صحيح ابن خزيمه کل احادیث 3080 :حدیث نمبر
صحيح ابن خزيمه
نمازِوتر اور اس میں سنّتوں کے ابواب کا مجموعہ
حدیث نمبر: 1099
Save to word اعراب
حدثنا بندار ، حدثنا محمد بن جعفر ، نا شعبة ، عن عمرو بن مرة ، قال: سمعت ابن ابي ليلى ، حدثني البراء بن عازب ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان " يقنت في المغرب والصبح" ، نا احمد بن عبدة ، حدثنا ابو داود ، نا شعبة ، عن عمرو بن مرة انباه، قال: سمعت ابن ابي ليلى يحدث، عن البراء بن عازب : ان النبي صلى الله عليه وسلم كان" يقنت في الصبح والمغرب". فهذا هو الصحيح عن البراء بن عازب، عن النبي صلى الله عليه وسلم لا على ما رواه العلاء بن صالح. واعلى خبر يحفظ في القنوت في الوتر، عن ابي بن كعب في عهد عمر بن الخطاب موقوفا، انهم كانوا يقنتون بعد النصف، يعني من رمضانحَدَّثَنَا بُنْدَارٌ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، نَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ أَبِي لَيْلَى ، حَدَّثَنِي الْبَرَاءُ بْنُ عَازِبٍ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ " يَقْنُتُ فِي الْمَغْرِبِ وَالصُّبْحِ" ، نَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ ، نَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ أَنْبَأَهُ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ أَبِي لَيْلَى يُحَدِّثُ، عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ : أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ" يَقْنُتُ فِي الصُّبْحِ وَالْمَغْرِبِ". فَهَذَا هُوَ الصَّحِيحُ عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لا عَلَى مَا رَوَاهُ الْعَلاءُ بْنُ صَالِحٍ. وَأَعْلَى خَبَرٍ يُحْفَظُ فِي الْقُنُوتِ فِي الْوِتْرِ، عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ فِي عَهْدِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ مَوْقُوفًا، أَنَّهُمْ كَانُوا يَقْنُتُونَ بَعْدَ النِّصْفِ، يَعْنِي مِنْ رَمَضَانَ
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز مغرب اور نماز صبح میں قنوت کرتے تھے۔ امام شعبہ، عمرو بن مرہ سے روایت کرتے ہیں کہ وہ کہتے ہیں، میں نے ابن لیلیٰ کو سیدنا برا بن عازب رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہوئے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صبح اور مغرب میں دعائے قنوت کرتے تھے - لہٰذا سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی بنی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی روایت کے یہ الفاظ صحیح ہیں - علاء بن صالح کی روایت کے الفاظ درست نہیں ہیں اور قنوت وتر کے متعلق اعلیٰ ترین روایت جو محفوظ و ثابت ہے وہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے دور میں سیدنا ابی کعب رضی اللہ عنہ سے موقوف بیان کی گئی ہے کہ وہ (صحابہ کرام) نصف رمضان المبارک کے بعد قنوت وتر کیا کر تے تھے۔

تخریج الحدیث: صحيح مسلم
حدیث نمبر: 1100
Save to word اعراب
