سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ وہ تبوک والے سال (غزوہ تبوک کے موقع پر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (جہاد کے لئے) نکلے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (دوران سفر) ظہر اور عصر، مغرب اور عشاء کی نمازیں جمع کر کے پڑھتے تھے ـ ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز مؤخر کی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم (خیمہ سے) باہر تشریف لائے اور ظہر اور عصر کی نمازیں اکٹھی ادا کیں، پھر (آپ صلی اللہ علیہ وسلم خیمہ) کے اندر تشریف لے گئے، پھر باہر تشریف لائے اور مغرب اور عشاء کی نمازیں جمع کر کے پڑھیں - پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک کل تم تبوک کے چشمے پر پہنچ جاؤ گئے، ان شاء اللہ، اور تم وہاں چاشت کے وقت ہی پہنچ سکو گئے - تو جو شخص چشمے پر پہنچ جائے وہ میرے پہنچنے تک اس میں سے پانی بالکل نہ لے“۔ کہتے ہیں کہ جب ہم چشمے پر پہنچے تو دو آدمی ہم سے پہلے وہاں پہنچ چکے تھے جبکہ چشمہ ایک تسمے کی طرح بالکل تھوڑا تھوڑا چل رہا تھا۔ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں سے پوچھا: ” کیا تم نے چشمے سے کچھ پانی لیا ہے؟“ تو دونوں نے کہا کہ جی ہاں۔ تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے خوب سخت سست کہا پھر صحابہ کرام نے چشمے سے اپنے ہاتھوں کے ساتھ تھوڑا تھوڑا پانی چلؤوں میں لیا حتیٰ کہ تھوڑا سا پانی جمع ہو گیا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس پانی سے اپنا چہرہ اور دست مبارک دھوئے، پھر اس پانی کو چشمے میں ڈال دیا تو چشمہ جاری ہو گیا اور پھر پورا پانی بہنے لگا - پس لوگوں نے خوب سیر ہو کر پانی پیا - پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے معاذ، اگر تمھاری عمر لمبی ہوئی تو تم اس علاقے کو باغات (اور آبادی) سے بھر پور دیکھو گے۔ امام ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے واضح ہو گیا اور ثابت ہو گیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر اور عصر، مغرب اور عشاء کی نمازیں جمع کر کے ادا کیں ہیں حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سفر میں ایک جگہ پڑاؤ ڈالے ہوئے تھے اور دونوں نمازوں کو جمع کرتے وقت سفر جاری نہیں تھا - کیونکہ سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ کا یہ فرمانا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن نماز مؤخر کی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور ظہر اور عصر کی نمازیں اکٹھی ادا کیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم (خیمہ میں) داخل ہو گئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور مغرب و عشاء کی نمازیں جمع کر کے ادا کیں ـ اس سے یہ واضح ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان دو اوقات میں سوار ہو کر چل نہیں رہے تھے جن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مغرب و عشاء اور ظہر و عصر کی نمازیں جمع کر کے ادا فرمائی تھیں اور سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب سفر کی جلدی ہوتی تو دو نمازوں کو جمع کر لیتے تھے ـ سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ کی اس حدیث کے مخالف نہیں ہے کیونکہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دو نمازیں جمع کرتے ہوئے دیکھا جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سفر میں جلدی تھی تو اُنہوں نے جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو عمل کرتے دیکھا ویسے ہی بیان کر دیا ـ اور سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دو نمازیں جمع کر کے پڑھتے ہوئے دیکھا جبکہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک قیام گاہ میں ٹھہرے ہوئے تھے اور سفر نہیں کر رہے تھے، تو اُنہوں نے جیسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو کرتے ہوئے دیکھا، ویسے ہی اس کی خبر دے دی۔ لہٰذا جب مسافر کو جلدی ہو تو دو نمازیں جمع کر کے پڑھنا جائز ہے جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا۔ اسی طرح اس کے لئے کسی منزل پر قیام کے دوران سفر کی جلدی کے بغیر بھی دو نمازیں جمع کرنا جائز ہے، جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہے۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے یہ نہیں کہا کہ جب مسافر کو سفر میں جلدی نہ ہو تو اس کے لئے دو نمازوں کو جمع کرنا جائز نہیں ہے اُنہوں نے یہ بات نہ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کی ہے اور نہ اپنی طرف سے کہی ہے۔
جناب ابن شہاب، سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے علی بن حسین کی حدیث کی طرح روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب دن کے وقت جلدی سفر کرنا ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز ظہر اور عصر کو جمع کر لیتے، اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے وقت سفر کرنے کا ارادہ کرتے تو نماز مغرب اور عشاء کو جمع کر کے ادا کر لیتے - آپ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی نماز کو عصر کے پہلے وقت تک مؤخر کر لیتے پھر دونوں کو جمع کر لیتے، اور مغرب کی نمازکو مئوخرکر کے شفق غائب ہونے پر مغرب و عشاء کو جمع کر کے اداکر لیتے۔
نا محمد بن العلاء بن كريب ، وعبد الله بن سعيد الاشج ، قالا: حدثنا ابو خالد ، عن يحيى بن سعيد ، عن نافع ، قال: كنت مع عبد الله بن عمر، وحفص بن عاصم، ومساحق بن عمرو، قال:" فغابت الشمس، فقيل لابن عمر : الصلاة، قال: فسار، فقيل له: الصلاة، فقال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم " إذا عجل به السير اخر هذه الصلاة"، وانا اريد ان اؤخرها"، قال: فسرنا حتى نصف الليل، او قريبا من نصف الليل، قال: فنزل، فصلاها" . قال ابو بكر: في هذا الخبر وخبر ابن شهاب، عن انس ما بان وثبت ان الجمع بين الظهر والعصر في وقت العصر، وبين المغرب والعشاء في وقت العشاء بعد غيبوبة الشفق جائز لا على ما قال بعض العراقيين: إن الجمع بين الظهر والعصر ان يصلى الظهر في آخر وقتها والعصر في اول وقتها، والمغرب في آخر وقتها قبل غيبوبة الشفق، وكل صلاة في حضر وسفر عندهم جائز ان يصلى على ما فسروا الجمع بين الصلاتين، إذ جائز عندهم للمقيم ان يصلي الصلوات كلها إن احب في آخر وقتها، وإن شاء في اول وقتهانَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاءِ بْنِ كُرَيْبٍ ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ الأَشَجُّ ، قَالا: حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، وَحَفْصِ بْنِ عَاصِمٍ، وَمُسَاحِقِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ:" فَغَابَتِ الشَّمْسُ، فَقِيلَ لابْنِ عُمَرَ : الصَّلاةُ، قَالَ: فَسَارَ، فَقِيلَ لَهُ: الصَّلاةُ، فَقَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " إِذَا عَجَّلَ بِهِ السَّيْرُ أَخَّرَ هَذِهِ الصَّلاةَ"، وَأَنَا أُرِيدُ أَنْ أُؤَخِّرَهَا"، قَالَ: فَسِرْنَا حَتَّى نِصْفِ اللَّيْلِ، أَوْ قَرِيبًا مِنْ نِصْفِ اللَّيْلِ، قَالَ: فَنَزَلَ، فَصَلاهَا" . قَالَ أَبُو بَكْرٍ: فِي هَذَا الْخَبَرِ وَخَبَرِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَنَسٍ مَا بَانَ وَثَبَتَ أَنَّ الْجَمْعَ بَيْنَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ فِي وَقْتِ الْعَصْرِ، وَبَيْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ فِي وَقْتِ الْعِشَاءِ بَعْدَ غَيْبُوبَةِ الشَّفَقِ جَائِزٌ لا عَلَى مَا قَالَ بَعْضُ الْعِرَاقِيِّينَ: إِنَّ الْجَمْعَ بَيْنَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ أَنْ يُصَلَّى الظُّهْرُ فِي آخِرِ وَقْتِهَا وَالْعَصْرُ فِي أَوَّلِ وَقْتِهَا، وَالْمَغْرِبُ فِي آخِرِ وَقْتِهَا قَبْلَ غَيْبُوبَةِ الشَّفَقِ، وَكُلُّ صَلاةٍ فِي حَضَرٍ وَسَفَرٍ عِنْدَهُمْ جَائِزٌ أَنْ يُصَلَّى عَلَى مَا فَسَّرُوا الْجَمْعَ بَيْنَ الصَّلاتَيْنِ، إِذْ جَائِزٌ عِنْدَهُمْ لِلْمُقِيمِ أَنْ يُصَلِّيَ الصَّلَوَاتِ كُلَّهَا إِنْ أَحَبَّ فِي آخِرِ وَقْتِهَا، وَإِنْ شَاءَ فِي أَوَّلِ وَقْتِهَا
