سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ مؤمن عورتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صُبح کی نماز ادا کرتی تھیں پھر وہ اپنی چادروں میں لپٹی واپس نکلتی تھیں کہ اُنہیں پہچانا نہیں جاتا تھا۔ احمد کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ پھر اُنہوں نے اندھیرے کا ذکر کیا (کہ اندھیرے کی وجہ سے وہ پہچانی نہیں جاتی تھیں)۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ خیبر کیا۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں تو ہم نے اُس کے قریب صبح کی نماز اندھیرے میں ادا کی۔
حضرت ابن شہاب سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ منبر پر تشریف فرما تھے تو اُنہوں نے نماز کچھ مؤخر کردی۔ تو حضرت عروہ بن زبیر نے فرمایا کہ بیشک جبرائیل علیہ السلام نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز کے وقت کے متعلق بیان فرمایا ہے۔ تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ خوب سمجھ لو تم کیا کہہ رہے ہو۔ تو حضرت عروہ نے کہا کہ میں نے بشیر بن ابی مسعود کو سنا وہ کہہ رہے تھے کہ میں نے سیدنا ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ کو فرماتے سنا، وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ ”جبرائیل علیہ السلام نازل ہوئے تو اُنہوں نے مجھے نماز کے وقت کی خبر دی، تو میں نے ان کے ساتھ نماز ادا کی، پھر میں نے اُس کے ساتھ نماز ادا کی، پھر میں نے اُن کے ساتھ نماز پڑھی، پھر میں نے اُس کے ساتھ نماز ادا کی“ تو اُنہوں نے پانچ نمازیں ا پنی انگیوں پر شمار کیں۔ اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی نماز سودج ڈھلنے پر ادا کی اور بسا ادقات اسے مؤخر کیا جبکہ گرمی شدید ہوجاتی۔ اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازِ عصر ادا کی جبکہ سورج بلند اور سفید تھا، اس سے پہلے کہ وہ زرد ہوتا۔ تو ایک شخص نماز سے فارغ ہوکر غروب آفتاب سے پہلے ذوالحلیفہ آجاتا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز مغرب، غروب آفتاب کے وقت ادا کرتے، اور عشاء کی نماز اس وقت پڑھتے جب اُفق سیاہ ہوجاتا ہے، اور بعض اوقات لوگوں کے جمع ہونے تک اُسے مؤخر کردیتے۔ ایک مرتبہ صبح کی نماز کو اندھیرے میں لوگوں کے جمع ہونے تک اُسے مؤخر کردیتے۔ ایک مرتبہ صبح کی نماز اندھیرے میں ادا کی، پھر دوسری مرتبہ اُسے روشنی میں پڑھا، پھر اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز اندھیرے میں ہی ہوتی تھی حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی روشنی میں نماز ادا نہیں کی۔ اما م ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ روایت میں یہ اضافہ صرف اسامہ بن زید راوی نے بیان کیا ہے۔ اس پوری حدیث میں دلیل ہے کہ شفق سے مراد سفیدی ہے سرخی نہیں۔ کیونکہ حدیث میں ہے کہ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء کی نماز اس وقت ادا کرتے جب اُفق سیاہ ہو جاتا۔ اور اُفق سیاہ اُس وقت ہوتا ہے جب سُرخی کے ختم ہونے کے بعد ظاہر ہونے والی سفیدی غائب ہوجائے۔ کیونکہ سُرخی جب ختم ہوتی ہے تو سفیدی اُس کے بعد باقی رہتی ہے پھر سفیدی غائب ہوتی ہے تو اُفق سیاہ ہوتا ہے۔ اور سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے دن کی سفیدی ختم ہونے پر عشاء کی اذان کہی، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُنہیں حُکم دیا تو اُنہوں نے نماز کی اقامت کہی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی۔