نا نا الربيع بن سليمان المرادي ، نا عبد الله بن وهب ، اخبرني يونس ، عن ابن شهاب ، اخبرني عروة بن الزبير ، ان عبد الرحمن بن عبد القارئ، وكان في عهد عمر بن الخطاب مع عبد الله بن الارقم على بيت المال، ان عمر، خرج ليلة في رمضان فخرج معه عبد الرحمن بن عبد القارئ، فطاف بالمسجد واهل المسجد اوزاع متفرقون، يصلي الرجل لنفسه، ويصلي الرجل فيصلي بصلاته الرهط، فقال عمر: والله إني اظن لو جمعنا هؤلاء على قارئ واحد لكان امثل، ثم عزم عمر على ذلك وامر ابي بن كعب ان يقوم لهم في رمضان، فخرج عمر عليهم، والناس يصلون بصلاة قارئهم، فقال عمر:" نعم البدعة هي، والتي تنامون عنها افضل من التي تقومون، يريد آخر الليل، فكان الناس يقومون اوله، وكانوا يلعنون الكفرة في النصف: اللهم قاتل الكفرة الذين يصدون عن سبيلك ويكذبون رسلك، ولا يؤمنون بوعدك، وخالف بين كلمتهم، والق في قلوبهم الرعب، والق عليهم رجزك وعذابك، إله الحق، ثم يصلي على النبي صلى الله عليه وسلم، ويدعو للمسلمين بما استطاع من خير، ثم يستغفر للمؤمنين، قال: وكان يقول إذا فرغ من لعنة الكفرة، وصلاته على النبي، واستغفاره للمؤمنين والمؤمنات، ومسالته: اللهم إياك نعبد، ولك نصلي ونسجد، وإليك نسعى ونحفد، ونرجو رحمتك ربنا، ونخاف عذابك الجد، إن عذابك لمن عاديت ملحق، ثم يكبر ويهوي ساجدا" نَا نَا الرَّبِيعُ بْنُ سُلَيْمَانَ الْمُرَادِيُّ ، نَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ ، أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَبْدِ الْقَارِئِ، وَكَانَ فِي عَهْدِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ مَعَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الأَرْقَمَ عَلَى بَيْتِ الْمَالِ، أَنَّ عُمَرَ، خَرَجَ لَيْلَةً فِي رَمَضَانَ فَخَرَجَ مَعَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ الْقَارِئِ، فَطَافَ بِالْمَسْجِدِ وَأَهْلُ الْمَسْجِدِ أَوْزَاعٌ مُتَفَرِّقُونَ، يُصَلِّي الرَّجُلُ لِنَفْسِهِ، وَيُصَلِّي الرَّجُلُ فَيُصَلِّي بِصَلاتِهِ الرَّهْطُ، فَقَالَ عُمَرُ: وَاللَّهِ إِنِّي أَظُنُّ لَوْ جَمَعْنَا هَؤُلاءِ عَلَى قَارِئٍ وَاحِدٍ لَكَانَ أَمْثَلَ، ثُمَّ عَزَمَ عُمَرُ عَلَى ذَلِكَ وَأَمَرَ أُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ أَنْ يَقُومَ لَهُمْ فِي رَمَضَانَ، فَخَرَجَ عُمَرُ عَلَيْهِمْ، وَالنَّاسُ يُصَلُّونَ بِصَلاةِ قَارِئِهِمْ، فَقَالَ عُمَرُ:" نِعْمَ الْبِدْعَةُ هِيَ، وَالَّتِي تَنَامُونَ عَنْهَا أَفْضَلُ مِنَ الَّتِي تَقُومُونَ، يُرِيدُ آخِرَ اللَّيْلِ، فَكَانَ النَّاسُ يَقُومُونَ أَوَّلَهُ، وَكَانُوا يَلْعَنُونَ الْكَفَرَةَ فِي النِّصْفِ: اللَّهُمَّ قَاتِلِ الْكَفَرَةَ الَّذِينَ يَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِكَ وَيُكَذِّبُونَ رُسُلَكَ، وَلا يُؤْمِنُونَ بِوَعْدِكَ، وَخَالِفْ بَيْنَ كَلِمَتِهِمْ، وَأَلْقِ فِي قُلُوبِهِمُ الرُّعْبَ، وَأَلْقِ عَلَيْهِمْ رِجْزَكَ وَعَذَابَكَ، إِلَهَ الْحَقِّ، ثُمَّ يُصَلِّي عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَيَدْعُو لِلْمُسْلِمِينَ بِمَا اسْتَطَاعَ مِنْ خَيْرٍ، ثُمَّ يَسْتَغْفِرُ لِلْمُؤْمِنِينَ، قَالَ: وَكَانَ يَقُولُ إِذَا فَرَغَ مِنْ لَعْنَةِ الْكَفَرَةِ، وَصَلاتِهِ عَلَى النَّبِيِّ، وَاسْتِغْفَارِهِ لِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ، وَمَسْأَلَتِهِ: اللَّهُمَّ إِيَّاكَ نَعْبُدُ، وَلَكَ نُصَلِّي وَنَسْجُدُ، وَإِلَيْكَ نَسْعَى وَنَحْفِدُ، وَنَرْجُو رَحْمَتَكَ رَبَّنَا، وَنَخَافُ عَذَابَكَ الْجِدَّ، إِنَّ عَذَابَكَ لِمَنْ عَادَيْتَ مُلْحِقٌ، ثُمَّ يُكَبِّرُ وَيَهْوِي سَاجِدًا"
