صحيح ابن خزيمه کل احادیث 3080 :حدیث نمبر

صحيح ابن خزيمه
سفر میں فرض نماز کی ادائیگی کے ابواب کا مجموعہ
619. (386) بَابُ الرُّخْصَةِ فِي الْجَمْعِ بَيْنَ الصَّلَاتَيْنِ فِي السَّفَرِ،
619. سفر میں دو نمازوں کو جمع کرنے کی رخصت کا بیان
حدیث نمبر: Q968
Save to word اعراب
وإن كان المرء نازلا في المنزل غير سائر وقت الصلاتين. وَإِنْ كَانَ الْمَرْءُ نَازِلًا فِي الْمَنْزِلِ غَيْرَ سَائِرٍ وَقْتَ الصَّلَاتَيْنِ.
اگرچہ مسافر ان دو نمازوں کے وقت کسی قیام گاہ میں ٹھہرا ہوا ہو اور سفر نہ کررہا ہو

تخریج الحدیث:

حدیث نمبر: 968
Save to word اعراب
نا يونس بن عبد الاعلى ، اخبرنا ابن وهب ، ان مالكا حدثه، عن ابي الزبير المكي ، عن ابي الطفيل عامر بن واثلة ، ان معاذ بن جبل اخبره انهم، خرجوا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم عام تبوك، فكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يجمع بين الظهر والعصر، والمغرب والعشاء قال: فاخر الصلاة يوما ثم خرج فصلى الظهر والعصر جميعا، ثم دخل، ثم خرج فصلى المغرب والعشاء جميعا، ثم قال: " إنكم ستاتون غدا إن شاء الله عين تبوك، وإنكم لن تاتوا حتى يضحي النهار، فمن جاءها فلا يمس من مائها شيئا حتى آتي" قال: فجئناها وقد سبق إليها رجلان، والعين مثل الشراك تبض بشيء من ماء، فسالهما رسول الله صلى الله عليه وسلم:" هل مسستما من مائها شيئا؟"، فقالا: نعم، فسبهما، وقال لهما:" ما شاء الله ان يقول"، ثم غرفوا من العين بايديهم قليلا حتى اجتمع في شيء، ثم غسل رسول الله صلى الله عليه وسلم فيه وجهه ويديه، ثم اعاده فيها فجرت العين بماء كثير، فاستقى الناس، ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يوشك يا معاذ إن طالت بك حياة ان ترى ما هنا قد ملئ جنانا" قال ابو بكر: في الخبر ما بان وثبت ان النبي صلى الله عليه وسلم قد جمع بين الظهر والعصر، وبين المغرب والعشاء، وهو نازل في سفره غير سائر وقت جمعه بين الصلاتين ؛ لان قوله: اخر الصلاة يوما، ثم خرج فصلى الظهر والعصر جميعا، ثم دخل، ثم خرج فصلى المغرب والعشاء جميعا، تبين انه لم يكن راكبا سائرا في هذين الوقتين اللذين جمع فيهما بين المغرب والعشاء، وبين الظهر والعصر، وخبر ابن عمر، ان النبي صلى الله عليه وسلم كان إذا جد به السير جمع بين الصلاتين ليس بخلاف هذا الخبر ؛ لان ابن عمر قد راى النبي صلى الله عليه وسلم جمع بينهما حين جد به السير، فاخبر بما راى من فعل النبي صلى الله عليه وسلم، ومعاذ بن جبل قد راى النبي صلى الله عليه وسلم قد جمع بين الصلاتين، وهو نازل في المنزل غير سائر، فخبر بما راى النبي صلى الله عليه وسلم فعله، فالجمع بين الصلاتين إذا جد بالمسافر السير جائز، كما فعله النبي صلى الله عليه وسلم، وكذلك جائز له الجمع بينهما، وإن كان نازلا لم يجد به السير كما فعله صلى الله عليه وسلم، ولم يقل ابن عمر إن الجمع بينهما غير جائز إذا لم يجد به السير لا اثرا عن النبي صلى الله عليه وسلم ذلك، ولا مخبرا عن نفسهنَا يُونُسُ بْنُ عَبْدِ الأَعْلَى ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَنَّ مَالِكًا حَدَّثَهُ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ الْمَكِّيِّ ، عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ عَامِرِ بْنِ وَاثِلَةَ ، أَنَّ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ أَخْبَرَهُ أَنَّهُمْ، خَرَجُوا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ تَبُوكَ، فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَجْمَعُ بَيْنَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ، وَالْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ قَالَ: فَأَخَّرَ الصَّلاةَ يَوْمًا ثُمَّ خَرَجَ فَصَلَّى الظُّهْرَ وَالْعَصْرَ جَمِيعًا، ثُمَّ دَخَلَ، ثُمَّ خَرَجَ فَصَلَّى الْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءِ جَمِيعًا، ثُمَّ قَالَ: " إِنَّكُمْ سَتَأْتُونَ غَدَا إِنْ شَاءَ اللَّهُ عَيْنَ تَبُوكَ، وَإِنَّكُمْ لَنْ تَأْتُوا حَتَّى يُضْحِيَ النَّهَارُ، فَمَنْ جَاءَهَا فَلا يَمَسُّ مِنْ مَائِهَا شَيْئًا حَتَّى آتِيَ" قَالَ: فَجِئْنَاهَا وَقَدْ سَبَقَ إِلَيْهَا رَجُلانِ، وَالْعَيْنُ مِثْلُ الشِّرَاكِ تَبِضُّ بِشَيْءٍ مِنْ مَاءٍ، فَسَأَلَهُمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" هَلْ مَسَسْتُمَا مِنْ مَائِهَا شَيْئًا؟"