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو اُس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز کے وقت کے متعلق پوچھا۔ پھر اُنہوں نے دو دن اور دو راتوں میں اوقاتِ نماز کے متعلق مکمّل حدیث بیان کی۔ اور پہلی رات میں فرمایا کہ پھر سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے دن کی سفیدی ختم ہونے پر عشا کی اذان کہی، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُنہیں حُکم دیا تو اُنہوں نے نماز کی اقامت کہی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی، اور دوسری رات کے متعلق فرمایا کہ پھر سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے دن کی سفیدی ختم ہونے پر عشاء کی اذان کہی۔ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے مؤخرکردیا توہم سوگئے، پھرہم کئی بار سوئے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے تو فرمایا: ”بیشک لوگ نماز پڑھ کرسوچکے ہیں اور بیشک تم اس وقت سے مسلسل نماز ہی میں ہو جب سے تم اس کا انتظار کر رہے ہو۔“ پھر پوری حدیث بیان کی۔
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نماز ظہر کا وقت نماز عصر تک رہتا ہے۔ اور نماز عصر کا وقت سورج زرد ہونے تک باقی رہتا ہے، اور نماز مغرب کا وقت شفق کی سرخی ختم ہونے تک رہتا ہے۔ اور عشاء کا وقت آدھی رات تک رہتا ہے۔ اور نماز صبح کا وقت طلوع آفتاب تک رہتا ہے۔“ امام ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اگر اس حدیث میں یہ الفاظ «حمرة الشفق» صحیح ثابت ہوں تو اس حدیث میں اس بات کا بیان ہے کہ شفق سے مراد سُرخی ہے (سفیدی نہیں) مگر ان الفاظ کو صرف محمد بن یزید نے بیان کیا ہے کہ اگر یہ اس سے یاد رکھے گئے ہوں۔ جبکہ امام شعبہ کے شاگردوں نے اس حدیث میں محمد بن یزید کے قول، (شفق کی تیزی اور اس کا پھیلاؤ کو) روایت کیا ہے۔ امام صاحب نے بندار اور ابوموسیٰ کی سند سے روایت بیان کی ہے۔ دونوں نے اس روایت میں کہا کہ ”اور مغرب کا وقت شفق کی تیزی ختم ہونے تک ہے“ اُنہوں نے اسے مرفوع روایت نہیں کیا۔
نا محمد بن لبيد ، اخبرني عقبة ، قال: حدثنا ابو داود ، نا شعبة ، عن قتادة ، عن ابي ايوب ، عن عبد الله بن عمرو ، قال شعبة: رفعه مرة، وقال بندار: بمثل حديث الاول. ورواه ايضا هشام الدستوائي، عن قتادة، ورفعه، قد امليته قبل. وقال: إلى ان يغيب الشفق، ولم يقل: ثور ولا حمرة ورواه ايضا سعيد بن ابي عروبة ولم يرفعه، ولم يذكر الحمرة. وكذلك رواه ابن ابي عدي، عن شعبة موقوفا، ولم يذكر الحمرة، عن شعبة. ثنا بهما ابو موسى، نا ابن ابي عدي، عن شعبة. ح وحدثنا ايضا ابو موسى، نا ابن ابي عدي، عن سعيد، كليهما، عن قتادة، فهذا الحديث موقوفا ليس فيه ذكر الحمرة. قال ابو بكر: والواجب في النظر إذا لم يثبت عن النبي صلى الله عليه وسلم ان الشفق هو الحمرة، وثبت عن النبي صلى الله عليه وسلم ان اول وقت العشاء إذا غاب الشفق، ان لا يصلي العشاء حتى يذهب بياض