه بركعتين»  وفي خبر عائشة: «كان النبي صلى الله عليه وسلم يصلي قبل الظهر اربعا، ثم يرجع إلى بيتي، فيصلي ركعتين»  وفي خبر سعد بن ابي وقاص: «اقبل رسول الله صلى الله عليه وسلم، ذات يوم من العالية، حتى إذا مر مسجد بني معاوية دخل فركع فيه ركعتين وصلينا معه»  وفي خبر محمود بن الربيع، عن عتبان بن مالك: «ان النبي صلى الله عليه وسلم صلى في بيته سبحة الضحى ركعتين»  وفي خبر ابي هريرة: " اوصاني خليلي بثلاث، وفيه: ركعتي الضحى" وفي خبر عبد الله بن شقيق، عن عائشة: «ما رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي الضحى قط إلا ان يقدم من سفر، فيصلي ركعتين»  ⦗٢١٧⦘ وفي خبر ابي ذر: يصبح على كل سلامى من بني آدم صدقة، وقال في الخبر: ويجزي من ذلك ركعتا الضحى " وفي خبر ابي هريرة: «من حافظ على شفعتي الضحى، غفرت ذنوبه، ولو كانت مثل زبد البحر»  وفي خبر انس بن سيرين، عن انس بن مالك: " ان النبي صلى الله عليه وسلم دخل على اهل بيت من الانصار، فقالوا: يا رسول الله لو دعوت، فامر بناحية بيتهم، فنضح، وفيه بساط، فقام فصلي ركعتين " قال ابو بكر:" ففي كل هذه الاخبار كلها دلالة على ان التطوع بالنهار مثنى مثنى لا اربعا كما زعم من لم يتدبر هذه الاخبار، ولم يطلبها، فيسمعها ممن يفهمها. فاما خبر عائشة الذي ذكرنا ان النبي صلى الله عليه وسلم صلى قبل الظهر اربعا، فليس في الخبر انه صلاهن بتسليمة واحدة، وابن عمر، قد اخبر انه صلى قبل الظهر ركعتين، ولو كانت صلاة النهار اربعا لا ركعتين، لما جاز للمرء ان يصلي بعد الظهر ركعتين، وكان عليه ان يضيف إلى الركعتين اخريين لتتم اربعا، وكان عليه ان يصلي قبل صلاة الغداة اربعا؛ لانه من صلاة النهار لا من صلاة الليل، ولم نسمع خبرا عن النبي صلى الله عليه وسلم ثابتا من جهة النقل انه صلى بالنهار اربعا بتسليمة واحدة صلاة تطوع، فإن خيل إلى بعض من لم ينعم الروية ان خبر عبد الله بن شقيق، عن عائشة: ان النبي صلى الله عليه وسلم صلى قبل الظهر اربعا بتسليمة واحدة، إذ ذكرت اربعا في الخبر، قيل له: فقد روى سعيد المقبري، عن ابي سلمة، عن عائشة في ذكرها صلاة النبي صلى الله عليه وسلم بالليل، فقالت: كان يصلي اربعا، فلا تسال عن حسنهن وطولهن، ثم يصلي اربعا، فهذه اللفظة في صلاة الليل كاللفظة التي ذكرها عبد الله بن شقيق عنها في الاربع قبل الظهر، افيجوز ان يتاول متاول ان النبي صلى الله عليه وسلم كان يصلي الاربعات بالليل، كل اربع ركعات منها بتسليمة واحدة، وهم لا يخالفونا ان صلاة الليل مثنى مثنى خلا الوتر، فمعنى خبر ابي سلمة، عن عائشة عندهم كخبر عبد الله بن شقيق عنها عندنا ان النبي صلى الله عليه وسلم صلى الاربع بتسليمتين لا بتسليمة واحدة. وفي خبر عاصم بن ضمرة، عن علي بن ابي طالب، كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا كانت الشمس من ههنا كهيئتها عند العصر صلى ركعتين، وإذا كانت من ههنا كهيئتها من ههنا عند الظهر صلى اربعا، ويصلي قبل الظهر اربعا، وبعدها ركعتين، وقبل العصر اربعا، ويفصل بين كل ركعتين بالتسليم على الملائكة المقربين، ومن تبعهم من المسلمين "فِي خَبَرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا دَخَلَ أَحَدُكُمُ الْمَسْجِدَ، فَلْيُصَلِّ رَكْعَتَيْنِ قَبْلَ أَنْ يَجْلِسَ»  ، وَفِي أَخْبَارِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا دَخَلَ أَحَدُكُمُ الْمَسْجِدَ، وَالْإِمَامُ يَخْطُبُ فَلْيُصَلِّ رَكْعَتَيْنِ قَبْلَ أَنْ يَجْلِسَ»  وَفِي خَبَرِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ لَا يَقْدَمُ مِنْ سَفَرٍ إِلَّا نَهَارًا ضُحًى، فَيَبْدَأُ بِالْمَسْجِدِ، فَيُصَلِّي فِيهِ رَكْعَتَيْنِ وَفِي قَوْلِهِ لِجَابِرٍ لَمَّا أَتَاهُ بِالْبَعِيرِ لِيُسَلِّمَهُ إِلَيْهِ: «أَصَلَّيْتَ؟»  قَالَ: لَا قَالَ: «قُمْ فَصَلِّ رَكْعَتَيْنِ»  وَفِي خَبَرِ ابْنِ عَبَّاسٍ: «مَنْ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ لَا يُحَدِّثُ نَفْسَهُ فِيهِمَا بِشَيْءٍ، وَلَهُ عَبْدٌ أَوْ فَرَسٌ»  وَبِصَلَاةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَكْعَتَيْنِ فِي الِاسْتِسْقَاءِ نَهَارًا لَا لَيْلًا وَفِي خَبَرِ ابْنِ عُمَرَ: حَفِظْتُ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَكْعَتَيْنِ قَبْلَ الظُّهْرِ، وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَهَا، وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْمَغْرِبِ، وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْعِشَاءِ، وَحَدَّثَتْنِي حَفْصَةُ بِرَكْعَتَيْنِ قَبْلَ صَلَاةِ الْغَدَاةِ وَفِي خَبَرِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي عَلَى أَثَرِ كُلِّ صَلَاةٍ رَكْعَتَيْنِ إِلَّا الْفَجْرَ، وَالْعَصْرَ وَفِي خَبَرِ بِلَالٍ: مَا أَذْنَبْتُ قَطُّ إِلَّا صَلَّيْتُ رَكْعَتَيْنِ ⦗٢١٦⦘ وَفِي خَبَرِ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ: «مَا مِنْ عَبْدٍ يُذْنِبُ ذَنْبًا، فَيَتَوَضَّأُ، ثُمَّ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنٍ، ثُمَّ يَسْتَغْفِرُ اللَّهَ إِلَّا غُفِرَ لَهُ»  وَفِي خَبَرِ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ: «كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَنْزِلُ مَنْزِلًا إِلَّا وَدَّعَهُ بِرَكْعَتَيْنِ»  وَفِي خَبَرِ عَائِشَةَ: «كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي قَبْلَ الظُّهْرِ أَرْبَعًا، ثُمَّ يَرْجِعُ إِلَى بَيْتِي، فَيُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ»  وَفِي خَبَرِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ: «أَقْبَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ذَاتَ يَوْمٍ مِنَ الْعَالِيَةِ، حَتَّى إِذَا مَرَّ مَسْجِدَ بَنِي مُعَاوِيَةَ دَخَلَ فَرَكَعَ فِيهِ رَكْعَتَيْنِ وَصَلَّيْنَا مَعَهُ»  وَفِي خَبَرِ مَحْمُودِ بْنِ الرَّبِيعِ، عَنْ عِتْبَانَ بْنِ مَالِكٍ: «أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى فِي بَيْتِهِ سُبْحَةَ الضُّحَى رَكْعَتَيْنٍ»  وَفِي خَبَرِ أَبِي هُرَيْرَةَ: " أَوْصَانِي خَلِيلِي بِثَلَاثٍ، وَفِيهِ: رَكْعَتَيِ الضُّحَى" وَفِي خَبَرِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ، عَنْ عَائِشَةَ: «مَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي الضُّحَى قَطُّ إِلَّا أَنْ يَقْدَمَ مِنْ سَفَرٍ، فَيُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ»  ⦗٢١٧⦘ وَفِي خَبَرِ أَبِي ذَرٍّ: يُصْبِحُ عَلَى كُلِّ سُلَامَى مِنْ بَنِي آدَمَ صَدَقَةٌ، وَقَالَ فِي الْخَبَرِ: وَيُجْزِي مِنْ ذَلِكَ رَكْعَتَا الضُّحَى " وَفِي خَبَرِ أَبِي هُرَيْرَةَ: «مَنْ حَافَظَ عَلَى شُفْعَتَيِ الضُّحَى، غُفِرَتْ ذُنُوبُهُ، وَلَوْ كَانَتْ مِثْلَ زَبَدِ الْبَحْرِ»  وَفِي خَبَرِ أَنَسِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ: " أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَى أَهْلِ بَيْتِ مِنَ الْأَنْصَارِ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ لَوْ دَعَوْتَ، فَأَمَرَ بِنَاحِيَةِ بَيْتِهِمْ، فَنُضِحَ، وَفِيهِ بِسَاطٌ، فَقَامَ فَصَلِّي رَكْعَتَيْنِ " قَالَ أَبُو بَكْرٍ:" فَفِي كُلِّ هَذِهِ الْأَخْبَارِ كُلِّهَا دَلَالَةٌ عَلَى أَنَّ التَّطَوُّعَ بِالنَّهَارِ مَثْنَى مَثْنَى لَا أَرْبَعًا كَمَا زَعَمَ مَنْ لَمْ يَتَدَبَّرْ هَذِهِ الْأَخْبَارَ، وَلَمْ يَطْلُبْهَا، فَيَسْمَعْهَا مِمَّنْ يَفْهَمُهَا. فَأَمَّا خَبَرُ عَائِشَةَ الَّذِي ذَكَرْنَا أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى