ثنا بندار، ثنا محمد، ثنا شعبة، عن ابي إسحاق قال: سمعت عاصم بن ضمرة قال: سالت عليا عن صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم، فذكر هذا ⦗٢١٩⦘ الحديث. قال ابو بكر: " ففي هذا الخبر خبر علي بن ابي طالب قد صلى من النهار ركعتين مرتين، فاما ذكر الاربع قبل الظهر، والاربع قبل العصر، فهذه من الالفاظ المجملة التي دلت عليه الاخبار المفسرة، فدل خبر ابن عمر عن النبي صلى الله عليه وسلم: «صلاة الليل والنهار مثنى مثنى» ، ان كل ما صلى النبي صلى الله عليه وسلم في النهار من التطوع، فإنما صلاهن مثنى مثنى على ما خبر انها صلاة النهار والليل جميعا، ولو ثبت عن النبي صلى الله عليه وسلم انه صلى من النهار اربعا بتسليم كان هذا عندنا من الاختلاف المباح، فكان المرء مخيرا بين ان يصلي اربعا بتسليمة بالنهار، وبين ان يسلم في كل ركعتين. وقوله في خبر علي: ويفصل بين كل ركعتين بالتسليم على الملائكة المقربين ومن تبعهم من المؤمنين، فهذه اللفظة تحتمل معنيين، احدهما انه كان يفصل بين كل ركعتين بتشهد، إذ في التشهد التسليم على الملائكة ومن تبعهم من المسلمين، وهذا معنى يبعد، والثاني انه كان يفصل بين كل ركعتين بالتسليم الذي هو فصل بين هاتين الركعتين، وبين ما بعدهما من الصلاة، وهذا هو المفهوم في المخاطبة؛ لان العلماء لا يطلقون اسم الفصل بالتشهد من غير سلام يفصل بين الركعتين وبين ما بعدهما، ومحال من جهة الفقه ان يقال: يصلي الظهر اربعا، يفصل بينهما بسلام، او العصر اربعا يفصل بينهما بسلام، او المغرب ثلاثا يفصل بينهما بسلام، او العشاء اربعا يفصل ⦗٢٢٠⦘ بينهما بسلام، وإنما يجب ان يصلي المرء الظهر والعصر والعشاء، كل واحدة منهن اربعة موصولة لا مفصولة، وكذلك المغرب يجب ان يصلي ثلاثا موصولة لا مفصولة، ويجب ان يفرق بين الوصل وبين الفصل، والعلماء من جهة الفقه لا يعلمون الفصل بالتشهد من غير تسليم يكون به خارجا من الصلاة، ثم يبتدا فيما بعدها، ولو كان التشهد يكون فصلا بين الركعتين وبين ما بعد، لجاز لمصل إذا تشهد في كل صلاة، يجوز ان يتطوع بعدها، ان يقوم قبل ان يسلم فيبتدا في التطوع على العمد، وكذاك كان يجوز له ان يتطوع من الليل بعشر ركعات واكثر بتسليمة واحدة يتشهد في كل ركعتين، لو كان التشهد فصلا بين ما مضى وبين ما بعد من الصلاة، وهذا خلاف مذهب مخالفينا من العراقيين"ثنا بُنْدَارٌ، ثنا مُحَمَّدٌ، ثنا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ قَالَ: سَمِعْتُ عَاصِمَ بْنَ ضَمْرَةَ قَالَ: سَأَلْتُ عَلِيًّا عَنْ صَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَ هَذَا ⦗٢١٩⦘ الْحَدِيثَ. قَالَ أَبُو بَكْرٍ: " فَفِي هَذَا الْخَبَرِ خَبَرِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ قَدْ صَلَّى مِنَ النَّهَارِ رَكْعَتَيْنِ مَرَّتَيْنِ، فَأَمَّا ذِكْرُ الْأَرْبَعِ قَبْلَ الظُّهْرِ، وَالْأَرْبَعِ قَبْلَ الْعَصْرِ، فَهَذِهِ مِنَ الْأَلْفَاظِ الْمُجْمَلَةِ الَّتِي دَلَّتْ عَلَيْهِ الْأَخْبَارُ الْمُفَسِّرَةُ، فَدَلَّ خَبَرُ ابْنِ عُمَرَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «صَلَاةُ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ مَثْنَى مَثْنَى» ، أَنَّ كُلَّ مَا صَلَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي النَّهَارِ مِنَ التَّطَوُّعِ، فَإِنَّمَا صَلَّاهُنَّ مَثْنَى مَثْنَى عَلَى مَا خَبَّرَ أَنَّهَا صَلَاةُ النَّهَارِ وَاللَّيْلِ جَمِيعًا، وَلَوْ ثَبَتَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ صَلَّى مِنَ النَّهَارِ أَرْبَعًا بِتَسْلِيمٍ كَانَ هَذَا عِنْدَنَا مِنَ الِاخْتِلَافِ الْمُبَاحِ، فَكَانَ الْمَرْءُ مُخَيَّرًا بَيْنَ أَنْ يُصَلِّيَ أَرْبَعًا بِتَسْلِيمَةٍ بِالنَّهَارِ، وَبَيْنَ أَنْ يُسَلِّمَ فِي كُلِّ رَكْعَتَيْنِ. وَقَوْلُهُ فِي خَبَرِ عَلِيٍّ: وَيَفْصِلُ بَيْنَ كُلِّ رَكْعَتَيْنِ بِالتَّسْلِيمِ عَلَى الْمَلَائِكَةِ الْمُقَرَّبِينَ وَمَنْ تَبِعَهُمْ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ، فَهَذِهِ اللَّفْظَةُ تَحْتَمِلُ مَعْنَيَيْنِ، أَحَدُهُمَا أَنَّهُ كَانَ يَفْصِلُ بَيْنَ كُلِّ رَكْعَتَيْنِ بِتَشَهُّدٍ، إِذْ فِي التَّشَهُّدِ التَّسْلِيمُ عَلَى الْمَلَائِكَةِ وَمَنْ تَبِعَهُمْ مِنَ الْمُسْلِمِينَ، وَهَذَا مَعْنًى يَبْعُدُ، وَالثَّانِي أَنَّهُ كَانَ يَفْصِلُ بَيْنَ كُلِّ رَكْعَتَيْنِ بِالتَّسْلِيمِ الَّذِي هُوَ فَصْلٌ بَيْنَ هَاتَيْنِ الرَّكْعَتَيْنِ، وَبَيْنَ مَا بَعْدَهُمَا مِنَ الصَّلَاةِ، وَهَذَا هُوَ الْمَفْهُومُ فِي الْمُخَاطَبَةِ؛ لِأَنَّ الْعُلَمَاءَ لَا يُطْلِقُونَ اسْمَ الْفَصْلِ بِالتَّشَهُّدِ مِنْ غَيْرِ سَلَامٍ يَفْصِلُ بَيْنَ الرَّكْعَتَيْنِ وَبَيْنَ مَا بَعْدَهُمَا، وَمُحَالٌ مِنْ جِهَةِ الْفِقْهِ أَنْ يُقَالَ: يُصَلِّي الظُّهْرَ أَرْبَعًا، يَفْصِلُ بَيْنَهُمَا بِسَلَامٍ، أَوِ الْعَصْرَ أَرْبَعًا يَفْصِلُ بَيْنَهُمَا بِسَلَامٍ، أَوِ الْمَغْرِبَ ثَلَاثًا يَفْصِلُ بَيْنَهُمَا بِسَلَامٍ، أَوِ الْعِشَاءَ أَرْبَعًا يَفْصِلُ ⦗٢٢٠⦘ بَيْنَهُمَا بِسَلَامٍ، وَإِنَّمَا يَجِبُ أَنْ يُصَلِّيَ الْمَرْءُ الظُّهْرَ وَالْعَصْرَ وَالْعِشَاءَ، كُلُّ وَاحِدَةٍ مِنْهُنَّ أَرْبَعَةً مَوْصُولَةً لَا مَفْصُولَةً، وَكَذَلِكَ الْمَغْرِبَ يَجِبُ أَنْ يُصَلِّيَ ثَلَاثًا مَوْصُولَةً لَا مَفْصُولَةً، وَيَجِبُ أَنْ يُفَرِّقَ بَيْنَ الْوَصْلِ وَبَيْنَ الْفَصْلِ، وَالْعُلَمَاءُ مِنْ جِهَةِ الْفِقْهِ لَا يَعْلَمُونَ الْفَصْلَ بِالتَّشَهُّدِ مِنْ غَيْرِ تَسْلِيمٍ يَكُونُ بِهِ خَارِجًا مِنَ الصَّلَاةِ، ثُمَّ يُبْتَدَأُ فِيمَا بَعْدَهَا، وَلَوْ كَانَ التَّشَهُّدُ يَكُونُ فَصْلًا بَيْنَ الرَّكْعَتَيْنِ وَبَيْنَ مَا بَعْدُ، لَجَازَ لِمُصَلٍّ إِذَا تَشَهَّدَ فِي كُلِّ صَلَاةٍ، يَجُوزُ أَنْ يَتَطَوَّعَ بَعْدَهَا، أَنْ يَقُومَ قَبْلَ أَنْ يُسَلِّمَ فَيَبْتَدِأ فِي التَّطَوُّعِ عَلَى الْعَمْدِ، وَكَذَاكَ كَانَ يَجُوزُ لَهُ أن يَتَطَوَّعُ مِنَ اللَّيْلِ بِعَشْرِ رَكَعَاتٍ وَأَكْثَرَ بِتَسْلِيمَةٍ وَاحِدَةٍ يَتَشَهَّدُ فِي كُلِّ رَكْعَتَيْنِ، لَوْ كَانَ التَّشَهُّدُ فَصْلًا بَيْنَ مَا مَضَى وَبَيْنَ مَا بَعْدُ مِنَ الصَّلَاةِ، وَهَذَا خِلَافُ مَذْهَبِ مُخَالِفِينَا مِنَ الْعِرَاقِيِّينَ"
جناب عاصم بن ضمرہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی (نفل) نماز کے بارے میں سوال کیا تو اُنہوں نے یہ حدیث بیان کی۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ اس روایت میں سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے خبر دی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دن کے وقت دو مرتبہ دو دو رکعات ادا فرمائی ہیں۔ جبکہ ظہر سے پہلے چار رکعات اور عصر سے پہلے چار رکعات کا ذکر مجمل الفاظ میں ہے جن کی تفسیر اور وضاحت مفسر روایات سے ہوتی ہے۔ چنانچہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث جو وہ نبی اکرم سے بیان کر تے ہیں کہ دن اور رات کی نماز دو دو رکعات کر کے ادا کی جا ئے گی۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دن کے وقت جو نفل نماز بھی ادا کی وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو دو رکعات ہی ادا کیں ہیں۔ جیسا کہ اُنہوں نے بتایا ہے کی رات اور دن دونوں کی نماز دو دو رکعات ہیں - اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت ہو جائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دن کے وقت چار رکعات نفل نماز ایک سلام کے ساتھ ادا کی ہے تو پھر یہ ہمارے نزدیک جائز اور مباح اختلاف کی قسم سے ہوگا۔ لہٰذا آدمی کو اختیار ہوگا کہ وہ دن کے وقت چار رکعات نفل ایک ہی ساتھ ادا کرلے یا ہر دو رکعات کے بعد سلام پھیرلے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی حدیث کہ یہ الفاظ کہ ”آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر دو رکعات میں اللہ کے مقرب فرشتوں اور ان کے پیروکار مؤمنوں پر سلام بھیج کر فاصلہ کرتے۔“ تو اس کے دو معنی ہیں، پہلا معنی یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو رکعت کے بعد تشہد کے لئے بیٹھ کر فاصلہ کرتے تھے، کیونکہ تشہد میں بھی فرشتوں اور اُن کے تابعدار مسلمانوں پر سلام بھیجا جاتا ہے، تو یہ معنی مراد لینا بعید ہے اور دوسرا معنی یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر دو رکعت کے بعد سلام پھیر کر فاصلہ کرتے تھے اور یہ سلام پہلی دو رکعات اور ان کے بعد والی نماز میں فاصلہ اور جدائی ہوتی۔ اور یہ معنی مفہومِ مخاطب ہے (یعنی روایت سے سمجھا جانے والا مفہوم و معنی) کیونکہ علمائے کرام صرف تشہد کے ساتھ، سلام پھیرے بغیر فاصلہ کرنے کو فاصلہ اور جدائی کا نام نہیں دیتے کہ جس کے ساتھ پہلی دو رکعات اور ان کے بعد والی نماز کے درمیان فاصلہ کیا جائے اور فقہی نقطہ نظر سے یہ بھی کہنا محال اور نا ممکن ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی چار رکعات ادا کرتے اور ان کے درمیان سلام پھیر کر فاصلہ کرتے، یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم عصر کی چار رکعات ادا کرتے اور سلام کے ساتھ ان میں فاصلہ کرتے، یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم مغرب کی تین رکعات میں سلام پھیر کر فاصلہ کرتے یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء کی چار رکعات میں سلام کے ساتھ فاصلہ اور جدائی کرتے۔ بلاشبہ نمازی کے لئے نماز ظہر، عصر اور عشاء کی چار رکعات ملا کر پڑھنا واجب ہے۔ اسی طرح مغرب کی نماز بھی ان میں جدائی اور فاصلہ کیے بغیر(تمام رکعات) ملا کر پڑھنا واجب ہے اور یہ بھی واجب ہے کہ فصل اور (ملاکر پڑھنا) میں فرق کیا جائے۔ علمائے کرام فقہی اعتبار سے بغیر سلام پھیرے صرف تشہد کے ساتھ فصل (فاصلہ کرنے) کو نہیں جانتے کہ اس فاصلے کے ساتھ نمازی نماز سے نکل جائے پھر اس کے بعد والی نماز شروع کر دے، اور اگر صرف تشہد پہلی دو رکعت اور بعد والی نماز کے درمیان فاصلہ ہوتا تو پھر نمازی کے لئے جائز ہونا چاہیے کہ جب وہ کسی بھی نماز میں تشہد کے لئے بیٹھ لے تو اس کے بعد نفل نماز پڑھ لے۔ یہ کہ وہ سلام پھیرنے سے پہلے ہی کھڑا ہو جائے اور عملاً نفل نماز شروع کر دے۔ اسی طرح اس کے لئے یہ بھی جائز ہو گا کہ وہ رات کے وقت دس رکعات یا اس سے زائد نفل نماز ایک ہی سلام سے ادا کرلے - اور ہر دو رکعت کے بعد تشہد کے لئے بیٹھ جائے، اگر تشہد کو گزشتہ اور آئندہ نماز کے درمیان فاصلہ تسلیم کیا جائے۔ جبکہ یہ بات ہمارے مخالفین عراقی علماء کے مذہب کے بھی خلاف ہے۔