سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز مغرب اور نماز صبح میں قنوت کرتے تھے۔ امام شعبہ، عمرو بن مرہ سے روایت کرتے ہیں کہ وہ کہتے ہیں، میں نے ابن لیلیٰ کو سیدنا برا بن عازب رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہوئے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صبح اور مغرب میں دعائے قنوت کرتے تھے - لہٰذا سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی بنی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی روایت کے یہ الفاظ صحیح ہیں - علاء بن صالح کی روایت کے الفاظ درست نہیں ہیں اور قنوت وتر کے متعلق اعلیٰ ترین روایت جو محفوظ و ثابت ہے وہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے دور میں سیدنا ابی کعب رضی اللہ عنہ سے موقوف بیان کی گئی ہے کہ وہ (صحابہ کرام) نصف رمضان المبارک کے بعد قنوت وتر کیا کر تے تھے۔
سیدنا عروہ بن زبیر بیان کر تے ہیں کہ سیدنا عمر بن خطاب کے دور خلافت میں عبدالرحمان بن قاری، عبد اللہ بن ارقم کے ساتھ بیت المال کے گورنر تھے۔ (وہ بیان کر تے ہیں کہ) سیدنا عمر بن خطاب رضی اﷲ عنہ رمضان المبارک کی ایک رات گھر سے باہر تشریف لائے تو عبدالرحمان بن عبدالقاری بھی اُن کے ساتھ چل دیے۔ اُنہوں نے مسجد کا ایک چکّر لگایا جبکہ اہل مسجد مختلف گروہوں کی شکل میں نماز پڑھ رہے تھے، کوئی شخص اکیلا ہی نماز پڑھ رہا تھا، اور کسی شخص کے ساتھ کچھ لوگ مل کر نماز ادا کر رہے تھے، چنانچہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اللہ کی قسم، بیشک میرا خیال ہے کہ اگر ہم ان سب کہ ایک ہی قاری کے ساتھ جمع کریں تو یہ بہت اچھا ہو گا، پھر سیدنا عمر رضی ﷲ عنہ نے اس بات کا پختہ ارادہ فرمایا۔ اور سیدنا ابی بن کعب رضی ﷲ عنہ کو حُکم دیا کہ وہ انہیں رمضان المبارک میں نفل نماز پڑھایا کریں۔ پھر ایک روز سیدنا عمر رضی اﷲ عنہ ان کے پاس تشریف لائے جب کہ وہ اپنے قاری کے ساتھ (نفل) نماز پڑھ رہے تھے، تو سیدنا عمررضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہ نیا کام کتنا اچھا ہے۔ رات کے جس حصّے سے تم سوجاؤ گے وہ اس حصّے سے افصل ہے جس میں تم نماز پڑھ رہے ہو۔ آپ کی مراد رات کا آخری حصّہ تھا۔ تو لوگ ابتدائی رات میں قیام کرتے تھے، اور نصف رمضان المبارک کے بعد کفار پر (ان الفاظ میں) لعنت بھیجتے تھے۔ (دعائے قنوت پڑھتے تھے) «اللّٰهُمَّ قَاتِلِ الْكَفَرَةَ الَّذِينَ يَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِكَ وَيُكَذِّبُونَ رُسُلَكَ، وَلَا يُؤْمِنُونَ بِوَعْدِكَ، وَخَالِفْ بَيْنَ كَلِمَتِهِمْ، وَأَلْقِ فِي قُلُوبِهِمُ الرُّعْبَ، وَأَلْقِ عَلَيْهِمْ رِجْزَكَ وَعَذَابَكَ، إِلٰهَ الْحَقِّ» ”اے اللہ، ان کافروں کو تباہ و برباد کر دے، جو تیرے راستے سے روکتے ہیں، اور تیرے رسولوں کو جھٹلاتے ہیں، اور تیرے وعدے پر ایمان نہیں لاتے، اور ان کے اتحاد کو پارہ پارہ کر دے، ان کے دلوں میں رعب ڈال دے، اے معبود برحق، ان پر اپنا عذاب مسلط کر دے۔“ پھر (قاری اور امام) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتا اور مسلمانوں کے لئے حسب استطاعت خیر و بھلائی کی دعائیں مانگتا پھر مومنوں کے لئے بخشش کی دعائیں کرتا۔ راوی کا بیان ہے کہ امام جب کفار پر لعنت بھیجنے سے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھنے اور مومن مردوں اور عورتوں کے لئے بخشش کی دعا کرنے سے فارغ ہوتا تو یہ دعا بھی مانگتا «اللّٰهُمَّ إِيَّاكَ نَعْبُدُ، وَلَكَ نُصَلِّي وَنَسْجُدُ وَإِلَيْكَ نَسْعٰى وَنَحْفِدُ، وَنَرْجُو رَحْمَتَكَ رَبَّنَا، وَنَخَافُ عَذَابَكَ الْجِدّ، إِنَّ عَذَابَكَ لِمَنْ عَادَيْتَ مُلْحِقٌ» ”اے اللہ، ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں، ہم تیرے لئے ہی نماز پڑھتے اور سجدے کر تے ہیں اور تیری طرف ہی جستجو اور جدو جہد کرتے ہیں۔ اے ہمارے رب ہم تیری رحمت کی اُمید کر تے ہیں اور تیرے سخت عذاب سے ڈرتے ہیں بیشک تیرا عذاب تیرے دشمنوں پر مسلط ہو کر رہے گا۔“، پھر امام ”اللهُ أَكْبَرُ“ کہہ کر سجدے کے لیے جُھک جاتا۔
حضرت قیس بن طلق بیا ن کرتے ہیں کہ رمضان المبارک میں ایک دن میرے والد محترم ہمیں ملنے کے لئے تشریف لائے، اُنہوں نے شام ہمارے پاس کی اور روزہ افطار کیا، اور اُس رات ہمیں قیام کرایا اور ہمیں وتر بھی پڑھائے، پھر وہ اپنی مسجد میں تشریف لے گئے اور اپنے ساتھیوں کو نماز پڑھائی، حتیٰ کہ وتر باقی رہ گیا، پھر اپنے ساتھیوں میں سے ایک کو آگے کرکے فرمایا کہ تم اپنے ساتھیوں کو وتر پڑھا دو۔ کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: ” ایک رات میں دو مرتبہ وتر پڑھنا درست نہیں ہے۔“