سیدنا عروہ بن زبیر بیان کر تے ہیں کہ سیدنا عمر بن خطاب کے دور خلافت میں عبدالرحمان بن قاری، عبد اللہ بن ارقم کے ساتھ بیت المال کے گورنر تھے۔ (وہ بیان کر تے ہیں کہ) سیدنا عمر بن خطاب رضی اﷲ عنہ رمضان المبارک کی ایک رات گھر سے باہر تشریف لائے تو عبدالرحمان بن عبدالقاری بھی اُن کے ساتھ چل دیے۔ اُنہوں نے مسجد کا ایک چکّر لگایا جبکہ اہل مسجد مختلف گروہوں کی شکل میں نماز پڑھ رہے تھے، کوئی شخص اکیلا ہی نماز پڑھ رہا تھا، اور کسی شخص کے ساتھ کچھ لوگ مل کر نماز ادا کر رہے تھے، چنانچہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اللہ کی قسم، بیشک میرا خیال ہے کہ اگر ہم ان سب کہ ایک ہی قاری کے ساتھ جمع کریں تو یہ بہت اچھا ہو گا، پھر سیدنا عمر رضی ﷲ عنہ نے اس بات کا پختہ ارادہ فرمایا۔ اور سیدنا ابی بن کعب رضی ﷲ عنہ کو حُکم دیا کہ وہ انہیں رمضان المبارک میں نفل نماز پڑھایا کریں۔ پھر ایک روز سیدنا عمر رضی اﷲ عنہ ان کے پاس تشریف لائے جب کہ وہ اپنے قاری کے ساتھ (نفل) نماز پڑھ رہے تھے، تو سیدنا عمررضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہ نیا کام کتنا اچھا ہے۔ رات کے جس حصّے سے تم سوجاؤ گے وہ اس حصّے سے افصل ہے جس میں تم نماز پڑھ رہے ہو۔ آپ کی مراد رات کا آخری حصّہ تھا۔ تو لوگ ابتدائی رات میں قیام کرتے تھے، اور نصف رمضان المبارک کے بعد کفار پر (ان الفاظ میں) لعنت بھیجتے تھے۔ (دعائے قنوت پڑھتے تھے) «‏‏‏‏اللّٰهُمَّ قَاتِلِ الْكَفَرَةَ الَّذِينَ يَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِكَ وَيُكَذِّبُونَ رُسُلَكَ، وَلَا يُؤْمِنُونَ بِوَعْدِكَ، وَخَالِفْ بَيْنَ كَلِمَتِهِمْ، وَأَلْقِ فِي قُلُوبِهِمُ الرُّعْبَ، وَأَلْقِ عَلَيْهِمْ رِجْزَكَ وَعَذَابَكَ، إِلٰهَ الْحَقِّ» ‏‏‏‏ اے اللہ، ان کافروں کو تباہ و برباد کر دے، جو تیرے راستے سے روکتے ہیں، اور تیرے رسولوں کو جھٹلاتے ہیں، اور تیرے وعدے پر ایمان نہیں لاتے، اور ان کے اتحاد کو پارہ پارہ کر دے، ان کے دلوں میں رعب ڈال دے، اے معبود برحق، ان پر اپنا عذاب مسلط کر دے۔ پھر (قاری اور امام) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتا اور مسلمانوں کے لئے حسب استطاعت خیر و بھلائی کی دعائیں مانگتا پھر مومنوں کے لئے بخشش کی دعائیں کرتا۔ راوی کا بیان ہے کہ امام جب کفار پر لعنت بھیجنے سے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھنے اور مومن مردوں اور عورتوں کے لئے بخشش کی دعا کرنے سے فارغ ہوتا تو یہ دعا بھی مانگتا «‏‏‏‏اللّٰهُمَّ إِيَّاكَ نَعْبُدُ، وَلَكَ نُصَلِّي وَنَسْجُدُ وَإِلَيْكَ نَسْعٰى وَنَحْفِدُ، وَنَرْجُو رَحْمَتَكَ رَبَّنَا، وَنَخَافُ عَذَابَكَ الْجِدّ، إِنَّ عَذَابَكَ لِمَنْ عَادَيْتَ مُلْحِقٌ» ‏‏‏‏ اے اللہ، ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں، ہم تیرے لئے ہی نماز پڑھتے اور سجدے کر تے ہیں اور تیری طرف ہی جستجو اور جدو جہد کرتے ہیں۔ اے ہمارے رب ہم تیری رحمت کی اُمید کر تے ہیں اور تیرے سخت عذاب سے ڈرتے ہیں بیشک تیرا عذاب تیرے دشمنوں پر مسلط ہو کر رہے گا۔، پھر امام اللهُ أَكْبَرُ کہہ کر سجدے کے لیے جُھک جاتا۔

تخریج الحدیث:
692. (459) بَابُ الزَّجْرِ أَنْ يُوتِرَ الْمُصَلِّي فِي اللَّيْلَةِ الْوَاحِدَةِ مَرَّتَيْنِ إِذِ الْمُوتِرُ مَرَّتَيْنِ تَصِيرُ صَلَاتُهُ بِاللَّيْلِ شَفْعًا لَا وِتْرًا
