اي لم اسمع احدا منهم يقرا جهرا (بسم الله الرحمن الرحيم)، وانهم كانوا يسرون (بسم الله الرحمن الرحيم) في الصلاة، لا كما توهم من لم يشتغل بطلب العلم من مظانه [و] طلب الرئاسة قبل تعلم العلم. أَيْ لَمْ أَسْمَعْ أَحَدًا مِنْهُمْ يَقْرَأُ جَهْرًا (بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ)، وَأَنَّهُمْ كَانُوا يُسِرُّونَ (بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ) فِي الصَّلَاةِ، لَا كَمَا تَوَهَّمَ مَنْ لَمْ يَشْتَغِلْ بِطَلَبِ الْعِلْمِ مِنْ مَظَانِّهِ [وَ] طَلَبَ الرِّئَاسَةَ قَبْلَ تَعَلُّمِ الْعِلْمِ.
سے ان کی مراد یہ ہے کہ میں نے ان میں سے کسی کو بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ بلند آواز سے پڑھتے ہوئے نہیں سنا، اور بلا شبہ وہ نماز میں بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ آہستہ آواز میں پڑھتے تھے (آپ کے فرمان کا) وہ مطلب نہیں جیسا کہ ان لوگوں کو وہم ہوا ہے جنہوں نے علم کو اس کے اصلی مراجع سے حاصل نہیں کیا اور حصول علم سے پہلے ہی مقام و مرتبے کے طلب گار ہیں۔“
سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ، سیدنا ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے پیچھے نمازیں پڑھی ہیں، وہ «بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ» کو بلند آواز سے نہیں پڑھتے تھے۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (نماز میں) «بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ» جہری آواز کے ساتھ نہیں پڑھی اور نہ سیدنا ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم نے (جہری آواز کے ساتھ) پڑھی ہے۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ نمازیں پڑھی ہیں، تو وہ «بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ» کو بلند آواز سے نہیں پڑھتے تھے۔
نا احمد بن ابي شريح الرازي ، حدثنا سويد بن عبد العزيز ، حدثنا عمران القصير ، عن الحسن ، عن انس بن مالك ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان " يسر ب بسم الله الرحمن الرحيم سورة الفاتحة آية 1 في الصلاة، وابو بكر، وعمر" . قال ابو بكر: هذا الخبر يصرح بخلاف ما توهم من لم يتبحر العلم، وادعى ان انس بن مالك اراد بقوله:" كان النبي صلى الله عليه وسلم، وابو بكر، وعمر يستفتحون القراءة ب الحمد لله رب العالمين سورة الفاتحة آية 2"، وبقوله:" لم اسمع احدا منهم يقرا بسم الله الرحمن الرحيم سورة الفاتحة آية 1، انهم لم يكونوا يقرءون بسم الله الرحمن الرحيم سورة الفاتحة آية 1 جهرا ولا خفيا"، وهذا الخبر يصرح انه اراد انهم كانوا يسرون به، ولا يجهرون به، عند انس ابو الجواب هو الاحوص بن جوابنا أَحْمَدُ بْنُ أَبِي شُرَيْحٍ الرَّازِيُّ ، حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ ، حَدَّثَنَا عِمْرَانُ الْقَصِيرُ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ " يُسِرُّ بِ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ سورة الفاتحة آية 1 فِي الصَّلاةِ، وَأَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ" . قَالَ أَبُو بَكْرٍ: هَذَا الْخَبَرُ يُصَرِّحُ بِخِلافِ مَا تَوَهَّمَ مَنْ لَمْ يَتَبَحَّرِ الْعِلْمَ، وَادَّعَى أَنَّ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ أَرَادَ بِقَوْلِهِ:" كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ يَسْتَفْتِحُونَ الْقِرَاءَةَ بِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ سورة الفاتحة آية 2"، وَبِقَوْلِهِ:" لَمْ أَسْمَعْ أَحَدًا مِنْهُمْ يَقْرَأُ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ سورة الفاتحة آية 1، أَنَّهُمْ لَمْ يَكُونُوا يَقْرَءُونَ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ سورة الفاتحة آية 1 جَهْرًا وَلا خَفْيًا"، وَهَذَا الْخَبَرُ يُصَرِّحُ أَنَّهُ أَرَادَ أَنَّهُمْ كَانُوا يُسِرُّونَ بِهِ، وَلا يَجْهَرُونَ بِهِ، عِنْدَ أَنَسٍ أَبُو الْجَوَّابِ هُوَ الأَحْوَصُ بْنُ جَوَّابٍ