قَبْلَ الظُّهْرِ أَرْبَعًا، فَلَيْسَ فِي الْخَبَرِ أَنَّهُ صَلَّاهُنَّ بِتَسْلِيمَةٍ وَاحِدَةٍ، وَابْنُ عُمَرَ، قَدْ أَخْبَرَ أَنَّهُ صَلَّى قَبْلَ الظُّهْرِ رَكْعَتَيْنِ، وَلَوْ كَانَتْ صَلَاةُ النَّهَارِ أَرْبَعًا لَا رَكْعَتَيْنِ، لَمَا جَازَ لِلْمَرْءِ أَنْ يُصَلِّيَ بَعْدَ الظُّهْرِ رَكْعَتَيْنِ، وَكَانَ عَلَيْهِ أَنْ يُضِيفَ إِلَى الرَّكْعَتَيْنِ أُخْرَيَيْنِ لِتَتِمَّ أَرْبَعًا، وَكَانَ عَلَيْهِ أَنْ يُصَلِّيَ قَبْلَ صَلَاةِ الْغَدَاةِ أَرْبَعًا؛ لِأَنَّهُ مِنْ صَلَاةِ النَّهَارِ لَا مِنْ صَلَاةِ اللَّيْلِ، وَلَمْ نَسْمَعْ خَبَرًا عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَابِتًا مِنْ جِهَةِ النَّقْلِ أَنَّهُ صَلَّى بِالنَّهَارِ أَرْبَعًا بِتَسْلِيمَةٍ وَاحِدَةٍ صَلَاةَ تَطَوُّعٍ، فَإِنْ خُيِّلَ إِلَى بَعْضِ مَنْ لَمْ يُنْعِمِ الرَّوِيَّةَ أَنَّ خَبَرَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ، عَنْ عَائِشَةَ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى قَبْلَ الظُّهْرِ أَرْبَعًا بِتَسْلِيمَةٍ وَاحِدَةٍ، إِذْ ذَكَرَتْ أَرْبَعًا فِي الْخَبَرِ، قِيلَ لَهُ: فَقَدْ رَوَى سَعِيدٌ الْمَقْبُرِيُّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عَائِشَةَ فِي ذِكْرِهَا صَلَاةَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِاللَّيْلِ، فَقَالَتْ: كَانَ يُصَلِّي أَرْبَعًا، فَلَا تَسْأَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ، ثُمَّ يُصَلِّي أَرْبَعًا، فَهَذِهِ اللَّفْظَةُ فِي صَلَاةِ اللَّيْلِ كَاللَّفْظَةِ الَّتِي ذَكَرَهَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ شَقِيقٍ عَنْهَا فِي الْأَرْبَعِ قَبْلَ الظُّهْرِ، أَفَيَجُوزُ أَنْ يَتَأَوَّلَ مُتَأَوِّلٌ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُصَلِّي الْأَرْبَعَاتِ بِاللَّيْلِ، كُلَّ أَرْبَعِ رَكَعَاتٍ مِنْهَا بِتَسْلِيمَةٍ وَاحِدَةٍ، وَهُمْ لَا يُخَالِفُونَا أَنَّ صَلَاةَ اللَّيْلِ مَثْنَى مَثْنَى خَلَا الْوِتْرِ، فَمَعْنَى خَبَرِ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عَائِشَةَ عِنْدَهُمْ كَخَبَرِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ عَنْهَا عِنْدَنَا أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى الْأَرْبَعَ بَتَسْلِيمَتَيْنِ لَا بِتَسْلِيمَةٍ وَاحِدَةٍ. وَفِي خَبَرِ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا كَانَتِ الشَّمْسُ مِنْ هَهُنَا كَهَيْئَتِهَا عِنْدَ الْعَصْرِ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ، وَإِذَا كَانَتْ مِنْ هَهُنَا كَهَيْئَتِهَا مِنْ هَهُنَا عِنْدَ الظُّهْرِ صَلَّى أَرْبَعًا، وَيُصَلِّي قَبْلَ الظُّهْرِ أَرْبَعًا، وَبَعْدَهَا رَكْعَتَيْنِ، وَقَبْلَ الْعَصْرِ أَرْبَعًا، وَيَفْصِلُ بَيْنَ كُلِّ رَكْعَتَيْنِ بِالتَّسْلِيمِ عَلَى الْمَلَائِكَةِ الْمُقَرَّبِينَ، وَمَنْ تَبِعَهُمْ مِنَ الْمُسْلِمِينَ "
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک فرمان میں اس طرح مذکور ہے کہ جب تم میں سے کوئی شخص مسجد میں داخل ہو تو اسے بیٹھنے سے پہلے دو رکعات ادا کرنی چاہئیں۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی روایات میں یہ بھی ہے۔ کہ جب تم میں سے کوئی شخص مسجد میں داخل ہو جبکہ امام خطبہ دے رہا ہو تو اُسے بیٹھنے سے پہلے دو رکعات پڑھ لینی چاہیے۔ اور سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سفر سے واپس صرف دن میں چاشت کے وقت آتے تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلے مسجد میں تشریف لاتے اور اُس میں دو رکعات ادا کرتے۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ جب آپ کے پاس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اونٹ سپرد کرنے آئے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُنہیں فرمایا تھا: کیا تم نے (تحیتہ المسجد) نماز پڑھی؟ تو اُنہوں نے جواب دیا کہ نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کھڑے ہو جاؤ اور دو رکعات ادا کرو۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت میں ہے کہ جو شخص دو رکعات ادا کرے اور ان میں اپنے نفس سے گفتگو نہ کرے اور اس کا ایک غلام یا گھوڑا ہو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دن کے وقت دو رکعات نماز استسقاء ادا کرنا بھی اس کی دلیل ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ رکعات رات کو ادا نہیں کرتے تھے۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث میں ہے کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ظہر سے پہلے دو رکعات، اور اس کے بعد بھی دو رکعات، اور مغرب کے بعد دو رکعات اور عشاء کے بعد بھی دو رکعات یاد رکھی ہیں۔ اور مجھے سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا نے بتایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز سے پہلے بھی دو رکعات ادا کرتے تھے۔ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز فجر اور عصر کے علاوہ ہر فرض نماز کے بعد دو رکعات پڑھتے تھے۔ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ میں نے جب بھی کوئی گناہ کیا ہے میں نے دو رکعات ادا کیں۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ جو بندہ کوئی گناہ کرلے پھر وضو کرکے دو رکعات نماز پڑھے، پھر اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہ کی معافی مانگے تو اللہ تعالیٰ اُسے معاف فرما دیتا ہے۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کسی منزل پر پڑاؤ ڈالتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو رکعات پڑھ کر اُس کو چھوڑتے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ظہر سے پہلے چار رکعات ادا کرتے تھے پھر میرے گھر واپس تشریف لا کر دو رکعات ادا فرماتے۔ سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عالیہ سے تشریف لا رہے تھے، حتیٰ کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بنی معاویہ کی مسجد کے پاس سے گزرنے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُس میں داخل ہو گئے اور دو رکعات ادا کیں اور ہم نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی۔ حضرت محمود بن ربیع کی حضرت عتبان بن مالک کی روایت میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کے گھر چاشت کی دو رکعات ادا کیں۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ میرے خلیل نے مجھے تین کاموں کی وصیت فرمائی، اور اُس میں ہے کہ چاشت کی دو رکعات (پڑھا کرو) اور جناب عبداللہ بن شقیق کی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت میں ہے کہ وہ فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی چاشت کی نماز پڑھتے نہیں دیکھا، الّا یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سفر سے تشریف لاتے تو دو رکعات پڑھتے۔ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ بنی آدم کے ہر جوڑ پر صبح کے وقت صدقہ واجب ہوتا ہے۔ اور آگے فرمایا: اور چاشت کی دو رکعات اُس کے لئے کافی ہیں - سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ جس شخص نے چاشت کی دو رکعات کا اہتمام اور اس پر باقاعدگی کی اس کے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں اگرچہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہوں۔ جناب انس بن سیرین کی سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک انصاری کے گھر والوں کے پاس تشریف لے گئے، تو اُنہوں نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول، اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم دعا فرما دیں (تو ہمارے لئے خیر و برکت کا باعث ہوگی) چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھر کے ایک کونے کی صفائی کا حُکم دیا، (تو صاف کر دیا گیا) اور پانی چھڑک کی ایک چٹائی بچھا دی گئی، توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں کھڑے ہوکر دو رکعات ادا کیں۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ ان تمام روایات میں اس بات کی دلیل ہے کہ دن کی نفلی نماز دو رکعات ہیں، چار چار نہیں، جیسا کہ اس شخص کا دعویٰ ہے جس نے ان روایات میں غور و فکر نہیں کیا اور نہ ان روایات کو حاصل کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ کسی ایسے عالم سے انہیں سن لیتا ہو جو اُن کو سمجھتا ہو۔ رہی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث جو ہم نے ذکر کی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر سے پہلے چار رکعات ادا کیں، تو اس حدیث میں یہ ذکر نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایک ہی سلام کے ساتھ ادا فرمایا تھا۔ جبکہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر سے پہلے دو رکعات ادا کی ہیں۔ اور اگر ان کی نفلی نماز چار چار رکعات ہی ہوتی تو کسی شخص کے لئے یہ جائز نہ ہوتا کہ وہ ظہر کے بعد دو رکعات ادا کرے، بلکہ اس کے لئے واجب ہوتا کہ وہ ان کے ساتھ دو اور رکعات ملائے تا کہ چار رکعات مکمّل ہو جائیں۔ اور اُس کے لئے یہ بھی واجب و ضروری ہوتا کہ وہ نماز فجر سے پہلے بھی چار رکعات ادا کرتا وہ بھی دن کی نماز ہے، رات کی نہیں - اور ہم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول اور ثابت شدہ کوئی روایت نہیں سنی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دن کی نفلی نماز چار رکعات ایک ہی سلام کے ساتھ ادا کی ہوں۔ اگر کسی ایسے شخص کو جس نے گہرا غور و فکر نہیں کیا، یہ خیال آئے کہ حضرت عبداللہ بن شقیق کی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے حدیث میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر سے پہلے چار رکعات ایک ہی سلام کے ساتھ ادا کی ہیں، کیونکہ اس روایت میں چار کا تذکرہ ہے (تو اس کا مطلب ہے کہ ایک سلام سے ہی پڑھی ہوں گی) تو اس شخص کو جواب دیا جائے گا کہ جناب سعید مقبری نے حضرت ابوسلمہ کے واسطے کے ساتھ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز تہجّد کے بارے میں بیان کیا ہے۔ آپ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چار رکعات پڑھتے تھے، تم ان کے حسن اور طوالت کے بارے میں مت پوچھو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم چار رکعات پڑھتے۔ چنانچہ نماز تہجّد کے بارے میں یہ الفاظ حضرت عبداللہ بن شقیق کے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے ذکر کردہ نماز ظہر سے پہلے چار رکعات کے بارے میں الفاظ جیسے ہی ہیں۔ تو کیا یہ جائز ہے کہ کوئی تاویل کرنے والا یہ تاویل کرے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم رات کے وقت چار چار رکعات ادا کر تے تھے، اور ہر چار رکعات ایک ہی سلام کے ساتھ ادا کر تے تھے۔ حالانک ہمارے مخالفین اس بات میں ہمارے ساتھ متفق ہیں کہ وتروں کے علاوہ رات کی نماز دو دو رکعات کر کے ادا کی جائے گی۔ لہٰذا حضرت ابوسلمہ کی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کا جو معنی ان کے نزدیک ہے وہی معنی ہمارے نزدیک عبداللہ بن شقیق کی روایت کے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے چار رکعات دو دفعہ سلام پھیر کر ادا کی تھیں، ایک سلام کے ساتھ نہیں۔ جناب عاصم بن ضمرہ کی سیدنا علی بنی ابی طالب رضی اللہ عنہ کی روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب سورج اس (مشرقی) جانب اتنا بلند ہوتا جتنا کہ عصر کے وقت (مغربی جانب میں) ہوتا ہے تو دو رکعات ادا کرتے۔ اور جب سورج اس (مغربی) جانب اتنا بلند ہوتا جتنا کہ ظہر کے وقت اس (مشرقی) جانب ہوتا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم چار رکعات ادا کرتے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر سے پہلے چار رکعات اور اس کے بعد دو رکعات ادا فرماتے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم عصر سے پہلے چار رکعات ادا کرتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو رکعات کے بعد اللہ کے مقرب فرشتوں اور تابعدار مسلمانوں پر سلام بھیج کر الگ کرتے۔

تخریج الحدیث:
حدیث نمبر: 1211
Save to word اعراب
ثنا بندار، ثنا محمد، ثنا شعبة، عن ابي إسحاق قال: سمعت عاصم بن ضمرة قال: سالت عليا عن صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم، فذكر هذا ⦗٢١٩⦘ الحديث. قال ابو بكر: " ففي هذا الخبر خبر علي بن ابي طالب قد صلى من النهار ركعتين مرتين، فاما ذكر الاربع قبل الظهر، والاربع قبل العصر، فهذه من الالفاظ المجملة التي دلت عليه الاخبار المفسرة، فدل خبر ابن عمر عن النبي صلى الله عليه وسلم: «صلاة الليل والنهار مثنى مثنى»  ، ان كل ما صلى النبي صلى الله عليه وسلم في النهار من التطوع، فإنما صلاهن مثنى مثنى على ما خبر انها صلاة النهار والليل جميعا، ولو ثبت عن النبي صلى الله عليه وسلم انه صلى من النهار اربعا بتسليم كان هذا عندنا من الاختلاف المباح، فكان المرء مخيرا بين ان يصلي اربعا بتسليمة بالنهار، وبين ان يسلم في كل ركعتين. وقوله في خبر علي: ويفصل بين كل ركعتين بالتسليم على الملائكة المقربين ومن تبعهم من المؤمنين، فهذه اللفظة تحتمل معنيين، احدهما انه كان يفصل بين كل ركعتين بتشهد، إذ في التشهد التسليم على الملائكة ومن تبعهم من المسلمين، وهذا معنى يبعد، والثاني انه كان يفصل بين كل ركعتين بالتسليم الذي هو فصل بين هاتين الركعتين، وبين ما بعدهما من الصلاة، وهذا هو المفهوم في المخاطبة؛ لان العلماء لا يطلقون اسم الفصل بالتشهد من غير سلام يفصل بين الركعتين وبين ما بعدهما، ومحال من جهة الفقه ان يقال: يصلي الظهر اربعا، يفصل بينهما بسلام، او العصر اربعا يفصل بينهما بسلام، او المغرب ثلاثا يفصل بينهما بسلام، او العشاء اربعا يفصل ⦗٢٢٠⦘ بينهما بسلام، وإنما يجب ان يصلي المرء الظهر والعصر والعشاء، كل واحدة منهن اربعة موصولة لا مفصولة، وكذلك المغرب يجب ان يصلي ثلاثا موصولة لا مفصولة، ويجب ان يفرق بين الوصل وبين الفصل، والعلماء من جهة الفقه لا يعلمون الفصل بالتشهد من غير تسليم يكون به خارجا من الصلاة، ثم يبتدا فيما بعدها، ولو كان التشهد يكون فصلا بين الركعتين وبين ما بعد، لجاز لمصل إذا تشهد في كل صلاة، يجوز ان يتطوع بعدها، ان يقوم قبل ان يسلم فيبتدا في التطوع على العمد، وكذاك كان يجوز له ان يتطوع من الليل بعشر ركعات واكثر بتسليمة واحدة يتشهد في كل ركعتين، لو كان التشهد فصلا بين ما مضى وبين ما بعد من الصلاة، وهذا خلاف مذهب مخالفينا من العراقيين"ثنا بُنْدَارٌ، ثنا مُحَمَّدٌ، ثنا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ قَالَ: سَمِعْتُ عَاصِمَ بْنَ ضَمْرَةَ قَالَ: سَأَلْتُ عَلِيًّا عَنْ صَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَ هَذَا ⦗٢١٩⦘ الْحَدِيثَ. قَالَ أَبُو بَكْرٍ: " فَفِي هَذَا الْخَبَرِ خَبَرِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ قَدْ صَلَّى مِنَ النَّهَارِ رَكْعَتَيْنِ مَرَّتَيْنِ، فَأَمَّا ذِكْرُ الْأَرْبَعِ قَبْلَ الظُّهْرِ، وَالْأَرْبَعِ قَبْلَ الْعَصْرِ، فَهَذِهِ مِنَ الْأَلْفَاظِ الْمُجْمَلَةِ الَّتِي دَلَّتْ عَلَيْهِ الْأَخْبَارُ الْمُفَسِّرَةُ، فَدَلَّ خَبَرُ ابْنِ عُمَرَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «صَلَاةُ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ مَثْنَى مَثْنَى»  ، أَنَّ كُلَّ مَا صَلَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي النَّهَارِ مِنَ التَّطَوُّعِ، فَإِنَّمَا صَلَّاهُنَّ مَثْنَى مَثْنَى عَلَى مَا خَبَّرَ أَنَّهَا صَلَاةُ النَّهَارِ وَاللَّيْلِ جَمِيعًا، وَلَوْ ثَبَتَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ صَلَّى مِنَ النَّهَارِ أَرْبَعًا بِتَسْلِيمٍ كَانَ هَذَا عِنْدَنَا مِنَ الِاخْتِلَافِ الْمُبَاحِ، فَكَانَ الْمَرْءُ مُخَيَّرًا بَيْنَ أَنْ يُصَلِّيَ أَرْبَعًا بِتَسْلِيمَةٍ بِالنَّهَارِ، وَبَيْنَ أَنْ يُسَلِّمَ فِي كُلِّ رَكْعَتَيْنِ. وَقَوْلُهُ فِي خَبَرِ عَلِيٍّ: وَيَفْصِلُ بَيْنَ كُلِّ رَكْعَتَيْنِ بِالتَّسْلِيمِ عَلَى الْمَلَائِكَةِ الْمُقَرَّبِينَ وَمَنْ تَبِعَهُمْ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ، فَهَذِهِ اللَّفْظَةُ تَحْتَمِلُ مَعْنَيَيْنِ، أَحَدُهُمَا أَنَّهُ كَانَ يَفْصِلُ بَيْنَ كُلِّ رَكْعَتَيْنِ بِتَشَهُّدٍ، إِذْ فِي التَّشَهُّدِ التَّسْلِيمُ عَلَى الْمَلَائِكَةِ وَمَنْ تَبِعَهُمْ مِنَ الْمُسْلِمِينَ، وَهَذَا مَعْنًى يَبْعُدُ، وَالثَّانِي أَنَّهُ كَانَ يَفْصِلُ بَيْنَ كُلِّ رَكْعَتَيْنِ بِالتَّسْلِيمِ الَّذِي هُوَ فَصْلٌ بَيْنَ هَاتَيْنِ الرَّكْعَتَيْنِ، وَبَيْنَ مَا بَعْدَهُمَا مِنَ الصَّلَاةِ، وَهَذَا هُوَ الْمَفْهُومُ فِي الْمُخَاطَبَةِ؛ لِأَنَّ الْعُلَمَاءَ لَا يُطْلِقُونَ اسْمَ الْفَصْلِ بِالتَّشَهُّدِ مِنْ غَيْرِ سَلَامٍ يَفْصِلُ بَيْنَ الرَّكْعَتَيْنِ وَبَيْنَ مَا بَعْدَهُمَا، وَمُحَالٌ مِنْ جِهَةِ الْفِقْهِ أَنْ يُقَالَ: يُصَلِّي الظُّهْرَ أَرْبَعًا، يَفْصِلُ بَيْنَهُمَا بِسَلَامٍ، أَوِ الْعَصْرَ أَرْبَعًا يَفْصِلُ بَيْنَهُمَا بِسَلَامٍ، أَوِ الْمَغْرِبَ ثَلَاثًا يَفْصِلُ بَيْنَهُمَا بِسَلَامٍ، أَوِ الْعِشَاءَ أَرْبَعًا يَفْصِلُ ⦗٢٢٠⦘ بَيْنَهُمَا بِسَلَامٍ، وَإِنَّمَا يَجِبُ أَنْ يُصَلِّيَ الْمَرْءُ الظُّهْرَ وَالْعَصْرَ وَالْعِشَاءَ، كُلُّ وَاحِدَةٍ مِنْهُنَّ أَرْبَعَةً مَوْصُولَةً لَا مَفْصُولَةً، وَكَذَلِكَ الْمَغْرِبَ يَجِبُ أَنْ يُصَلِّيَ ثَلَاثًا مَوْصُولَةً لَا مَفْصُولَةً، وَيَجِبُ أَنْ يُفَرِّقَ بَيْنَ الْوَصْلِ وَبَيْنَ الْفَصْلِ، وَالْعُلَمَاءُ مِنْ جِهَةِ الْفِقْهِ لَا يَعْلَمُونَ الْفَصْلَ بِالتَّشَهُّدِ مِنْ غَيْرِ تَسْلِيمٍ يَكُونُ بِهِ خَارِجًا مِنَ الصَّلَاةِ، ثُمَّ يُبْتَدَأُ فِيمَا بَعْدَهَا، وَلَوْ كَانَ التَّشَهُّدُ يَكُونُ فَصْلًا بَيْنَ الرَّكْعَتَيْنِ وَبَيْنَ مَا بَعْدُ، لَجَازَ لِمُصَلٍّ إِذَا تَشَهَّدَ فِي كُلِّ صَلَاةٍ، يَجُوزُ أَنْ يَتَطَوَّعَ بَعْدَهَا، أَنْ يَقُومَ قَبْلَ أَنْ يُسَلِّمَ فَيَبْتَدِأ فِي التَّطَوُّعِ عَلَى الْعَمْدِ، وَكَذَاكَ كَانَ يَجُوزُ لَهُ أن يَتَطَوَّعُ مِنَ اللَّيْلِ بِعَشْرِ رَكَعَاتٍ وَأَكْثَرَ بِتَسْلِيمَةٍ وَاحِدَةٍ يَتَشَهَّدُ فِي كُلِّ رَكْعَتَيْنِ، لَوْ كَانَ التَّشَهُّدُ فَصْلًا بَيْنَ مَا مَضَى وَبَيْنَ مَا بَعْدُ مِنَ الصَّلَاةِ، وَهَذَا خِلَافُ مَذْهَبِ مُخَالِفِينَا مِنَ الْعِرَاقِيِّينَ"
