نا بندار ، ويحيى بن حكيم ، قالا: حدثنا عبد الوهاب وهو الثقفي ، حدثني ايوب ، عن ابي قلابة ، حدثنا مالك بن الحويرث ، قال: اتينا رسول الله صلى الله عليه وسلم ونحن شببة متقاربون، فاقمنا عنده عشرين ليلة، وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم رحيما رفيقا، فلما ظن انا قد اشتهينا اهلينا، واشتقنا سالنا عما تركنا بعدنا، فاخبرناه، فقال: " ارجعوا إلى اهليكم فاقيموا فيهم وعلموهم ومروهم"، وذكر اشياء احفظها واشياء لا احفظها،" وصلوا كما رايتموني اصلي، فإذا حضرت الصلاة، فليؤذن احدكم وليؤمكم اكبركم" . هذا لفظ حديث بندار. قال ابو بكر: فقد امر النبي صلى الله عليه وسلم مالك بن الحويرث والشببة الذين كانوا معه ان يصلوا كما راوا النبي صلى الله عليه وسلم يصلي، وقد اعلم مالك بن الحويرث ان النبي صلى الله عليه وسلم كان يرفع يديه، إذا كبر في الصلاة، وإذا ركع، وإذا رفع راسه من الركوع، ففي هذا ما دل على ان النبي صلى الله عليه وسلم قد امر برفع اليدين، إذا اراد المصلي الركوع، وإذا رفع راسه من الركوع، وكل لفظة رويت في هذا الباب، ان النبي صلى الله عليه وسلم كان يرفع يديه، إذا ركع فهو من الجنس الذي اعلمت ان العرب قد توقع اسم الفاعل على من اراد الفعل قبل ان يفعله كقول الله: يايها الذين آمنوا، إذا قمتم إلى الصلاة فاغسلوا وجوهكم سورة المائدة آية 6 الآية، فإنما امر الله عز وجل بغسل اعضاء الوضوء إذا اراد ان يقوم المرء إلى الصلاة لا بعد القيام إليها، فمعنى قوله: إذا قمتم إلى الصلاة: اي إذا اردتم القيام إليها، فكذلك معنى قوله: يرفع يديه إذا ركع، اي إذا اراد الركوع، كخبر علي بن ابي طالب، وابن عمر اللذين ذكراه، وإذا اراد ان يركع، خرجنا هذه الاخبار بتمامها في كتاب الكبير، وكذلك قوله:" فإذا دخلتم بيوتا، فسلموا على انفسكم": إنما امر بالسلام إذا اراد الدخول لا بعد دخول البيت، هذه لفظة إذا جمعت من الكتاب والسنة طال الكتاب بتقصيهانا بُنْدَارٌ ، وَيَحْيَى بْنُ حَكِيمٍ ، قَالا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ وَهُوَ الثَّقَفِيُّ ، حَدَّثَنِي أَيُّوبُ ، عَنْ أَبِي قِلابَةَ ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ الْحُوَيْرِثِ ، قَالَ: أَتَيْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ شَبَبَةٌ مُتَقَارِبُونَ، فَأَقَمْنَا عِنْدَهُ عِشْرِينَ لَيْلَةً، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَحِيمًا رَفِيقًا، فَلَمَّا ظَنَّ أَنَّا قَدِ اشْتَهَيْنَا أَهْلِينَا، وَاشْتَقْنَا سَأَلَنَا عَمَّا تَرَكْنَا بَعْدَنَا، فَأَخْبَرْنَاهُ، فَقَالُ: " ارْجِعُوا إِلَى أَهْلِيكُمْ فَأَقِيمُوا فِيهِمْ وَعَلِّمُوهُمْ وَمُرُوهُمْ"، وَذَكَرَ أَشْيَاءَ أَحْفَظُهَا وَأَشْيَاءَ لا أَحْفَظُهَا،" وَصَلُّوا كَمَا رَأَيْتُمُونِي أُصَلِّي، فَإِذَا حَضَرَتِ الصَّلاةُ، فَلْيُؤَذِّنْ أَحَدُكُمْ وَلْيَؤُمَّكُمْ أَكْبَرُكُمْ" . هَذَا لَفْظُ حَدِيثِ بُنْدَارٍ. قَالَ أَبُو بَكْرٍ: فَقَدْ أَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَالِكَ بْنَ الْحُوَيْرِثِ وَالشَّبَبَةَ الَّذِينَ كَانُوا مَعَهُ أَنْ يُصَلُّوا كَمَا رَأَوَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي، وَقَدْ أَعْلَمَ مَالِكُ بْنُ الْحُوَيْرِثِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ، إِذَا كَبَّرَ فِي الصَّلاةِ، وَإِذَا رَكَعَ، وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ، فَفِي هَذَا مَا دَلَّ عَلَى أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أَمَرَ بِرَفْعِ الْيَدَيْنِ، إِذَا أَرَادَ الْمُصَلِّي الرُّكُوعَ، وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ، وَكُلُّ لَفْظَةٍ رُوِيَتْ فِي هَذَا الْبَابِ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ، إِذَا رَكَعَ فَهُوَ مِنَ الْجِنْسِ الَّذِي أُعْلِمْتُ أَنَّ الْعَرَبَ قَدْ تُوقِعُ اسْمَ الْفَاعِلَ عَلَى مَنْ أَرَادَ الْفِعْلَ قَبْلَ أَنْ يَفْعَلَهُ كَقَوْلِ اللَّهِ: يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا، إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلاةِ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ سورة المائدة آية 6 الآيَةَ، فَإِنَّمَا أَمَرَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ بِغَسْلِ أَعْضَاءِ الْوُضُوءِ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَقُومَ الْمَرْءُ إِلَى الصَّلاةِ لا بَعْدَ الْقِيَامِ إِلَيْهَا، فَمَعْنَى قَوْلِهِ: إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلاةِ: أَيْ إِذَا أَرَدْتُمُ الْقِيَامَ إِلَيْهَا، فَكَذَلِكَ مَعْنَى قَوْلِهِ: يَرْفَعُ يَدَيْهِ إِذَا رَكَعَ، أَيْ إِذَا أَرَادَ الرُّكُوعَ، كَخَبَرِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، وَابْنِ عُمَرَ اللَّذَيْنِ ذَكَرَاهُ، وَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ، خَرَّجْنَا هَذِهِ الأَخْبَارَ بِتَمَامِهَا فِي كِتَابِ الْكَبِيرِ، وَكَذَلِكَ قَوْلُهُ:" فَإِذَا دَخَلْتُمْ بُيُوتًا، فَسَلِّمُوا عَلَى أَنْفُسِكُمْ": إِنَّمَا أَمَرَ بِالسَّلامِ إِذَا أَرَادَ الدُّخُولَ لا بَعْدَ دُخُولِ الْبَيْتِ، هَذِهِ لَفْظَةٌ إِذَا جُمِّعَتْ مِنَ الْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ طَالَ الْكِتَابُ بِتَقَصِّيهَا
سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے جبکہ ہم تقریبا ایک ہی عمر کے نوجوان تھے، ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیس راتیں قیام کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہایت رحمدل اور مہربان تھے، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سمجھا کہ ہم اپنے گھر والوں کے پاس جانا چاہتے ہیں اور ان کی ملاقات کے مشتاق ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے پوچھا: ”ہم اپنے پیچھے کن کن عزیزوں کو چھوڑ کر آئے ہیں۔“ تو ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو (اُن کے متعلق) بتایا۔ لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے گھر والوں کے پاس واپس چلے جاؤ، اُن کے ساتھ رہو، اُنہیں دین کی باتیں سکھاؤ اور (اُن پر عمل کرنے کا) اُنہیں حُکم دو۔“(حضرت ابوقلابہ کہتے ہیں کہ حضرت مالک نے) کئی چیزیں ذکر کیں جو مجھے یاد ہیں اور کئی یاد نہیں رہیں۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا: ”اور تم نماز پڑھو جیسے تم نے مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔ جب نماز کا وقت ہو جائے تو تم میں سے کوئی ایک شخص اذان کہے اور تم میں سے بڑا شخص تمہاری امامت کروائے۔“ یہ بندار کی حدیث کے الفاظ ہیں۔ امام ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ بلاشبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی نوجوانوں کو حُکم دیا تھا کہ وہ نماز اسی طرح پڑھیں جیسا اُنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تھا۔ اور سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز میں تکبیر کہتے، اور جب رُکوع کو جاتے اور جب رُکوع سے اپنا سر مبارک اُٹھاتے تو اپنے دونوں ہاتھ اُٹھاتے تھے۔ لہٰذا اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں ہاتھ اٗٹھانے (رفع الیدین کرنے) کا حُکم دیا ہے، جب نمازی رُکوع کو جائے اور جب رُکوع سے اپنا سر اُٹھائے۔ اس مسئلے کے متعلق مروی وہ تمام الفاظ کی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رُکوع کرتے وقت رفع الیدین کرتے تھے تو وہ اسی قبیل سے ہیں جو میں نے بیان کی ہے کہ عرب لوگ کبھی کبھار اسم فاعل کا اطلاق کسی کام کا ارادہ کرنے والے شخص پر بھی کرتے ہیں، اس کے وہ کام کرنے سے پہلے ہی، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے، «يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ فَاغْسِلُوا» [ سورة المائدة ]”اے ایمان والو، جب تم نماز کے لیے کھڑے ہو تو اپنے چہرے دھولو۔“ تو اللہ تعالیٰ نے حُکم دیا ہے کہ آدمی جب نماز کے لئے کھڑے ہونے کا ارادہ کرے تو اعضائے وضو دھولے یہ مطلب نہیں ہے کہ نماز میں کھڑے ہونے کے بعد اعضائے وضو دھولے، لہٰذا اللہ تعالیٰ کے اس فرمان ”جب تم نماز کے لئے کھڑے ہو“ کا معنی یہ ہے کہ جب تم نماز کے لیے کھڑے ہونے کا ارادہ کرو۔“ اسی طرح حدیث کے یہ الفاظ جب رُکوع کرتے تو رفع الیدین کرتے تو اس کے معنی یہ ہے کہ جب رُکوع کرنے کا ارادہ کرتے تو رفع الیدین کرتے“ جیسا کہ سیدنا علی بن طالب اور ابن عمر رضی اللہ عنہم کی احادیث میں مذکور ہوا ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم رُکوع کا ارادہ کرتے (تو رفع الیدین کرتے تھے) ہم نے یہ تمام روایات کتاب الکبیر میں بیان کی ہیں۔ اسی طرح اس فرمان میں «فَإِذَا دَخَلْتُم بُيُوتًا فَسَلِّمُوا عَلَىٰ أَنفُسِكُمْ» [ سورة النور ]”اور جب تم گھروں میں داخل ہو تو اپنے لوگوں کو سلام کہو۔“ گھروں میں داخل ہوتے وقت سلام کرنے کا حُکم دیا گیا ہے نہ کہ گھروں میں داخل ہونے کے بعد۔ اس مسئلے کے متعلق کتاب و سنّت سے مثالیں جمع کی جائیں تو کتاب بہت طویل ہو جائے گی۔