سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب فرض نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو «اللهُ أَكْبَرُ» کہتے اور اپنے دونوں ہاتھ اپنے دونوں کندھوں کے برابر اُٹھاتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قراءت مکمّل ہونے کے بعد اور رُکوع کا ارادہ کرتے وقت بھی اسی طرح رفع الیدین کرتے اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم رُکوع سے سر اُٹھاتے تو بھی اسی طرح رفع الیدین کرتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نماز میں بیٹھنے کی حالت میں رفع الیدین نہیں کرتے تھے۔ اور جب دو رکعت (کے تشہد) کے بعد کھڑے ہوتے تو اسی طرح رفع الیدین کرتے اور «اللهُ أَكْبَرُ» کہتے۔
حضرت ابوقلابہ رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ انہوں نے سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کو دیکھا جب نماز پڑھتے تو «اللهُ أَكْبَرُ» کہتے اور اپنے دونوں ہاتھ بلند فرماتے، اور جب رُکوع کرنے کا ارادہ فرماتے تو اپنے دونوں ہاتھ اُٹھاتے، اور جب رُکوع سے اپنا سر اُٹھاتے تو اپنے دونوں ہاتھ بلند کرتے، اور اُنہوں نے بیان فرمایا کہ بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسی طرح نماز پڑھا کرتے تھے۔
نا بندار ، ويحيى بن حكيم ، قالا: حدثنا عبد الوهاب وهو الثقفي ، حدثني ايوب ، عن ابي قلابة ، حدثنا مالك بن الحويرث ، قال: اتينا رسول الله صلى الله عليه وسلم ونحن شببة متقاربون، فاقمنا عنده عشرين ليلة، وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم رحيما رفيقا، فلما ظن انا قد اشتهينا اهلينا، واشتقنا سالنا عما تركنا بعدنا، فاخبرناه، فقال: " ارجعوا إلى اهليكم فاقيموا فيهم وعلموهم ومروهم"، وذكر اشياء احفظها واشياء لا احفظها،" وصلوا كما رايتموني اصلي، فإذا حضرت الصلاة، فليؤذن احدكم وليؤمكم اكبركم" . هذا لفظ حديث بندار. قال ابو بكر: فقد امر النبي صلى الله عليه وسلم مالك بن الحويرث والشببة الذين كانوا معه ان يصلوا كما راوا النبي صلى الله عليه وسلم يصلي، وقد اعلم مالك بن الحويرث ان النبي صلى الله عليه وسلم كان يرفع يديه، إذا كبر في الصلاة، وإذا ركع، وإذا رفع راسه من الركوع، ففي هذا ما دل على ان النبي صلى الله عليه وسلم قد امر برفع اليدين، إذا اراد المصلي الركوع، وإذا رفع راسه من الركوع، وكل لفظة رويت في هذا الباب، ان النبي صلى الله عليه وسلم كان يرفع يديه، إذا ركع فهو من الجنس الذي اعلمت ان العرب قد توقع اسم الفاعل على من اراد الفعل قبل ان يفعله كقول الله: يايها الذين آمنوا، إذا قمتم إلى الصلاة فاغسلوا وجوهكم سورة المائدة آية 6 الآية، فإنما امر الله عز وجل بغسل اعضاء الوضوء إذا اراد ان يقوم المرء إلى الصلاة لا بعد القيام إليها، فمعنى قوله: إذا قمتم إلى الصلاة: اي إذا اردتم القيام إليها، فكذلك معنى قوله: يرفع يديه إذا ركع، اي إذا اراد الركوع، كخبر علي بن ابي طالب، وابن عمر اللذين ذكراه، وإذا اراد ان يركع، خرجنا هذه الاخبار بتمامها في كتاب الكبير، وكذلك قوله:" فإذا دخلتم بيوتا، فسلموا على انفسكم": إنما امر بالسلام إذا اراد الدخول لا بعد دخول البيت، هذه لفظة إذا جمعت من الكتاب والسنة طال الكتاب بتقصيهانا بُنْدَارٌ ، وَيَحْيَى بْنُ حَكِيمٍ ، قَالا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ وَهُوَ الثَّقَفِيُّ ، حَدَّثَنِي أَيُّوبُ ، عَنْ أَبِي قِلابَةَ ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ الْحُوَيْرِثِ ، قَالَ: أَتَيْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ شَبَبَةٌ مُتَقَارِبُونَ، فَأَقَمْنَا عِنْدَهُ عِشْرِينَ لَيْلَةً، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَحِيمًا رَفِيقًا، فَلَمَّا ظَنَّ أَنَّا قَدِ اشْتَهَيْنَا أَهْلِينَا، وَاشْتَقْنَا سَأَلَنَا عَمَّا تَرَكْنَا بَعْدَنَا، فَأَخْبَرْنَاهُ، فَقَالُ: " ارْجِعُوا إِلَى أَهْلِيكُمْ فَأَقِيمُوا فِيهِمْ وَعَلِّمُوهُمْ وَمُرُوهُمْ"، وَذَكَرَ أَشْيَاءَ أَحْفَظُهَا وَأَشْيَاءَ لا أَحْفَظُهَا،" وَصَلُّوا كَمَا رَأَيْتُمُونِي أُصَلِّي، فَإِذَا حَضَرَتِ الصَّلاةُ، فَلْيُؤَذِّنْ أَحَدُكُمْ وَلْيَؤُمَّكُمْ أَكْبَرُكُمْ" . هَذَا لَفْظُ حَدِيثِ بُنْدَارٍ. قَالَ أَبُو بَكْرٍ: فَقَدْ أَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَالِكَ بْنَ الْحُوَيْرِثِ وَالشَّبَبَةَ الَّذِينَ كَانُوا مَعَهُ أَنْ يُصَلُّوا كَمَا رَأَوَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي، وَقَدْ أَعْلَمَ مَالِكُ بْنُ الْحُوَيْرِثِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ، إِذَا كَبَّرَ فِي الصَّلاةِ، وَإِذَا رَكَعَ، وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ، فَفِي هَذَا مَا دَلَّ عَلَى أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أَمَرَ بِرَفْعِ الْيَدَيْنِ، إِذَا أَرَادَ الْمُصَلِّي الرُّكُوعَ، وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ، وَكُلُّ لَفْظَةٍ رُوِيَتْ فِي هَذَا الْبَابِ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ، إِذَا رَكَعَ فَهُوَ مِنَ الْجِنْسِ الَّذِي أُعْلِمْتُ أَنَّ الْعَرَبَ قَدْ تُوقِعُ اسْمَ الْفَاعِلَ عَلَى مَنْ أَرَادَ الْفِعْلَ قَبْلَ أَنْ يَفْعَلَهُ كَقَوْلِ اللَّهِ: يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا، إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلاةِ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ سورة المائدة آية 6 الآيَةَ، فَإِنَّمَا أَمَرَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ بِغَسْلِ أَعْضَاءِ الْوُضُوءِ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَقُومَ الْمَرْءُ إِلَى الصَّلاةِ لا بَعْدَ الْقِيَامِ إِلَيْهَا، فَمَعْنَى قَوْلِهِ: إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلاةِ: أَيْ إِذَا أَرَدْتُمُ الْقِيَامَ إِلَيْهَا، فَكَذَلِكَ مَعْنَى قَوْلِهِ: يَرْفَعُ يَدَيْهِ إِذَا رَكَعَ، أَيْ إِذَا أَرَادَ الرُّكُوعَ، كَخَبَرِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، وَابْنِ عُمَرَ اللَّذَيْنِ ذَكَرَاهُ، وَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ، خَرَّجْنَا هَذِهِ الأَخْبَارَ بِتَمَامِهَا فِي كِتَابِ الْكَبِيرِ، وَكَذَلِكَ قَوْلُهُ:" فَإِذَا دَخَلْتُمْ بُيُوتًا، فَسَلِّمُوا عَلَى أَنْفُسِكُمْ": إِنَّمَا أَمَرَ بِالسَّلامِ إِذَا أَرَادَ الدُّخُولَ لا بَعْدَ دُخُولِ الْبَيْتِ، هَذِهِ لَفْظَةٌ إِذَا جُمِّعَتْ مِنَ الْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ طَالَ الْكِتَابُ بِتَقَصِّيهَا
سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے جبکہ ہم تقریبا ایک ہی عمر کے نوجوان تھے، ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیس راتیں قیام کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہایت رحمدل اور مہربان تھے، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سمجھا کہ ہم اپنے گھر والوں کے پاس جانا چاہتے ہیں اور ان کی ملاقات کے مشتاق ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے پوچھا: ”ہم اپنے پیچھے کن کن عزیزوں کو چھوڑ کر آئے ہیں۔“ تو ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو (اُن کے متعلق) بتایا۔ لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے گھر والوں کے پاس واپس چلے جاؤ، اُن کے ساتھ رہو، اُنہیں دین کی باتیں سکھاؤ اور (اُن پر عمل کرنے کا) اُنہیں حُکم دو۔“(حضرت ابوقلابہ کہتے ہیں کہ حضرت مالک نے) کئی چیزیں ذکر کیں جو مجھے یاد ہیں اور کئی یاد نہیں رہیں۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا: ”اور تم نماز پڑھو جیسے تم نے مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔ جب نماز کا وقت ہو جائے تو تم میں سے کوئی ایک شخص اذان کہے اور تم میں سے بڑا شخص تمہاری امامت کروائے۔“ یہ بندار کی حدیث کے الفاظ ہیں۔ امام ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ بلاشبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی نوجوانوں کو حُکم دیا تھا کہ وہ نماز اسی طرح پڑھیں جیسا اُنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تھا۔ اور سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز میں تکبیر کہتے، اور جب رُکوع کو جاتے اور جب رُکوع سے اپنا سر مبارک اُٹھاتے تو اپنے دونوں ہاتھ اُٹھاتے تھے۔ لہٰذا اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں ہاتھ اٗٹھانے (رفع الیدین کرنے) کا حُکم دیا ہے، جب نمازی رُکوع کو جائے اور جب رُکوع سے اپنا سر اُٹھائے۔ اس مسئلے کے متعلق مروی وہ تمام الفاظ کی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رُکوع کرتے وقت رفع الیدین کرتے تھے تو وہ اسی قبیل سے ہیں جو میں نے بیان کی ہے کہ عرب لوگ کبھی کبھار اسم فاعل کا اطلاق کسی کام کا ارادہ کرنے والے شخص پر بھی کرتے ہیں، اس کے وہ کام کرنے سے پہلے ہی، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے، «يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ فَاغْسِلُوا» [ سورة المائدة ]”اے ایمان والو، جب تم نماز کے لیے کھڑے ہو تو اپنے چہرے دھولو۔“ تو اللہ تعالیٰ نے حُکم دیا ہے کہ آدمی جب نماز کے لئے کھڑے ہونے کا ارادہ کرے تو اعضائے وضو دھولے یہ مطلب نہیں ہے کہ نماز میں کھڑے ہونے کے بعد اعضائے وضو دھولے، لہٰذا اللہ تعالیٰ کے اس فرمان ”جب تم نماز کے لئے کھڑے ہو“ کا معنی یہ ہے کہ جب تم نماز کے لیے کھڑے ہونے کا ارادہ کرو۔“ اسی طرح حدیث کے یہ الفاظ جب رُکوع کرتے تو رفع الیدین کرتے تو اس کے معنی یہ ہے کہ جب رُکوع کرنے کا ارادہ کرتے تو رفع الیدین کرتے“ جیسا کہ سیدنا علی بن طالب اور ابن عمر رضی اللہ عنہم کی احادیث میں مذکور ہوا ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم رُکوع کا ارادہ کرتے (تو رفع الیدین کرتے تھے) ہم نے یہ تمام روایات کتاب الکبیر میں بیان کی ہیں۔ اسی طرح اس فرمان میں «فَإِذَا دَخَلْتُم بُيُوتًا فَسَلِّمُوا عَلَىٰ أَنفُسِكُمْ» [ سورة النور ]”اور جب تم گھروں میں داخل ہو تو اپنے لوگوں کو سلام کہو۔“ گھروں میں داخل ہوتے وقت سلام کرنے کا حُکم دیا گیا ہے نہ کہ گھروں میں داخل ہونے کے بعد۔ اس مسئلے کے متعلق کتاب و سنّت سے مثالیں جمع کی جائیں تو کتاب بہت طویل ہو جائے گی۔