692. ایک رات میں نمازی کو دوبارہ وتر پڑھنے کی ممانعت کا بیان کیونکہ دو بار وتر پڑھنے والے کی رات کی نماز جفت ہوجائے گی، وتر نہیں رہے گی
حدیث نمبر: 1101
Save to word اعراب
نا احمد بن المقدام ، نا ملازم بن عمرو ، نا عبد الله بن بدر ، عن قيس بن طلق ، قال: زارنا ابي في يوم من رمضان، فامسى عندنا وافطر، وقام بنا تلك الليلة، واوتر بنا، ثم انحدر إلى مسجده، فصلى باصحابه حتى بقي الوتر، ثم قدم رجلا من اصحابه، فقال: اوتر باصحابك، فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " لا وتران في ليلة" نَا أَحْمَدُ بْنُ الْمِقْدَامِ ، نَا مُلازِمُ بْنُ عَمْرٍو ، نَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بَدْرٍ ، عَنْ قَيْسِ بْنِ طَلْقٍ ، قَالَ: زَارَنَا أَبِي فِي يَوْمٍ مِنْ رَمَضَانَ، فَأَمْسَى عِنْدَنَا وَأَفْطَرَ، وَقَامَ بِنَا تِلْكَ اللَّيْلَةِ، وَأَوْتَرَ بِنَا، ثُمَّ انْحَدَرَ إِلَى مَسْجِدِهِ، فَصَلَّى بِأَصْحَابِهِ حَتَّى بَقِيَ الْوِتْرُ، ثُمَّ قَدَّمَ رَجُلا مِنْ أَصْحَابِهِ، فَقَالَ: أَوْتِرْ بِأَصْحَابِكَ، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " لا وِتْرَانِ فِي لَيْلَةٍ"
حضرت قیس بن طلق بیا ن کرتے ہیں کہ رمضان المبارک میں ایک دن میرے والد محترم ہمیں ملنے کے لئے تشریف لائے، اُنہوں نے شام ہمارے پاس کی اور روزہ افطار کیا، اور اُس رات ہمیں قیام کرایا اور ہمیں وتر بھی پڑھائے، پھر وہ اپنی مسجد میں تشریف لے گئے اور اپنے ساتھیوں کو نماز پڑھائی، حتیٰ کہ وتر باقی رہ گیا، پھر اپنے ساتھیوں میں سے ایک کو آگے کرکے فرمایا کہ تم اپنے ساتھیوں کو وتر پڑھا دو۔ کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: ایک رات میں دو مرتبہ وتر پڑھنا درست نہیں ہے۔

تخریج الحدیث: اسناده حسن
693. (460) بَابُ الرُّخْصَةِ فِي الصَّلَاةِ بَعْدَ الْوِتْرِ
693. وتر کے بعد نماز (نفل)) پڑھنے کی رخصت کا بیان
حدیث نمبر: 1102
Save to word اعراب
نا ابو موسى محمد بن المثنى ، نا ابن ابي عدي ، نا هشام ، ح وحدثنا يعقوب بن إبراهيم الدورقي ، نا يزيد بن هارون ، اخبرنا هشام بن ابي عبد الله ، عن يحيى ، عن ابي سلمة ، قال: سالت عائشة عن صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالت:" كان يصلي ثلاث عشرة ركعة، يصلي ثمان ركعات، ثم يوتر، ثم يصلي ركعتين وهو جالس، فإذا اراد ان يركع قام فركع، ويصلي ركعتين بين النداء والإقامة" هذا لفظ حديث ابي موسى. وقال الدورقي في حديثه:" ويوتر بركعة، فإذا سلم كبر فصلى ركعتين جالسا، ويصلي ركعتين بين الاذان والإقامة من الفجر"نَا أَبُو مُوسَى مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، نَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ ، نَا هِشَامٌ ، ح وَحَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدَّوْرَقِيُّ ، نَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ يَحْيَى ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ عَنْ صَلاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ:" كَانَ يُصَلِّي ثَلاثَ عَشْرَةَ رَكْعَةً، يُصَلِّي ثَمَانِ رَكَعَاتٍ، ثُمَّ يُوتِرُ، ثُمَّ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ وَهُوَ جَالِسٌ، فَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ قَامَ فَرَكَعَ، وَيُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ بَيْنَ النِّدَاءِ وَالإِقَامَةِ" هَذَا لَفْظُ حَدِيثِ أَبِي مُوسَى. وَقَالَ الدَّوْرَقِيُّ فِي حَدِيثِهِ:" وَيُوتِرُ بِرَكْعَةٍ، فَإِذَا سَلَّمَ كَبَّرَ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ جَالِسًا، وَيُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ بَيْنَ الأَذَانِ وَالإِقَامَةِ مِنَ الْفَجْرِ"
