والدليل على ان النبي صلى الله عليه وسلم قد كان يصلي من الليل ثلاث عشرة ركعة على ما اخبر ابن عباس، ثم نقص ركعتين فكان يصلي إحدى عشرة ركعة من الليل على ما اخبر ابو سلمة عن عائشة، ثم نقص من صلاة الليل ركعتين فكان يصلي من الليل تسع ركعات على ما اخبر عبد الله بن شقيق عن عائشةوَالدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ كَانَ يُصَلِّي مِنَ اللَّيْلِ ثَلَاثَ عَشْرَةَ رَكْعَةً عَلَى مَا أَخْبَرَ ابْنُ عَبَّاسٍ، ثُمَّ نَقَصَ رَكْعَتَيْنِ فَكَانَ يُصَلِّي إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً مِنَ اللَّيْلِ عَلَى مَا أَخْبَرَ أَبُو سَلَمَةَ عَنْ عَائِشَةَ، ثُمَّ نَقَصَ مِنْ صَلَاةِ اللَّيْلِ رَكْعَتَيْنِ فَكَانَ يُصَلِّي مِنَ اللَّيْلِ تِسْعَ رَكَعَاتٍ عَلَى مَا أَخْبَرَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ شَقِيقٍ عَنْ عَائِشَةَ
جناب مسروق سے روایت ہے کہ وہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اُن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے متعلق پوچھا تو اُنہوں نے فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو تیرہ رکعات پڑھا کرتے تھے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گیارہ رکعات پڑھنا شروع کر دیں اور دو رکعت چھوڑ دیں، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نو رکعات رات کو پڑھتے تھے، رات کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری نماز وتر ہوتی تھی، پھر بعض اوقات آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اس بستر پر تشریف لے آتے (اور آرام کرتے) پھر سیدنا بلال رضی اللہ عنہ آکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز کی اطلاع کرتے (تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھانے تشریف لے جاتے) امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ ہم ان روایات کے مطابق عمل کرتے ہیں جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز تہجّد کی تعداد کے متعلق ہم نے کتاب الکبیرمیں بیان کی ہیں - تعداد رکعات میں راویوں کا اختلاف اسی طرح کا ہے جیسے ان روایات میں ہے جو میں نے اس کتاب میں بیان کی ہیں - نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بعض راتوں میں بعض راتوں سے زیادہ رکعات ادا کرتے تھے - چنانچہ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہم اجمعین یا دیگر خواتین نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز تہجّد کی جو تعداد رکعات بیان کی ہے یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کی کوئی کیفیت بیان کی ہے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض راتوں میں اس تعداد اور اس کیفیت کے ساتھ نماز ادا کی ہے ـ اور یہ اختلاف جائز قسم سے ہے ـ لہٰذا نمازی کے لئے جائز ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی کسی بھی تعداد اور کیفیت کے مطابق جو اسے پسند ہو، نماز ادا کرلے۔ کسی شخص کے لئے اس میں کوئی چیز ممنوع نہیں ہے۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی نماز پڑھتے تو اُسے باقاعدگی سے ادا کرتے، اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز تہجّد سے سوئے رہ جاتے یا بیمار ہو جاتے تو دن کے وقت بارہ رکعات ادا کر لیتے۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی نماز پڑھتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر ہمیشگی اور باقاعدگی کرنا پسند کرتے اور جب کبھی نیند کا غلبہ، بیماری یا کوئی تکلیف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز تہجّد سے مشغول کر دیتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم دن کے وقت بارہ رکعات ادا کر لیتے۔ یحیٰی بن سعید کی روایت ہے۔
جناب عبدالرحمان بن عبدالقاری بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ ”جو شخص اپنی معمول کی قراءت سے یا اس کے کچھ حصّے سے سویا رہ گیا، پھر اُس نے وہ حصّہ نماز فجر اور ظہر کے درمیان تلاوت کر لیا (اسے پڑھ کر نفل ادا کر لیے) تو اُس کے لئے لکھ دیا جاتا ہے گویا کہ اُس نے وہ حصّہ رات ہی کو پڑھا ہے۔“
سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اپنے بستر پر سوتے وقت یہ نیت کرتا ہے کہ وہ اُٹھ کر نماز تہجّد ادا کرے گا پھر اُس پر اُس کی نیند غالب آ گئی اور وہ صبح تک سوتا رہا تو اُس کے لئے اُس کی نیت کے مطابق اجر لکھ دیا جاتا ہے اور اُس کی نیند اُس کے رب کی طرف سے اُس پر صدقہ ہو گی - امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ مجھے نہیں معلوم کہ اس حدیث کو حسین بن علی کے علاوہ کسی راوی نے زائدہ سے مسند بیان کیا ہو۔ اس حدیث کی سند میں راویوں نے اختلاف کیا ہے۔“
جناب زر بن حُبیش سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ اُنہوں نے فرمایا، جس شخص نے اپنے دل میں ارادہ کیا کہ وہ رات کی کسی گھڑی میں نماز ادا کرے گا پھر اس پر نیند غالب آگئی تو اُس کی نیند اُس پر صدقہ ہوگی اور اُس کے لئے اُس کے ارادے اور نیت کے مطابق نماز کا اجر لکھ دیا جائے گا۔ جناب عبدہ بن ابی لبابہ نے اس حدیث کی سند خلط ملط کر دی ہے۔ ایک بار روایت کی تو کہا کہ میں یہ روایت سوید بن غفلہ سے بیان کرتا ہوں (دیکھیے روایت نمبر 1172) اور دوسری مرتبہ اسے زر بن حُبیش کی روایت قرار دیا (جیسا کہ روایت نمبر 1173) میں ہے۔ جناب عبدہ کو شک تھا کہ یہ روایت زر کی ہے یا سوید کی۔
عبدۃ بن ابی لبابہ جناب زربن حُبیش یا سوید بن غفلہ سے سیدنا ابودرداء یا سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہما کی حدیث بیان کرتے ہیں کہ اُنہوں نے فرمایا کہ جو شخص رات کے کسی حصّے میں نماز باقاعدگی سے پڑھتا ہو، پھر اس سے سویا رہ گیا تو اللہ تعالیٰ اُس کے لئے اس نماز کا اجر لکھ دیتا ہے، اور اُس کی نیند اللہ تعالیٰ کا اُس پر صدقہ ہوگا۔“ جناب عبدہ رحمه الله نے اس حدیث کی سند کی علت بیان کر دی ہے جس میں انہیں شک ہے کہ یہ حدیث اُنہوں نے زر سے سنی ہے یا سوید سے؟ اُنہوں نے بتایا ہے کہ یہ دونوں اساتذہ کرام ایک جگہ اکٹھے تھے تو اُن میں سے کسی ایک نے یہ حدیث بیان کی، پھر انہیں حدیث بیان کرنے والے اور حدیث سننے والے میں شک ہو گیا (کہ وہ کون ہے)۔
ثنا بهذا عبد الجبار بن العلاء ، حدثنا سفيان ، قال: حفظته من عبدة بن ابي لبابة ، قال: ذهبت مع زر بن حبيش إلى سويد بن غفلة نعوده، فحدث سويد ، او حدث زر واكبر ظني انه سويد، عن ابي الدرداء ، او عن ابي ذر ، واكبر ظني انه عن ابي الدرداء، انه قال: " ليس عبد يريد صلاة، وقال: مرة من الليل، ثم ينسى فينام، إلا كان نومه صدقة عليه من الله، وكتب له ما نوى" . قال ابو بكر: فإن كان زائدة حفظ الإسناد الذي ذكره، وسليمان سمعه من حبيب، وحبيب من عبدة، فإنهما مدلسان، فجائز ان يكون عبدة حدث بالخبر مرة قديما، عن سويد بن غفلة، عن ابي الدرداء بلا شك، ثم شك بعد اسمعه من زر بن حبيش، او من سويد، وهو عن ابي الدرداء او عن ابي ذر ؛ لان بين حبيب بن ابي ثابت، وبين الثوري، وابن عيينة من السن ما قد ينسي الرجل كثيرا مما كان يحفظه، فإن كان حبيب بن ابي ثابت سمع هذا الخبر من عبدة فيشبه ان يكون سمعه قبل مولد ابن عيينة ؛ لان حبيب بن ابي ثابت لعله اكبر من عبدة بن ابي لبابة، قد سمع حبيب بن ابي ثابت من ابن عمر، والله اعلم بالمحفوظ من هذه الاسانيدثنا بِهَذَا عَبْدُ الْجَبَّارِ بْنُ الْعَلاءِ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، قَالَ: حَفِظْتُهُ مِنْ عَبْدَةَ بْنِ أَبِي لُبَابَةَ ، قَالَ: ذَهَبْتُ مَعَ زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ إِلَى سُوَيْدِ بْنِ غَفَلَةَ نَعُودُهُ، فَحَدَّثَ سُوَيْدٌ ، أَوْ حَدَّثَ زِرٌّ وَأَكْبَرُ ظَنِّي أَنَّهُ سُوَيْدٌ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ ، أَوْ عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، وَأَكْبَرُ ظَنِّي أَنَّهُ عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، أَنَّهُ قَالَ: " لَيْسَ عَبْدٌ يُرِيدُ صَلاةً، وَقَالَ: مَرَّةً مِنَ اللَّيْلِ، ثُمَّ يَنْسَى فَيَنَامُ، إِلا كَانَ نَوْمُهُ صَدَقَةً عَلَيْهِ مِنَ اللَّهِ، وَكُتِبَ لَهُ مَا نَوَى" . قَالَ أَبُو بَكْرٍ: فَإِنْ كَانَ زَائِدَةُ حَفِظَ الإِسْنَادَ الَّذِي ذَكَرَهُ، وَسُلَيْمَانُ سَمِعَهُ مِنْ حَبِيبٍ، وَحَبِيبٌ مِنْ عَبْدَةَ، فَإِنَّهُمَا مُدَلِّسَانِ، فَجَائِزٌ أَنْ يَكُونَ عَبْدَةُ حَدَّثَ بِالْخَبَرِ مَرَّةً قَدِيمًا، عَنْ سُوَيْدِ بْنِ غَفَلَةَ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ بِلا شَكٍّ، ثُمَّ شَكَّ بَعْدُ أَسَمِعَهُ مِنْ زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ، أَوْ مِنْ سُوَيْدٍ، وَهُوَ عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ أَوْ عَنْ أَبِي ذَرٍّ ؛ لأَنَّ بَيْنَ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، وَبَيْنَ الثَّوْرِيِّ، وَابْنِ عُيَيْنَةَ مِنَ السِّنِّ مَا قَدْ يُنْسِي الرَّجُلَ كَثِيرًا مِمَّا كَانَ يَحْفَظُهُ، فَإِنْ كَانَ حَبِيبُ بْنُ أَبِي ثَابِتٍ سَمِعَ هَذَا الْخَبَرَ مِنْ عَبْدَةَ فَيُشْبِهُ أَنْ يَكُونَ سَمِعَهُ قَبْلَ مَوْلِدِ ابْنِ عُيَيْنَةَ ؛ لأَنَّ حَبِيبَ بْنَ أَبِي ثَابِتٍ لَعَلَّهُ أَكْبَرُ مِنْ عَبْدَةَ بْنِ أَبِي لُبَابَةَ، قَدْ سَمِعَ حَبِيبَ بْنَ أَبِي ثَابِتٍ مِنِ ابْنِ عُمَرَ، وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِالْمَحْفُوظِ مِنْ هَذِهِ الأَسَانِيدِ
امام سفیان رحمه الله فرماتے ہیں کہ میں نے یہ بات جناب عبدہ بن ابی لبابہ سے یاد رکھی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ میں جناب زر بن حُبیش کے ساتھ سوید بن غفلہ کی تیمارداری کے لئے گیا، تو سوید یازر نے حدیث بیان کی، میرا غالب گمان ہے کہ جناب سوید نے بیان کی۔ اُنہوں نے سیدنا ابودرداء یا سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہما سے روایت بیان کی اور میرا غالب گمان یہ ہے کہ سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ سے بیان کی کہ اُنہوں نے فرمایا، جو آدمی بھی رات کو نماز (تہجّد) پڑھنے کا ارادہ کرتا ہے پھر بھول کر سویا رہتا ہے تو اُس کی نیند اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُس پر صدقہ ہو جائے گی اور اُس کے لئے اُس کی نیت کے مطابق اجر و ثواب لکھ دیا جائے گا۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ اگر زائدہ نے اپنی بیان کردہ سند یاد رکھی ہے اور سلیمان نے حبیب سے سنا ہے اور حبیب نے عبدہ سے سنا ہے تو وہ دونوں مدلس ہیں، یہ ممکن ہے کہ عبدہ نے ایک مرتبہ یہ حدیث بہت پہلے بیان کی ہو اور اسے سوید بن غفلہ کے واسطے سے سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ سے بیان کیا ہو بغیر کسی شک کے پھر بعد میں انہیں شک لاحق ہو گیا ہو کہ انہوں نے یہ روایت زر بن حُبیش سے سنی ہے یا سوید سے؟ اور انہوں نے یہ روایت سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ سے بیان کی ہے یا سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے؟ کیونکہ حبیب بن ابی ثابت اور امام سفیان ثوری اور ابن عینیہ کے درمیان عمر کا اس قدر تفاوت ہے کہ اس عرصے میں آدمی اپنی حفظ کی ہوئی بہت ساری چیزیں بھول جاتا ہے۔ اگر حبیب بن ابی ثابت نے یہ روایت عبدہ سے سنی ہے تو پھر یہ بات اس کے مشابہ ہے کہ انہوں نے یہ روایت ابن عینیہ کی ولادت سے پہلے سنی ہو گی - کیونکہ شاید حبیب بن ابی ثابت (اپنے استاد) عبدہ بن ابی لبابہ سے عمر میں بڑا ہے ـ حبیب بن ابی ثابت نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے سماع کیا ہے، اور ان اسانید میں سے محفوظ کے بارے میں اللہ تعالیٰ ہی بخوبی جانتا ہے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”باقی دنوں کو چھوڑ کر صرف جمعہ المبارك کے دن کو (نفلی) روزے کے لئے خاص مت کرو۔ اور دیگر راتوں کو چھوڑ کر صرف جمعہ المبارک کی رات کو نماز تہجّد کے لئے خاص نہ کرو۔“