سیدنا ابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو بالکل سیدھے کھڑے ہوجاتے (پھرحدیث کا کچھ حصّہ بیان کیا) اور کہا کہ پھر آپ «اللهُ أَكْبَرُ» کہتے اور رُکوع کرتے پھر میانہ روی رُکوع کرتے تو اپنے سر کو نہ جُھکاتے اور نہ اُٹھاتے (بلکہ بالکل برابر رکھتے) اور اپنے دونوں ہاتھ اپنے دونوں گھٹنوں پر رکھتے۔ پھر آپ «سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ» کہتے اور بالکل کھڑے ہو جاتے حتیٰ کہ ہڈی اپنی جگہ پر سیدھی ہو جاتی۔ پھر سجدے کے لئے زمین کی طرف جُھکتے پھر فرماتے «اللهُ أَكْبَرُ» ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دونوں بازو اپنی بغلوں سے الگ کرتے اور اپنے دونوں پاؤں کی اُنگلیوں کو موڑ لیتے۔ پھر اپنے دائیں پاؤں کو موڑ کر اُس پر بیٹھ جاتے۔ پھر اعتدال کے ساتھ بیٹھ جاتے حتیٰ کہ ہر ہڈی اپنی جگہ پر سیدھی ہو جاتی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے کے لئے جُھکتے پھر فرماتے «اللهُ أَكْبَرُ» ۔ پھر اپنی دونوں کہنیاں اپنی بغلوں سے علیحدہ کرتے اور اپنے پاؤں کی اُنگلیاں کھول کر رکھتے۔ پھر اپنے پاؤں کو موڑ کر بیٹھ جاتے اور اعتدال کے ساتھ بیٹھ جاتے حتیٰ کہ ہر ہڈی اپنی جگہ پر لوٹ جاتی۔ پھر اُٹھتے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم دوسری رکعت میں بھی اسی طرح کرتے۔ حتیٰ کہ جب دو رکعتوں کے بعد کھڑے ہوتے تو «اللهُ أَكْبَرُ» کہتے اور اپنے دونوں ہاتھ بلند کرتے یہاں تک کہ اُن کو اپنے کندھوں کے برابر کرتے جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز شروع کرتے وقت کیا تھا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح کیا حتیٰ کہ جب وہ رکعت آگئی جس میں نماز مکمّل ہو جاتی ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بائیں پاؤں کو پیچھے کیا اور تورک کرتے ہوئے اپنے پہلو پر بیٹھ گئے، پھر (تشہد کے بعد) سلام پھیرا۔ امام ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ محمد بن عطاء وہ محمد بن عمرو بن عطاء ہیں۔
حضرت محمد بن عمرو بن عطاء بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابوحمید الساعدی رضی اللہ عنہ کو دس صحابہ کرام کی موجودگی میں فرماتے ہوئے سنا، ان میں ایک سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ بھی ہیں۔ اُنہوں نے فرمایا کہ میں تم سب سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کو جاننے والا ہوں پھر (امام صاحب کے) اساتذہ نے پوری حدیث بیان کی اور حدیث کے آخر میں یہ الفاظ روایت کیے کہ (دس صحابہ کرام نے کہا) آپ نے سچ فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح نماز پڑھا کرتے تھے۔
حضرت عباس بن سہل الساعدی بیان کرتے ہیں کہ انصار کے کچھ افراد جمع ہوئے۔ اُن میں حضرت سہل بن سعد الساعدی، ابوحمید الساعدی اور ابواسید الساعدی بھی تھے، تو اُنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا تذکرہ کیا، تو سیدنا ابوحمید رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مجھے اجازت دو میں تمہیں (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز) بیان کرتا ہوں اور میں تم سے اسے زیادہ جانتا ہوں۔ اُنہوں نے کہا (اگر ایسی بات ہے تو) بیان کرو۔ اُنہوں نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہترین وضو کرتے ہوئے دیکھا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں داخل ہوئے اور تکبیر کہی تو اپنے دونوں ہاتھ اپنے کندھوں کے برابر بلند کیے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رُکوع کیا تو اپنے دونوں ہاتھ اپنے گُھٹنوں پر ایسے رکھے جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُن کو پکڑتے ہوئے ہوں۔ (رُکوع میں) اپنے سر کو نہ اُٹھایا اور نہ بہت جُھکایا (بلکہ درمیانی حالت میں کمر کے برابر رکھا) اور اپنے بازؤں کو اپنے پہلوؤں سے دور رکھا، پھر (رُکوع سے) اپنا سر اُٹھایا تو سیدھے کھڑے ہو گئے حتیٰ کہ ہر ہڈی اپنی جگہ میں لوٹ گئی، پھر جناب بندار نے باقی حدیث بیان کی اور حدیث کے آخر میں یہ الفاظ بیان کیے کہ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہھم نے فرمایا: ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز اسی طرح ہوتی تھی۔ امام ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت محمد بن یحییٰ کو سنا وہ فرما رہے تھے کہ جس شخص نے یہ حدیث سننے کے بعد رُکوع کو جاتے ہوئے اور رُکوع سے سر اُٹھاتے وقت رفع الیدین نہ کیا تو اس کی نماز ناقص ہے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں داخل ہوئے تو ایک شخص مسجد میں داخل ہوا اور اُس نے نماز پڑھی، (پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سلام کا جواب دیا، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”واپس جا کر نماز پڑھو، تم نے نماز نہیں پڑھی۔“ حتیٰ کہ اُس نے تین بار اس طرح نماز پڑھی (اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے واپس جا کر دوبارہ نماز پڑھنے کا حُکم دیا) بالآخر اُس شخص نے عرض کی کہ اُس ذات کی قسم جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حق دے کر مبعوث فرمایا ہے، میں اس کے علاوہ (نماز کا طریقہ) نہیں جانتا۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اُسے نماز کا طریقہ سکھاتے ہوئے) فرمایا: ”جب تم نماز کے لئے کھڑے ہو تو «اللهُ أَكْبَرُ» کہو، پھر قرآن مجید سے تمہیں جو یاد ہو۔ اُس کی تلاوت کرو، پھر رُکوع کرو تو پورے اطمینان کے ساتھ رُکوع کرو، پھر رُکوع سے سر اُٹھاؤ تو بالکل سیدھے کھڑے ہو جائے، پھر سجدہ کرو تو مکمّل اطمینان کے ساتھ سجدہ کرو، پھر (سجدے سے سر اُٹھاؤ تو) بالکل سیدھے بیٹھ جاؤ، اپنی پوری نماز میں اسی طرح (مکمّل اطمینان اور سکون اختیار) کرو۔“ امام ابوبکر فرماتے ہیں کہ میں نے یحییٰ بن خلاد کی رفاعہ بن رافع سے روایات کو کتاب الکبیر میں بیان کیا ہے۔ امام ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث کے روایت کرنے والے راویوں میں سے یحیٰی بن سعید کے سوا کسی روای نے اسے عبید ﷲ بن عمر عن سعید عن ابیہ سے بیان نہیں کیا بلکہ وہ سب اسے حضرت سعید کے واسطے سے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں۔
سیدنا ابومسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص رُکوع و سجود میں اپنی کمر سیدھی نہیں کرتا اس کی نماز کفایت نہیں کرتی۔“
سیدنا ابومسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کسی شخص کی یا کسی آدمی کی نماز کافی نہیں ہوتی جو رُکوع اور سجود میں اپنی کمر برابر سیدھی نہیں کرتا۔“ امام صاحب اپنے استاد جناب بشر بن خالد عسکری کی سند سے مذکورہ بالا کی طرح روایت بیان کرتے ہیں۔ اُنہوں نے یہ الفاظ بیان کیے ہیں۔ ” رُکوع اور سجود میں (اپنی کمر سیدھی نہیں کرتا۔)“