سیدنا ابوسلمہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کی کیفیت پوچھی تو انہوں نے فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تیرہ رکعات پڑھتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم آٹھ رکعات نفل پڑھتے پھر وتر ادا کرتے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ کر دو رکعات ادا کرتے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع کرنے کا ارادہ کرتے تو کھڑے ہو کر رکوع کرتے، اور دو رکعات (صبح کی نماز کی) اذان اور اقامت کے درمیان پڑھتے۔ یہ ابوموسٰی کی حدیث کے الفاظ ہیں۔ جناب الدورقی نے اپنی حدیث میں یہ الفاظ بیان کیے، اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک رکعت وتر پڑھتے، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سلام پھیرتے، تو اللهُ أَكْبَرُ کہہ کر دو رکعات بیٹھے بیٹھے ادا کرتے، اور دو رکعات نماز فجر کی اذان اور اقامت کے درمیان ادا کرتے۔

تخریج الحدیث: صحيح مسلم
حدیث نمبر: 1103
Save to word اعراب
نا احمد بن المقدام العجلي ، نا بشر يعني ابن المفضل ، نا ابو مسلمة ، عن ابي نضرة ، عن ابن عباس ، قال: زرت خالتي ميمونة فوافقت ليلة النبي صلى الله عليه وسلم، " فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم بسحر طويل، فاسبغ الوضوء، ثم قام يصلي، فقمت فتوضات، ثم جئت فقمت إلى جنبه، فلما علم اني اريد الصلاة معه اخذ بيدي فحولني عن يمينه، فاوتر بتسع او سبع، ثم صلى ركعتين، ووضع جنبه حتى سمعت ضفيزه، ثم اقيمت الصلاة فانطلق، فصلى" . قال ابو بكر: هاتان الركعتان اللتان ذكرهما ابن عباس في هذا الخبر يحتمل ان يكون اراد الركعتين اللتين كان النبي صلى الله عليه وسلم يصليهما بعد الوتر، كما اخبرت عائشة، ويحتمل ان يكون اراد بهما ركعتي الفجر اللتين كان يصليهما قبل صلاة الفريضةنَا أَحْمَدُ بْنُ الْمِقْدَامِ الْعِجْلِيُّ ، نَا بِشْرٌ يَعْنِي ابْنَ الْمُفَضَّلِ ، نَا أَبُو مَسْلَمَةَ ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: زُرْتُ خَالَتِي مَيْمُونَةَ فَوَافَقْتُ لَيْلَةَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، " فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِسَحَرٍ طَوِيلٍ، فَأَسْبَغَ الْوُضُوءَ، ثُمَّ قَامَ يُصَلِّي، فَقُمْتُ فَتَوَضَّأْتُ، ثُمَّ جِئْتُ فَقُمْتُ إِلَى جَنْبِهِ، فَلَمَّا عَلِمَ أَنِّي أُرِيدُ الصَّلاةَ مَعَهُ أَخَذَ بِيَدِي فَحَوَّلَنِي عَنْ يَمِينِهِ، فَأَوْتَرَ بِتِسْعٍ أَوْ سَبْعٍ، ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ، وَوَضَعَ جَنْبَهُ حَتَّى سَمِعْتُ ضَفِيزَهُ، ثُمَّ أُقِيمَتِ الصَّلاةُ فَانْطَلَقَ، فَصَلَّى" . قَالَ أَبُو بَكْرٍ: هَاتَانِ الرَّكْعَتَانِ اللَّتَانِ ذَكَرَهُمَا ابْنُ عَبَّاسٍ فِي هَذَا الْخَبَرِ يُحْتَمَلُ أَنْ يَكُونَ أَرَادَ الرَّكْعَتَيْنِ اللَّتَيْنِ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّيهِمَا بَعْدَ الْوِتْرِ، كَمَا أَخْبَرَتْ عَائِشَةُ، وَيُحْتَمَلُ أَنْ يَكُونَ أَرَادَ بِهِمَا رَكْعَتَيِ الْفَجْرِ اللَّتَيْنِ كَانَ يُصَلِّيهِمَا قَبْلَ صَلاةِ الْفَرِيضَةِ