سیدنا ابوسلمہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کی کیفیت پوچھی تو انہوں نے فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تیرہ رکعات پڑھتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم آٹھ رکعات نفل پڑھتے پھر وتر ادا کرتے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ کر دو رکعات ادا کرتے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع کرنے کا ارادہ کرتے تو کھڑے ہو کر رکوع کرتے، اور دو رکعات (صبح کی نماز کی) اذان اور اقامت کے درمیان پڑھتے۔ یہ ابوموسٰی کی حدیث کے الفاظ ہیں۔ جناب الدورقی نے اپنی حدیث میں یہ الفاظ بیان کیے، اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک رکعت وتر پڑھتے، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سلام پھیرتے، تو اللهُ أَكْبَرُ کہہ کر دو رکعات بیٹھے بیٹھے ادا کرتے، اور دو رکعات نماز فجر کی اذان اور اقامت کے درمیان ادا کرتے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں اپنی خالہ سیدنا میمونہ رضی اللہ عنہا سے ملنے گیا تو میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی موافقت کی - (اُس رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف فرما تھے)۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سحری سے کافی دیر پہلے اُٹھ گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اچھی طرح وضو کیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہوکر نماز شروع کر دی۔ میں نے بھی اُٹھ کر وضو کیا، اور پھر میں آکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں کھڑا ہوگیا، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھنا چاہتا ہوں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے میرے ہاتھ سے پکڑ کر اپنی دائیں جانب کھڑا کر لیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نو یا سات رکعات وتر ادا کیے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعتیں ادا کیں اور لیٹ کر سو گئے حتیٰ کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خراٹے سنے۔ پھر نماز کی اقامت کہی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے اور نماز پڑھائی۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ یہ دو رکعات جو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اس حدیث میں ذکر کی ہیں، ممکن ہے آپ کی مراد وہ دو رکعات ہوں۔ جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم وتر کے بعد پڑھتے تھے جیسا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے خبر دی ہے۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ ان کی مراد وہ دو رکعات ہوں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی فرض نماز سے پہلے ادا کرتے تھے۔
جناب سعد بن ہشام انصاری سے مروی ہے کہ اُنہوں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی نماز کے متعلق پوچھا تو اُنہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب عشاء کی نماز پڑھ لیتے تو دو ہلکی سی رکعات ادا کرتے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سو جاتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سرہانے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کا پانی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسواک رکھی ہوتی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوتے تو مسواک کرتے اور وضو کرتے اور نماز پڑھتے، دو مختصر سی رکعتیں ادا کرتے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم آٹھ رکعات قیام کرتے، ان میں برابر قراءت فرماتے، اور نویں رکعت وتر ادا کرتے، اور دو رکعات ادا کرتے، اس حال میں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے ہوتے، پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عمر رسیدہ ہو گئے اور فربہ ہو گئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آٹھ رکعات کو چھ کر دیا اور ساتویں رکعت وتر پڑھتے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو رکعات بیٹھے بیٹھے ادا کرتے، ان میں «قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ» اور «إِذَا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزَالَهَا» کی تلاوت فرماتے۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیا ن کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نو رکعات وتر پڑھتے تھے۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر زیادہ ہوگئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سات رکعات وتر پڑھنے لگے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ کر دو رکعات ادا کر تے، ان میں سورہ الرحمٰن اور سوره الواقعة کی تلاوت کر تے۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اور ہم چھوٹی چھوٹی سورتیں، جیسے «قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ» اور ان جیسی سورتیں پڑھتے ہیں۔
وان الركعتين اللتين كان النبي صلى الله عليه وسلم يصليهما بعد الوتر لم يكونا خاصة للنبي صلى الله عليه وسلم دون امته، إذ النبي صلى الله عليه وسلم قد امرنا بالركعتين بعد الوتر، امر ندب وفضيلة، لا امر إيجاب وفريضة وَأَنَّ الرَّكْعَتَيْنِ اللَّتَيْنِ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّيهِمَا بَعْدَ الْوِتْرِ لَمْ يَكُونَا خَاصَّةً لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دُونَ أُمَّتِهِ، إِذِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أَمَرَنَا بِالرَّكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْوِتْرِ، أَمْرَ نَدْبٍ وَفَضِيلَةٍ، لَا أَمْرَ إِيجَابٍ وَفَرِيضَةٍ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے - تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک یہ سفر مشقّت اور تھکاوٹ کا باعث ہے، لہٰذا جب تم میں سے کوئی شخص وتر پڑھے تو دو رکعتیں (مزید) پڑھ لے - پھر اگر وہ (تہجّد کے لئے) بیدار ہو گیا (تو بہتر ہے) ورنہ وہی دو رکعات اسے کافی ہوں گی۔“