جناب عاصم بن ضمرہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی (نفل) نماز کے بارے میں سوال کیا تو اُنہوں نے یہ حدیث بیان کی۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ اس روایت میں سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے خبر دی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دن کے وقت دو مرتبہ دو دو رکعات ادا فرمائی ہیں۔ جبکہ ظہر سے پہلے چار رکعات اور عصر سے پہلے چار رکعات کا ذکر مجمل الفاظ میں ہے جن کی تفسیر اور وضاحت مفسر روایات سے ہوتی ہے۔ چنانچہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث جو وہ نبی اکرم سے بیان کر تے ہیں کہ دن اور رات کی نماز دو دو رکعات کر کے ادا کی جا ئے گی۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دن کے وقت جو نفل نماز بھی ادا کی وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو دو رکعات ہی ادا کیں ہیں۔ جیسا کہ اُنہوں نے بتایا ہے کی رات اور دن دونوں کی نماز دو دو رکعات ہیں - اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت ہو جائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دن کے وقت چار رکعات نفل نماز ایک سلام کے ساتھ ادا کی ہے تو پھر یہ ہمارے نزدیک جائز اور مباح اختلاف کی قسم سے ہوگا۔ لہٰذا آدمی کو اختیار ہوگا کہ وہ دن کے وقت چار رکعات نفل ایک ہی ساتھ ادا کرلے یا ہر دو رکعات کے بعد سلام پھیرلے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی حدیث کہ یہ الفاظ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر دو رکعات میں اللہ کے مقرب فرشتوں اور ان کے پیروکار مؤمنوں پر سلام بھیج کر فاصلہ کرتے۔ تو اس کے دو معنی ہیں، پہلا معنی یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو رکعت کے بعد تشہد کے لئے بیٹھ کر فاصلہ کرتے تھے، کیونکہ تشہد میں بھی فرشتوں اور اُن کے تابعدار مسلمانوں پر سلام بھیجا جاتا ہے، تو یہ معنی مراد لینا بعید ہے اور دوسرا معنی یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر دو رکعت کے بعد سلام پھیر کر فاصلہ کرتے تھے اور یہ سلام پہلی دو رکعات اور ان کے بعد والی نماز میں فاصلہ اور جدائی ہوتی۔ اور یہ معنی مفہومِ مخاطب ہے (یعنی روایت سے سمجھا جانے والا مفہوم و معنی) کیونکہ علمائے کرام صرف تشہد کے ساتھ، سلام پھیرے بغیر فاصلہ کرنے کو فاصلہ اور جدائی کا نام نہیں دیتے کہ جس کے ساتھ پہلی دو رکعات اور ان کے بعد والی نماز کے درمیان فاصلہ کیا جائے اور فقہی نقطہ نظر سے یہ بھی کہنا محال اور نا ممکن ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی چار رکعات ادا کرتے اور ان کے درمیان سلام پھیر کر فاصلہ کرتے، یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم عصر کی چار رکعات ادا کرتے اور سلام کے ساتھ ان میں فاصلہ کرتے، یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم مغرب کی تین رکعات میں سلام پھیر کر فاصلہ کرتے یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء کی چار رکعات میں سلام کے ساتھ فاصلہ اور جدائی کرتے۔ بلاشبہ نمازی کے لئے نماز ظہر، عصر اور عشاء کی چار رکعات ملا کر پڑھنا واجب ہے۔ اسی طرح مغرب کی نماز بھی ان میں جدائی اور فاصلہ کیے بغیر(تمام رکعات) ملا کر پڑھنا واجب ہے اور یہ بھی واجب ہے کہ فصل اور (ملاکر پڑھنا) میں فرق کیا جائے۔ علمائے کرام فقہی اعتبار سے بغیر سلام پھیرے صرف تشہد کے ساتھ فصل (فاصلہ کرنے) کو نہیں جانتے کہ اس فاصلے کے ساتھ نمازی نماز سے نکل جائے پھر اس کے بعد والی نماز شروع کر دے، اور اگر صرف تشہد پہلی دو رکعت اور بعد والی نماز کے درمیان فاصلہ ہوتا تو پھر نمازی کے لئے جائز ہونا چاہیے کہ جب وہ کسی بھی نماز میں تشہد کے لئے بیٹھ لے تو اس کے بعد نفل نماز پڑھ لے۔ یہ کہ وہ سلام پھیرنے سے پہلے ہی کھڑا ہو جائے اور عملاً نفل نماز شروع کر دے۔ اسی طرح اس کے لئے یہ بھی جائز ہو گا کہ وہ رات کے وقت دس رکعات یا اس سے زائد نفل نماز ایک ہی سلام سے ادا کرلے - اور ہر دو رکعت کے بعد تشہد کے لئے بیٹھ جائے، اگر تشہد کو گزشتہ اور آئندہ نماز کے درمیان فاصلہ تسلیم کیا جائے۔ جبکہ یہ بات ہمارے مخالفین عراقی علماء کے مذہب کے بھی خلاف ہے۔

تخریج الحدیث: اسناده حسن

1    2    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.