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں اپنی خالہ سیدنا میمونہ رضی اللہ عنہا سے ملنے گیا تو میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی موافقت کی - (اُس رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف فرما تھے)۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سحری سے کافی دیر پہلے اُٹھ گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اچھی طرح وضو کیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہوکر نماز شروع کر دی۔ میں نے بھی اُٹھ کر وضو کیا، اور پھر میں آکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں کھڑا ہوگیا، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھنا چاہتا ہوں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے میرے ہاتھ سے پکڑ کر اپنی دائیں جانب کھڑا کر لیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نو یا سات رکعات وتر ادا کیے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعتیں ادا کیں اور لیٹ کر سو گئے حتیٰ کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خراٹے سنے۔ پھر نماز کی اقامت کہی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے اور نماز پڑھائی۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ یہ دو رکعات جو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اس حدیث میں ذکر کی ہیں، ممکن ہے آپ کی مراد وہ دو رکعات ہوں۔ جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم وتر کے بعد پڑھتے تھے جیسا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے خبر دی ہے۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ ان کی مراد وہ دو رکعات ہوں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی فرض نماز سے پہلے ادا کرتے تھے۔

تخریج الحدیث: اسناده صحيح
694. (461) بَابُ ذِكْرِ الْقِرَاءَةِ فِي الرَّكْعَتَيْنِ اللَّتَيْنِ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّيهِمَا بَعْدَ الْوِتْرِ
694. ان دو رکعت میں قراءت کا بیان جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم وتر کے بعد ادا کرتے تھے
حدیث نمبر: 1104
Save to word اعراب
نا بندار ، نا ابو داود ، نا ابو حرة ، عن الحسن ، عن سعد بن هشام الانصاري ، انه سال عائشة عن صلاة النبي صلى الله عليه وسلم بالليل، فقالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم " إذا صلى العشاء تجوز بركعتين، ثم ينام وعند راسه طهوره وسواكه، فيقوم فيتسوك، ويتوضا، ويصلي، ويتجوز بركعتين، ثم يقوم فيصلي ثمان ركعات يسوي بينهن في القراءة، ويوتر بالتاسعة، ويصلي ركعتين وهو جالس، فلما اسن رسول الله صلى الله عليه وسلم، واخذ اللحم، جعل الثمان ستا، ويوتر بالسابعة، ويصلي ركعتين وهو جالس، يقرا فيهما بـ: قل يا ايها الكافرون، وإذا زلزلت" نَا بُنْدَارٌ ، نَا أَبُو دَاوُدَ ، نَا أَبُو حَرَّةَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ هِشَامٍ الأَنْصَارِيِّ ، أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ عَنْ صَلاةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِاللَّيْلِ، فَقَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " إِذَا