نا محمد بن العلاء بن كريب ، وعبد الله بن سعيد الاشج ، قالا: حدثنا ابو خالد ، عن يحيى بن سعيد ، عن نافع ، قال: كنت مع عبد الله بن عمر، وحفص بن عاصم، ومساحق بن عمرو، قال:" فغابت الشمس، فقيل لابن عمر : الصلاة، قال: فسار، فقيل له: الصلاة، فقال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم " إذا عجل به السير اخر هذه الصلاة"، وانا اريد ان اؤخرها"، قال: فسرنا حتى نصف الليل، او قريبا من نصف الليل، قال: فنزل، فصلاها" . قال ابو بكر: في هذا الخبر وخبر ابن شهاب، عن انس ما بان وثبت ان الجمع بين الظهر والعصر في وقت العصر، وبين المغرب والعشاء في وقت العشاء بعد غيبوبة الشفق جائز لا على ما قال بعض العراقيين: إن الجمع بين الظهر والعصر ان يصلى الظهر في آخر وقتها والعصر في اول وقتها، والمغرب في آخر وقتها قبل غيبوبة الشفق، وكل صلاة في حضر وسفر عندهم جائز ان يصلى على ما فسروا الجمع بين الصلاتين، إذ جائز عندهم للمقيم ان يصلي الصلوات كلها إن احب في آخر وقتها، وإن شاء في اول وقتهانَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاءِ بْنِ كُرَيْبٍ ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ الأَشَجُّ ، قَالا: حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، وَحَفْصِ بْنِ عَاصِمٍ، وَمُسَاحِقِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ:" فَغَابَتِ الشَّمْسُ، فَقِيلَ لابْنِ عُمَرَ : الصَّلاةُ، قَالَ: فَسَارَ، فَقِيلَ لَهُ: الصَّلاةُ، فَقَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " إِذَا عَجَّلَ بِهِ السَّيْرُ أَخَّرَ هَذِهِ الصَّلاةَ"، وَأَنَا أُرِيدُ أَنْ أُؤَخِّرَهَا"، قَالَ: فَسِرْنَا حَتَّى نِصْفِ اللَّيْلِ، أَوْ قَرِيبًا مِنْ نِصْفِ اللَّيْلِ، قَالَ: فَنَزَلَ، فَصَلاهَا" . قَالَ أَبُو بَكْرٍ: فِي هَذَا الْخَبَرِ وَخَبَرِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَنَسٍ مَا بَانَ وَثَبَتَ أَنَّ الْجَمْعَ بَيْنَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ فِي وَقْتِ الْعَصْرِ، وَبَيْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ فِي وَقْتِ الْعِشَاءِ بَعْدَ غَيْبُوبَةِ الشَّفَقِ جَائِزٌ لا عَلَى مَا قَالَ بَعْضُ الْعِرَاقِيِّينَ: إِنَّ الْجَمْعَ بَيْنَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ أَنْ يُصَلَّى الظُّهْرُ فِي آخِرِ وَقْتِهَا وَالْعَصْرُ فِي أَوَّلِ وَقْتِهَا، وَالْمَغْرِبُ فِي آخِرِ وَقْتِهَا قَبْلَ غَيْبُوبَةِ الشَّفَقِ، وَكُلُّ صَلاةٍ فِي حَضَرٍ وَسَفَرٍ عِنْدَهُمْ جَائِزٌ أَنْ يُصَلَّى عَلَى مَا فَسَّرُوا الْجَمْعَ بَيْنَ الصَّلاتَيْنِ، إِذْ جَائِزٌ عِنْدَهُمْ لِلْمُقِيمِ أَنْ يُصَلِّيَ الصَّلَوَاتِ كُلَّهَا إِنْ أَحَبَّ فِي آخِرِ وَقْتِهَا، وَإِنْ شَاءَ فِي أَوَّلِ وَقْتِهَا
حضرت نافع بیان کرتے ہیں کہ میں سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما، حفص بن عاصم اور مساحق بن عمرو کے ساتھ تھا، تو سورج غروب ہو گیا، سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے عرض کی گئی کہ نماز ادا کر لیں، تو وہ چلتے رہے (اور سفر جاری رکھا)۔ ان سے پھر عرض کی گئی کہ نماز پڑھ لیں، تو اُنہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب سفر میں جلدی ہوتی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس نماز کو مؤخر کر لیتے تھے اور میرا ارادہ بھی اسے تاخیر سے پڑھنے کا ہے۔ کہتے ہیں کہ لہٰذا ہم آدھی رات یا آدھی کے قریب چلتے رہے، پھر وہ سواری سے اُترے اور نماز پڑھی۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ اس حدیث اور ابن شہاب کی سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی حدیث سے واضح اور ثابت ہو گیا کہ نماز ظہر اور عصر کو عصر کے وقت میں جمع کرنا اور نماز مغرب و عشاء کو عشاء کے وقت میں سورج کی سرخی غائب ہونے کے بعد جمع کر کے پڑھنا جائز ہے۔ نہ کہ اس طریقے سے جمع کرنا جیسا کہ بعض عراقی فقہا نے کہا ہے کہ نماز ظہر و عصر کو جمع کرنے کا طریقہ یہ کہ ظہر کو اس کے آخری وقت میں ادا کرے اور عصر کو اس کے ابتدائی وقت میں ادا کرے۔ اور نماز مغرب کو اس کے آخری وقت میں شفق غائب ہونے سے پہلے پڑھے اور ان کے نزدیک سفرو حضر میں دو نمازوں کو جمع کر کے اس طریقے کے مطابق ادا کرنا جائز ہے کیونکہ ان کے نزدیک مقیم شخص کے لئے جائز ہے کہ ساری نمازیں اگر چاہے تا ان کے آخری وقت میں ادا کر لے اور اگر چاہے تو ان کے اول وقت میں ادا کرلے۔