حدثنا يونس بن عبد الاعلى ، اخبرنا ابن وهب ، ان مالكا حدثه، عن ابي الزبير المكي ، عن سعيد بن جبير ، عن ابن عباس ، انه قال: " صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم الظهر والعصر جميعا، والمغرب والعشاء جميعا، في غير خوف ولا سفر" قال مالك: ارى ذلك كان في مطر. قال ابو بكر: لم يختلف العلماء كلهم ان الجمع بين الصلاتين في الحضر في غير المطر غير جائز، فعلمنا واستيقنا ان العلماء لا يجمعون على خلاف خبر عن النبي صلى الله عليه وسلم صحيح من جهة النقل، لا معارض له عن النبي صلى الله عليه وسلم، ولم يختلف علماء الحجاز ان الجمع بين الصلاتين في المطر جائز، فتاولنا جمع النبي صلى الله عليه وسلم في الحضر على المعنى الذي لم يتفق المسلمون على خلافه، إذ غير جائز ان يتفق المسلمون على خلاف خبر النبي صلى الله عليه وسلم من غير ان يرووا عن النبي صلى الله عليه وسلم خبرا خلافه، فاما ما روى العراقيون ان النبي صلى الله عليه وسلم جمع بالمدينة في غير خوف ولا مطر، فهو غلط وسهو، وخلاف قول اهل الصلاة جميعا، ولو ثبت الخبر عن النبي صلى الله عليه وسلم انه جمع في الحضر في غير خوف ولا مطر لم يحل لمسلم علم صحة هذا الخبر ان يحظر الجمع بين الصلاتين في الحضر في غير خوف ولا مطر، فمن ينقل في رفع هذا الخبر بان النبي صلى الله عليه وسلم جمع بين الصلاتين في غير خوف ولا سفر ولا مطر، ثم يزعم ان الجمع بين الصلاتين على ما جمع النبي صلى الله عليه وسلم بينهما، غير جائز، فهذا جهل وإغفال غير جائز لعالم ان يقولهحَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ عَبْدِ الأَعْلَى ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَنَّ مَالِكًا حَدَّثَهُ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ الْمَكِّيِّ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّهُ قَالَ: " صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الظُّهْرَ وَالْعَصْرَ جَمِيعًا، وَالْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ جَمِيعًا، فِي غَيْرِ خَوْفٍ وَلا سَفَرٍ" قَالَ مَالِكٌ: أَرَى ذَلِكَ كَانَ فِي مَطَرٍ. قَالَ أَبُو بَكْرٍ: لَمْ يَخْتَلِفِ الْعُلَمَاءُ كُلُّهُمْ أَنَّ الْجَمْعَ بَيْنَ الصَّلاتَيْنِ فِي الْحَضَرِ فِي غَيْرِ الْمَطَرِ غَيْرُ جَائِزٍ، فَعَلِمْنَا وَاسْتَيْقَنَّا أَنَّ الْعُلَمَاءَ لا يُجْمِعُونَ عَلَى خِلافِ خَبَرٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَحِيحٌ مِنْ جِهَةِ النَّقْلِ، لا مُعَارِضَ لَهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَمْ يَخْتَلِفْ عُلَمَاءُ الْحِجَازِ أَنَّ الْجَمْعَ بَيْنَ الصَّلاتَيْنِ فِي الْمَطَرِ جَائِزٌ، فَتَأَوَّلْنَا جَمْعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْحَضَرِ عَلَى الْمَعْنَى الَّذِي لَمْ يَتَّفِقِ الْمُسْلِمُونَ عَلَى خِلافِهِ، إِذْ غَيْرُ جَائِزٍ أَنْ يَتَّفِقَ الْمُسْلِمُونَ عَلَى خِلافِ خَبَرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَرْوُوا عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَبَرًا خِلافَهُ، فَأَمَّا مَا رَوَى الْعِرَاقِيُّونَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَمَعَ بِالْمَدِينَةِ فِي غَيْرِ خَوْفٍ وَلا