حضرت نافع بیان کرتے ہیں کہ میں سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما، حفص بن عاصم اور مساحق بن عمرو کے ساتھ تھا، تو سورج غروب ہو گیا، سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے عرض کی گئی کہ نماز ادا کر لیں، تو وہ چلتے رہے (اور سفر جاری رکھا)۔ ان سے پھر عرض کی گئی کہ نماز پڑھ لیں، تو اُنہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب سفر میں جلدی ہوتی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس نماز کو مؤخر کر لیتے تھے اور میرا ارادہ بھی اسے تاخیر سے پڑھنے کا ہے۔ کہتے ہیں کہ لہٰذا ہم آدھی رات یا آدھی کے قریب چلتے رہے، پھر وہ سواری سے اُترے اور نماز پڑھی۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ اس حدیث اور ابن شہاب کی سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی حدیث سے واضح اور ثابت ہو گیا کہ نماز ظہر اور عصر کو عصر کے وقت میں جمع کرنا اور نماز مغرب و عشاء کو عشاء کے وقت میں سورج کی سرخی غائب ہونے کے بعد جمع کر کے پڑھنا جائز ہے۔ نہ کہ اس طریقے سے جمع کرنا جیسا کہ بعض عراقی فقہا نے کہا ہے کہ نماز ظہر و عصر کو جمع کرنے کا طریقہ یہ کہ ظہر کو اس کے آخری وقت میں ادا کرے اور عصر کو اس کے ابتدائی وقت میں ادا کرے۔ اور نماز مغرب کو اس کے آخری وقت میں شفق غائب ہونے سے پہلے پڑھے اور ان کے نزدیک سفرو حضر میں دو نمازوں کو جمع کر کے اس طریقے کے مطابق ادا کرنا جائز ہے کیونکہ ان کے نزدیک مقیم شخص کے لئے جائز ہے کہ ساری نمازیں اگر چاہے تا ان کے آخری وقت میں ادا کر لے اور اگر چاہے تو ان کے اول وقت میں ادا کرلے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ منوّرہ میں آٹھ رکعات (ظہر و عصر) اور سات رکعات (مغرب و عشاء) جمع کر کے پڑھی ہیں۔ میں نے عرض کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے کیوں کیا۔ اُنہوں نے فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمّت تنگی اور مشقّت میں نہ پڑھ جائے۔ حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم (مدینہ منوّرہ میں) قیام پذیر تھے، سفر اور خوف کی حالت میں نہیں تھے۔ جناب سفیان کی روایت میں بھی یہ الفاظ ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم خوف اور سفر کی حالت میں نہیں تھے۔ جناب سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح نمازوں کو جمع کیوں کیا؟ تو انہوں نے فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمّت کا کوئی شخص تنگی اور تکلیف محسوس نہ کرے ـ جناب عبدالجبار نے بھی ہمیں ایک مرتبہ اس طرح روایت بیان کی تھی ـ
حدثنا يونس بن عبد الاعلى ، اخبرنا ابن وهب ، ان مالكا حدثه، عن ابي الزبير المكي ، عن سعيد بن جبير ، عن ابن عباس ، انه قال: " صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم الظهر والعصر جميعا، والمغرب والعشاء جميعا، في غير خوف ولا سفر" قال مالك: ارى ذلك كان في مطر. قال ابو بكر: لم يختلف العلماء كلهم ان الجمع بين الصلاتين في الحضر في غير المطر غير جائز، فعلمنا واستيقنا ان العلماء لا يجمعون على خلاف خبر عن النبي صلى الله عليه وسلم صحيح من جهة النقل، لا معارض له عن النبي صلى الله عليه وسلم، ولم يختلف علماء الحجاز ان الجمع بين الصلاتين في المطر جائز، فتاولنا جمع النبي صلى الله عليه وسلم في الحضر على المعنى الذي لم يتفق المسلمون على خلافه، إذ غير جائز ان يتفق المسلمون على خلاف خبر النبي صلى الله عليه وسلم من غير ان يرووا عن النبي صلى الله عليه وسلم خبرا خلافه، فاما ما روى العراقيون ان النبي صلى الله عليه وسلم جمع بالمدينة في غير خوف ولا مطر، فهو غلط وسهو، وخلاف قول اهل الصلاة جميعا، ولو ثبت الخبر عن النبي صلى الله عليه وسلم انه جمع في الحضر في غير خوف ولا مطر لم يحل لمسلم علم صحة هذا الخبر ان يحظر الجمع بين الصلاتين في الحضر في غير خوف ولا مطر، فمن ينقل في رفع هذا الخبر بان النبي صلى الله عليه وسلم جمع بين الصلاتين في غير خوف ولا سفر ولا مطر، ثم يزعم ان الجمع بين الصلاتين على ما جمع النبي صلى الله عليه وسلم بينهما، غير جائز، فهذا جهل وإغفال غير جائز لعالم ان يقولهحَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ عَبْدِ الأَعْلَى ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَنَّ مَالِكًا حَدَّثَهُ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ الْمَكِّيِّ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّهُ قَالَ: " صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الظُّهْرَ وَالْعَصْرَ جَمِيعًا، وَالْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ جَمِيعًا، فِي غَيْرِ خَوْفٍ وَلا سَفَرٍ" قَالَ مَالِكٌ: أَرَى ذَلِكَ كَانَ فِي مَطَرٍ. قَالَ أَبُو بَكْرٍ: لَمْ يَخْتَلِفِ الْعُلَمَاءُ كُلُّهُمْ أَنَّ الْجَمْعَ بَيْنَ الصَّلاتَيْنِ فِي الْحَضَرِ فِي غَيْرِ الْمَطَرِ غَيْرُ جَائِزٍ، فَعَلِمْنَا وَاسْتَيْقَنَّا أَنَّ الْعُلَمَاءَ لا يُجْمِعُونَ عَلَى خِلافِ خَبَرٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَحِيحٌ مِنْ جِهَةِ النَّقْلِ، لا مُعَارِضَ لَهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَمْ يَخْتَلِفْ عُلَمَاءُ الْحِجَازِ أَنَّ الْجَمْعَ بَيْنَ الصَّلاتَيْنِ فِي الْمَطَرِ جَائِزٌ، فَتَأَوَّلْنَا جَمْعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْحَضَرِ عَلَى الْمَعْنَى الَّذِي لَمْ يَتَّفِقِ الْمُسْلِمُونَ عَلَى خِلافِهِ، إِذْ غَيْرُ جَائِزٍ أَنْ يَتَّفِقَ الْمُسْلِمُونَ عَلَى خِلافِ خَبَرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَرْوُوا عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَبَرًا خِلافَهُ، فَأَمَّا مَا رَوَى الْعِرَاقِيُّونَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَمَعَ بِالْمَدِينَةِ فِي غَيْرِ خَوْفٍ وَلا مَطَرٍ، فَهُوَ غَلَطٌ وَسَهْوٌ، وَخِلافُ قَوْلِ أَهْلِ الصَّلاةِ جَمِيعًا، وَلَوْ ثَبَتَ الْخَبَرُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ جَمَعَ فِي الْحَضَرِ فِي غَيْرِ خَوْفٍ وَلا مَطَرٍ لَمْ يَحِلَّ لِمُسْلِمٍ عَلِمَ صِحَّةَ هَذَا الْخَبَرِ أَنْ يَحْظُرَ الْجَمْعَ بَيْنَ الصَّلاتَيْنِ فِي الْحَضَرِ فِي غَيْرِ خَوْفٍ وَلا مَطَرٍ، فَمَنْ يَنْقِلُ فِي رَفْعِ هَذَا الْخَبَرِ بِأَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَمَعَ بَيْنَ الصَّلاتَيْنِ فِي غَيْرِ خَوْفٍ وَلا سَفَرٍ وَلا مَطَرٍ، ثُمَّ يَزْعُمُ أَنَّ الْجَمْعَ بَيْنَ الصَّلاتَيْنِ عَلَى مَا جَمَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَهُمَا، غَيْرُ جَائِزٍ، فَهَذَا جَهْلٌ وَإِغْفَالٌ غَيْرُ جَائِزٍ لِعَالِمٍ أَنْ يَقُولَهُ
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کر تے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلی علیہ وسلم نے نماز ظہر اور عصرکو جمع کر کے پڑھا، اور مغرب وعشاء کو جمع کر کے ادا کیا، بغیر کسی خوف اور سفرکے۔ امام مالک رحمه الله فر ماتے ہیں کہ میرے خیال میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح (نمازوں کو جمع کرنا) بارش کی حالت میں کیا تھا۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ تمام علمائے کرام کا اس بات پر اتّفاق ہے کہ حضر میں بغیر بارش کے دو نمازوں کو جمع کرنا جائز نہیں ہے۔ لہٰذا ہمیں معلوم ہے اور یقین ہے کہ علمائے کرام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح سند سے منقول حدیث کے خلاف نیز اس کی معارض بھی کوئی روایت نہ ہو، اکھٹے نہیں ہوسکتے اور علمائے حجاز کا اس پر اتفاق ہے کہ بارش میں دونمازوں کو جمع کرنا جائز ہے۔ لہٰذا ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حضر میں دو نمازوں کو جمع کرنے کی تاویل اس معنی میں کی ہے جس کے خلاف مسلمانوں کا اتفاق نہیں ہے - کیونکہ یہ ناممکن ہے کہ مسلمانوں کا اتفاق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے خلاف ہو جائے حالانکہ اس حدیث کے خلاف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی حدیث بھی مروی نہ ہو - اور وہ روایت جو اہل عراق نے بیان کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منوّرہ میں بغیر خوف اور بارش کے دونمازوں کو جمع کیا ہے تو وہ غلط اور سہو ہے اور تمام مسلمانوں کے قول کے مخالف ہے اور اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث ثابت ہو جائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضر میں بغیر کسی خوف اور بارش کے دو نمازوں کو جمع کیا ہے تو جو مسلمان اس حدیث کی صحت کے بارے میں جان لے، اس کے لئے حلال اور جائز نہیں کہ وہ حضر میں بغیر کسی خوف اور بارش کے دو نمازوں کو جمع کرنا ممنوع قرار دے ـ لہٰذا جو شخص یہ مرفوع حدیث بیان کرے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بغیر کسی خوف، سفر اور بارش کے دو نمازوں کو جمع کیا ہے پھر وہ یہ دعویٰ کرے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دو نمازوں کو جمع کرنے کے طریقے کے مطابق دو نمازیں جمع کرنا جائز نہیں ہے تو یہ جہالت اور غفلت ہے، کسی عالم کو ذیب نہیں دیتا کہ ایسی بات کہے ـ
والدليل على ان الاول منهما يصلى باذان وإقامة، والاخيرة منهما بإقامة من غير اذان وَالدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ الْأَوَّلَ مِنْهُمَا يُصَلَّى بِأَذَانٍ وَإِقَامَةٍ، وَالْأَخِيرَةَ مِنْهُمَا بِإِقَامَةٍ مِنْ غَيْرِ أَذَانٍ
اور اس بات کی دلیل کا بیان کہ ان میں سے پہلی نماز اذان اور اقامت کے ساتھ ادا کی جائے گی جبکہ دوسری صرف اقامت کے ساتھ بغیر اذان پڑھے ادا کی جائے گی
سیدنا اُسامہ بن زید رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عرفات سے لوٹا، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مزدلفہ پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اذان اور اقامت کہلوائی، پھر مغرب کی نماز ادا کی، پھر آخری آدمی کے (اپنی سواری کو) کھولنے سے پہلے ہی اقامت ہوگئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عشا کی نماز پڑھائی۔
قال ابو بكر: خبر عبد الرحمن بن ابي سعيد الخدري عن ابيه، حبسنا يوم الخندق عن الصلاة، حتى كان هوي من الليل قد خرجته في غير هذا الموضع، وفي الخبر انه امر بلالا فاقام الظهر، ثم اقام العصر، ثم اقام المغرب، ثم اقام العشاء. قَالَ أَبُو بَكْرٍ: خَبَرُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ عَنْ أَبِيهِ، حُبِسْنَا يَوْمَ الْخَنْدَقِ عَنِ الصَّلَاةِ، حَتَّى كَانَ هَوِيٌّ مِنَ اللَّيْلِ قَدْ خَرَّجْتُهُ فِي غَيْرِ هَذَا الْمَوْضِعِ، وَفِي الْخَبَرِ أَنَّهُ أَمَرَ بِلَالًا فَأَقَامَ الظُّهْرَ، ثُمَّ أَقَامَ الْعَصْرَ، ثُمَّ أَقَامَ الْمَغْرِبَ، ثُمَّ أَقَامَ الْعِشَاءَ.
امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ اس بارے میں عبدالرحمن بن ابی سعید خدری کی اپنے والد گرامی سے یہ روایت ہے کہ ہمیں خندق والے دن نماز سے روک دیا گیا حتیٰ کہ رات ہو گئی ـ میں نے یہ حدیث ایک اور مقام پر بیان کر دی ہے۔ (دیکھیے حدیث نمبر 996) - اور اس حدیث میں یہ الفاظ ہیں کہ ”آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کو حُکم دیا تو اُنہوں نے نماز ظہر کی اقامت کہی (وہ ادا کی گئی) پھر اُنہوں نے عصر کی اقامت کہی (تو وہ پڑھی گئی) پھر اُنہوں نے مغرب کی اقامت کہی، پھر اُنہوں نے عشاء کی اقامت کہی (تو وہ ادا کی گئی) ـ