الافق، لان ما يكون معدوما فهو معدوم، حتى يعلم كونه بيقين، فما لم يعلم بيقين ان وقت الصلاة قد دخل، لم تجب الصلاة، ولم يجز ان يؤدى الفرض إلا بعد يقين ان الفرض قد وجب، فإذا غابت الحمرة والبياض قائم لم يغب، فدخول وقت صلاة العشاء شك لا يقين، لان العلماء قد اختلفوا في الشفق، قال بعضهم: الحمرة، وقال بعضهم: البياض، ولم يثبت علميا عن النبي صلى الله عليه وسلم ان الشفق الحمرة، وما لم يثبت عن النبي صلى الله عليه وسلم، ولم يتفق المسلمون عليه، فغير واجب فرض الصلاة، إلا ان يوجبه الله او رسوله او المسلمون في وقت، فإذا كان البياض قائما في الافق، وقد اختلف العلماء بإيجاب فرض صلاة العشاء، ولم يثبت عن النبي صلى الله عليه وسلم خبر بإيجاب فرض الصلاة في ذلك الوقت، فإذا ذهب البياض واسود فقد اتفق العلماء على إيجاب فرض صلاة العشاء فجائز في ذلك الوقت اداء فرض تلك الصلاة والله اعلم، بصحة هذه اللفظة التي ذكرت في حديث عبد الله بن عمرونا مُحَمَّدُ بْنُ لَبِيدٍ ، أَخْبَرَنِي عُقْبَةُ ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ ، نا شُعْبَةُ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ شُعْبَةُ: رَفَعَهُ مَرَّةً، وَقَالَ بُنْدَارٌ: بِمِثْلِ حَدِيثِ الأَوَّلِ. وَرَوَاهُ أَيْضًا هِشَامٌ الدَّسْتُوَائِيُّ، عَنْ قَتَادَةَ، وَرَفَعَهُ، قَدْ أَمْلَيْتُهُ قَبْلُ. وَقَالَ: إِلَى أَنْ يَغِيبَ الشَّفَقُ، وَلَمْ يَقُلْ: ثَوْرٌ وَلا حُمْرَةٌ وَرَوَاهُ أَيْضًا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ وَلَمْ يَرْفَعْهُ، وَلَمْ يَذْكُرِ الْحُمْرَةَ. وَكَذَلِكَ رَوَاهُ ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ شُعْبَةَ مَوْقُوفًا، وَلَمْ يَذْكُرِ الْحُمْرَةَ، عَنْ شُعْبَةَ. ثنا بِهِمَا أَبُو مُوسَى، نا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ شُعْبَةَ. ح وَحَدَّثَنَا أَيْضًا أَبُو مُوسَى، نا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ سَعِيدٍ، كِلَيْهِمَا، عَنْ قَتَادَةَ، فَهَذَا الْحَدِيثُ مَوْقُوفًا لَيْسَ فِيهِ ذِكْرُ الْحُمْرَةِ. قَالَ أَبُو بَكْرٍ: وَالْوَاجِبُ فِي النَّظَرِ إِذَا لَمْ يَثْبُتْ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ الشَّفَقَ هُوَ الْحُمْرَةُ، وَثَبَتَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ أَوَّلَ وَقْتِ الْعِشَاءِ إِذَا غَابَ الشَّفَقُ، أَنْ لا يُصَلِّيَ الْعِشَاءَ حَتَّى يَذْهَبَ بَيَاضُ الأُفُقِ، لأَنَّ مَا يَكُونُ مَعْدُومًا فَهُوَ مَعْدُومٌ، حَتَّى يُعْلَمَ كَوْنُهُ بِيَقِينٍ، فَمَا لَمْ يُعْلَمْ بِيَقِينٍ أَنَّ وَقْتَ الصَّلاةِ قَدْ دَخَلَ، لَمْ تَجِبِ الصَّلاةُ، وَلَمْ يَجُزْ أَنْ يُؤَدَّى الْفَرْضُ إِلا بَعْدَ يَقِينِ أَنَّ الْفَرْضَ قَدْ وَجَبَ، فَإِذَا غَابَتِ الْحُمْرَةُ وَالْبَيَاضُ قَائِمٌ لَمْ يَغِبْ، فَدُخُولُ وَقْتِ صَلاةِ الْعِشَاءِ شَكٌّ لا يَقِينٌ، لأَنَّ الْعُلَمَاءُ قَدِ اخْتَلَفُوا فِي الشَّفَقِ، قَالَ بَعْضُهُمُ: الْحُمْرَةُ، وَقَالَ بَعْضُهُمُ: الْبَيَاضُ، وَلَمْ يَثْبُتْ عِلْمِيًّا عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ الشَّفَقَ الْحُمْرَةُ، وَمَا لَمْ يَثْبُتْ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَمْ يَتَّفِقِ الْمُسْلِمُونَ عَلَيْهِ، فَغَيْرُ وَاجِبٍ فَرْضُ الصَّلاةِ، إِلا أَنْ يُوجِبَهُ اللَّهُ أَوْ رَسُولُهُ أَوِ الْمُسْلِمُونَ فِي وَقْتٍ، فَإِذَا كَانَ الْبَيَاضُ قَائِمًا فِي الأُفُقِ، وَقَدِ اخْتَلَفَ الْعُلَمَاءُ بِإِيجَابِ فَرْضِ صَلاةِ الْعِشَاءِ، وَلَمْ يَثْبُتْ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَبَرٌ بِإِيجَابِ فَرْضِ الصَّلاةِ فِي ذَلِكَ الْوَقْتِ، فَإِذَا ذَهَبَ الْبَيَاضُ وَاسْوَدَّ فَقَدِ اتَّفَقَ الْعُلَمَاءُ عَلَى إِيجَابِ فَرْضِ صَلاةِ الْعِشَاءِ فَجَائِزٌ فِي ذَلِكَ الْوَقْتِ أَدَاءُ فَرْضِ تِلْكَ الصَّلاةِ وَاللَّهُ أَعْلَمُ، بِصِحَّةِ هَذِهِ اللَّفْظَةِ الَّتِي ذُكِرَتْ فِي حَدِيثِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو
امام صاحب نے محمد بن لبید کی سند سے روایت بیان کی ہے۔ شعبہ کہتے ہیں کہ قتادہ نے ایک بار اسے مرفوع بیان کیا ہے۔ جبکہ بندار نے مذکورہ بالا حدیث ہی کی طرح بیان کیا ہے۔ اس روایت کو سعید بن ابی عروبہ نے بھی بیان کیا ہے مگر اُنہوں نے اسے مرفوع روایت نہیں کیا اور نہ سرخسی کا ذکر کیا ہے۔ اسی طرح ابن ابی عدی نے اسے شعبہ سے موقوف روایت کیا ہے، انہوں نے شعبہ سے سرخی کے متعلق بیان نہیں کیا۔ امام صاحب قتادہ کی ایک اور سند بیان کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ لہٰذا یہ حدیث موقوف ہے اس میں سرخی کا ذکر نہیں ہے۔ امام ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ دیکھا جانا چاہیے (غور و فکر کرنا چاہئے) کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں کہ شفق سرخی ہے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت ہے کہ عشاء کا اوّل وقت شفق غائب ہونے پر ہے، تو عشاء کی نماز افق کی سفیدی ختم ہونے تک ادا نہ کی جائے کیونکہ جو چیز معدوم ہو وہ معدوم ہی ہے حتیٰ کہ اس کا ہونا یقینی ہو جائے۔ لہٰذا جب تک یقیناً معلوم نہ ہو جائے کہ نماز کا وقت ہو گیا ہے اُس وقت تک نماز واجب نہیں ہوتی۔ فرض کی ادائیگی اُس کے واجب ہونے کے یقین تک جائز نہیں ہے۔ اس لئے کہ جب سرخی غائب ہو جائے اور سفیدی باقی ہو تو عشاﺀ کے وقت کا ہونا یقینی نہیں بلکہ مشکوک ہے۔ کیونکہ علماﺀ نے شفق کے متعلق اختلاف کیا ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد سرخی ہے جبکہ بعض کے نزدیک سفیدی ہے۔ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نشاندہی سے ثابت نہیں کہ شفق سے مراد سرخی ہے۔ اور جووقت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں اور نہ اس پر مسلمان متفق ہیں تو اس وقت میں نماز ادا کرنا واجب نہیں ہے۔ مگر یہ کہ اسے اللہ تعالیٰ یا اس کے رسول یا مسلمان کسی وقت میں واجب کر دیں۔ (تو ادا کی جاسکتی ہے) چنانچہ جب سفیدی افق میں موجود ہو اور علماء نے (اس وقت) نماز عشاء کے واجب ہونے میں اختلاف کیا ہے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس وقت میں نماز واجب ہونے پر کوئی دلیل ثابت نہیں ہے (تو اس وقت نماز ادا نہیں کرنی چاہیے) اس لیے جب سفیدی ختم ہو جائے اور سیاہی چھا جائے تو علما نے اُس وقت نماز کے واجب ہونے پو اتفاق کیا ہے لہٰذا اس وقت نماز عشاء کو ادا کرنا جائز ہو گا۔ واللہ اعلم۔ بشرطیکہ حضرت عبداللہ بن عمرو کی حدیث میں موجود الفاظ صحیح ثابت ہوں۔