مَطَرٍ، فَهُوَ غَلَطٌ وَسَهْوٌ، وَخِلافُ قَوْلِ أَهْلِ الصَّلاةِ جَمِيعًا، وَلَوْ ثَبَتَ الْخَبَرُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ جَمَعَ فِي الْحَضَرِ فِي غَيْرِ خَوْفٍ وَلا مَطَرٍ لَمْ يَحِلَّ لِمُسْلِمٍ عَلِمَ صِحَّةَ هَذَا الْخَبَرِ أَنْ يَحْظُرَ الْجَمْعَ بَيْنَ الصَّلاتَيْنِ فِي الْحَضَرِ فِي غَيْرِ خَوْفٍ وَلا مَطَرٍ، فَمَنْ يَنْقِلُ فِي رَفْعِ هَذَا الْخَبَرِ بِأَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَمَعَ بَيْنَ الصَّلاتَيْنِ فِي غَيْرِ خَوْفٍ وَلا سَفَرٍ وَلا مَطَرٍ، ثُمَّ يَزْعُمُ أَنَّ الْجَمْعَ بَيْنَ الصَّلاتَيْنِ عَلَى مَا جَمَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَهُمَا، غَيْرُ جَائِزٍ، فَهَذَا جَهْلٌ وَإِغْفَالٌ غَيْرُ جَائِزٍ لِعَالِمٍ أَنْ يَقُولَهُ
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کر تے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلی علیہ وسلم نے نماز ظہر اور عصرکو جمع کر کے پڑھا، اور مغرب وعشاء کو جمع کر کے ادا کیا، بغیر کسی خوف اور سفرکے۔ امام مالک رحمه الله فر ماتے ہیں کہ میرے خیال میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح (نمازوں کو جمع کرنا) بارش کی حالت میں کیا تھا۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ تمام علمائے کرام کا اس بات پر اتّفاق ہے کہ حضر میں بغیر بارش کے دو نمازوں کو جمع کرنا جائز نہیں ہے۔ لہٰذا ہمیں معلوم ہے اور یقین ہے کہ علمائے کرام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح سند سے منقول حدیث کے خلاف نیز اس کی معارض بھی کوئی روایت نہ ہو، اکھٹے نہیں ہوسکتے اور علمائے حجاز کا اس پر اتفاق ہے کہ بارش میں دونمازوں کو جمع کرنا جائز ہے۔ لہٰذا ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حضر میں دو نمازوں کو جمع کرنے کی تاویل اس معنی میں کی ہے جس کے خلاف مسلمانوں کا اتفاق نہیں ہے - کیونکہ یہ ناممکن ہے کہ مسلمانوں کا اتفاق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے خلاف ہو جائے حالانکہ اس حدیث کے خلاف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی حدیث بھی مروی نہ ہو - اور وہ روایت جو اہل عراق نے بیان کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منوّرہ میں بغیر خوف اور بارش کے دونمازوں کو جمع کیا ہے تو وہ غلط اور سہو ہے اور تمام مسلمانوں کے قول کے مخالف ہے اور اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث ثابت ہو جائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضر میں بغیر کسی خوف اور بارش کے دو نمازوں کو جمع کیا ہے تو جو مسلمان اس حدیث کی صحت کے بارے میں جان لے، اس کے لئے حلال اور جائز نہیں کہ وہ حضر میں بغیر کسی خوف اور بارش کے دو نمازوں کو جمع کرنا ممنوع قرار دے ـ لہٰذا جو شخص یہ مرفوع حدیث بیان کرے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بغیر کسی خوف، سفر اور بارش کے دو نمازوں کو جمع کیا ہے پھر وہ یہ دعویٰ کرے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دو نمازوں کو جمع کرنے کے طریقے کے مطابق دو نمازیں جمع کرنا جائز نہیں ہے تو یہ جہالت اور غفلت ہے، کسی عالم کو ذیب نہیں دیتا کہ ایسی بات کہے ـ