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا ابوبکر اور عمر رضی اﷲ عنہما نماز میں «بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ» کو آہستہ آواز میں پڑھتے تھے۔ امام ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث نے وضاحت کر دی ہے کہ (نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ، سیدنا ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما «بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ» آہستہ آواز سے پڑھتے تھے، کم علم لوگوں کے گمان کے برخلاف جن کا دعوٰی ہے کہ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے اس فرمان کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ، سیدنا ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما قرأت کی ابتداء «الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ» سے کرتے تھے اور آپ کے فرمان کہ میں نے ان میں سے کسی کو «بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ» پڑھتے ہوئے نہیں سنا سے آپ کی مراد یہ ہے کہ وہ حضرات گرامی (نماز میں) «بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ» بالکل نہیں پڑھتے تھے، نہ بلند آواز سے اور نہ آہستہ آواز سے۔ اس حدیث نے صراحت کر دی کہ آپ کی مراد یہ ہے کہ وہ حضرات گرامی (نماز میں) «بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ» آہستہ آہستہ آواز سے پڑھتے تھے، بلند آواز سے نہیں پڑھتے تھے۔ حدیث نمبر 497 کی سند مذکور ابوالجواب راوی سے مراد الاحوص بن جواب ہے۔
335. اس بات کی دلیل کا بیان کہ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ کو بلند آواز اور آہستہ آواز سے دونوں طرح پڑھنا جائز ہے، ان میں سے کوئی طریقہ بھی منع نہیں ہے۔ اور یہ جائز اختلاف کی قسم سے ہے
نعیم مجمر رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی تو انہوں نے «بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ» پڑھی پھراُم القرآن کی تلاوت کی حتیٰ کہ «وَلَا الضَّالِّينَ» پر پہنچے تو آمین کہی، اور مقتدیوں نے بھی آمین کہی، آپ جب بھی سجدہ کرتے، «اللهُ أَكْبَرُ» کہتے اور جب (تشہد) بیٹھ کر اُٹھتے تو «اللهُ أَكْبَرُ» کہتے۔ جب آپ نے سلام پھیرا تو فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، بیشک میں تم سب سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری نماز کے مشابہ نماز پڑھتا ہوں۔ تمام راویوں نے ایک ہی طرح کے الفاظ روایت کیے ہیں، سوائے ابن عبدالحکم کے، انہوں نے یہ الفاظ بیان کئے کہ اور جب آپ دو رکعتوں کے (بعد تشہد) بیٹھ کر اُٹھتے تو فرماتے «اللهُ أَكْبَرُ» ۔“ امام ابوبکر رحمہ اﷲ فرماتے ہیں کہ میں نے کتاب «معاني القرآن» میں «بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ» کے متعلق دلائل پوری تحقیق کے ساتھ بیان کئے ہیں۔ میں نے اس کتا ب میں بیان کیا کہ «بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ» قرآن مجید کی آیت ہے۔ میں نے ا سے خوب واضح اور آسان اند از میں بیان کر دیا ہے کہ جو اہل علم اور ان لو گوں کے مشکل نہیں ہے جو میرے بیان کردہ دلائل میں غور و فکر کریں گے، اور اسے اللہ تعالیٰ اس کے فہم سے نوازیں گے اور جسے اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے حق بات کو سمجھنے کو توفیق عنایت فرمائیں گے۔
336. سورۂ فاتحہ کی قرأت کی فضیلت کا بیان، اور اس بات کا بیان کہ وہ سبع مثانی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے تورات انجیل اور قرآن مجید میں اس جیسی سورت نازل نہیں فرمائی
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ اُنہوں نے فرمایا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا میں تمہیں ایسی عظیم سورت نہ سکھادوں کہ اُس جیسی سورت تورات، انجیل اور قرآن مجید میں نازل نہیں کی گئی؟“ میں نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، ضرور سکھا دیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یقیناً اس دروازے سے نکلنے سے پہلے پہلے میں تمہیں وہ سورت بیان کردوں گا۔“ لہٰذا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھڑا ہوگیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے ساتھ گفتگو فرمانے لگے جبکہ میرا ہاتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک ہاتھ میں تھا تو میں نے آہستہ آہستہ چلنا شروع کر دیا، اس خدشے سے کہ کہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے وہ سورت بتائے بغیر ہی باہر نہ نکل جائیں۔ چناچہ جب میں دروازے کے قریب پہنچا تو میں نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول، وہ سورت جس کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے وعدہ فرمایا تھا (وہ بتا دیجیے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم نماز کے لئے کھڑے ہوتے ہو قرأت کیسے شروع کرتے ہو؟“ کہتے ہیں کہ میں نے فاتحہ الکتاب کی تلاوت کر کے سنائی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہی وہ سورت ہے، یہی وہ عظیم سورت ہے اور یہی سبع مثانی ہے جس کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے «وَلَقَدْ آتَيْنَاكَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِي وَالْقُرْآنَ الْعَظِيمَ» [ سورة الحجر ] بیشک ہم نے آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو سبع مثانی (بار بار پڑھی جانے والی سات آیات) اور قرآن عظیم عطا کیا ہے۔ وہ یہی ہے جو مجھے عطا کی گئی ہے۔
سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے تورات، انجیل اور قرآنِ مجید میں اُم الکتاب (سورۃ فاتحہ) جیسی سورت نازل نہیں فرمائی، اور یہی سبع مثانی ہے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص نے کوئی نماز پڑھی (اس میں) اُم القرآن نہ پڑھی تو وہ نماز ناقص ہے، وہ ناقص ہے، ناقص ہے۔ مکمل نہیں ہے۔“(ابو سائب کہتے ہیں) تو میں نے پوچھا کہ اے ابوہریرہ، میں کبھی امام کے پیچھے ہوتا ہوں (تو پھر فاتحہ کیسے پڑھوں؟) تو اُنہوں نے میرے بازو کو دبایا اور فرمایا کہ اے فارسی، اپنے دل میں پڑھ لیا کرو۔ کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ”اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں نے نماز کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان آدھا آدھا تقسیم کر دیا ہے۔ لہٰذا آدھی نماز میرے لئے اور آدھی میرے بندے کے لئے ہے، بندہ کہتا ہے «الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ» ”تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔“ تو ﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میرے بندے نے میری حمد و ثنا بیان کی ہے۔ بندہ پڑھتا ہے «الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ» ”نہایت رحم و کرم کرنے والا (ﷲ“ ﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میرے بندے نے میری تعریف و توصیف بیان کی ہے۔ بندہ تلاوت کرتا ہے کہ «مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ» ”(ﷲ) حساب کے دن کا مالک ہے۔“ ﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میرے بندے نے میری بڑائی اور بزرگی بیان کی ہے۔ اور یہ آیت میرے اور میرے بندے کے درمیان تقسیم ہے۔ بندہ کہتا ہے کہ «إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ» ”(اے اللہ) ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد طلب کرتے ہیں۔“ تو یہ آیت میرے اور میرے بندے کے درمیان منقسم ہے، اور اس کے لئے وہ ہے جس کا سوال کرے۔ بندہ کہتا ہے کہ «صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ» ”اے اللہ، ہمیں سیدھے راستے پر ڈال دے، ان لوگوں کے راستے میں جن پر تو نے انعام کیا ہے، جن پر غضب نہیں ہوا اور وہ نہ گمراہ ہوئے)۔“
ضد قول من زعم ان المصلي ظهرا او عصرا مخير بين ان يقرا في الاخريين منهما بفاتحة الكتاب وبين ان يسبح في الاخريين منهما، وخلاف قول من زعم انه يسبح في الاخريين ولا يقرا في الاخريين منهما. وهذا القول خلاف سنة النبي صلى الله عليه وسلم الذي ولاه الله بيان ما انزل عليه من الفرقان، وامره- عز وجل- بتعليم امته صلاتهم.ضِدُّ قَوْلِ مَنْ زَعَمَ أَنَّ الْمُصَلِّيَ ظُهْرًا أَوْ عَصْرًا مُخَيَّرٌ بَيْنَ أَنْ يَقْرَأَ فِي الْأُخْرَيَيْنِ مِنْهُمَا بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ وَبَيْنَ أَنْ يُسَبِّحَ فِي الْأُخْرَيَيْنِ مِنْهُمَا، وَخِلَافُ قَوْلِ مَنْ زَعَمَ أَنَّهُ يُسَبِّحُ فِي الْأُخْرَيَيْنِ وَلَا يَقْرَأُ فِي الْأُخْرَيَيْنِ مِنْهُمَا. وَهَذَا الْقَوْلُ خِلَافُ سُنَّةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّذِي وَلَّاهُ اللَّهُ بَيَانَ مَا أَنْزَلَ عَلَيْهِ مِنَ الْفُرْقَانِ، وَأَمَرَهُ- عَزَّ وَجَلَّ- بِتَعْلِيمِ أُمَّتِهِ صَلَاتَهُمْ.
ان لوگوں کے دعویٰ کے برخلاف جو کہتے ہیں کہ ظہر یا عصر کی نماز پڑھنے والے کو اختیار ہے کہ وہ آخری دو رکعتوں میں سورہ فاتحہ پڑھ لے یا سبحان اللہ کہتا رہے،اور ان لوگوں کے گمان کے برخلاف جو کہتے ہیں کہ وہ ان دو نمازوں کی آخری دو رکعتوں میں سبحان اللہ ہی پڑھے گا اور ان میں (کسی سورت کی) قراءت نہیں کرے گا-یہ قول سنت نبویصلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ہے،اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہی کو آپ پر نازل ہونے والے فرقان حمید کی تفسیر وتوضیح کرنے کا ذمہ دار بنایا ہے اور آپ کو اپنی امت کو ان کی نماز سکھانے کا حم دیا ہے۔