صَلَّى الْعِشَاءَ تَجَوَّزَ بِرَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ يَنَامُ وَعِنْدَ رَأْسِهِ طَهُورُهُ وَسِوَاكُهُ، فَيَقُومُ فَيَتَسَوَّكُ، وَيَتَوَضَّأُ، وَيُصَلِّي، وَيَتَجَوَّزُ بِرَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ يَقُومُ فَيُصَلِّي ثَمَانِ رَكَعَاتٍ يُسَوِّي بَيْنَهُنَّ فِي الْقِرَاءَةِ، وَيُوتِرُ بِالتَّاسِعَةِ، وَيُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ وَهُوَ جَالِسٌ، فَلَمَّا أَسَنَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَخَذَ اللَّحْمَ، جَعَلَ الثَّمَانِ سِتًّا، وَيُوتِرُ بِالسَّابِعَةِ، وَيُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ وَهُوَ جَالِسٌ، يُقْرَأُ فِيهِمَا بِـ: قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ، وَإِذَا زُلْزِلَتْ"
جناب سعد بن ہشام انصاری سے مروی ہے کہ اُنہوں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی نماز کے متعلق پوچھا تو اُنہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب عشاء کی نماز پڑھ لیتے تو دو ہلکی سی رکعات ادا کرتے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سو جاتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سرہانے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کا پانی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسواک رکھی ہوتی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوتے تو مسواک کرتے اور وضو کرتے اور نماز پڑھتے، دو مختصر سی رکعتیں ادا کرتے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم آٹھ رکعات قیام کرتے، ان میں برابر قراءت فرماتے، اور نویں رکعت وتر ادا کرتے، اور دو رکعات ادا کرتے، اس حال میں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے ہوتے، پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عمر رسیدہ ہو گئے اور فربہ ہو گئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آٹھ رکعات کو چھ کر دیا اور ساتویں رکعت وتر پڑھتے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو رکعات بیٹھے بیٹھے ادا کرتے، ان میں «‏‏‏‏قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ» ‏‏‏‏ اور «‏‏‏‏إِذَا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزَالَهَا» ‏‏‏‏ کی تلاوت فرماتے۔

تخریج الحدیث: صحيح
حدیث نمبر: 1105
Save to word اعراب
حدثنا علي بن سهل الرملي ، نا مؤمل بن إسماعيل ، نا عمارة بن زاذان ، نا ثابت ، عن انس ، قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم " يوتر بتسع ركعات، فلما اسن وثقل اوتر بسبع، وصلى ركعتين وهو جالس، يقرا بـ: الرحمن، و الواقعة" . قال انس: ونحن نقرا بالسور القصار إذا زلزلت، و قل يا ايها الكافرون ونحوهماحَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ سَهْلٍ الرَّمْلِيُّ ، نَا مُؤَمَّلُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ ، نَا عُمَارَةُ بْنُ زَاذَانَ ، نَا ثَابِتٌ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " يُوتِرُ بِتِسْعِ رَكَعَاتٍ، فَلَمَّا أَسَنَّ وَثَقُلَ أَوْتَرَ بِسَبْعٍ، وَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ وَهُوَ جَالِسٌ، يَقْرَأُ بِـ: الرَّحْمَنِ، وَ الْوَاقِعَةِ" . قَالَ أَنَسٌ: وَنَحْنُ نَقْرَأُ بِالسُّوَرِ الْقِصَارِ إِذَا زُلْزِلَتْ، وَ قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ وَنَحْوِهِمَا
سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیا ن کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نو رکعات وتر پڑھتے تھے۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر زیادہ ہوگئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سات رکعات وتر پڑھنے لگے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ کر دو رکعات ادا کر تے، ان میں سورہ الرحمٰن اور سوره الواقعة کی تلاوت کر تے۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اور ہم چھوٹی چھوٹی سورتیں، جیسے «‏‏‏‏قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ» ‏‏‏‏ اور ان جیسی سورتیں پڑھتے ہیں۔

تخریج الحدیث: اسناده ضعيف
695. (462) بَابُ ذِكْرِ الدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ الصَّلَاةَ بَعْدَ الْوِتْرِ مُبَاحَةٌ لِجَمِيعِ مَنْ يُرِيدُ الصَّلَاةَ بَعْدَهُ،
695. اس بات کی دلیل کا بیان کہ وتروں کے بعد نماز ادا کرنا ہر اس شخص کے لئے جائز ہے جو وتروں کے بعد نماز پڑھنا چاہتا ہو
حدیث نمبر: Q1106
Save to word اعراب
وان الركعتين اللتين كان النبي صلى الله عليه وسلم يصليهما بعد الوتر لم يكونا خاصة للنبي صلى الله عليه وسلم دون امته، إذ النبي صلى الله عليه وسلم قد امرنا بالركعتين بعد الوتر، امر ندب وفضيلة، لا امر إيجاب وفريضة وَأَنَّ الرَّكْعَتَيْنِ اللَّتَيْنِ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّيهِمَا بَعْدَ الْوِتْرِ لَمْ يَكُونَا خَاصَّةً لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دُونَ أُمَّتِهِ، إِذِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أَمَرَنَا بِالرَّكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْوِتْرِ، أَمْرَ نَدْبٍ وَفَضِيلَةٍ، لَا أَمْرَ إِيجَابٍ وَفَرِيضَةٍ

تخریج الحدیث:
حدیث نمبر: 1106
Save to word اعراب
نا احمد بن عبد الرحمن بن وهب ، نا عمي ، حدثني معاوية وهو ابن صالح ، عن شريح بن عبيد ، عن عبد الرحمن بن جبير بن نفير ، عن ابيه ، عن ثوبان مولى رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في سفر، فقال:" إن هذا السفر جهد وثقل، فإذا اوتر احدكم فليركع ركعتين، فإن استيقظ، وإلا كانتا له" نَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ وَهْبٍ ، نَا عَمِّي ، حَدَّثَنِي مُعَاوِيَةُ وَهُوَ ابْنُ صَالِحٍ ، عَنْ شُرَيْحِ بْنِ عُبَيْدٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ ثَوْبَانَ مَوْلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ، فَقَالَ:" إِنَّ هَذَا السَّفَرَ جَهْدٌ وَثِقَلٌ، فَإِذَا أَوْتَرَ أَحَدُكُمْ فَلْيَرْكَعْ رَكْعَتَيْنِ، فَإِنِ اسْتَيْقَظَ، وَإِلا كَانَتَا لَهُ"
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے - تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیشک یہ سفر مشقّت اور تھکاوٹ کا باعث ہے، لہٰذا جب تم میں سے کوئی شخص وتر پڑھے تو دو رکعتیں (مزید) پڑھ لے - پھر اگر وہ (تہجّد کے لئے) بیدار ہو گیا (تو بہتر ہے) ورنہ وہی دو رکعات اسے کافی ہوں گی۔

تخریج الحدیث: اسناده صحيح لغيره

Previous    1    2    3    4    5    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.