نا محمد بن علي بن محرز ، اصله بغدادي بالفسطاط نا ابو احمد الزبيري ، نا سفيان ، عن ابن جريج ، عن عطاء ، عن ابن عباس ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " الفجر فجران، فجر يحرم فيه الطعام ويحل فيه الصلاة، وفجر يحرم فيه الصلاة ويحل فيه الطعام" . قال ابو بكر: في هذا الخبر دلالة على ان صلاة الفرض لا يجوز اداؤها قبل دخول وقتها، قال ابو بكر: قوله:" فجر يحرم فيه الطعام": يريد على الصائم، ويحل فيه الصلاة، يريد صلاة الصبح،" وفجر يحرم فيه الصلاة": يريد صلاة الصبح إذا طلع الفجر الاول لم يحل ان يصلى في ذلك الوقت صلاة الصبح، لان الفجر الاول يكون بالليل، ولم يرد انه لا يجوز ان يتطوع بالصلاة بعد طلوع الفجر الاول، وقوله:" ويحل فيه الطعام": يريد لمن يريد الصيام، قال ابو بكر: لم يرفعه في الدنيا غير ابي احمد الزبيرينا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ بنِ مِحْرز ، أَصْلُهُ بَغْدَاديٌّ بِالْفُسْطَاط نا أَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ ، نا سُفْيَانُ ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ ، عَنْ عَطَاءٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " الْفَجْرُ فَجْرَانِ، فَجَرٌ يَحْرُمُ فِيهِ الطَّعَامُ وَيَحِلُّ فِيهِ الصَّلاةُ، وَفَجَرٌ يَحْرُمُ فِيهِ الصَّلاةُ وَيَحِلُّ فِيهِ الطَّعَامُ" . قَالَ أَبُو بَكْرٍ: فِي هَذَا الْخَبَرِ دَلالَةٌ عَلَى أَنَّ صَلاةَ الْفَرْضِ لا يَجُوزُ أَدَاؤُهَا قَبْلَ دُخُولِ وَقْتِهَا، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: قَوْلُهُ:" فَجَرٌ يَحْرُمُ فِيهِ الطَّعَامُ": يُرِيدُ عَلَى الصَّائِمِ، وَيَحِلُّ فِيهِ الصَّلاةُ، يُرِيدُ صَلاةَ الصُّبْحِ،" وَفَجَرٌ يَحْرُمُ فِيهِ الصَّلاةُ": يُرِيدُ صَلاةَ الصُّبْحِ إِذَا طَلَعَ الْفَجْرُ الأَوَّلُ لَمْ يَحِلَّ أَنْ يُصَلَّى فِي ذَلِكَ الْوَقْتِ صَلاةُ الصُّبْحِ، لأَنَّ الْفَجْرَ الأَوَّلَ يَكُونُ بِاللَّيْلِ، وَلَمْ يَرِدْ أَنَّهُ لا يَجُوزُ أَنْ يُتَطَوَّعَ بِالصَّلاةِ بَعْدَ طُلُوعِ الْفَجْرِ الأَوَّلِ، وَقَوْلُهُ:" وَيَحِلُّ فِيهِ الطَّعَامُ": يُرِيدُ لِمَنْ يُرِيدُ الصِّيَامَ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: لَمْ يَرْفَعْهُ فِي الدُّنْيَا غَيْرُ أَبِي أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيِّ
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”فجر دو قسم کی ہے، ایک فجر وہ ہے کہ (روزے دار کے لئے) اس میں کھانا کھانا حرام ہوجاتا ہے اور نماز ادا کرنا حلال ہوتا ہے۔ ایک وہ فجر ہے کہ اس میں نماز فجر ادا کرنا حرام ہوتا ہے جبکہ کھانا کھانا حلال ہوتا ہے۔“ امام ابوبکر رحمہ اﷲ فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ فرض نماز اُس کے وقت ہونے سے قبل ادا کرنا جائز نہیں ہے۔ اما م ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان: ”ایک فجر وہ ہے کہ اس میں کھا نا کھانا حرام ہوتا ہے۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد روزہ دارہے۔ اور اس میں نماز کا ادا کرنا حلال ہوتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد نماز فجر ہے اور ایک فجر وہ ہے جس میں نماز پڑھنا حرام ہوتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد نماز فجر ہے۔ کیونکہ جب فجر اول طلوع ہوتی ہے تو اُس وقت نماز فجر ادا کرنا جائز نہیں کیونکہ فجر اوّل رات کے وقت طلوع ہوتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد یہ نہیں کہ اُس وقت نفلی نماز ادا نہیں کی جاسکتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ”اور اس میں کھانا کھانا حلال ہوتا ہے۔“ آپ کی مراد وہ شخص ہے جو روزہ رکھنا چاہتا ہو تو وہ کھانا کھا سکتا ہے۔ امام ابوبکر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اس روایت کو دنیا میں ابواحمد زبیری کے سوا کسی نے مرفوع بیان نہیں کیا۔
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا میں تمہیں ایسا عمل نہ بتاؤں جس سے اللہ تعالیٰ گناہوں کو معاف فرماتا ہے اور نیکیوں میں اضافہ کرتا ہے؟ ”صحابہ نے عرض کی کہ کیوں نہیں اے اللہ کے رسول (ضرور بتا ئیے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مشقّت اور مشکل کے باوجود مکمّل وضو کرنا، اور نماز کے بعد (دوسری) نماز کا انتظار کرنا، تم میں سے جو شخص بھی گھر سے نکلتا ہے تو امام کے ساتھ نماز ادا کرتا ہے پھر بیٹھ کر دوسری نماز کا انتظار کرتا رہتا ہے تو فرشتے اُس کے لیے دعا کرتے رہتے ہیں کہ اے اللہ، اسے بخش دے، اے اللہ اس پر رحم فرما۔“ پھر باقی حدیث بیان کی۔ امام ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اسے صرف ابوعاصم نے بیان کیا ہے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سات قسم کے افراد کو اللہ تعالیٰ اپنے سائے تلے جگہ عطا فرمائے گا جس روز اُس کے سائے کے سواکوئی سایہ نہیں ہو گا۔ عدل وانصاف کرنے والا حکمران، اللہ تعالیٰ کی عبادت میں نشو و نما پانے والا نوجوان، وہ شخص جس کا دل مساجد میں اٹکا رہتا ہے۔ وہ دوآدمی جو اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کے لئے باہم محبت کرتے ہیں، اسی پر اکٹھّے ہوتے ہیں اور اس پر جدا ہوتے ہیں۔ اور وہ آدمی جسے بلند مرتبہ خوبصورت عورت (برائی کے لئے) بلاتی ہے تو وہ کہتا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہوں۔ اور وہ شخص جو صدقہ کرتا ہے تو اُسے پوشیدہ رکھتا ہے حتیٰ کہ اس کے دائیں ہاتھ کو بھی پتہ نہیں چلتا کہ بائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا۔ اور وہ شخص جو تنہائی میں اللہ تعالیٰ کو یاد کرتا ہے تو اُس کے آنسو نکل جاتے ہیں۔“ ہمیں بندار نے ایک مرتبہ اس طرح روایت بیان کی کہ حسب والی اور خوبصورت عورت اُسے بلاتی ہے تو وہ کہتا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہوں۔ امام ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ بیان کہ اُس کا دایاں ہاتھ نہیں جانتا کہ اُس کے بائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا ہے۔ اس میں یحییٰ بن سعید کی مخالفت کی گئی ہے۔ یحییٰ کے علاوہ اس روایت کو بیان کرنے والے راوی نے یوں کہا ہے۔ ”اُس کا بایاں ہاتھ نہیں جانتا کہ اُس کے دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا ہے۔“