، فَقَالا: نَعَمْ، فَسَبَّهُمَا، وَقَالَ لَهُمَا:" مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَقُولَ"، ثُمَّ غَرَفُوا مِنَ الْعَيْنِ بِأَيْدِيهِمْ قَلِيلا حَتَّى اجْتَمَعَ فِي شَيْءٍ، ثُمَّ غَسَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهِ وَجْهَهُ وَيَدَيْهِ، ثُمَّ أَعَادَهُ فِيهَا فَجَرَتِ الْعَيْنُ بِمَاءٍ كَثِيرٍ، فَاسْتَقَى النَّاسُ، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يُوشِكُ يَا مُعَاذُ إِنْ طَالَتْ بِكَ حَيَاةٌ أَنْ تَرَى مَا هُنَا قَدْ مُلِئَ جِنَانًا" قَالَ أَبُو بَكْرٍ: فِي الْخَبَرِ مَا بَانَ وَثَبَتَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ جَمَعَ بَيْنَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ، وَبَيْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ، وَهُوَ نَازِلٌ فِي سَفَرِهِ غَيْرُ سَائِرٍ وَقْتَ جَمْعِهِ بَيْنَ الصَّلاتَيْنِ ؛ لأَنَّ قَوْلَهُ: أَخَّرَ الصَّلاةَ يَوْمًا، ثُمَّ خَرَجَ فَصَلَّى الظُّهْرَ وَالْعَصْرَ جَمِيعًا، ثُمَّ دَخَلَ، ثُمَّ خَرَجَ فَصَلَّى الْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ جَمِيعًا، تُبَيِّنُ أَنَّهُ لَمْ يَكُنْ رَاكِبًا سَائِرًا فِي هَذَيْنِ الْوَقْتَيْنِ اللَّذَيْنِ جَمَعَ فِيهِمَا بَيْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ، وَبَيْنَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ، وَخَبَرُ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا جَدَّ بِهِ السَّيْرُ جَمَعَ بَيْنَ الصَّلاتَيْنِ لَيْسَ بِخِلافِ هَذَا الْخَبَرِ ؛ لأَنَّ ابْنَ عُمَرَ قَدْ رَأَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَمَعَ بَيْنَهُمَا حِينَ جَدَّ بِهِ السَّيْرُ، فَأَخْبَرَ بِمَا رَأَى مِنْ فِعْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ قَدْ رَأَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ جَمَعَ بَيْنَ الصَّلاتَيْنِ، وَهُوَ نَازِلٌ فِي الْمَنْزِلِ غَيْرُ سَائِرٍ، فَخَبَّرَ بِمَا رَأَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَلَهُ، فَالْجَمْعُ بَيْنَ الصَّلاتَيْنِ إِذَا جَدَّ بِالْمُسَافِرِ السَّيْرُ جَائِزٌ، كَمَا فَعَلَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَذَلِكَ جَائِزٌ لَهُ الْجَمْعُ بَيْنَهُمَا، وَإِنْ كَانَ نَازِلا لَمْ يَجِدَّ بِهِ السَّيْرُ كَمَا فَعَلَهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَمْ يَقُلِ ابْنُ عُمَرَ إِنَّ الْجَمْعَ بَيْنَهُمَا غَيْرُ جَائِزٍ إِذَا لَمْ يَجِدَّ بِهِ السَّيْرُ لا أَثَرًا عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَلِكَ، وَلا مُخْبِرًا عَنْ نَفْسِهِ
سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ وہ تبوک والے سال (غزوہ تبوک کے موقع پر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (جہاد کے لئے) نکلے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (دوران سفر) ظہر اور عصر، مغرب اور عشاء کی نمازیں جمع کر کے پڑھتے تھے ـ ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز مؤخر کی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم (خیمہ سے) باہر تشریف لائے اور ظہر اور عصر کی نمازیں اکٹھی ادا کیں، پھر (آپ صلی اللہ علیہ وسلم خیمہ) کے اندر تشریف لے گئے، پھر باہر تشریف لائے اور مغرب اور عشاء کی نمازیں جمع کر کے پڑھیں - پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیشک کل تم تبوک کے چشمے پر پہنچ جاؤ گئے، ان شاء اللہ، اور تم وہاں چاشت کے وقت ہی پہنچ سکو گئے - تو جو شخص چشمے پر پہنچ جائے وہ میرے پہنچنے تک اس میں سے پانی بالکل نہ لے۔ کہتے ہیں کہ جب ہم چشمے پر پہنچے تو دو آدمی ہم سے پہلے وہاں پہنچ چکے تھے جبکہ چشمہ ایک تسمے کی طرح بالکل تھوڑا تھوڑا چل رہا تھا۔ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں سے پوچھا: کیا تم نے چشمے سے کچھ پانی لیا ہے؟ تو دونوں نے کہا کہ جی ہاں۔ تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے خوب سخت سست کہا پھر صحابہ کرام نے چشمے سے اپنے ہاتھوں کے ساتھ تھوڑا تھوڑا پانی چلؤوں میں لیا حتیٰ کہ تھوڑا سا پانی جمع ہو گیا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس پانی سے اپنا چہرہ اور دست مبارک دھوئے، پھر اس پانی کو چشمے میں ڈال دیا تو چشمہ جاری ہو گیا اور پھر پورا پانی بہنے لگا - پس لوگوں نے خوب سیر ہو کر پانی پیا - پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے معاذ، اگر تمھاری عمر لمبی ہوئی تو تم اس علاقے کو باغات (اور آبادی) سے بھر پور دیکھو گے۔ امام ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے واضح ہو گیا اور ثابت ہو گیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر اور عصر، مغرب اور عشاء کی نمازیں جمع کر کے ادا کیں ہیں حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سفر میں ایک جگہ پڑاؤ ڈالے ہوئے تھے اور دونوں نمازوں کو جمع کرتے وقت سفر جاری نہیں تھا - کیونکہ سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ کا یہ فرمانا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن نماز مؤخر کی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور ظہر اور عصر کی نمازیں اکٹھی ادا کیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم (خیمہ میں) داخل ہو گئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور مغرب و عشاء کی نمازیں جمع کر کے ادا کیں ـ اس سے یہ واضح ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان دو اوقات میں سوار ہو کر چل نہیں رہے تھے جن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مغرب و عشاء اور ظہر و عصر کی نمازیں جمع کر کے ادا فرمائی تھیں اور سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب سفر کی جلدی ہوتی تو دو نمازوں کو جمع کر لیتے تھے ـ سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ کی اس حدیث کے مخالف نہیں ہے کیونکہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دو نمازیں جمع کرتے ہوئے دیکھا جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سفر میں جلدی تھی تو اُنہوں نے جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو عمل کرتے دیکھا ویسے ہی بیان کر دیا ـ اور سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دو نمازیں جمع کر کے پڑھتے ہوئے دیکھا جبکہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک قیام گاہ میں ٹھہرے ہوئے تھے اور سفر نہیں کر رہے تھے، تو اُنہوں نے جیسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو کرتے ہوئے دیکھا، ویسے ہی اس کی خبر دے دی۔ لہٰذا جب مسافر کو جلدی ہو تو دو نمازیں جمع کر کے پڑھنا جائز ہے جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا۔ اسی طرح اس کے لئے کسی منزل پر قیام کے دوران سفر کی جلدی کے بغیر بھی دو نمازیں جمع کرنا جائز ہے، جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہے۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے یہ نہیں کہا کہ جب مسافر کو سفر میں جلدی نہ ہو تو اس کے لئے دو نمازوں کو جمع کرنا جائز نہیں ہے اُنہوں نے یہ بات نہ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کی ہے اور نہ اپنی طرف سے کہی ہے۔

تخریج الحدیث:


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.